وطن عزیز اکیسویں صدی کے چوبیس ویں سال یعنی 2024ء انتخابات کے انعقاد کے ساتھ داخل ہوا ہے جہاں اس سال دینا کے ستر ممالک میں انتخابات کا شیڈول فائنل ہوا ہے۔ مگر پاکستان میں غربت و لاچاری اور انسانی نفسیات کے برعکس اشرافیہ و سماجی انصاف کی نا ہمواری کے ساتھ یہ انتخابات منعقد کروائے جارہے ہیں۔ یہ بات قابل غور و تدبر ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں آمریت کے ساتھ داخل ہوئے ہیں اور جنرل پرویز مشرف کی آمریت و شہنشاہیت سیاسی جماعتوں کی غلطیوں اور بعد ازاں ان کی ہی بل بوتے پر قائم و دائم رہی۔ بلا انتخابی نشان اسی آمریت کا پیداوار قرار دیا جاسکتا ہے جس پر بجا طور پر معاشرتی و سماجی شعور کی تقسیم ہو کر منزل مقصود سے دوری اختیار کی گئی ہے۔ حالانکہ تیر و سائیکل اور پھر شیر و دیگر تماشے بھی ایوب خان ، یحییٰ خان ،ضیاءالحق کے آمریتوں میں بھٹو صاحب مرحوم اور جناب نواز شریف صاحب نے ایجاد کئے ہیں –
سوال یہ ہے کہ انتخابی نشان ترازو ہو یا کتاب ، بلا ہو یا وکٹ ، شیر ہو یا سائکل – اصل کام جمہوری رویہ اختیار کرنا ہے جس کے نتیجے میں معاملات ازسرنو منظم اور مربوط ہوسکتےہیں _
یہ بھی پڑھئے:
طائفہ: ہم خیالی سے ہم زوالی تک
پی ٹی آئی ، اس کا انتخابی نشان اور فرید احمد پراچہ
09 مئی کے المناک کہانی سے محو پرواز کرنے کی ضرورت ہے ورنہ انتخابات کے لئے موجود افراتفری میں مثبت و توانا تبدیلی ممکن نظر نہیں آتی۔ 25 کروڑ انسانوں کے مفادات و حقوق کے تحفظ کے لئے مسئلہ قیدی نمبر 804 نہیں ہے بلکہ اشرافیہ اور مافیاز کے ساتھ عسکریت اور شدت پسندی کا وہ خطرناک ترین گھٹ جوڑ ہے جس نے کروڑوں انسانوں کے منہ سے نوالہ چھین لیا ہے اور وہ مسلسل گرفت مضبوط کرنے کے لئے بیتاب ہیں _
جمہوری قدروں کی مجموعی اورہالنگ پلان تشکیل دئیے بغیر عمرانیاتی علمیات شروع نہیں ہو سکتے ہیں اور شعور و ادراک کے بغیر معاہدہ عمرانی پر معاشرتی و سماجی شعور کی بیداری کا آغاز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ سال 2024 ء کے انتخابات ، عوام سے پہلے جمہوری راگ الاپنے والے باشعور اور بیدار مغز سیاسی جماعتوں کے درمیان ترقی و ڈوپلمنٹ کے احیاء کا ذریعہ بنایا جائے ورنہ صرف پی ٹی آئی کے غلطیوں کی راگ الاپنے سے جمہوری نظام میں اصلاحات نہیں ہوسکتے ہیں اور نہ ہی 25 کروڑ انسانوں کی بھوک و غربت کا حال بدلا جاسکتا ہے۔