کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ بڑھتے ہوئے اخراجات ریورس گیئر لگا کر کم ہو جائیں۔ ہماری آپ کی معمول کی زندگی میں تو اس کی شہادت نہیں ملتی لیکن حج کے اخراجات میں ایسا ہو گیا ہے۔ ہمارے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور انیق احمدتھے تو فی الاصل تو شاعر پھر اینکر ہوئے اور قرآن حکیم میں کھو گئے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور کیسے بن گئے۔ اس کی خبر انھیں بھی نہیں ہو سکی۔ وزیر بن کر انھوں نے سوچا کہ اچھا اگر یہ منصب سنبھال ہی لیا ہے تو کیوں نہ کچھ کام بھی کیا جائے۔
بس، انھوں نے وزارت مذہبی امور مختلف شعبہ جات پر توجہ کی۔ ان میں ایک شعبہ حج کے اخراجات کا بھی تھا۔ اندازہ یہ تھا کہ تھوڑے سے حسن انتظام کی ضرورت ہے، ان میں خاطر خواہ کمی ہو سکتی ہے۔ لڑکپن اور نوجوانی میں دیکھا گیا ہے کہ کوئی دھن انیق بھائی کے ذہن میں سما جاتی تو نتیجے پر پہنچ کر ہی دم لیتے ۔ حج کے اخراجات کے باب میں بھی یہی کچھ ہوا۔ اب حج پالیسی کا اعلان ہوا ہے تو معلوم ہوا کہ ایک لاکھ روپے تو فوری طور پر کم ہو گئے۔ کچھ دیگر مدات میں بھی لگتا یہی ہے کہ یہی رجحان رہے گایعنی بچت ایک لاکھ روپوں سے بھی بڑھ جائے گی، ان شااللہ۔ انیق احمد کا یہ کارنامہ تفصیل کا متقاضی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
جناب سہیل وڑائچ کی مہا بھارت اور سینیٹر عرفان صدیقی
غزہ کے بدقسمت انسان اور مہذب دنیا کے خوش قسمت جانور
نوازشریف سے نہیں، ”چابی برداروں” سے رجوع کریں
انتخابی منشور محض کاغذ کا ٹکڑا ہے یا آئینی دستاویز؟
چند روز ہوتے ہیں، جناب انیق احمد سے چائے خانہ میں ملاقات ہوئی۔ یہ مقام ویسے تو ظاہر ہے کہ کسی خؤش ذوق تاجر نے خوش ذوق گاہکوں کے لیے بنائی ہوگی۔ اسی لیے یہاں بیٹھنا صرف ایک تجارتی سرگرمی نہیں رہتی بلکہ اس کا تعلق خوش طبعی کے سا استوار ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی اس روز بھی ہوا۔ انیق بھائی کے نشست ہوئی جیسے جیسے رات بھیگتی چلی گئی، جوبن پر آتی چلی گئی۔ کہنے لگے کہ یار، میں نے اپنی وزارت کے مختلف شعبوں کا بڑی باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا ہے اور میرا اندازہ ہے کہ ذرا سی محنت کی جائے تو بہت سے معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔
‘ مثلاً؟’
دوستوں نے سوال کیا تو کہنے لگے کہ حج کا معاملہ ہی لے لیں۔ اس کے اخراجات عام آدمی کی برداشت سے بڑھ کر ہیں لیکن اگر متعلقہ امور کا از سر نو جائزہ لیا جائے اور سنجیدگی کے ساتھ ان پر توجہ دے کر انھیں سلجھانے کی کوشش کی جائے تو اخراجات میں نمایاں کمی ہو سکتی ہے۔ کہنے لگے کہ میں اسے ترجیح اول بنا کر کام شروع کر دیا ہے۔ ان شااللہ جلد ہی نتائج برآمد ہوں گے۔ دو ایک روز ہوتے ہیں، انیق صاحب نے حج پالیسی کا اعلان کر دیا ہے۔ اس محنت کا فوری نتیجہ تو یہ نکلا ہے کہ اخراجات میں ایک لالھ روپے کی کمی ہو گئی ہے۔ کچھ مدات ایسی بھی ہیں جن کا تعلق حالات سے ہے۔ حالات بہتر رہے اور اللہ تعالی کی کرم نوازی جاری رہی تو کوئی وجہ نہیں کہ عازمین حج پر پرنے والے مالی بوجھ میں کچھ اور کمی ہو جائے گی، ان شاللہ۔
بات یہ کہ انسان خلوص کے ساتھ محنت کرنے تو اللہ تعالی جھولی بھر دیتا ہے۔ انیق احمد کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ بعد میں آنے والی حکومت نے بھی اگر ان ہی خطوط پر کام جارہ رکھا تو کوئی وجہ نہیں کہ اس اہم ترین عبادت کے اخراجات میں مزید کمی نہ ہو جائے۔ انیق احمد نے جو یہ کام شروع کیا ہے، میری نگاہ میں تو ایک صدقہ جاریہ ہے۔ آنے والے ادوار میں اس معاملے میں جتنی بہتری آئے گی، اس کے اجر میں انیق احمد بھی شریک ہوں گے۔