پروفیسر امتیاز علی خان نے اے آئی کے ٹیکنالوجی کے استعمال سے اے سی کرنٹ کو ڈی سی کرنٹ میں تبدیل کر کے30 فیصد سے زاید بجلی کی بچت کا کامیاب تجربہ کیا۔ لوڈ شیڈنگ سے بچنے کے لیے جس سے فوری استفادے کی ضرورت ہے
*****
دنیا کے معروف اور مؤقر جریدے ‘ اکنامسٹ’ نے لنکا ڈھا دی ہے۔ بتایا ہے کہ پاکستان معیاشی استحکام کی جدوجہد میں مصروف ہے لیکن جدوجہد کے اس درخت پر ایک آکاس بیل نے جگہ بنالی ہے۔ یہی آکاس بیل ہے جو ایسی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیتی۔ یہ کون سی آکاس بیل ہے جو قومی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہونے دے رہی؟ اکنامسٹ نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بتا دیا ہے کہ یہ عمران خان ہیں۔ اس کے تجزیے کی سرخی ہے:
Imran Khan is jeopardizing Pakistan’s attempt to fix’
it’s economy’
جریدے نے ایک بات مزید بھی لکھی ہے۔اس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف بروقت فیصلے کرنے میں بھی مشکل محسوس کر رہے پیں۔ شہباز شریف کے بارے میں یہ تجزیہ کچھ پرانا ہو گیا ہے۔ یعنی یوں کہہ لیجئے کہ یہ 25 مئی کے لانگ مارچ سے پہلے کی بات ہے۔ مارچ کی ناکامی کے بعد پلوں تلے سے بہت سا پانی گزر چکا۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ حکومت نے وہ سخت فیصلے کرنے شروع کر دیے ہیں جن کی وجہ سے ایک بار تو ہماری چیخیں نکل گئی ہیں لیکن لگتا ہے ہماری یہی آہ و بکا ذریعہ نجات بن جائے گی۔ سبب؟
یہ بھی پڑھئے:
کراچی میں بجلی بحران اور کے الیکڑک کی اجارہ داری
مکالمہ: ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو تنہا چھوڑ جانے والے ایس ایم ظفر کی کہانی
منشایاد کی ”بزمِ جہاں افسانہ ہے” داستان زیست کی کہی ان کہی
اسباب اس کے دو ہیں۔ پہلا اور بنیادی سبب تو یہ ہے کہ وہ جو ہمارے ہاں یہ تاثر تقویت پا رہا تھا کہ ہمارے بعض اداروں میں تقسیم گہری ہو رہی ہے اور اس سے بعض سیاست دان فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس مسئلے کا سمجھئے کہ خاتمہ ہو گیا،صرف خاتمہ نہیں ہوا، مکمل طور پر خاتمہ ہو گیاہے۔ اس کا ثبوت بھی میسر آ چکا ہے۔ یہ جو بعض ریٹائرڈ افسروں کی پنشن کے تعلق سے خبریں سامنے آئی ہیں، نہ صرف درست ہیں بلکہ بدلے ہوئے حالات کی خبر بھی دیتی ہیں۔ اس واقعے نے سیاسی استحکام کو بنیاد فراہم کر دی ہے۔
دوسرا واقعہ وہ تکلیف دہ واقعہ ہے جس کا تعلق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے ہے۔ یہ اضافہ کیوں ناگزیر تھا، اسے سمجھنا ضروری ہے۔ حکومت پاکستان کے ماہانہ سرکاری اخراجات 45 بلین روپے ہیں۔ عمران حکومت نے تحریک عدم اعتماد کو یقینی بنتا دیکھ کر اس سیکٹر میں عوام کو جو ریلیف دیا، اس کی مالیت 102 بلین ماہانہ تھی۔ حکومت کے کل خرچ اور اس سبسڈی میں یہی ہول ناک فرق تھا جسے دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف نے معاہدے پر عمل درآمد روک دیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ جتنا قرضہ دے، اسے سبسڈی میں اڑا دیا جائے۔یہی سبب تھا کہ اس نے معاہدہ معطل کر دیا۔ دوسری طرف معیشت اس حال میں نہیں تھی کہ وہ کسی بامعنی مدد کے بغیر پاؤں پر کھڑی ہو سکتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی مدد ضروری تھی۔ اسی مدد کو یقینی بنانے کے لیے آئی ایم ایف کی شرط پوری کرتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔
یہ درست ہے کہ اس اضافے نے عوام کی مت مار دی ہے لیکن یہ تکلیف عارضی ہے۔عارضی کیسے ہے؟ یہ اشارہ ہمیں روپے اور ڈالر کے درمیان فرق سے ملتا ہے۔ یہ فرق پہلے بڑھتا جا رہا تھا، اب اس میں کمی شروع ہو گئی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس فرق میں مزید کمی ہو گی۔ ڈالر مزید کم ہو کر ایک سو اسی سے ایک سو ستر تک جا پہنچے گا۔ یہ ہدف جیسے ہی حاصل ہو جائے گا۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی کمی ہو گی اور مہنگائی بھی بتدریج سکڑتی جائے گی۔
ڈالر نیچے جا رہا ہے۔ جلد ہی قیمتوں میں بھی کمی ہوگی۔اس کے باوجود ہمیں اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے کچھ اقدامات کرنے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم قدم پیٹرولیم کے درآمدی بل میں کمی ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے ایک لائق فرزند پروفیسر امتیاز علی خان نے اس کا حل بھی تجویز کر دیا ہے۔ ہماراسب سے بڑا مسئلہ بجلی کی پیداوار کے لیے فرنس آئل اور گیس کی درآمد ہے۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے ہمارے ہاں ماضی قریب میں نہ بروقت گیس خریدی جاسکی اور نہ فرنس آئل۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ جو ہمارے ہاں مکمل طور پر ختم ہو چکی تھی، ایک بار پھر عروج پر پہنچ گئی۔
پاکستان کا یہی مسئلہ پروفیسر امتیاز علی خان کے پیش نظر تھا جس کے لیے انھوں نے طویل عرصے تک تحقیق و جستجو کی۔ پروفیسر صاحب ملک کے ممتاز ماہر طبیعیات ہیں جنھوں نے طویل عرصے تک بحریہ یونیورسٹی اور ملک کی مختلف جامعات میں پڑھایا بھی ہے اور تحقیق بھی کی ہے۔ انھوں نے برس ہا برس تک تحقیق کے بعد کسی نقصان کے بغیر اے سی کرنٹ کو ڈی سی کرنٹ میں بدلنے کا طریقہ ایجاد کیا ہے۔ اس طریقے کی افادیت یہ ہے کہ AIK )Amplified impulse kinemetics )ٹیکنالوجی کے ان کے ایجاد کردہ طریقے کے مطابق اے سی کرنٹ کو ڈی سی کرنٹ میں تبدیل کیا جائے تو بجلی کااستعمال تیس فیصد تک کم ہو جاتا ہے اور یہی اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے یعنی اتنا ہی بجلی کا شارٹ فال ہے۔ اس کی دوسری افادیت یہ ہے کہ بجلی کی تیاری کے لیے ایندھن کی درآمد کے سلسلے میں ہمارے اخراجات میں بھی اتنی ہی کمی ممکن ہے۔ یہ ایسی ٹیکنالوجی ہے جس سے فوری طور پر استفادہ کیا جا سکتا ہے یعنی اس مقصد کے لیے برسوں انتظار کی ضرورت نہیں ہوگی۔
پروفیسر امتیاز علی خان کی ایجاد کی اس سے بھی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی برآمد کر کے پاکستان اپنے زرمبادلہ میں فوری طور کھربوں ڈالر کا اضافہ کر سکتا ہے ۔ پروفیسر صاحب کا دعوی ہے کہ صرف اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے نہایت مختصر مدت میں پاکستان دست نگری سے خوشحالی کی منزل پر پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان کے اس قابل فخر فرزند نے تو اپنا کام کر دیا ہے، اب یہ فیصلہ سازوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مختلف مافیاؤں کی ریشہ دوانیوں کو شکست دے کر اس ٹیکنالوجی سے استفادے کی سبیل کریں۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف اس طرح کے مؤثر اور تخلیقی آئیڈیاز کی قدر کرتے ہیں، کیا یہ آئیڈیا ان کی توجہ حاصل کر پائے گا؟