ہمارے دوست احسان کوہاٹی صحافی اور ان معنوں میں ہمارے کلاس فیلو ہیں کہ ہم دو ہفتوں کی میڈیا ورکشاپ میں ساتھ تھے ، وہ بتانے لگے کہ میری صاحبزادی بریرہ خان دوسری جماعت میں پڑھتی ہیں انہیں اسکول لے جانے کی ذمہ داری مجھ پر ہےمیری بیٹی میرے ساتھ جانا پسند کرتی ہے اور ہنسی خوشی ساتھ جاتی ہے کہ راستے میں بابا اسے مما سے چوری چھپے چپس ٹافیاں بسکٹ شسکٹ لے دیتے ہیں اکثر وہ اسکول جاتے ہوئے وہ مجھ سے لاڈکرتے ہوئے پوچھتی ہے “بابا!وہ لائے ہیں نا؟’’
اور میں کبھی مسکرا کر ہاں کردیتا ہوں اور کبھی اسے تنگ کرنے کے لئے کہتا ہوں
‘‘وہ کیا ؟’’
جس پر وہ تیزی سے کہتی ہے کہ بابا !وہی بٹوہ ۔۔اور پھر جواب سے پہلے ہی اس کے ننھے منے ہاتھ میری جیبوں پر پہنچ جاتے ہیں جہاں بٹوے کی موجودگی پر وہ خوشی سے چہک اٹھتی ہے،احسان صاحب کہنے لگے اس روز بھی ایسا ہی ہوا ہم دونوں باپ بیٹی اسی طرح گپ شپ کرتے ہوئے اس چھوٹی سی دکان پر پہنچے جہاں سے بریرہ چاکلیٹس اور چپس وغیرہ لیتی ہے میں نے دیکھا کہ بریرہ چپس کے ریک کے سامنے کھڑی کچھ سوچ رہی ہے میں اسکی مدد کو آگے بڑھا اور ایک مشہور برانڈ کا اسکا پسندیدہ چپس اٹھا کر کہا یہ رہے آپکے فیورٹ۔۔۔ تو بریرہ نے انکار میں سرہلادیا
“نہیں بابا! مجھے یہ نہیں لینے” بریرہ کے انکار پر میرے دوست کہتے ہیں کہ میں نےکہا
‘‘کیوں بھئی؟
بریرہ کہنے لگی بابا یہ ان ہی کے ہیں نا جو وہاں بچوں کو مار رہے ہیں ۔
میرے دوست بتاتے ہیں میں اپنی بچی کی بات پر چونک گیا اسے فلسطین اور اسرائیل کا نام لینا نہیں آرہا تھا لیکن وہ جانتی تھی اس دنیا میں کہیں ایک جگہ جنگ جاری ہے جہاں ایک ظالم اور دوسرا مظلوم ہے ، بچوں کی خوشیوں میں گڑیوں ، چاکلیٹس اور اسی قسم کی چھوٹی موٹی چیزیں بڑی اہم ہوتی ہیں اور انہیں ان کے من پسند کاموں اور ٹافیوں چاکلیٹوں الا بلا سے روکنا بڑا مشکل ہوتا ہے لیکن بریرہ نے خود ہی فیصلہ کیا کہ وہ اس برانڈ کے ریک سے چپس نہیں لے گی ، میرے دوست نے بتایا کہ اس نے غور سے بریرہ کی طرف دیکھا جو ہونٹوں پر شہادت کی انگلی رکھے پرسوچ انداز میں کھڑی سوچ رہی تھی کہ اس کے بدلے کیا لوں ؟ مجھے اس وقت اپنی بیٹی پر بہت پیار آیا فخر بھی محسوس ہوا میں نے آگے بڑھ کر لوکل برانڈ کا چپس لیا اسے بتایا کہ یہ “ان” لوگوں کا چپس نہیں ہے اپنا ہے اور دکان سے بسکٹ ٹافی لے کر اسکول کی طرف بڑھ گیا راستے میں بریرہ سے پوچھا اسے یہ سب کس نے بتایا تو معصوم لہجے میں جواب دیا
‘‘مما نے بتایا تھا’’
میرے دوست یہ واقعہ بتا کر کہنے لگے کہ یہ واقعہ کسی کمال کا اظہار نہیں لیکن یہ اس ملال سے بہتر ہے جو ظالموں کے ہاتھ مضبوط کرنے سے ہو، ہم بائیکاٹ ہی توکرسکتے ہیں اوراس کے سوا کر بھی کیاسکتے ہیں ، یہ ظالم کے خلاف احتجاج ، مظلوم کی حمائت اور انسانیت کا اظہار ہے۔
اسرائیل نے انسانیت کا لفط ہی کھرچ ڈالا ہے تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسپتالوں میں ایندھن نہیں بچا بجلی ہے نہیں، جنریٹر خاموش ہیں نومولود بچے اور خاص کر قبل از وقت پیدا ہونے والے بچے بارود آلود فضا میں سانس لیتے ہیں تڑپتے ہیں اور دم توڑ جاتےہیں ابھی کچھ دیر پہلے ایک دوست نے غزہ کے النصر اسپتال کے ایک نرس سے بات چیت کی وڈیو بھیجی نیلی یونیفارم میں ملبوس اس نوجوان نے افردہ لہجے میں بتایا کہ ہم پر بمباری کی گئی نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں زخمیوں کو اسپتال میں چھوڑ نا پڑا ہم انہیں ساتھ نہ لاسکے وہاں اسپتال کے سامنے لاشوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اس مسیحا کا کرب اس کے لہجے اور آنکھوں سے عیاں تھا اس نے تھکے تھکے شکستہ لہجے میں سوال کیا کہ میں انسانی ہمدردی اور انسانیت کےدعوے داروں سے پوچھناچاہتاہوں کہ وہ کہاں ہیں وہ آئیں اور اپنی آنکھوں سے غزہ کو دیکھیں ۔
یہی سوال آج انسانیت پر یقین رکھنے والے ہر انسان کا انسانی اور حیوانی حقوق کے مہذب دعوے داروں سے ہے ،ان حکومتوں سے ہے کہ جہاں جانوروں کے حقوق کو بھی قانونی تحفظ حاصل ہے وہ جواب دیں کہ کیا غزہ کے انسانوں بچوں عورتوں ضعیفوں اور شہریوں کا کوئی حق نہیں ؟
جنوری 2018 میں برطانیہ کے شہر آکسفورڈ میں مجسٹریٹ نے سوروں کا گوشت بیچنے والے کاروباری جوڑے کوغیر ضروری تکلیف اور ویٹرنری ادویات کا مناسب ریکارڈ رکھنے میں ناکامی پر £4,000 سے زائد پونڈز کا جرمانہ کیا ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک دس ہفتے کے سور کا جھٹکا کرتے ہوئے اس کی تکلیف میں کمی کا خیال نہیں رکھا یہ کام بے رحمی سے کیاگیا ،یہ فیصلہ ایک حساس معاشرے کا مزاج کا عکس ہے لیکن غزہ کے شہری اور انسانیت پر یقین رکھنے والوں کا اسی رحم دل مہذب ملک سے سوال ہے کہ انہیں غزہ کے بلکتے بچے زمین پر بکھرے ان کے اعضاء ، گوشت کے لوتھڑے دکھائی کیوں نہیں دیتے؟ انہیں مسئلہ حماس سے ہے تو حماس سے نمٹیں ،یہ معصوم بچے جو بندوق اور کھلونے میں فرق نہیں جانتے ، حاملہ خواتین ، نہتے بوڑھے ان کا نشانہ کیوں بن رہے ہیں ؟ اسرائیل کے دوست ملک کے وزراء اس سے اظہار یک جہتی کے لئے اسکی دوستی کا دم بھرنے کے لئے بھاگم بھاگ تل ابیب پہنچے سو پہنچے برطانوی وزیر اعظم تو اسلحہ سے بھرا جہاز لے کر پہنچ گیا
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 10 نومبر کو دوپہر 2 بجے تک غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 11,078 تک جا پہنچی ہے 7 اکتوبر سے غزہ میں اسرائیلی حملوں میں اوسطا روزانہ 320 افراد ہلاک ہو ئے،ان میں 4506 بچے 3027 خواتین تھیں ، زخمیوں میں بچوں کی تعداد ساڑھے آٹھ ہزارسے تجاوز کرچکی ہے جبکہ مجموعی تعداد27490 ہے ، حیرت ہے جانوروں کی تکلیف پر تڑپ اٹھنے والے مہذب ممالک بچوں اورنہتے شہریوں کے ذبح پر کیسے چپ رہ سکتے ہیں یہ شرمناک سچ آنے والی نسلوں تک ان ممالک کا پیچھا کرتا رہے گاکیا یہ اس کے لئے تیار ہیں ؟