• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home اہم خبریں تصویر وطن

عمران خان کا تازہ یو ٹرن انھیں کیا دے گا؟

اسٹیبلشمنٹ پر چڑھائی اور امریکا پر رجیم چینج کے لیے سازش کے الزامات لگانے کے بعدآگے بڑھ جانے کی باتیں سیاست میں کیا اہمیت رکھتی ہیں؟

ڈاکٹر فاروق عادل by ڈاکٹر فاروق عادل
November 16, 2022
in تصویر وطن
0
عمران خان
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)

عمران خان نے دو نئے یو ٹرن لیے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان نے دو بیانیے بنائے۔ اب وہ ان دونوں بیانیوں سے دست بردار ہو کے بالکل مختلف مؤقف اختیار کر چکے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں اسی قسم کے یو ٹرن ہوتے ہیں جو بڑی بڑی مقبول جماعتوں اور سیاسی شخصیات کو دیکھتے ہی دیکھتے غیر مقبول بنا دیتے ہیں۔ اس وقت عمران خان اسی انجام سے دوچار ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

جن دنوں تحریک عدم اعتماد کا مرحلہ درپیش تھا، پی ٹی آئی کی طرف سے اس سے نمٹنے کے لیے دو طرح کی باتیں کہی گئیں۔ فواد چودھری نے تو تحریک عدم اعتماد کے حامیوں کو دھمکی دی کہ جس نے ان کے لیڈر کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کی، وہ اپنا انجام خود سوچ لے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کس مائی کے لعل میں اتنا جگرا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے لاکھوں کارکنوں کے ہجوم سے گزر کر پارلیمنٹ ہاؤس جا کر عمران خان کے خلاف ووٹ دے پھر سلامتی کے ساتھ واپس بھی لوٹ آئے؟

یہ بھی پڑھئے:

راجہ ظہیر خان کی سوانح پر مسحور کن کتاب

ایک دلت ماہر معاشیات کی آپ بیتی، ہوش ربا واقعات اور تجربات

عمران خان بچاؤ کا آخری طریقہ

دوسری بات کا تعلق امریکا سے تھا۔ کہا گیا کہ عمران خان ایسی چال چلیں گے کہ سب کچھ پلٹ جائے گا۔ اس دعوے کی تفصیل میں جائیں تو دو طرح کی باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک امریکی مداخلت کا بیانیہ ور دوسرے نہایت بچگانہ طریقے سے تحریک عدم اعتماد کا خاتمہ۔ دوسری کوشش ناکام ہو گئی البتہ امریکا والی بات کسی قدر چل نکلی۔

Ad (2024-01-27 16:31:23)

اقتدار سے محرومی کے ضمن میں ان کے بیانئے کا دوسرا نکتہ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں تھا۔ انھوں نے قومی سلامتی کے ادارے کی غیر جانب داری کو غداری قرار دے کر اس کے خلاف غیر اخلاقی اور غیر سیاسی طرز عمل اختیار کیا۔ انھیں جانور اور مشرک تک قرار دیا، یوں ملک کی سیاسی فضا کو انھوں نے مسموم کر دیا۔

ہماری سیاست میں اسٹیٹس کو کا عنصر اگرچہ غالب ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہادری کو عوام میں مقبولیت مل ہی جاتی ہے۔ عمران خان اپنی سرشت میں بہادر ہیں یا نہیں، یہ الگ بحث ہے لیکن یہ امر اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے اقتدار سے محرومی کے بعد اپنے مخالفین کو بڑے بے باکانہ انداز میں چیلنج کیا۔ انھوں نے کسی سازش کو بنیاد بنا کر امریکا کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی۔

ہماری سیاست میں بڑے بڑے شعلہ بیاں مقرر ہو گزرے ہیں لیکن عمومی طور پر ان کا تعلق علم و ادب سے تھا یا ان کی اٹھان مکتب اور مسجد میں ہوئی۔ اس لیے ان کی شعلہ بیانی میں ادب کی چاشنی، مخالفین کے لیے ادب آداب اور تہذیبی قدریں برقرار رہیں۔ شعلہ بیانی کے باوجود لحاظ مروت کے رویے کو پہلا صدمہ تب پہنچا جب پیپلز پارٹی کے قائد اور بانی ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی سیاست کی ابتدا کی۔ ان کا یہ انداز مقبول ہو گیا۔ وہ اپنے مخالفین کو دلچسپ نام دیا کرتے تھے۔ ایسے نام جو دیکھتے ہی دیکھتے زباں زد عام ہو جاتے۔ عمومی خیال یہی تھا کہ بھٹو مرحوم اس انداز کے بانی اور خاتم تھے لیکن یہ خیال؛ خیال ہی رہا، عمران خان نے آکر اس میں بازاری انداز پیدا کر دیے۔ کہا جاتا ہے کہ غیر ثقہ انداز شائستہ رویے کے مقابلے میں زیادہ تیز رفتار ہوتا ہے۔ یہی وجہ رہی ہوگی کہ عمران خان کو بھی اپنے مخاطبین مل گئے جنھوں نے ان کے آوازہ کسنے کے انداز اور دشنام طرازی کو پسند کیا۔ عمران خان نے ایسا انداز گفتگو کیوں اختیار کیا، اس کی وجوہات پر طویل بات ہو سکتی ہے لیکن مختصر بات یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح یہ انداز پسند کیا گیا اور سطحی طور پر انھیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بھی گردان لیا گیا۔ اب کوئی چھ ماہ کے بعد ان کا لانگ مارچ ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے حالانکہ اسی مارچ کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ تاریخ انسانی کے عظیم ترین مارچ یا اجتماع کی صورت میں نہ صرف اہل پاکستان بلکہ دنیا بھر کو حیران کر دے گا۔

اپنی اس مہم جوئی کی ناکامی کے بعد انھوں نے دو باتیں کہی ہیں۔ پہلی بات انھوں نے یہ کہی کہ اسٹیبلشمنٹ سے اب ان کا کوئی اختلاف نہیں جسے چاہے آرمی چیف بنا دیا جائے وہ کوئی تعرض نہیں کریں گے۔ جانور اور میر جعفر میر صادق قرار دینے کے بعد یہ کہہ کر انھوں نے بات ہی ختم کر دی کہ ملک بھی میرا اور فوج بھی میری۔

ان کا دوسرا یو ٹرن امریکا کے ضمن میں ہے۔ امریکا کے بارے میں بھی انھوں نے اسی طرح انتہا پسندانہ طرز عمل اختیار کیا جیسا اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں اختیار کیا تھا۔ بدقسمتی سے عمران خان کی عادت یہ ہے کہ وہ غلطی کرنے کے بعد سوچتے ہیں۔ اس بار بھی یہی ہوا۔ چند ماہ کے بعد انھیں اندازہ ہو گیا کہ ان سے غلطی سرزد ہو چکی ہے چنانچہ انھوں نے بیچ بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے، یہاں تک کہ لابیئسٹ بھی رکھے۔ اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ واپسی کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ توقع کے عین مطابق وہ واپس پلٹے۔ اب تو انھوں نے یہ بیان دے کر معاملہ ہی ختم کر دیا ہے کہ امریکی مداخلت کے الزامات کا معاملہ ختم ہو چکا۔

اصولی طور پر تو ان باتوں سے اختلاف ممکن نہیں لیکن عمران خان نے اپنی شرر فشانی سے یہ معاملات جس انتہا پر پہنچا دیے تھے، اس واپسی کے بعد فطری تھا کہ عوام اسے ان کا یو ٹرن ہی تصور کریں۔ اس وقت ان کی سیاست میں جس قسم کی کمزوری دکھائی دے رہی ہے، اس کا بنیادی سبب ہر لحظہ ان کے بدلتے ہوئے موقف ہیں۔ یہ یوٹرن ہی ہوتے ہیں جو سیاسی قوتوں کا وجود دیکھتے ہی دیکھتے تحلیل کر دیتے ہیں۔ پاکستان کا اب تک کا تجربہ یہی ہے، عمران خان کو بھی اس سے کوئی استسنا نہیں ہے۔

Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: آرمی چیفاسٹیبلشمنٹامریکاپاکستانتحریک عدم اعتمادسائفرعمران خان
Previous Post

راجہ ظہیر خان کی سوانح پر مسحور کن کتاب

Next Post

پاکستان کے شہر، قصبے اور گاؤں کیسے ہیں، ان میں کیا دولت چھپی ہے؟

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post
پاکستان

پاکستان کے شہر، قصبے اور گاؤں کیسے ہیں، ان میں کیا دولت چھپی ہے؟

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions