یہ امر میرے لیے باعثِ مسرت و افتخار ہے کہ راجہ ظہیر خان جیسی عظیم شخصیت کی سوانح حیات کی تقریب پذیرائی پر مجھے اظہارِ خیال کا موقع مل رہا ہے۔ مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کے مولف محترم جاوید اقبال راجا سے میرا قریبی اور قلبی تعلق ہے ۔
قریباً پانچ برس قبل بھی ان کی ایک کتاب کی تقریبِ رونمائی میں شرکت اور تجزیہ پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو چکی ہے۔مگر ان کی موجودہ کاوش نہ صرف راجا ظہیر صاحب کے خاندان کے لیے بلکہ ہم سب کے لیے ایسا انمول تحفہ ہے ، جس پر وہ ہر تعریف و تحسین کے مستحق ہیں ۔اس کتاب یعنی ” مردِ درویش ” پر کچھ کہنے سے قبل میں راجا ظہیر صاحب کی شخصیت کے متعلق کچھ عرض کروں گا ۔راجا صاحب سے میرا اور میرے خاندان کا تعلق عشروں پر محیط ہے ۔ اس کی ایک وجہ تو میرے چھوٹے بھائی خالد محمود مرزا ہیںجو جماعت کے دیرینہ اور انتہائی فعال رُکن ہیں۔ دوسری وجہ راجا ظہیر صاحب سے میری ذاتی اور دلی عقیدت ہے۔ اسّی کی دہائی میں جب راجا صاحب ضلع رالپنڈی میں عمومی طور پر اور تحصیل گوجرخان میں خصوصی طور پر فعال سیاسی کردار اد اکر رہے تھے تو وہ خاص و عام اور اپنوں پرائوں میں یکساں طور پر ہر دلعزیز تھے یہی وجہ ہے کہ اٹھاسی اور نوّے کے الیکشن میں واضح برتری کے ساتھ جیت کر ممبر قومی اسمبلی بنے ۔
یہ بھی پڑھیے:
ایک دلت ماہر معاشیات کی آپ بیتی، ہوش ربا واقعات اور تجربات
اسلامی بینکاری: سرکاری درخواستوں کی واپسی اور رکاوٹیں
ان کی عوامی رابطہ مہم سارا سال جاری رہتی۔ ان دنوں میں کراچی میں زیرِ تعلیم تھا۔ جب بھی گائوں آنا ہوتا تو بے اختیار راجا صاحب کی اس مہم میں شریک ہو کر گائوں گائوں اور قریہ قریہ کی خاک چھاننے نکل پڑتا ۔ اس سیاسی اور دعوتی مہم میں شرکت کی سب سے بڑی وجہ راجا صاحب کی طلسمی شخصیت کا سحر، ان کی لہو گرما دینے والی تقاریر، ان کی خوش لباسی، خوش مزاجی اور ان کی خوش گفتاری تھی۔مجھے یاد ہے کہ دیہات کی کچی اور ناہموار سڑکوں پر پورا پورا دن پُرمشقت سفر کرنے کے بعد بھی راجا صاحب کی جاں فزا مسکراہٹ اور شوخیِ گفتار میں کمی نہیں آتی تھی۔اس کی وجہ سے پورا قافلہ عزم و حوصلے سے لیس رہتا ۔ راجا صاحب اپنی شخصیت کے طلسم ، علمی استعداد اور دل نشین گفتگو سے مخاطب کو قائل کرنے کی صلاحیت سے مالامال تھے۔ ویسے بھی وہ اس تحریکی مشن پر تن من دھن کے ساتھ نکلے تھے جو ان کے خلوصِ نیت کا برملا اظہار تھا۔ جیسا کہ حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا ؎
جو بات دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں مگر طاقتِ پرواز رکھتی ہے
اسی خلوص نیت کا اثر تھا کہ راجا صاحب کی گفتگو دریچہِ دل پر دستک دیتی محسوس ہوتی ۔مجھے یاد ہے ہمارے ہی گائوں کونتریلہ میں ذمہ دارانِ جماعت کی ایک نشست میں شامل تھے ۔ وہاں یہ معاملہ زیرِ بحث تھا کہ کونتریلہ میں عوامی جلسہ کس جگہ اور کب منعقد کیا جائے ۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کے خدشے کے پیشِ نظر ایک صاحب نے کہا” فی الحال حالات ایسے جلسے کی اجازت نہیں دیتے ” راجہ صاحب حسبِ معمول ہنس کر بولے ” حالات سے اجازت لینے کی ضرورت ہی کیا ہے ” پھر بولے” آپ نے ٹریفک سارجنٹ اور پارکنگ والا لطیفہ تو سنا ہو گا ” حاضرین ہمہ تن گوش ہو گئے۔ راجا صاحب اپنے مخصوص انداز میں بولے” ایک صاحب گاڑی پارک کرنے کی جگہ ڈھونڈ رہے تھے ۔ایک جگہ گاڑیا ں پارک نظر آئیں مگر ساتھ ہی نو پارکنگ کا سائن بھی تھا۔ وہ صاحب کنفیوز ہو گئے اور وہاں کھڑے سارجنٹ سے پو چھا ” کیا میں یہاں گاڑی پارک کر سکتا ہوں ؟” سارجنٹ نے سائن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا” نہیں! آپ دیکھ رہے ہیں یہاں نو پارکنگ کا بورڈ لگا ہے” وہ صاحب بولے ” مگر یہاں گاڑیاں کھڑی ہیں” سارجنٹ نے معصومیت سے کہا” انھوں نے مجھ سے پوچھا ہی نہیں ”
اس وقت میں نے اسے عام لطیفہ سمجھالیکن وقت گزرنے کے ساتھ اور جب میں نے کلام اقبال پڑھا تو یہ بات سمجھ میں آئی کہ یہ صرف لطیفہ نہیں تھا بلکہ اس میں ایک لیڈر کا وژن پوشیدہ تھا ۔ ایک جرات رِندانہ کارفرماتھی۔ جس کا لُبّ لباب یہ تھا ؎
تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے
راجا ظہیر صاحب کی حیات و افکار میں واضح طور پر اقبال کے اس شاہین کی جھلک نظر آتی ہے ۔:
تو شاہین ہے پرواز ہے کام ترا
ترے سامنے آسمان اور بھی ہیں
راجہ ظہیر خان بلند حوصلہ اور پُر عزم رہنما تھے جو اپنے طرزِ عمل سے اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بھی بلند رکھتے تھے ۔ ان کے اندر وہ جذبہ جنوں موجود تھا عام آدمی کو انسان، انسان کو مردِ مومن او رمومن کو مردِ کامل بنا دیتا ہے ۔ایسے انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں ۔
ایسی عظیم شخصیت کے حیات و افکار پر مشتمل کتاب کی تالیف و تشکیل پر میں ا س کے مولف جاوید راجا اور راجا ظہیر کے فرزندوں کو مبارک باددیتا ہوں جنھوں نے اس کاوش کے ذریعے راجا صاحب کی حیات و خدمات کو تاریخ کے صفحات میں محفوظ کر دیا ہے ۔جہاں تک اس کتاب کی تحریر و طباعت کے فنی اور ادبی پہلوئوں کا تعلق ہے وہ انتہائی شاندار ، اغلاط سے پاک اور ادبی چاشنی سے معمور ہے ۔پڑھتے ہی مولف جاوید راجا کی محنت، قابلیت اور ان کے خلوصِ نیت کا احساس ہوتا ہے ۔ مختلف جماعتوں اور مختلف طبقہ ِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خیالات و نظریات سے جہاں راجا ظہیر صاحب کی ہر دلعزیزی کا پتا چلتا ہے وہاں کتاب کی ہمہ رنگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔جس سے اس کی دلچسپی ، مقبولیت اور چاشنی بڑھتی ہے ۔
مولف نے اپنی محنت سے راجا صاحب سے متعلق متعدد اہم شخصیات کے خیالات کو شامل کر کے ان کی شخصیت کے ہر گوشے پر اس طرح روشنی ڈالی ہے کہ ان کی شخصیت کا ہر پہلونمایاں ہو کر سامنے آتاہے۔ اس ہمہ رنگی نے کتاب کو بھی چار چاند لگا دیے ہیں ۔ میری دُعا کہ باری تعالیٰ مولف کی اس کاوش کو ایک عظیم شخصیت کے لیے خراجِ تحسین سمجھ کر اپنی بارگاہ میں مقبول و منظور فرمائے اور ہم سب کو راجا ظہیر صاحب کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
( کالم نگار نے یہ مضمون اٹھائیس اکتوبر کے دن گوجرخان میںکتاب” مردِ درویش” کی تقریبِ رونمائی میں پڑھا۔ اس تقریب کی صدارت امیر جماعتِ اسلامی سرج الحق نے کی اور مہمانِ خصوصی اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف تھے)۔