باؤ جی
سہیل وڑائچ اور ان کے ساتھو، جانتے ہو، مفاہمت کے سلسلے میں تمھاری کوششیں ناکام کیوں ٹھہریں، تم نہیں جانتے کہ وہ توتا چشم کیوں ہے اور میں نے کیا کیا بھگت رکھا ہے۔
سہیل میاں !
امید ہے آپ بخیر تمام ہونگے،گو آپ کے مکتوب بنام “باؤجی” لکھنے کے کافی سمے بعد آپ سے مخاطب ہونے کی وجہ “باؤجی”مکتوب بعد کلثوم نواز کی طبیعت کی خرابی رہی،جس کی تیمارداری میں مجھ سمیت عالمِ ارواح کے تمام رہائشی جت گئے تھے،اسی درمیان آپ کے دوسرے لچھے دار مضمون کو بھی دیکھا کہ جس میں آپ نے سرتوڑ کوشش کی ہے کہ کسی بھی طرح “عمران خان” کے لئے سیاسی جماعتوں سے مفاہمت کی راہ ہموار کروا دی جائے۔۔۔مگر لگتا ہے کہ آپ کی عمرانڈو بیل منڈھے چڑھنے کے لیئے تیار نہیں۔۔۔ خیر۔۔
سنا ہے کہ آج کل آپ تمام پاکستانی دولت مندوں کے دستر خوانوں سے تناول اور انٹرویو کے بعد فارغ البال ہوکر ہم مُردوں کے حالات و واقعات اور احساسات کی کیمیا گری میں جتے ہوئے ہیں،لہذا سوچا کہ کیوں نہ آپ سے گپ شپ کر لی جائے اور ویسے بھی آپ ایک معروف صحافی اور اپنی طبع کے منفرد فرد ہیں جس کو ہر اُس تک پہنچنے کا ہنر آتا ہے جو ہر کسی کے مقدر میں نہیں ہوتا،اسی لئے آپ کے لئے عالمِ ارواح کے در کھلے رکھے جارہے ہیں کہ آپ عالمِ ارواح آئیں اور یہاں بھی دولت مندوں اور اہم عہدوں کے افراد سے رابطہ کرکے دنیا کو ان کے حالات سے آگاہ کریں۔۔۔یقین جانیئے،بہت اچھا لگا کہ اب آپ مقامی اشرافیہ کے دسترخوان کو ہیچ جان کر عالمِ اروح کے مکینوں کی خبر گیری پر متمکن کر دیئے گئے ہیں،اب ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ فرائض آپ کو مقامی اشرافیہ نے تفویض کئے ہیں یا عالمی اشرافیہ کی آنکھ کا تارا بھی آپ ہو چلے ہیں۔۔۔
سہیل صاحب
اگر آپ مقامی اور عالمی اشرافیہ کا ملغوبہ بھی ہیں تو ہمیں قبول ہیں کہ آپ کی پرواز کو دیکھتے ہوئے ہم بھلا کس طرح آپ کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
ابھی چند دنوں پہلے باؤجی کی شریک حیات کی آپ سے سرگوشیوں کا نامہ پڑھا تو دل جھوم جھوم اٹھا کہ کوئی تو ہے جو زندوں کے علاوہ مُردوں کی بھی خبر گیری رکھتا ہے۔۔۔ایک لمحے غصہ ضرور آیا کہ آپ نے صرف دولت مند اور معروف افراد کی خبر گیری تک خود کو حسب عادت محدود کر رکھا ہے تبھی چڑھتے ہوئے سورج کی مانند “باؤ جی” ہی کی شریک حیات کی خبر گیری لی،مگر دوسرے ہی لمحے اچھا لگا کہ اس بہانے ہم بھی ایک مکتوب آپ کے نام کرنے کے لائق بنے۔۔۔وگرنہ تو آپ نے ہمیں “شایان” سے بھی کم درجے پر فائز کر دیا تھا،اب ہم نہیں جانتے کہ لندن والے “شایان” کی وہ کونسی ادا آپ کو بھا گئی کہ ہم ایسوں کو چھوڑ کر آپ “شایان” کے گرویدہ اور دلدار بن بیٹھے۔۔۔۔خیر چھوڑیئے ان باتوں کو۔۔۔
یہ بھی پڑھئے:
فیض کی ‘آج بازار میں پابجولاں چلو’ کے راز
فیض کی ‘آج بازار میں پابجولاں چلو’ کے راز
نو مئی :سازش یا ”سیاسی معاملہ ”؟
ورلڈ کپ اور عزت، دونوں بھارت کے ہاتھ سے کیوں نکلے؟
ہم آج آپ سے کچھ دل کی باتیں کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ یہ بھی شکوہ آپ کے گوش گذار کرانا چاہتے ہیں کہ مانا کہ ہمیں عالمِ ارواح میں آئے ہوئے دو ڈھائی دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ ہو چلا ہے۔۔۔مگر ایسی بھی کیا ناراضگی کہ آپ ہمیں نظر انداز کرکے “” کے اصل حقائق جاننے سے دور رہیں،مانا کہ وہ پوت ہمارا ہی ہے اور شاید ہیرو آپ کا۔۔۔مگر پوت کے پاؤں پالنے میں ہی پتہ چل جانے کے مصداق کم از کم ہم اپنے پوت “عمران خان نیازی” کو تو آپ سے زیادہ ہی جانتے ہوں گے۔۔۔خیر چھوڑیئے یہ باتیں۔۔۔اصل بات اور ملکی سیاسی صورتحال پر آپ کے لچھے دار مکتوب کی جانب آنے سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ ہمارا نام اکرام اللہ نیازی ہے اور ہمیں ہی “عمران خان” کے اکلوتے باپ ہونے کا شرف حاصل ہے جیسا کہ شوکت خانم کو ان کی ماں ہونے کا۔۔۔ہماری منکوحہ تو آپ سب کے ذکر میں “ورد” کی طرح رہتی ہیں جبکہ ہم دم سادھے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔۔۔وہ تو بھلا ہو چڑھتے سورج “باؤجی” کا کہ آپ نے آج کی سیاسی صورتحال کے بارے میں کلثوم نواز کے احساسات کو ان تک پہنچایا،سو ہم نے بھی سوچا کہ آپ کے نام ایک مکتوب لکھ کر ہم بھی عوام تک اپنے احساسات پہنچادیں۔۔۔کیونکہ آپ نے شاید طے کر رکھا ہے کہ پرانے مُردوں کے احساسات عوام تک نہیں پہنچانے کہ شاید آپ اور یوتھ کی نظروں میں ہم “آؤٹ ڈیٹیڈ” ہو چکے ہیں۔۔خیر۔۔۔
اب تھوڑا ذکر “باؤ جی” کے مکتوب کا ہو چلے جس میں آپ انتہائی لجاجت کے ساتھ میاں صاحبان سے میرے بیٹے عمران خان سے مفاہمت یا اس کی حماقتوں کو در گذر کرنے کا کہہ رہے ہیں_اس لمحے یاد دلا دوں کہ اس کو جنم دینے والا میں ہی ہوں،لہذا اس کی خصلتوں سے مجھ سے زیادہ آپ کیسے وقف ہو سکتے ہیں۔؟ مانا کہ میں نے اکلوتے بیٹے ہونے کی بنا لاڈ پیار میں پوری کوشش کی کہ عمران خان کو اعلی تعلیم دلواؤں مگر اس ناکارہ نے آکسفورڈ جا کر بھی تھرڈ کلاس میں پاس ہو کر میرا ہی منہ کالا کیا۔۔۔نہ صرف یہ بلکہ اس عمران خان نے لندن میں رہ کر وہ گل کھلائے کہ جس میں سوائے “ندامت” کے اور کچھ میرے ہاتھ نہ آیا،مجھے پاکستان کے معروف عالمی شہرت یافتہ اسپورٹس صحافی قمر احمد کا وہ احسان آج تک یاد ہے جو کہ قمر احمد نے پاکستانی ہونے کی بنا عمران خان کو اپنا ذاتی فلیٹ رہنے کے لئے دیا اور میرے پیسے بچانے والے پوت کی دامے درمے اور سخنے مدد کی،مگر اس نا ہنجار نے کراچی کے اس قد آور صحافی قمر احمد کی جانب سے دی گئی رہائش کی سہولت کو بھی اپنی عیاشیوں سی داغدار کیا،جس پر میں آج تک صحافی قمر احمد کے سامنے شرمندہ ہوں،اسی لئے میں کراچی پریس کلب کے ارد گرد نہیں پھٹکتا،جہاں روز قمر احمد آکر آج بھی محفل سجاتے ہیں۔۔۔
جب ذکر صحافیوں کے میرے پوت عمران خان پر احسانات کا نکل ہی آیا ہے تو مجھے یاد آیا کہ عمران خان کو اسٹار بنانے والوں نے جب شہرت یافتہ بنا دیا تو لاہور کا نوجوان فوٹو گرافر صحافی آصف محمود جنونیوں کی طرح عمران کی چاہ میں باولے ہوئے جارہے تھے اور اسی چاہت میں وہ ایک روز ہمارے گھر تک بھی پہنچ گئے تو میں نے انہیں چاچا خان بیگ کے ذریعے بلا کر سمجھایا تھا کہ وہ اپنا کام کریں اور عمران ایسوں کی فضولیات سے خود کو بچائیں،سنا ہے کہ آصف محمود وضع قطع کے تہذیب یافتہ صحافی ہیں،سو انہوں نے “انڈیپینڈینٹ اردو” میں یہ واقعہ ان الفاظ سے درج کیا ہے کہ۔۔۔
سرخ اینٹوں سے بنے عمران خان کے گھر میں دائیں جانب ڈرائنگ روم میں انہوں نے ہمیں لے جا کر بٹھا دیا، پانی پلایا۔ چند ہی لمحوں میں وہاں بڑی عمر کے ایک بزرگ آئے، سمارٹ سے، کلین شیو، دراز قد۔
یہ عمران خان کے والد جناب کرام اللہ خان نیازی تھے۔ اور یہ ان سے میری پہلی اور آخری ملاقات تھی۔
یہ ایک مختصر سی ملاقات تھی لیکن یہ نہ صرف آج بھی یاد ہے بلکہ زندگی کے اس سفر میں یہ بار بار یاد آتی رہتی ہے۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہ کمرے میں داخل ہوئے، مصافحہ کیا، سامنے صوفے پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے، ’میں آپ کی باتیں سن رہا تھا، اس لیے آپ کو اندر بلایا۔ مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے، کیا آپ میری بات توجہ سے سن رہے ہیں؟‘
’جی سر، توجہ سے سن رہے ہیں۔‘
’دیکھیے، آپ ابھی بچے ہیں۔ آپ کے سامنے ساری زندگی پڑی ہے۔ یہ عمران کے پیچھے بھاگنا اور تصویریں بنانا یا کسی اورکے پیچھے بھاگنا، یہ فضول کام ہے۔ اس کا آپ کو فائدہ نہیں ہو گا۔ آپ کو اپنی تعلیم پر توجہ دینی چاہیے۔ محنت کریں۔ پڑھ لکھ کر اپنا مستقبل بہتر بنائیں۔ آپ کے خاندان کو اور آپ کے ملک کو آپ کی ضرورت ہے۔‘
یہ ملاقات اس مختصر سی ہدایت کے ساتھ ہی ختم ہو گئی”
دراصل صحافی آصف محمود اپنی تربیت اور اعلی صحافتی اقدار کے تحت عمران خان کے بارے میںمیرے کہے گئے “خود غرض” “دروغ گو” اور طوطا چشم کے الفاظ حذف کر گئے،جبکہ پوری قوم کے سامنے میرے بیٹے عمران خان نے وہی کچھ کیا جو میں نے آصف کو بتایا تھا۔۔۔۔خیر۔۔۔
سہیل صاحب
آپ اور آپ ایسے بہت سوں نے عمران خان کو سیاسی سمجھ کر وفد کی صورت میں سمجھانے اور مفاہمت کا راستہ دکھانے کی بہت کوشش کی مگر “ڈھاک کے تین پات” مانند عمران خان کو سمجھانے کی کوششیں قوم کی طرح ناکامی سے دوچار آپ سب وفدیوں کا مقدر ہی ٹہری۔۔۔بس آخر میں یہی کہنا ہے کہ آپ اور قوم کے عمران خان عقیدہ پرستوں کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ شہرت اور عقیدہ پرستی کے گورکھ دھندے سے خود کو دور رکھیں اور قوم کو سیاست کے نشیب و فراز سے آگاہ کرکے سیاست کے نام پر ہر دروغ گو،مطلب پرست اور طوطا چشم رہنما سے ملک کو بچائیں اور قوم کے نوجوانوں کو بتائیں کہ وہ اپنا حق رائے دہی کسی بھی چھبیلے ٹائیگر اور غیر سنجیدہ فرد کے حق میں استعمال نہ کریں اور نہ ان نوجوانوں کو “عقیدہ پرستی” کی دلدل میں دھکیلیں کہ وہ اس کی عملی شکل کراچی ایسے تعلیم یافتہ شہر میں ایم کیو ایم کی آمد کے بعد ” بے علمی اور بے عملی کی صورت دیکھ سکتے ہیں۔
چہ جائکہ ابھی ہماری قوم کے ان اثاثے مانند نوجوانوں نے زندگی میں بہت کچھ کرنا ہے۔۔۔۔سو لللہ انہیں عقیدہ پرستی سے دور رکھنے اور سیاسی شعور فراہم کرنے کی کوئی سبیل نکالیں تاکہ یہ نوجوان اپنی زندگیوں کو باعمل بنا سکیں۔
والسلام
اکرام اللہ نیازی
عالمِ بالا
کمرہ نمبر804-A
سہیل وڑائچ اور ان کے ساتھو، جانتے ہو، مفاہمت کے سلسلے میں تمھاری کوششیں ناکام کیوں ٹھہریں، تم نہیں جانتے کہ وہ توتا چشم کیوں ہے اور میں نے کیا کیا بھگت رکھا ہے۔