آج اردو کے ایک بڑے شاعر’ناقد اور محقق علی سردار جعفری کا یوم پیدائش ہے۔ وہ 29 نومبر 1913ءکوعلی سردار جعفری اترپردیش کے گونڈہ ضلع کے بلرامپور میں 1913 میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے لکھنؤ میں ایک مذہبی ماحول میں پرورش پائی تھی۔ 1933ءمیں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تاہم جلد ہی انہیں ان کے اشتراکی خیالات کی وجہ سے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ بعدازاں انہوں نے ذاکر حسین کالج دہلی سے گریجویشن اور لکھنویونیورسٹی سے ایم اے کے امتحان پاس کیے۔
یہ بھی پڑھئے:
خواجہ معین الدین ، عہد، فن اور شخصیت: ایک یادگار تقریب
پاکستان ٹیلی ویژن کا قیام جب تفریح عیاشی قرار پائی ایوبی آمریت کا استحکام مقصد
میڈیا کا مسئلہ سلجھنے کی بجائے مزید الجھ گیا
ان کی ذہانت کا یہ عالم تھا کہ آٹھ سال کی عمر میں وہ انیس کے مرثیوں میں سے 1000 اشعار روانی سے پڑھتے تھے۔ وہ صرف پندرہ برس کے تھے جب انہوں نے شعر کہنا شروع کیا۔ انہوں نے ان کا ادبی سفر افسانہ نگاری سے شروع کیا تھا۔ 1938 میں ان کا پہلا افسانوں کا مجموعہ “منزل” شائع ہوا تھا۔ مگر اس کے بعد انہوں نے شاعری کا رُخ کیا۔
علی سردار جعفری اردو ادب کی ترقی پسند تحریک کے ہر اول دستے میں شریک تھے۔ وہ نظم و نثر پر یکساں عبور رکھتے تھے۔ ان کی تصانیف میں لکھنؤ کی پانچ راتیں، پتھر کی دیوار، ایک خواب اور، پیراہن شرر ،لہو پکارتا ہے ،نئی دنیا کو سلام، ایشیا جاگ اٹھا، خون کی لکیر، امن کا ستارہ، صبح فردہ، میرا سفر اور سرحد کے نام سرفہرست ہیں۔ انہوں نے دو فلموں دھرتی کے لال اور پردیسی کے نغمات بھی تحریر کیے۔
جناب علی سردار جعفری نے یکم اگست 2000ءکو ممبئی میں وفات پائی اور ممبئی ہی میں سانتا کروز کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔