شاعر نے سوال کیا تھا کہ منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحرائی؟ سابق گورنر پنجاب چودہری سرور لالہ صحرائی ہیں یا نہیں، یہ سوال ذرا پیچیدہ ہے لیکن جی چاہتا ہے کہ ایک سوال ان سے ضرور کیا جائے۔ یہ سوال کیا ہے؟ یہ جاننے سے قبل اس کے پس منظر پر ایک نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔
چودہری صاحب نے حال ہی میں اپنی سابق جماعت پی ٹی آئی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ لاہور میں اپنے امیدوار کو نظر انداز کر کے بلاول بھٹو زرداری کی کام یابی کو یقینی بنائے۔ وہ ایسا کیوں چاہتے ہیں؟ ایک انٹرویو میں انھوں نے دلیل یہ دی ہے کہ اس کے نتیجے میں وفاق مضبوط ہو گا۔ ہمارے یہاں ٹیلی ویژن کے اینکروں کی اپنی دنیا ہے۔ وہ نصاب کے مطابق کام کرتے ہیں۔ اینکر اور نصاب؟ یہ بات بھی ذرا پچیدہ ہے۔ تقریباً دو برس ہوتے ہیں ایک بین الاقوامی صحافتی ادارے کے لیے مولانا طارق جمیل کے انٹرویو کرنے میں تلمبہ پہنچا۔ گاڑی سے نکل کر ہم حویلی میں داخل ہونے لگے تو ایک صاحب آگے بڑھے اور انھوں نے میرے کان میں سرگوشی کی کہ سوالات نصاب سے باہر نہ ہوں۔ یہ صاحب مولانا کے باوردی محافظ تھے۔ نہیں معلوم انٹرویو کے لیے آنے والوں کو ایسے مشورے دینا ان کی ذمے داری میں شامل تھا یا نہیں لیکن ہمارے ہاں ایسے مشورے دینے والوں کی کمی نہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ایسی بات اگر کسی کے ذہن میں خاص طور پر کسی اینکر کے ذہن میں ڈال دی جائے تو اس کے لیے اس کے دائرے سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پارٹی الیکشن پارٹی آئین کے مطابق کرانے میں ناکامی پر جب پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لیا تو بہت سی کہانیاں سامنے آئیں۔ ان میں ایک کہانی بلے کے مقابلے میں بلے باز کے نشان سے انتخاب لڑنے کے فیصلے کے بارے میں بھی تھی جو چند گھنٹوں میں یوں پلٹ گئی کہ بلے باز کا نشان رکھنے والی جماعت کے سربراہ نے انکشاف کیا کہ ان کا پی ٹی آئی سے اس سلسلے میں کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ کیا ایسا کوئی معاہدہ تھا یا نہیں؟ یہ ایک معمہ بن گیا۔ اس معمے کے بارے میں شہزاد اقبال کی بات سننے کا موقع بھی ملا۔ اپنے چینل پر خصوصی ٹرانسمشن کے دوران انھوں نے انکشاف کیا کہ دراصل اس جماعت کے سربراہ پر دباؤ ڈال کر انھیں معاہدے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ ایک بڑا انکشاف تھا لیکن اس انکشاف کا ذریعہ کیا تھا، شہزاد اقبال کی گفتگو سے یہ واضح نہیں ہو سکا۔ گفتگو کے سیاق و سباق سے لگتا تھا کہ اس کا ذریعہ وہ خود ہیں لیکن جیسے ہی ان کے پروگرام میں کچھ دیر پہلے نشر ہونے والے پی ٹی آئی کے ایک لیڈر کے انٹرویو تک رسائی ہوئی، معلوم ہو گیا کہ یہ ایک الزام ہے جو پی ٹی آئی کے ایک راہ نما کی طرف سے سامنے آیا، شہزاد اقبال نے جسے جوں کا توں اختیار کر کے آگے بڑھا دیا۔
یہ بھی پڑھئے:
لیول پلیئنگ فیلڈ کے نام پر ایک خفیہ ایجنڈا
ایران کی خوش فہمی کیسے دور ہوئی؟
مسئلہ قیدی نمبر 804 کا کیوں نہیں جمہوری رویے کا کیوں ہے؟
چودہری سرور کے انٹرویو کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہو گا۔ انھوں نے جب کہا ہو گا کہ وہ لاہور میں بلاول بھٹو زرداری کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں تو اتنی بات ہی ٹیلی ویژن پر گفتگو کرنے کے لیے کافی ہوگی۔ وہ اسے لے اڑے ہوں گے لیکن اگلے روز کے اخبار سے واضح ہوا کہ چودہری صاحب کے مطابق پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان سے ان کے چالیس برس پرانے تعلقات ہیں اور پیپلز پارٹی نے انھیں شمولیت کی دعوت بھی دی ہے۔ کیا وہ پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں ؟ وضاحت سے اس سوال کا جواب دینے کی ضرورت انھوں نے محسوس نہیں کی صرف یہ کہنا مناسب سمجھا کہ سیاست میں کچھ حرف آخر نہیں ہوتا۔ یہ بات تو انھوں نے سولہ آنے درست کہی لیکن اگر ان کے مشورے کی روشنی میں پی ٹی آئی کے ووٹ بلاول کو پڑ جاتے ہیں تو پھر یقیناً حرف آخر بھی سامنے آ جائے گا اور قسمت ہوئی تو چودہری صاحب کا دامن مراد بھی بھر جائے گا اور عین ممکن ہے کہ پاکستان میں وہ اپنی مختصر سی سیاسی زندگی میں چوتھی سیاسی جماعت کو پیارے ہو جائیں۔
چودہری سرور کی سیاسی چھلانگوں کو دیکھتے ہوئے مجھے بہاول پور کا ایک سفر یاد آتا ہے۔ صدر ممنون حسین کو اسلامیہ یونیورسٹی اور صادق پبلک اسکول کے کانووکیشن میں شرکت کی دعوت دی گئی تو ایک آدھ دن کے بعد پنجاب کے گورنر ہاؤس نے ایوان صدر سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ صدر مملکت اس سفر میں گورنر پنجاب کو بھی اپنے ساتھ شریک کر لیں۔ صدر صاحب کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا یوں سی ون تھرٹی کے ذریعے بہاول پور کے اس سفر میں چودہری صاحب بھی شریک ہو گئے۔ طیارے پر گورنر صاحب کی نشست صدر مملکت کے برابر رکھی گئی۔ صدر مملکت کے معاون کی حیثیت سے میں بھی شریک سفر تھا۔ گورنر صاحب کو دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی اور میں نے سوچا کہ موقع اچھا ہے، اگر ان سے کچھ گفتگو ہو جائے تو انھیں سمجھنے کا موقع ملے گا اور برطانیہ کی جسے جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے، روایات اور اس سے متعلق گورنر صاحب کے مشاہدات اور تجربات سے بھی آگاہی ہوگی لیکن گورنر صاحب کی لوگوں سے گھل مل جانے اور نئے نئے تعلقات بنانے کی دلچسپ عادت کی وجہ سے ان سے بات چیت کا موقع تو نہ مل سکا البتہ ان کی دو تقریریں سننے کا موقع ضرور ملا جس سے ان کی افتاد طبع اور سیاست میں ان کے عزائم سے آگاہی کا موقع کسی قدر مل گیا۔
کانووکیشن تقدس کی حد تک ایک منظم تقریب ہوتی ہے جو ہر ادارے کی دہائیوں سے پختہ ہو جانے والی روایات کے تحت چلتی ہے۔ اس موقع پر میزبان ہوں یا مہمان ان روایات کی پاس داری کرتے ہیں۔ یہاں ہونے والی ان کی گفتگووں اور تقریروں سے ابھی ان ہی روایات کی خوش بو آتی ہے۔ بہاول پور میں پہلی تقریب صادق پبلک اسکول میں ہوئی۔ اس موقع پر اپنی تقریر میں چودہری سرور صاحب نے کمال کر دیا۔ ان کی تقریر دو حصوں پر مشتمل تھی۔ ایک تقریر وہ تھی جو ان کے تقریر نویس نے لکھی ہوگی چوہدری صاحب تقریر کے لیے جب ڈائس کی طرف بڑھے تو ان کے اے ڈی سی نے جس کا فائل ان کے سامنے رکھ دیا۔ تقریر کا دوسرا حصہ وہ تھا جو انھوں نے اپنی جیب سے نکالا۔ تقریر کا اصل فائل کھولنے سے قبل انھوں نے جیب سے نکالا ہوا کاغذ کا ٹکڑا اپنے سامنے رکھا، عینک لگائی اور اسے پڑھنا شروع کر دیا۔ صادق پبلک اسکول میں پڑھنے والے اشرافیہ کے بچے، اسکول کی انتظامیہ اور دیگر حاضرین یہ تحریر سن کر حیران رہ گئے۔ اس تحریر میں بہاول پور کی بیورو کریسی کے نام تھے۔ گورنر صاحب نے سب سے پہلے صدر مملکت کو مخاطب کیا، پھر اسکول کے پرنسپل کو اس کے بعد انھوں نے کمشنر بہاول پور کا ذکر کیا پھر اسسٹنٹ کمشنر کا، ان کے بعد ان سے نچلے عہدے داروں کا، یوں ہوتے ہوتے وہ مقامی پولیس کے ذمے دار کے نام تک جا پہنچے۔ اگلے روز جامعہ اسلامیہ بہاول پور میں انھوں نے اس روایت کو مزید آگے بڑھایا اور پولیس کے ایس ایچ او اور متعلقہ علاقے کے پٹواری تک کو یاد فرمایا۔ صدر مملکت یا گورنر جیسے ریاستی منصب دار اگر کسی دور دراز علاقے کے مقامی ذمے داران کا ذکر اپنی گفتگو میں کریں تو یہ کوئی بری بات نہیں۔ اس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے لیکن اس سطح کے لوگوں کی گفتگو کا بڑا حصہ ناموں پر مشتمل ہو اور کہنے کے لیے کچھ زیادہ نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے عزائم مختلف ہیں اور وہ حکومت کی انتظامی مشینری کے ساتھ انتہائی نچلی سطح پر جا کر تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے جو اس کے سیاسی عزائم میں معاون بن سکیں۔
گورنر صاحب کس قسم کی سیاست کے خواہش مند تھے، اس کی ایک جھلک اس وقت سامنے آئی جب انھوں نے شکایت کی کہ گورنر کی حیثیت سے تو ان کے پاس چپڑاسی کے تبادلے کا بھی اختیار نہیں تھا۔ چودہری صاحب برطانوی درالامرا کے رکن رہے ہیں۔ یوں سمجھ میں آیا کہ اتنے بڑے پارلیمانی ادارے کی رکنیت رکھنے کے اعزاز کے باوجود انھوں نے سیکھا کچھ نہیں کوئی اور ہوتا تو یقیناً اس کے علم میں ہوتا کہ گورنر اور صدر مملکت جیسے آئینی مناسب کا مقصد کیا ہے اور وہ انتظامی اختیار کیا رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت دل چسپ ہے کہ بہ طور گورنر جو شکایت انھیں نواز شریف سے تھی، وہی شکایت انھیں عمران خان سے بھی ہوئی۔ اب ان کی امیدوں کا مرکز پیپلز پارٹی ہے۔ خوش قسمتی سے یہ جماعت اقتدار میں آگئی اور اس نے انھیں ایک بار پھر گورنر بنا دیا تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ پیپلز پارٹی کے بعد کس جماعت کا رخ کریں گے؟