ADVERTISEMENT
1959ء میں فیض صاحب لاھور سینڑل جیل میں تھے۔ وہ اُن دنوں علیل رھتے تھے۔ ایک روز اُن کے دانت میں سخت درد اُٹھا- جیل کے حکام نے اُنہیں پولیس کی حفاظت میں چیک اپ کرانے کے لیے دانتوں کے اسپتال بھیج دیا۔ ڈاکڑ صاحب اُن کے پرستاروں میں سے تھے لہٰذا اُنہوں نے روزانہ چیک اپ کے لیے بلانے کا طریقہ اختیار کیا تا کہ اس طرح جیل کے ماحول سے کچھ دیر کے لیے اُنہیں نَجات حاصل ھو جایا کرے.
یوں روزانہ اُنہیں جیل کی گاڑی میں اسپتال لایا جاتا۔ ایک دن ایسا ھُوا کہ جیل والوں کے پاس گاڑی نہیں تھی- جیلر نے اُنہیں تانگہ میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اِس صُورت میں انہیں ھتھکڑی پہننا ضروری تھا۔ فیض صاحب مان گئے- اس طرح وہ ھاتھوں میں ھتھکڑیاں پہنے تانگہ کی پچھلی نشست پر بیٹھ گئے.
پولیس کے سپاھی بندوق لیے اُن کے ساتھ تھے۔ اس حال میں وہ لاھور کے گلی کوچوں سے گزرے ، انہوں نے تازہ ھوا کو محسوس کیا۔ بازاروں سے گزرتے ھوئے خوانچے والے، تانگے والے ، بیل گاڑیاں سب بچھڑے ھُوئے یاروں کی طرح اُن کے قریب سے گزرتے رھے-
عجیب منظر تھا. وہ لاھور شہر کی جانی پہچانی سڑکوں سے گزرتے رھے شہر اور اھلیانِ شہر یہ تماشا دیکھتے رھے- شاید کچھ لوگوں نے اُنہیں پہچان بھی لیا ھو.ارد گرد لوگوں کا ھجُوم جمع ھو گیا جن میں نانبائیوں سے لیکر صحافیوں تک سبھی شامل تھے-
یہ بھی پڑھئے:
اس طرح ایک جلوس کی شکل بن گئی- فیضؔ صاحب کہتے تھے میں نے زندگی میں ایسا دلکش جلوس نہیں دیکھا- اسی واقعہ سے متاثر ھو کر اُنہوں نے اپنی مشہورِ زمانہ نظم لکھی “آج بازار میں پابجولاں چلو۔”
آج بازار میں پا بجولاں چلو
چشمِ نَم ، جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابجولاں چلو
دَست اَفشاں چلو ، مَست و رَقصاں چلو
خاکِ برسر چلو ، خُوں بہ داماں چلو
راہ تکتا ھے سب شہرِ جاناں ، چلو
آج بازار میں پابجولاں چلو
حاکمِ شہر بھی ، مجمعِ عام بھی
صُبحِ ناشاد بھی ، روزِ ناکام بھی
تیرِ الزام بھی ، سنگِ دشنام بھی.
اِن کا دم ساز ، اپنے سِوا کون ھے ؟؟
شہرِ جاناں میں اَب با صفا کون ھے ؟؟
دستِ قاتل کے شایاں رھا کون ھے ؟؟
رختِ دل باندھ لو ، دل فگارو چلو
پھر ھمِیں قتل ھو آئیں یارو ، چلو
آج بازار میں پابجولاں چلو
( سوشل میڈیا سے)