میڈیا کا مسئلہ سلجھنے کے بجائے مزید الجھ گیا ہے۔ مخالف کی آواز اب کوئی نہیں سنتا، میڈیا ہاوسز اور صحافی بریکٹ ہو چکے اور شور اتنا ہے کہ خدا کی پناہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں زندگی کی پانچ دہائیوں سے زائد گزارچکا۔ اپنے ملک میں ہونے والے کئی اہم واقعات نظروں کے سامنے گزرے۔ میں اپنے خیالات کااظہار کرناچاہتا ہوں۔ چونکہ سوشل میڈیا بہت موثر ذریعہ ابلاغ بن چکا ہے۔ میرا موضوع بھی میڈیا کا مسئلہ ہے، اس لئے یہ خط آپ کے ‘آوازہ’ میں اشاعت کیلئے ارسال کررہا ہوں۔
سماج اور سیاست میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔ جہاں ریاست کے اہم اداروں نے کئی ایسے فیصلے کئے۔ جنہیں ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ حالیہ دس پندرہ برسوں میں ذرائع ابلاغ بہت زیادہ اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ چینلز اور انٹرنیٹ کی ویب سائیٹس پر چلنے والی خبریں اور تبصرے سچ اور جھوٹ کامتنجن بن چکے ہیں۔
اب اخبارات والے دور کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔ جب مصدقہ اطلاعات ہی ملتی تھیں، غلطی کی صورت میں تصحیح اور معذرت شائع کی جاتی تھی۔ اب حالات یہ ہیں کہ سیاستدان بھی مرضی کا بول جاتے ہیں۔ چینل بھی ویسے کا ویسا ہی سچ کی صورت بیان کرجاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
نسلہ ٹاور کا بحران کن ناقابل تصور بحرانوں کا پیش خیمہ بن سکتا ہے؟
چھبیس نومبر: جاگیر داری کی آخری نشانی نواب کالا باغ کی آج برسی ہے
سعید آسی نے اپنی تازہ کتاب میں قوم کے دکھوں کو زبان عطا کردی
میں ماضی کا حوالہ دیتا ہوں۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے چھٹے نمبر کے جنرل ضیاء الحق کو ملک کا آرمی چیف بنا کر سب کو حیرت میں ڈال دیا تو جواب میں جنرل ضیاء نے بھی پوری دنیا کو پریشان کیا۔ پانچ جولائی 1977 کی صبح اس اس کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ ملک پر قبضہ کرتے ہوئے بغیر ایک گولی چلائے بغیر بھٹو اور ان کے ساتھیوں کو حراست میں لے لیاگیا۔
وائٹ پیپر
فوج کے ترجمان بریگیڈئیر تفضل صدیقی نے اس موقع پر جنرل ضیاء الحق کو بتایا کہ بھٹو عدلیہ، پریس اور دیگر اداروں کے معاملات کیسے چلاتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ صدیقی صاحب نے بھٹو کے غیر جمہوری اقدامات کو دستاویزی شکل دینے کا بھی مشورہ دیا۔
ضیاء الحق نے یہ ذمہ داری ایک ہفت روزہ آؤٹ لک کے ایڈیٹر آئی ایچ برنی کو سونپی۔ یہ جریدہ بھٹو نے بند کردیا تھا۔ اس ٹاسک کا مقصد بھٹو کی پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکناتھا۔ انہوں نے وائٹ پیپر تیارکیا اور پریس میں تقسیم کردیا گیا۔
بھٹو پر لگائے گئے الزامات میں پریس پر عائد پابندیوں کو بڑھاچڑھا کر بیان کیاگیا۔ لیکن جنرل ضیاء الحق خود بھی اخبارات سے خوفزدہ تھا۔ ضیاء نے اس کا حل یہ نکالا کہ میڈیا کو مختلف مراعات اور سہولتیں دے کر اپنی طرف کرنے کاکامیاب تجربہ کیا۔ نیوز پرنٹ کے کوٹے دیئے گئے جنہیں عام مارکیٹ میں فروخت کرنے کی کھلی اجازت تھی۔
پریس نے ضیاء کی مخالفت سے ہاتھ اٹھالیے۔ حتیٰ کہ اس کے بعد آنے والی جمہوری حکومتوں میں بھی اگر پریس آزاد ہوا تو اس نے مقتدر اداروں پر کبھی سوال نہیں اٹھائے۔ نوازشریف نے رفیق تارڑ کو صدر بنایا۔ عدلیہ کے ساتھ جو کچھ ہوا حتیٰ کہ اس پر حملے کو بھی زیادہ آڑے ہاتھوں نہ لیاگیا۔ ایک موقع ایسا آیا کہ ملک کے بڑے اخباری گروپ کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس وقت بھی عدلیہ نے اس کاساتھ نہ دیا۔
خاموش تماشائی
نوازشریف بھی جنرل ضیاء الحق کی ٹیم میں سے تھے۔ اقتدار ملنے پر ان کے روئیے میں بھی آمرانہ طرزعمل واضح طور پر پایا جاتا تھا۔ انہوں نے بھی ان اداروں کو اپنے قابو میں رکھنے کے لئے اقدامات کئے۔ بظاہر ہر مقصد پارلیمنٹ کو مضبوط بنانا تھا۔ اس دوران اگرچہ انہیں عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ بشمول آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ایسے حالات میں میڈیا کا مسئلہ یہ ہے اس نے بھی ان کا کوئی ساتھ نہ دیا۔ اس کی بڑی وجہ ان کا غیرشریفانہ طرزعمل تھا۔ حتیٰ کہ ان کی 1999 میں حکومت برطرف بلکہ ایک دلچسپ ڈرامے کے بعد تبدیل کردینے پر بھی میڈیا کاکردار تقریباً خاموش تماشائی جیسا تھا۔ ظاہر ہے میڈیا بھی دیگر اداروں کی طرح خار کھائے بیٹھا تھا۔
پرویز مشرف نے میڈیا کو اچھے انداز سے ہینڈل کیا۔ میڈیا نے ابتدا میں ہی مشرف کو پاپولر لیڈر اور نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ مشرف دور میں الیکٹرانک میڈیا تیزی سے پھیل رہا تھا۔ مشرف نے اسے راستہ دیا کہ وہ اس احسان کی وجہ سے دبا رہے گا۔ اس موقعہ کو میڈیا میں موجود آزادی صحافت کے جیالوں نے بھی استعمال کرنے کی ٹھانی۔
مشرف کا اصل چہرہ
میڈیا کی کایا پلٹ اس وقت نظرآئی جب عدلیہ بحالی کی تحریک چلی۔ اس میں عوام کی بھرپور شمولیت اور گہری دلچسپی تھی۔ اس کے پیش نظر مشرف کو بھی اپنا آمرانہ چہرہ دکھانا پڑا اور دومرتبہ چینلوں اور اخبارات پر پابندی عائد کی گئی۔ پیمرا کو سنسرشپ کے لئے استعمال کیاگیا۔ لیکن عوامی دباؤ کے تحت جنرل مشرف ان پابندیوں کو ہٹانے پر مجبور ہوگیا۔
ذرائع ابلاغ کی آزادی نے لوگوں تک معلومات کی فراہمی جہاں آسان بنادی ہے، وہیں ایک ایک لمحے کی خبر کا نظریہ ریاست کے تمام اداروں کے لئے پریشانی کاباعث بن چکا ہے۔ قلم سے نکلنے والے لفظ اب منہ سے ادا کئے جانے لگے ہیں۔ ان کی شدت اور اثرات کہیں زیادہ ہوچکی ہے۔
انتخابات کے نتیجے میں جمہوریت جیسی تیسی ایک بارپھر بحال ہوگئی۔ شہری آزادیوں میں اظہار رائے بھی اہم تھی۔ اب میڈیا کی نگاہیں سیاسی اور عوامی مسائل پر مزید گہری ہوگئی ہیں۔ لیکن دو دھاری تلوارتھی۔ جہاں ایک طرف کوئی معاملہ خفیہ نہیں رہا اور ہر خرابی منظرعام پرآجاتی ہے وہیں کچھ اداروں اور سیاسی قوتوں کو اس سے فائدہ اٹھانے کا بھی موقع مل جاتا ہے۔
جانب دار میڈیا
اب میڈیا میں ایک جانبداری کا عنصر نمایاں نظر آنے لگا ہے۔ جس میں اگرچہ سچ کی تلاش اور بیان کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ وہیں اپنی سوچ کو درست ثابت کرنے کا طرز عمل بھی فروغ پانے لگا ہے۔ اگرچہ الیکٹرانک میڈیا میں مباحثے اور مکالمے ہوتے ہیں۔ ان میں اصولی طور پر کسی بھی مسئلے اور معاملے کو زیربحث لاکر کسی نتیجے پر پہنچناچاہیے، مگر اکثر ایسا کم دیکھنے کوملتا ہے۔ محض الزام تراشی اور دھونس دھاندلی پر مبنی گفتگو ہی نشر ہوتی ہے۔ گرماگرم بحث سے پروگرام کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ جن میں سطحی جملے بازی کو حتمی رائے خیال کیاجاتا ہے۔ لیکن کوئی ٹھوس دلیل دینے یا شواہد کے ساتھ بات کرنے کارجحان کم ہی پایا جاتا ہے۔
حساس موضوعات
اب اگرچہ حساس اداروں ،عدلیہ ،پارلیمنٹ سمیت تمام امور اداروں پر کھل کرنہ صرف بات ہوتی ہے بلکہ انہیں چیلنج بھی کیاجاتا ہے۔ لیکن جمہوریت اور جمہوری سوچ کو تقویت دینے اور مضبوط کرنے کے لئے واقعتاً اقدامات نہیں کئے جاتے۔ حکمران ٹولے کی نااہلی ، کرپشن اور دیگر سیکنڈلز کو بے نقاب ضرور کیا جاتا ہے مگر پارلیمنٹ اور جمہوریت کی حمایت شاید اس انداز میں نہیں ہوتی۔ اگرچہ مختلف سوچ رکھنے والے اپنی تحریر اور تقریر سے اظہار رائے کرتے ہیں۔ مگر ان میں بھی سمت کا تعین اپنے اپنے انداز سے کیا جارہا ہے، دائیں بائیں کی تفریق بھی ماضی جسی نہیں رہی لیکن سوچ اور عمل کبھی کبھار چغلی کھاتے ہیں۔
سیاستدانوں کایہ حال ہے کہ اپنے ایجنڈے پر کام کرنے یا تبدیلی کانعرہ لگاکر سیاست کوآگے بڑھانے کی خاطر کئی بار غیر جمہوری اقدامات کی حمایت کردیتے ہیں۔ میڈیا انہیں محض اس لیے نمایاں جگہ دیتا ہے کیونکہ حتمی مقصد حکمرانوں پر دباؤ ڈالنا ہوتا ہے۔ مگر اس سب کے نتیجے میں عوام کو کسی قسم کی جمہوری سوچ یا سیاسی سمت نہیں ملتی ۔ وہ اہم قومی امور پر بھی بے سمتی کا ہی شکار رہتے ہیں۔ایسا پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ جوزف گوئبلزکا موقف تازہ ہوجاتاہے کہ جھوٹ کثرت سے دہرائیں تو وہ سچ بن جاتا ہے۔
الجھاوا
سماج میں سوچ کی ایسی تفریق پیدا ہوگئی کہ اپنے مسلک، جماعت اور گروہ کو اہمیت دی جاتی ہے، مخالف کی آواز بھی نہیں سنتے۔ میڈیا ہاوسز اور صحافیوں نے بھی خود کو بریکٹ کرلیا ہے، اس سب میں بھی میڈیا میں ذمہ دار لوگوں کی کمی نہیں مگر زیادہ شور میں اچھی اور مستند آواز سب تک پہنچنا مشکل ہوجاتی ہے۔ معاملہ سلجھنے کی بجائے مزید الجھ گیا ہے۔ یہ سب تو دنیا میں بھی ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں تو یہ بات کا بتنگڑ بن گیا ہے۔
میڈیا کا معاملہ سلجھنے کے بجائے مزید الجھ گیا ہے۔ مخالف کی آواز اب کوئی نہیں سنتا، میڈیا ہاوسز اور صحافی بریکٹ ہو چکے اور شور اتنا ہے کہ خدا کی پناہ