”سونو” دلت ماہرمعاشیات ڈاکٹرنریندرکمارجادھوکی چشم کشااوردلچسپ مراٹھی آپ بیتی کاترجمہ ہے۔ جس کا ترجمہ ریزو بینک ممبئی کی سابق ملازم شاعرہ ممتاز نکہت نے کیاہے۔ یہ آپ بیتی راشداشرف کی زندہ کتابیں میں شائع کی گئی ہے۔ ممتازصاحبہ نے اس مقبول ترین کتاب کااردوترجمہ ڈاکٹر نریندرجادھوکی ماں’سونو’ کے نام سے کیاہے۔ اس خودنوشت میں سونوکاکردار افلاس،استحصال،بے بسی،بیچارگی و بے سروسانی کی ایسی تواناعلامت بن کرابھراہے کہ قاری اس سے متاثرہوئے بغیرنہیں رہ سکتا۔سونوکوبہترین ماں کاایوارڈ بھی مل چکاہے اور یہی وجہ ہے کہ ممتازنکہت کے اندرپوشیدہ عورت نے سونوجیسی لمحہ لمحہ زندگی سے لڑتی عورت کے کرب کودیکھا،سمجھااوراسے اسی طرح سونو نام سے ہی اردومیں منتقل کرنامناسب وموزوں تصورکیا۔
سونوایک دلت ماہرمعاشیات ڈاکٹرنریندرکمارجادھوکی خودنوشت سوانح عمری ہے۔جوانگریزی میں Outscaste اور مراٹھی میں’آمچا باپ آن آمہی” کے نام سے شائع ہوکردھوم مچاچکی ہے۔اس آپ بیتی میں ڈاکٹرجادھونے معاشیات کی گتھیاں نہیں سلجھائی ہیں اورنہ بھارت اوردنیاکی معیشت کودرپیش مسائل کوبیان کیاہے۔ بلکہ اس میں بھارت میں دلت سماج پرہونے والے انسانیت سوزمظالم، اذیت ناک سلوک،چھوت چھات،بھیدبھاؤ،طبقاتی کشمکش کی ایسی داستان بیان کی گئی ہے جس میں تہ درتہ سسکیاں ہی چھپی ہیں،شادمانیوں کا دور دور تک پتہ نہیں۔ایک طرف اس کتاب میں ایک بچے کی جانب سے اپنے باپ دامو اورماں سونوکوپرخلوص خراج تحسین پیش کیاگیاہے تو دوسر ی جانب بھارت میں ذات پات کی بنیاد پرمختلف خانوں میں بٹی ہوئی انسانیت کی اندوہناک تفصیل اوراس کے ساتھ تین نسلوں پرمشتمل دلت خاندان کی روتی بسورتی زندگی کااندھیروں سے نکل کرآسودگی وخوش حالی کی طرف گامزن ہونے کی جدوجہدکی چشم کشا داستان بیان کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
بنانا ریپبلک کی اصطلاح کیسے بنی، بنانا ریپبلک کیا ہوتی ہے؟
اسلامی بینکاری: سرکاری درخواستوں کی واپسی اور رکاوٹیں
”سونو” صرف انفرادی خودنوشت نہیں،بلکہ یہ بھارتی دلتوں کے مسائل ،ان کی زندگی کے نشیب وفراز،ان کواپنی پہچان اورشناخت دلوانے کے لیے حقوق انسانی کے علم بردارڈاکٹرامبیڈکرکی مسلسل کوششیں،تحریک آزادی کی داستان، تحریک سول نافرمانی کے واقعات، امبیڈکر، گاندھی جی کے تعلقات، 1956ء میں دلتوں کااجتماعی طور پربدھ مذہب میں شمولیت کاذکربھی موجودہے۔نریندرجادھوکے افرادخانہ کا ڈاکٹر امبیڈکرکی کرشماتی شخصیت سے متاثرہونا اوراس کے بعداپنی ذات میں پیداہونے والی خوداعتمادی اورخودشناسی کی بازیافت کے تذکرے بھی دلچسپ ہیں، لیکن سب سے اہم اورقابل قدرکتاب کایہ پہلوہے کہ ڈاکٹرنریندرجادھوکے ان پڑھ والدین دامواور سونونے دلت سماج کاحصہ ہوتے ہوئے اپنے چاربیٹوں جے ڈی جادھو،سدھاگرجادھو، دنیش جادھواورنریندرجادھوکس طرح اعلیٰ تعلیم دلائی۔جن میں سے بڑابیٹاجے ڈی کلکٹرکے عہدے سے ریٹائرہوا۔سدھاگرنسبتاًکم تعلیم حاصل کرنے کے باوجودایئرگلف میں انجینئررہا۔دنیش نے بھی اعلیٰ عہدوں پرکام کیا۔پھرڈاکٹرنریندرجادھوآئی ایم ڈائریکٹرسمیت ملکی اوربین الاقوامی سطح پربڑے عہدوں پرفائزرہے۔
ڈاکٹرنریندرکمارجادھو1953ء میں ممبئی میں پیداہوئے۔وہ ایک معروف ماہرمعاشیات، بینکنگ مشیرکار، عوامی مقرراورسماجی خدمت گارہیں ۔انہیں متعددتعلیمی اعزازات وہ پیشہ ورانہ توصیفی اسناد سے نوازاگیا۔وہ ریزوربینک آف انڈیامیں پرنسپل ایڈوائزراور چیف اکنامسٹ کے اعلیٰ عہدے پرفائز رہے۔انھوں نے بیرونی ممالک میں بحیثیت انٹرنیشنل سول سرونٹ مختلف شعبہ جات میں خدمات سرانجام دیں،جس میں انٹرنیشنل مالیاتی فنڈ کے ڈائریکٹرکی حیثیت سے چارسالہ خدمات بھی شامل ہیں۔ڈاکٹرجادھونے ممبئی یونیورسٹی اورانڈیانایونیورسٹی امریکا سے معاشیات کی تعلیم حاصل کی اوروہیں سے پی ایچ ڈی کی سندبھی حاصل کی۔انھیں انڈیانایونیورسٹی کی جانب سے بہترین طالب علم کاایوارڈ اوراکنامک تھیوری میں غیرمعمولی خدمات کے سبب خصوصی ایوارڈ بھی دیاگیا۔
”سونو” میں نریندرجادھونے اپنے باپ’دامو’ اورماں’سونو’ کے اس صبرآزماسفرکوبیان کیاہے جوانھوں نے مہاراشٹرکے ایک گمنام گاؤں ‘اوزر’سے بمبئی جیسے شہرکی طرف کیا۔یہاں آکرباوجود ان پڑھ ہونے کے انھوںنے کسی بھی کام کوکرنے میں شرم محسوس نہیں کی،بلکہ باعزت طور پرہرکام کوانجام دیا۔ان ناخواندہ ماں باپ کے بچوں اورپھربچوں کے بچوں نے کس طرح ترقی وکامیابی کے مدارج طے کیے اور ایسے ایسے اعلیٰ عہدوں پرفائزہوتے گئے جس کااس سماج میں کبھی تصوربھی نہیں کیاگیاتھا۔ظلم وانصاف کے خلاف دامواورسونوکی یہ مسلسل معصومانہ جنگ اوراپنے خوابوں،ارادوںکوپایہ تکمیل تک پہنچانے کی تگ ودوہی اس کتاب کے اصل محرکات ہیں۔کتاب کا پیغام ہے کہ عزت نفس اورجذبہ خودشناسی کاتعلق عوام کی بیدارذہنی پرمنحصرہے۔ حالات کی ناموزونیت کئی معنی نہیں رکھتی۔پوری خودنوشت ڈاکٹر امبیڈکرکے قول’ پڑھو،بڑھو اورلڑجاؤ’ کی عملی تفسیرپرمبنی ہے۔
”سونو” کاانتساب بھی دامن دل کوکھینچتاہے۔”نابیناراہی آجی کی دورتک دیکھنے والی نظروں ان پڑھ داداکی دانائی اورصلاحیتوں اور ماں ‘سونو’ بائی کے حصے میں آئی ہوئی ‘غریبی’ کے چھالوں کے نام”۔ان چندالفاظ میں پوری کتاب کالب لباب بیان کردیاگیاہے۔
”آمچاباپ آن آمہی” کتاب کا’مین آف دی میچ’ ہے دامودررنجاجی جادھونام کا ‘ سنچری بیٹس مین’ یہ خراج تحسین آنجہانی پو۔ل۔دیش پانڈے نے نریندرجادھوکے دادا(باپ) کوپیش کیاتھا۔زندگی بھر سخت جسمانی مشقت کرنے والایہ مزدورسبکدوش ہونے کے بعدبھی کبھی نچلانہ بیٹھ سکا۔تفریح طبع کی خاطرہی کسی نہ کسی چیزکودرست کرتے رہتے۔نریندرگھرمیں سب سے چھوٹاتھا،اس نے باپ کومصروف رکھنے کیلیے اوران کی قصہ گوئی کی عادت کے پیش نظرانہیں اپنی یادیں لکھنے پراصرارکیا۔باربارکہنے پرانھیں شوق پیداہوا۔ان کادھیان اس طرف موڑنے سے نریندرجادھوکامقصد پوراہوگیا اوران کی بیاضیں جمع ہوتی رہیں۔1986ء میں نریندرڈاکٹریٹ کے لیے امریکاچلے گئے۔ تین سال بعدوالدکے انتقال نے اچانک ان تحریروں نے جذباتی اہمیت اختیارکرلی اوران کامطالعہ شروع کردیا، یہ تحریریں ان کے دل کو چھوگئیں،مگرکیایہ دوسروں کے دل کوبھی چھوئیں گی اوران کی ادبی قدروقیمت کیاہے۔معاشیات کاطالب علم ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹر نریندراسی موضوع پرلکھتے تھے۔داداکی تحریرکل ملاکرپچاس صفحات پرمشتمل تھی۔اسے درمیان میں رکھ کرانہوں نے خودنوشت لکھنے کامشکل فیصلہ کیا۔پہلا حصہ دادا(والد)کے بارے میں،درمیان میں اصل موادیعنی داداکی تحریراورآخری حصہ ‘ہم’اس آخری حصے میں ‘اس طرح ہوئی ہماری تشکیل’کے عنوان سے چاروں بھائیوں کی زندگی کے اتارچڑھاؤ بیان کیے گئے ہیں۔
کتاب نے غیرمعمولی مقبولیت حاصل کی۔”آمچاباپ”کی مراٹھی زبان میں اشاعت دسمبر1993ء میں ہوئی۔اشاعت کے روز نریندرنے پبلشرسے بحث کرکے اس کی پانچ سوجلدیں تقریب اجرا میں رکھیں۔حیران کن طور پریہ جلدیں پینتالیس منٹ میں بک گئیں۔پہلے ایڈیشن کی ہزار کاپیاں ایک روزمیں فروخت ہوگئیں۔کتاب کاانگریزی ترجمہ ”آؤٹ کاسٹ” کے نام سے خودڈاکٹرنریندر جادھونے کیا۔اسے پیرس کے فایاپبلشرنے شائع کیا اورانہوںنے فرنچ ترجمہ بھی کرایا۔ہندوستانی زبانوں کے سوادنیاکی تمام زبانوں میں ترجمے کااختیارفایاکے پاس ہے۔جنہوں نے چینی،اسپینش اوردیگرزبانوں میں اس کاترجمہ کرایا۔بھارت میں گجراتی، ہندی،پنجابی، تامل، کنٹر،ملیالم،بنگالی،اڑیا،تیلگوزبانوں میں بھی اس کے تراجم نے شائع ہوکرمقبولیت حاصل کی۔امریکاکے بڑے اشاعتی ادارے کے ذریعے”آؤٹ کاسٹ”دنیابھرمیں پھیل گئی۔اس کوامریکاکی کئی بڑی یونیورسٹیزنے ساؤتھ ایشین اسٹیڈیزکے مطالعہ کے طور پراپنے کورس میں شامل کیا۔
یہ بھی پڑھئے:
حملے، شخصیات پر، اداروں پر اور کردار پر
ارشد شریف کی موت کا اصل ذمے دار
”آمچاباپ”کی اشاعت کے بعداس کی تعریفوں کی بھرمارہوگئی،ساتھ محبت بھری شکایتیں بھی ہوئیں۔خاص طور پرہماری ‘آئی’ کونظرانداز کرنے پرشکایت کی گئی۔ماں اوربہنوں کاکچھ خاص ذکرنہیں۔اس کایہ مطلب بھی لیاگیاکہ میں ‘عورت بیزار’ ہوں۔کچھ عورتوں نے توپیار بھری دھمکی بھی دی کہ اگرآپ اپنی ماں کے بارے میں نہیں لکھیں گے توہم آپ کے گھرمورچہ لے کرآئیں گے۔ میں فوراً اپنی ماں پر”ماتو سری” کے عنوان سے خاص باب لکھا۔ ایک بہن سے داداکے بارے میں لکھوایا۔”ردعمل کارخت سفر” کے عنوان سے مخصوص خطوط کا،تنقید ی جائزوں اورردعمل کے مختصر معائنوں ایک ضمیمہ تیارکیااورکتاب کاتصحیح شدہ ایڈیشن شائع کیا۔دس گیارہ مہینوں میں کتابوں کی فروخت جاری رہی۔کئی کئی بارچھپائی بھی ہوتی۔
کتاب کااردوترجمہ شاعرہ ممتازنکہت نے کیا۔ وہ لکھتی ہیں۔” شاعری کولوگ الہام کادرجہ دیتے ہیں اورایک خیال میرے دماغ میں بجلی کی طرح کوندا۔الہام کی طرح منکشف ہواوہ تھا”آمچاباپ آن آمہی” کواردوزبان میں ترجمہ کرنے کاخیال۔آئے دن ‘آؤٹ کاسٹ ‘ اور ‘ آمچاباپ’ کی تعریفیں پڑھاکرتی تھی۔سینئررفیق کارڈاکٹرنریندرجادھوکی شخصیت سے مرعوب بھی تھی۔پندرہ سال پہلے منوہرتلہارکے مراٹھی ناول”مانش” کاترجمہ کیاتھا۔مگراسکی اشاعت پرکبھی غورنہیں کیا،اچانک ‘آمچاباپ’ کی طلسماتی کشش تھی یااس کتاب کے کرداردامواورسونو کی جدوجہد اورشخصیت کاتاثرکہ ایک طلسم ہوشربا میں گرفتار ہوکرمیں نے اسے ترجمہ کرنے کافیصلہ کرلیا۔ڈاکٹرجادھوسے اجازت بھی مل گئی ۔سونوایک ایسی عورت ہے جس کے بارے میں کتاب میں کہاگیاہے کہ وہ ایک ایسا ان دیکھاانجن ہے جس کے بنازندگی کی گاڑی چل ہی نہیں سکتی۔جس کے بطن سے پیداہوئے چاروں بیٹے ذرے سے آفتاب بنے۔عورت کی تخلیق نموہے، پرورش کاہنرہے،اپنے شوہرسے بے غرضی سے قدم قدم ساتھ دینے کاجذبہ ہے اس لیے داموبھی اپنی سونوکاشکرگزارنظرآتاہے،’آمچاباپ آن آمہی’ عنوان میں سونوکی کمی محسوس ہوتی ہے۔وہ سونو جوایک آدرش ماں کاخطاب بھی پاتی ہے۔آج میرے ترجمے پربڑی آن بان وشان سے مسکرارہی ہے۔”
دنیابھرکی کئی زبانوںمیں اس کتاب کی مقبولیت کی وجہ اس کی سادگی اوربے ساختہ پن کے ساتھ معاشرے کے انتہائی پسے ہوئے طبقے کی علم کے لیے جدوجہداورحصول تعلیم کے نتیجے میں دامواورسونوکے چاربیٹوں کااعلیٰ ترین عہدوں پرفائز ہونا ہے۔دامواورسونوہمیشہ زندہ رہنے والے ایسے کردارہیں، جنہوں نے اپنی محنت اوربے مثل جدوجہدسے ان پڑھ اوربے وسیلہ ہونے کے باوجوداپنے بچوں کوعلم کی دولت سے مالامال کیا اوران کی ترقی اورخوش حالی کواپنی آنکھوں سے دیکھا۔
طبقاتی اونچ نیچ مسلمان ہونے کے باوجودہمارے معاشرے میں بھی کم نہیں۔ لیکن بھارتی سماج میں دلتوں کے ساتھ جوسلوک کیاجاتاہے۔ اس کاہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ڈاکٹرنریندرکوبچپن میں دادی کو’آئی’ یعنی ماں اوراپنی ماں کو’بائی’ کہنا پسند نہیں تھا۔ وہ دادی کے بارے میں لکھتے ہیں۔”سچ کہوں تو تیرے بارے میں میرے دل میں آج تک کئی معاملوں میں غلط فہمی تھی۔بچپن کی یادوں میں ڈھونڈنے پربھی تیرے بارے میں کوئی ایک خوب صورت یادنہیں ملی۔میں تیراسب سے چھوٹا پوتاتھا،تومجھے کبھی نہیں دیکھ پائی، کیونکہ میرے پیداہونے سے کئی سال پہلے ہی تیری آنکھوں کی روشنی پوری طرح سے جاچکی تھی۔جب تودنیاسے سدھاری تب میں بارہ برس کاتھا۔بھارت سرکار کے کلچر ڈیپارٹمنٹ نے ہمارے خاندان پرایک چھوٹی سی ٹیلی فلم بنائی تھی۔اس کے ایک حصے میں ناسک ضلع کے اوزرگاؤں میں کھیتی باڑی کرنے والے ہمارے چچازادبھائی وسنت بھاؤ نے بیان کیاکہ داموکاکااوران کے بیٹوں کی ترقی اس گاؤں کوچھوڑکرممبئی چلے جانے کی وجہ سے ہوسکی۔وہ اگریہیں رہ گئے ہوتے توہماری ہی طرح کم عقل کسان بن کررہ جاتے۔گاؤں چھوڑ کرہماراخاندان کیوں آیاممبئی؟ تیری وجہ سے آجی! تیرے عزم واستحکام نے تجھے یہاں تک پہنچایا۔توناسک ضلع کے بھیونمباکی بیٹی تھی۔رنجاباباکی توتھی دوسری بیوی۔پہلی بیوی سے اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اسے چھوڑکرتجھ سے رنجابابا کا بیاہ کردیاگیا۔تجھے دولڑکے اوردولڑکیاں ہوئیں۔ان میں دوہی زندہ بچے۔دامو ہمارا باپ اورناجوکا ہماری پھوپھو۔مہاراشٹرکے طاعون کی وبا میں رنجابابادنیاسے سدھارگئے۔شوہرکاسہارا نہیں۔زمین ہوتے ہوئے نہ ہونے کے برابر،لیکن آجی! تواپنے دوچھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اتنے استحکام کے ساتھ کھڑی رہی کہ بس۔مول مزدوری کرکے تواپنے بچوں کاپیٹ پالتی رہی۔ داموکاچچازاد بھائی مادھوہٹاکٹاجوان تھا۔ماں باپ دونوں طاعون کانوالہ بن گئے۔اس کے سربھی تونے اپنی ممتاکی چھاؤں ڈال رکھی تھی۔مادھوممبئی آگیا،مگروہاں اس کے لیے کیاتھا؟ تعلیم نہیں ،کوئی ہنرنہیں،چوراچکاگری کرنے کافن بھی نہیں۔ اس حالت میں بھک مری کے دن آگئے۔بھیک مانگناشروع کردی۔ممبئی میں نوکری کرنے والے لوگوں سے سن کرتوبہت تلملائی اور فوراً ممبئی جاکرمادھوکی سرپرستی کرناچاہی۔دامواورناجوکا اتنے چھوٹے تھے کہ انھیں چھوڑ کرجانے کاسوال ہی نہیں پیداہوتاتھا۔ اس لیے تودونوں کولیکرنکل پڑی۔آج بھی ہم بھائی بہنوں کے درمیان ہمیشہ یہ سوال گفتگوکاموضوع بنتاہے کہ کس کے بل پرتونے ممبئی جانے کافیصلہ کیاتھا، تیرے پاس تعلیم نہیں تھی،کسی قسم کاہنر نہیں تھا۔مادھوجیساہٹاکٹا،مگرناکارہ جوان۔دوبچوں کی ذمہ داری۔۔اس پرتوبیوہ،کیاتھاتیرے پاس ۔اب ہمیں پتہ چلتاہے آجی! تیرے پاس عقل مندی تھی۔فتح مندی کاحوصلہ تھا۔مادھوکے واپس جانے کے باوجود توبچوں کے ساتھ ممبئی میں کیوں بس گئی، کیونکہ تجھے یہاںامکانات نظرآنے لگے تھے۔اس وقت تیری آنکھیںدیکھنے کی قوت رکھتی تھیں۔ویسے بھی گاؤں میں زمین کے نام پرپرصرف نام کی زمین تھی اورگھرکے نام پرایک ٹوٹاپھوٹاجھونپڑا۔خاندان کی ترقی کے بارے میں تیری سوچ کتنی منور تھی۔ بعد میں تیری آنکھوں کی روشنی بھی چلی گئی، مگرتیری دوراندیشی اورمستقبل کودیکھنے کی قوت اسی طرح قائم رہی۔تیرے بعد کی پیڑھی نے ۔۔ یعنی ہمارے ماں باپ نے جس جاں فشانی سے اپنے خاندان کی اٹھان کی اس کی بنیادوہ جگرتھاجوتونے اس وقت دکھایاتھا۔تجھے ‘آجی’ یعنی دادی نہ کہہ کر’آئی’ یعنی ماں کہہ کرکیوں پکاراجائے یہ اب سمجھ میں آرہاہے آئی۔”
اس طویل اقتباس سے کس دردمندی اور پیارسے نریندرجادھو نے آجی کی شخصیت کاخلاصہ بیان کیاہے۔اس کاجواب نہیں، کس طرح ایک فردکے عزم وحوصلے اوربروقت فیصلے نے اگلی کئی نسلوں کی زندگی سنواردی۔ڈاکٹرنریندرجادھوکے ان پڑھ والدکے بارے میں اقتباس دیکھیں۔”یہ روایت ہے کہ باپ کاذکروالدکہہ کرکیاجائے۔وہ والدکے بجائے بلاتکلف باپ کہناپسندکرتے ۔ہم بھائی بہنوں میں سے کوئی ان کی پہچان ہمارے والدکہہ کرکروائے توانھیں برالگتاتھا۔ایسے موقعوں پرکہتے ‘ارے زبان توایسی ہونی چاہیے کراری۔جب تم مجھے والدکہتے ہوتب ایک دم بھنڈی کی بھاجی کی طرح لجلجا لگتاہے۔’ ہم سب بھائی بہن انھیں داداکہتے۔درمیانہ قد،کالاکھردراچہرہ ،چہرے پر سختی،مگرچھوٹے بچوں سے باتیں کرتے وقت چہرے پرایک شرارتی رنگ،دھوتی ،کرتہ سفید،خاکی کوٹ ،کالی ٹوپی۔یہ تھاان کاہمیشہ کالباس ۔ ہاتھ میں چھڑی جوسہارادینے سے زیادہ ڈرانے کے کام آتی۔”
ان بچوں کی تربیت کیسے کی گئی۔”میں داداکے ساتھ وڈالااسٹیشن پرواقع دکانوں سے ہو کر گزر رہا تھا۔اس طرف کے فٹ پاتھ پر’پنج شیل’ نام کی ایک چھوٹی سی دکان تھی۔دکان کابورڈانگریزی میں لکھاہواتھا،مگراس کے نیچے وہی نام چھوٹے حروف میں مراٹھی میں بھی درج تھا۔سچ کہوں توپنج شیل جیسامشکل نام انگریزی میں پڑھنے کی صلاحیت ابھی تک مجھ میں ناپیدتھی۔میں نے بورڈپڑھاتومراٹھی ہی میں،مگرکوشش یہ کی کہ داداسمجھیں میں اس بورڈکوانگریزی ہی میں پڑھ رہاہوں۔میں نے داداکو حیرت سے دم بخودکردیا۔ایک دم خوش ہوکرکہنے لگے،”چل تجھے لسی پلاتاہوں۔”لسی میرے گلے سے نیچے نہیں اتر رہی تھی۔آخرمیں نے اقرارکرلیاکہ ‘میں نے جھوٹ کہاتھا’ اپنے سرسے جھوٹ کابوجھ اتارپھینکااورمنتظرتھاکہ کب میری پیٹھ پرایک زوردارگھونسا پڑے گا،مگرہوا بر خلاف۔ وہ قہقہہ مار کرہنسنے لگے۔میں نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا،’دادامیں نے جھوٹ کہا،تمھیں غصہ نہیں آیا؟’ انھوں نے پھرکہا،’توگھبرا مت ،میں تجھے نہیں ماروں گا۔تیرے جھوٹ سے کسی کانقصان نہیں ہوا،بلکہ یہ جان کرمجھے خوشی ہوئی کہ تیراضمیرابھی زندہ ہے۔میں تجھے ایک اورلسی پلاتاہوں۔داداکاکلیہ آہستہ آہستہ سمجھ میں آنے لگا۔’اسے بھیک مانگنی پڑے گی’ کہنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ بھائی اور”جوبھی اچھا لگے وہ کر، مگر ٹاپ پرجانے کی کوشش کرنا” کہنے والے ان پڑھ والد۔ان دونوں میں سے صحیح معنوں میں زمانہ شناس کون ہے؟کیا آج میں اپنے بچوں کو اتنا اوپن چوائس دے سکتا ہوں؟کیامیں بھی اپنے بھائی کی طرح اوسط طبقے کے ڈرپوک لگے بندھے اصولوں میں جکڑاہوانہیں ہوں؟ اس میں بارے میں ،مین جس قدرسوچتاہوںاس قدراپنے باپ جیسے عام اوران پڑھ آدمی کے نڈرخیالات،ان کی دور اندیشی مجھے حیرت کے سمندرمیں غرق کیے دیتی ہے۔”
کیایہ ایک ان پڑھ انسان کی سوچ ہوسکتی ہے۔قاری کے لیے بھی فیصلہ کافی مشکل ہے۔” ایک باردادانے مجھے قریب بلایااورکہا،”یہ دیکھ ۔ لوگ تجھے کہیں گے توڈاکٹربن، انجینئربن ، بیرسٹر بن ، مگرتوکسی کی کوئی بات مت سننا۔تیری عقل کے مطابق جوتجھے ٹھیک لگے وہی بننے کی تو کوشش کر۔میں بھی تجھ پردباؤ نہیں ڈالوں گاکہ ایساہی بن، یاویساہی بن، میراکہنابس اتنا ہے کہ جوکچھ توبن اس میں توٹاپ پرجاناچاہیے۔ تجھے چوربنناہے؟کوئی بات نہیں ،مگرپھرایساچوربن کہ دنیاتجھے سلام کرے۔تجھے جواکھیلناہے؟ کوئی مضائقہ نہیں،مگرپھرایسازبردست جواری بن کے لوگوں کی زبان پرجب تیرانام آئے توکہیں،اس کوبولتاہے جگاری،تھوڑے پرصبرکرکے چپ مت بیٹھنا۔”
داموکے زمانے کی پوری نسل پرڈاکٹرامبیڈکرکی جدوجہدکااچھاخاصااثربیٹھاہواتھااوران کی جدوجہدکامطلب تھاتعلیم کی اہمیت کولوگوں تک پہنچانا۔تعلیم حاصل کرو۔ایک جٹ ہوجاؤاوراپنے حق کے لیے لڑو۔یہ تھاڈاکٹرباباصاحب امبیڈکرکاپیغام۔اور یہ محض لفاظی نہیں تھی ، بلکہ پورے دلت سماج کااپنے آپ سے کیاہواوعدہ تھا،ایک قسم تھی۔دامونے بھی اپنے بچوں کی تعلیم پراپنی پوری توجہ صرف کردی۔اگرکسی کو ان کی امیدسے کم نمبرحاصل ہوتے تووہ پٹائی کرنے میں پیچھے نہیں ہٹتے ۔اچھے نتیجے پرکبھی کبھارزبانی تعریف،مگررزلٹ دیکھتے وقت ان کے چہرے پرجوچمک آجاتی اوران کی آنکھوں میں جوچراغ روشن ہوتے ،پھر اس کے بعدتعریفی الفاظ کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔
کسی لیڈرکے پیغام کوسمجھنااورپھرتن من دھن سے اس پرعمل کرنے کی بھی شایدکوئی اورمثال نہ مل سکے،جوڈاکٹرنریندرکے باپ دامونے ڈاکٹرامبیڈکرکے کہے پرعمل کرکے قائم کی اوراپنے بچوں کواعلیٰ تعلیم دلائی اورانہیں بھی ان کی تعلیم پرچلناسکھایا۔ذراداموکی شخصیت کایہ پہلو ملاحظہ کریں۔” ایک مرتبہ کسی کام کے سلسلے میں داداکے ساتھ راشن آفس گیاتھا۔ہمیں جس سیکشن میں بھیجاگیا۔وہاں دوکلرک ایک جوان لڑکا اورجوان لڑکی۔بیٹھے رازونیازکررہے تھے۔داداپانچ منٹ رکے۔انھیں متوجہ کرنے کی بھی کوشش کی۔ان دونوں نے نظراٹھاکربھی انھیں نہیں دیکھا۔ایک معمولی دھوتی ٹوپی والے آدمی پردھیان دینے کی ضرورت انھوں نے محسوس نہیں کی۔دادافوراً قریبی بڑے افسرکے پاس جاکرکھڑے ہوگئے اوراتنی اونچی آواز میں جوپورے آفس کوسنائی دے ،بولے،’کیااوصاحب۔تمھارے آفس میں صرف گدھے بھرے ہیں؟ صاحب ہکابکاہوگئے،پوچھا۔کیاہوا؟ دادا نے پورا واقعہ دوہرادیا۔ہماراکام خودصاحب نے ختم کرکے ہمیں رخصت کیا۔ آفس سے نکلتے ہی دادانے کہا۔کسی سے ڈرنے کانہیں۔کیا؟ اپن کیاکسی کے باپ کاکھاتاہے؟”
شخصیت اورکردارکی یہ پختگی کسی دلت توکیاعام آدمی میں بھی کم نظرآتی ہے۔”داداکی وجہ سے ہمارے گھرمیں ہمیشہ لکھنے پڑھنے کاماحول رہا۔ ہمارے چھوٹے سے گھرمیں کرسی ٹیبل بچھاکربھائی رات دیرتک پڑھائی کرتے تھے۔اس سے متاثرہوکرداداکی عمرکے تمام بزرگ والدین نے اپنے بچوں کے لیے یہ اصول مقررکرلیاتھاکہ جب تک جادھوکے گھرمیں روشنی رہے تمھیں بھی پڑھائی کرنی ہے۔میں نے ایس ایس سی میں جونمبرحاصل کیے۔انھیں دیکھ کرداداخوشی سے پاگل ہوگئے۔خصوصاً سنسکرت میں حاصل کی ہوئی میری کامیابی اوراس پرملا میڈل ان کے لیے بڑے معنی رکھتاتھا۔’برہمنوں نے ہمیں سنسکرت سیکھنے کاموقع نہیں دیا،کہتے تھے یہ دیوتاؤں کی زبان ہے۔ اب کیاکہتے ہیں وہ؟ ‘ ایسا کہتے ہوئے ان کی خوشی ناقابل بیان تھی۔”
دادابالکل بے دین تھے۔وہ کبھی مندرنہیں گئے۔کبھی پوجاآرتی نہیں کی۔انھوںنے دیوتاجیساصرف ایک شخصیت کومانااوروہ تھے باباصاحب امبیڈکر۔باباصاحب سے انھیں بے انتہاعقیدت تھی،بھگتی تھی۔اس لیے جن مہاتماپھلے کوباباصاحب اپناگرومانتے تھے انھیں دادانے بھی اپناگرومانناشروع کردیا۔مہاتماپھلے اورساوتری بائی پھلے نے عورتوں کی تعلیم کے لیے جومحنت سناتن دھرم کی مخالفت کرکے جن ناموافق حالات میں اس کی بنیادڈالی اس پرانھیں بڑافخر تھا۔ایک ان پڑھ دلت کی تعلیم سے یہ محبت حیران کن ہے۔
”ممبئی پورٹ ٹرسٹ میں داداچوتھے درجے کے کارکن تھے۔اسی زمانے میں شری ناڈکرنی چیئرمین بن کرآئے اورانھیں جب پتہ چلاکہ ہمارے ایک کارکن کابیٹاآئی اے ایس ہے توانھیں بے انتہاخوشی ہوئی۔انھوں نے داداسے ملاقات کی خواہش ظاہرکی۔ملاقات میں ناڈ کرنی صاحب نے کہاکہ بی پی ٹی کی تاریخ میں آج تک کسی بھی ادھیکاری یاکرم چاری کے بیٹے نے آئی اے ایس امتحان پاس نہیں کیا۔ تمھارے بیٹے نے یہ معرکہ سرکرلیا۔اس پرمجھے خوشی بھی ہے اورفخربھی۔میری خواہش ہے کہ تمام کامگاروں کے سامنے مثال قائم کرنے کے لیے تمھارے لیے کچھ کروں۔دادا نے جواب دیا۔’تم میرے لیے کیاکرسکتے ہو؟ مجھے کوئی اونچاعہدہ نہیںدے سکتے،میری اتنی تعلیم نہیں ہے۔اگرتم نے عہدہ دے دیاتومیں وہ کام نہیں کرسکوں گا۔’بولے ۔اگرتمھاری نوکری کی میعادبڑھادی جائے؟ اب مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے صاحب۔ میرے دوبیٹوں کی ذمہ داری توپوری ہوچکی۔دوسرے دوبھی جلدہی تعلیم پوری کرلیں گے۔اس لیے ریٹائرہونے کے بعدمجھے نوکری کی خواہش بالکل نہیں ہے۔اس سے اچھاتویہ ہوگاکہ جن بچوں کی تعلیم پوری نہیں ہوئی ایسے کسی کامگارکی میعادبڑھادی جائے اورمیرے بجائے دوسرے ضرورت مندکی ضرورت پوری ہوسکے۔”
یہ سوچ کی بلندی توبڑے بڑے لوگوں کومیسر نہیں ہے۔ڈاکٹرنریندرجادھوکے باپ کی زندگی کے ایسے بے شمارسبق آموزواقعات ہیں جو ہر دل پراثرکرتے ہیں اوران پرعمل کرنے پربھی اکساتے ہیں۔” ان میں بلاکی خوداعتمادی تھی۔کئی دفعہ انھیں دل کے دورے پڑے،مگروہ بچ نکلے،میں امریکا میں تھاتب انھیں جواٹیک ہوااتنازبردست تھاکہ ڈاکٹروں نے چندگھنٹوں کامہمان قراردیا۔سب نے امیدچھوڑدی تھی، صرف داداہارماننے کوتیار نہیں تھے۔دنیش نے مجھے فون کیا۔ میں فوراً ممبئی پہنچا اورسیدھا سینٹ جارجس اسپتال پہنچ گیا۔میرے امریکاسے ان کے لیے آن پرگھبراجائیں گے اس لیے میں نے کہاکہ ریزوربینکے کام سے بھارت آناپڑااس لیے وقت نکال کرممبئی بھی آگیا۔میرے جھوٹ کوانھوں نے تاڑ لیا اورکہنے لگے۔کائیکوواپس آیا؟ تم جب تک ڈگری لے کرواپس نہیں آئے گاتب تک ہم مرنے والا نہیں ہے۔ تم جاؤاپنی پڑھائی کرو۔جب ڈگری پاکرگھرلوٹاتب میری آنکھوں میں آنسوآگئے۔ دل کی گہرائی میں داداکی یادکی ٹیس سی اٹھی۔دل یہی کہہ رہاتھا کہ اس ڈگری کاصحیح حقدارداداہیں۔بابا امبیڈکرکی ‘سرچ فورایکسلنس’ کی تعلیم ہم بھائی بہنوں کے دلوں میں جس نے اچھی طرح بٹھا ئی وہ تھے ہمارے دادا۔ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کرمیںاپنے دیش لوٹا۔وہ بہت کمزورہوگئے تھے۔صرف دماغ صحت مندتھا۔مرتے دم تک اپنے نڈراوربے باک خیالات سے دوسروں کوحیرت زدہ کرناانھوں نے نہیں چھوڑا تھا۔انھوں نے مجھ سے ریسرچ کے موضوع کے بارے میں جانناچاہا۔اب معاشیات جیسے خشک موضوع کوسمجھانابہت مشکل تھا۔پھربھی ان کی تسلی کے لیے میں نے انھیں سمجھانے کی پوری کوشش کی۔ ان کااگلا سوال تھا۔اس کاعام آدمی کویافائدہ؟ معاشیات کے ماہرین بھی ڈگری کے جس مقصدکواکثربھول جاتے ہیںاس اصل مقصد کی انھوں نے نشاندہی کی تھی۔میں توحیرت زدہ رہ گیا۔”
ایسی بہت سی حیرتیں ”سونو” کے ہرصفحے پرموجود ہیں اورقاری کوبھی حیرت زدہ کرنے کے ساتھ ہرمشکل سے نمٹنے اورکچھ کرگزرنے کی ترغیب بھی دیتی ہیں۔ڈاکٹرنریندرکی ماں بھی کچھ کم نہ تھی۔باب ‘ماں’ کااقتباس دیکھیں۔” ارے کلکٹرکی ماں ہوں میں۔یہ اس کاپسندیدہ جملہ ،کبھی نہ کبھی ہمارے گھروالوںاورگھرمیں آنے جانے والوںکوسننے کوضرور ملاہوگا۔ اس نام سونابائی۔ہماری ماں،مگرہم سب لڑکپن سے ان کوبائی ہی کہتے ۔وجہ یہ تھی کہ ہمارے گھر میں دادی آجی کوآئی کہاجاتاتھا۔نام میںجولفظ’سونا’ ہے وہ حقیقی معنوں میں کوئی مطلب نہیں رکھتا۔کئی سالوں سے اس کے ہاتھ میں جوکنگن تھے وہ توتانبے ہی کے تھے۔بائی کے پاس داداجیسی عقل مندی نہیں۔مگرہمیشہ پوری طرح سے اس کاساتھ دیناہی اپنافرض سمجھااوراپنے خاندان کے لیے ہرقربانی دینے ہی میں اپنا زندگی کامقصدجانا۔دادا کاہمارے خاندان میں وہی مقام تھاجوگاڑی کی ہیڈلائٹس کاہوتاہے۔اس کی روشنی منزل مقصود تک پہنچاتی ہے۔مگرگاڑی کاساراانحصارتومستقل کام کرنے والے، مگربظاہرنظر نہ آنے والے انجن پرہوتاہے۔بائی کاہمارے گھرمیں وہی مقام تھا،بالکل پوشیدہ انجن کی طرح۔ اپنے بچپن میں آئی کیسی تھی؟ اگرمیں یادکروں تولگاتارکام ،کام اورکام کرتی ہوئی۔صبح ہم بھائی بہنوںکے جاگنے سے کافی پہلے جاگ کروہ کام کاج میں مصروف ہوجاتی اور رات میں بھی کافی دیرتک اس کے کام ختم ہونے کانام نہیں لیتے تھے۔
”سونو” ایک دلچسپ، چشم کشا اوردل میں اترجانے والی آپ بیتی ہے۔اس میں صرف دلچسپی نہیں بلکہ بے وسیلہ افرادکے عزم وہمت کی داستان ہے۔اس کے تمام ابواب ”ہمارے ماں باپ”،” داداکی کہانی انہی کی زبانی”،”ہم اورہماراخاندان”،”ہم سارے کے ساتے” اورموجودہ نسل” اورہرباب کے ذیلی عنوانات قابل مطالعہ اورمعلوت افزاہیں۔”زندہ کتابیں” میں ”سونو” کی اشاعت قابل تعریف ہے ۔ جس کے لیے راشداشرف کوبھرپورمبارک باد۔”سونو” بہت سی موٹیویشنل کتب اورلیکچرزسے کہیں بڑھ کرہے۔کیونکہ حقیقی زندگی کے جوسبق اس کتاب سے ملتے ہیں ۔وہ کوئی اوردے ہیں نہیںسکتا۔پھر”سونو” کی کردارنگاری ایسی بے مثال ہے کہ ”دامو”،”دادا”،آجی”اور”سونو” کے کردارایسے زندہ جاوید ہیں کہ انہیں کوئی قاری کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔یہ ان کتابوں میں سے ایک ہے جوزندگی بدل دیتی ہیں۔