عمران خان نے دو نئے یو ٹرن لیے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان نے دو بیانیے بنائے۔ اب وہ ان دونوں بیانیوں سے دست بردار ہو کے بالکل مختلف مؤقف اختیار کر چکے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں اسی قسم کے یو ٹرن ہوتے ہیں جو بڑی بڑی مقبول جماعتوں اور سیاسی شخصیات کو دیکھتے ہی دیکھتے غیر مقبول بنا دیتے ہیں۔ اس وقت عمران خان اسی انجام سے دوچار ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
جن دنوں تحریک عدم اعتماد کا مرحلہ درپیش تھا، پی ٹی آئی کی طرف سے اس سے نمٹنے کے لیے دو طرح کی باتیں کہی گئیں۔ فواد چودھری نے تو تحریک عدم اعتماد کے حامیوں کو دھمکی دی کہ جس نے ان کے لیڈر کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کی، وہ اپنا انجام خود سوچ لے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کس مائی کے لعل میں اتنا جگرا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے لاکھوں کارکنوں کے ہجوم سے گزر کر پارلیمنٹ ہاؤس جا کر عمران خان کے خلاف ووٹ دے پھر سلامتی کے ساتھ واپس بھی لوٹ آئے؟
یہ بھی پڑھئے:
راجہ ظہیر خان کی سوانح پر مسحور کن کتاب
ایک دلت ماہر معاشیات کی آپ بیتی، ہوش ربا واقعات اور تجربات
دوسری بات کا تعلق امریکا سے تھا۔ کہا گیا کہ عمران خان ایسی چال چلیں گے کہ سب کچھ پلٹ جائے گا۔ اس دعوے کی تفصیل میں جائیں تو دو طرح کی باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک امریکی مداخلت کا بیانیہ ور دوسرے نہایت بچگانہ طریقے سے تحریک عدم اعتماد کا خاتمہ۔ دوسری کوشش ناکام ہو گئی البتہ امریکا والی بات کسی قدر چل نکلی۔
اقتدار سے محرومی کے ضمن میں ان کے بیانئے کا دوسرا نکتہ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں تھا۔ انھوں نے قومی سلامتی کے ادارے کی غیر جانب داری کو غداری قرار دے کر اس کے خلاف غیر اخلاقی اور غیر سیاسی طرز عمل اختیار کیا۔ انھیں جانور اور مشرک تک قرار دیا، یوں ملک کی سیاسی فضا کو انھوں نے مسموم کر دیا۔
ہماری سیاست میں اسٹیٹس کو کا عنصر اگرچہ غالب ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہادری کو عوام میں مقبولیت مل ہی جاتی ہے۔ عمران خان اپنی سرشت میں بہادر ہیں یا نہیں، یہ الگ بحث ہے لیکن یہ امر اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے اقتدار سے محرومی کے بعد اپنے مخالفین کو بڑے بے باکانہ انداز میں چیلنج کیا۔ انھوں نے کسی سازش کو بنیاد بنا کر امریکا کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی۔
ہماری سیاست میں بڑے بڑے شعلہ بیاں مقرر ہو گزرے ہیں لیکن عمومی طور پر ان کا تعلق علم و ادب سے تھا یا ان کی اٹھان مکتب اور مسجد میں ہوئی۔ اس لیے ان کی شعلہ بیانی میں ادب کی چاشنی، مخالفین کے لیے ادب آداب اور تہذیبی قدریں برقرار رہیں۔ شعلہ بیانی کے باوجود لحاظ مروت کے رویے کو پہلا صدمہ تب پہنچا جب پیپلز پارٹی کے قائد اور بانی ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی سیاست کی ابتدا کی۔ ان کا یہ انداز مقبول ہو گیا۔ وہ اپنے مخالفین کو دلچسپ نام دیا کرتے تھے۔ ایسے نام جو دیکھتے ہی دیکھتے زباں زد عام ہو جاتے۔ عمومی خیال یہی تھا کہ بھٹو مرحوم اس انداز کے بانی اور خاتم تھے لیکن یہ خیال؛ خیال ہی رہا، عمران خان نے آکر اس میں بازاری انداز پیدا کر دیے۔ کہا جاتا ہے کہ غیر ثقہ انداز شائستہ رویے کے مقابلے میں زیادہ تیز رفتار ہوتا ہے۔ یہی وجہ رہی ہوگی کہ عمران خان کو بھی اپنے مخاطبین مل گئے جنھوں نے ان کے آوازہ کسنے کے انداز اور دشنام طرازی کو پسند کیا۔ عمران خان نے ایسا انداز گفتگو کیوں اختیار کیا، اس کی وجوہات پر طویل بات ہو سکتی ہے لیکن مختصر بات یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح یہ انداز پسند کیا گیا اور سطحی طور پر انھیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بھی گردان لیا گیا۔ اب کوئی چھ ماہ کے بعد ان کا لانگ مارچ ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے حالانکہ اسی مارچ کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ تاریخ انسانی کے عظیم ترین مارچ یا اجتماع کی صورت میں نہ صرف اہل پاکستان بلکہ دنیا بھر کو حیران کر دے گا۔
اپنی اس مہم جوئی کی ناکامی کے بعد انھوں نے دو باتیں کہی ہیں۔ پہلی بات انھوں نے یہ کہی کہ اسٹیبلشمنٹ سے اب ان کا کوئی اختلاف نہیں جسے چاہے آرمی چیف بنا دیا جائے وہ کوئی تعرض نہیں کریں گے۔ جانور اور میر جعفر میر صادق قرار دینے کے بعد یہ کہہ کر انھوں نے بات ہی ختم کر دی کہ ملک بھی میرا اور فوج بھی میری۔
ان کا دوسرا یو ٹرن امریکا کے ضمن میں ہے۔ امریکا کے بارے میں بھی انھوں نے اسی طرح انتہا پسندانہ طرز عمل اختیار کیا جیسا اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں اختیار کیا تھا۔ بدقسمتی سے عمران خان کی عادت یہ ہے کہ وہ غلطی کرنے کے بعد سوچتے ہیں۔ اس بار بھی یہی ہوا۔ چند ماہ کے بعد انھیں اندازہ ہو گیا کہ ان سے غلطی سرزد ہو چکی ہے چنانچہ انھوں نے بیچ بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے، یہاں تک کہ لابیئسٹ بھی رکھے۔ اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ واپسی کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ توقع کے عین مطابق وہ واپس پلٹے۔ اب تو انھوں نے یہ بیان دے کر معاملہ ہی ختم کر دیا ہے کہ امریکی مداخلت کے الزامات کا معاملہ ختم ہو چکا۔
اصولی طور پر تو ان باتوں سے اختلاف ممکن نہیں لیکن عمران خان نے اپنی شرر فشانی سے یہ معاملات جس انتہا پر پہنچا دیے تھے، اس واپسی کے بعد فطری تھا کہ عوام اسے ان کا یو ٹرن ہی تصور کریں۔ اس وقت ان کی سیاست میں جس قسم کی کمزوری دکھائی دے رہی ہے، اس کا بنیادی سبب ہر لحظہ ان کے بدلتے ہوئے موقف ہیں۔ یہ یوٹرن ہی ہوتے ہیں جو سیاسی قوتوں کا وجود دیکھتے ہی دیکھتے تحلیل کر دیتے ہیں۔ پاکستان کا اب تک کا تجربہ یہی ہے، عمران خان کو بھی اس سے کوئی استسنا نہیں ہے۔