ہم نے تو عرصہ ہوا حیران ہونا چھوڑ دیا. مشکلیں اتنی پڑیں کہ آساں ہوگئیں. ہر روز نئی مصیبت اور نیا مسئلہ. بندہ کس کس پر حیران پریشان ہو. بہتر یہی ہے کہ اسے معمول سمجھ لیا جائے.م. ہم نے تو ایک رات میں پچیس روپے لیٹر پیٹرول کو بڑھتے دیکھا اور بالکل حیران نہیں ہوئے.
ہمیں تو رائے منظور ناصر کی پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ سے برطرفی پر بھی حیرت نہیں ہوئی. جس ملک کا وزیراعظم گواہی دے کہ ملک کو مافیاز چلا رہے ہیں وہاں ایسی برطرفی پر کاہے کی حیرت. حیرت اس بات پر ہو سکتی ہے کہ اس افسر شاہی کے کل پرزے کو کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ وہ مافیاز کی کتب کو کھول کر دیکھنے کی جسارت کرے. اگر قرآنی آیات من گھڑت ہیں تو اسے کیا. ترجمہ غلط ہے تو اس نے تھوڑی کیا ہے. اگر کشمیر کو ہندوستان کا حصہ دکھا دیا تو کون سی قیامت آگئی. پھر اگر ان کتب میں فحش مواد موجود ہے تو کیا ہوا، بعضوں کے نزدیک فطرت خود فحاشی کی طرف ہماری راہنمائی کرتی ہے.
اس پر بھی حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان غلطیوں سے بھرپور کتب پر والدین نے کوئی ردعمل کیوں نہیں دیا؟ ہم سب کیا اپنے بچوں کو تعلیم اس لیے دلاتے ہیں کہ وہ اعلا انسان بنیں . ہم تو بچوں کو تعلیم اس لیے دلاتے ہیں کہ وہ کوئی دھندا کرسکیں . جب مقصد صرف دھندا ہو اخلاقیات نہیں دیکھتے صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان کتابوں کو پڑھ کر بچہ کچھ کمانے لائق ہو سکے گا یا نہیں؟؟؟ اگر ہمیں نوکری درکار ہو اور کہا جائے کہ آپ کو نوکری تب دی جائے گی جب آپ کہیں گے کہ سورج مغرب سے طلوع ہو کر شمال میں غروب ہوتا ہے تو ہم جھٹ سے یہ کہنا شروع کردیں گے. یہ بات تو ہم نے بہت احتیاط سے سے لکھی ہے ورنہ ہم اس سے کہیں بڑی باتیں بھی نہایت سہولت سے نہ صرف یہ کہ تسلیم کر لیں گے بلکہ اس کا ابلاغ بھی شروع کر دیں گے.
ہم اپنے بچوں کو بہت مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھانے کے شوقین بھی تو ہیں. ہمارا احساس کمتری ہمیں کھینچ کھانچ کے ایسے تعلیمی اداروں کی طرف لے جاتا ہے کہ جہاں سالانہ فیسیں لاکھوں میں ہوتی ہیں اور داخلے کے لیے ڈونیشن کے ساتھ ساتھ تگڑی سفارش بھی درکار ہوتی ہے. جہاں داخلہ ڈونیشن اور سفارش پر لیا جائے وہاں یہ دیکھنے کی جسارت نہیں کی جاسکتی کہ کیا پڑھایا جارہا ہے. وہ کام جو بڑی بڑی ترغیبات نہ کروا سکیں وہ احساس کمتری بہت آسانی سے کروا لیتا ہے.
ہمیں تو اس پر بھی حیرت نہیں ہوئی کہ اتنا شور و غوغا ( سوشل میڈیا کی حد تک) ہونے کے باوجود حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی. جب سرمایہ داری نظام کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہو تو حکومتیں آزادانہ فیصلے نہیں کرسکتیں. ہمیں تو حیرت اس بات پر بھی نہیں ہوئی کہ رائے منظور ناصر کے انٹرویو والی وڈیو فیس بک نے ڈیلیٹ کرنا شروع کردی ہے، ظاہر ہے فیس بک اس قسم کے انتہا پسندانہ خیالات کو فروغ دینے کے لیے تو نہیں ہے. ہمیں تو اس بات پر بھی حیرت نہیں ہوئی کہ دینی طبقے نے ان کے خلاف احتجاج نہیں کیا کیوں کہ ان کو ایک دوسرے کو کافر دینے کی زرخیز سرگرمی سے سے فرصت ملے تو ادھر توجہ دیں. رہے ہمارے لبرل دوست تو انھیں ان باتوں سے ویسے ہی کوئی دلچسپی نہیں. وہ موم بتیاں روشن کرسکتے ہیں بشرطیکہ ممنوعہ کتب پر سے پابندی نہ اٹھائی گئی. ویسے بھی اکثر پبلشنگ ہاوس کے مالک یہ لبرل دوست ہی ہیں.
چونکہ ہمیں اس سارے معاملے پر بالکل حیرت نہیں ہوئی اس لیے ہم کوئی ردعمل بھی نہیں دے سکتے. زیادہ سے زیادہ رائے منظور ناصر کو مشورہ دے سکتے ہیں کہ حضور دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر نہیں رکھا جاتا. جیسا دیس ویسا بھیس کے مصداق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے. رائے صاحب کو پتا ہونا چاہیے اگر نہیں پتا تو ہم بتائے دیتے ہیں کہ وطن عزیز میں نجی تعلیمی اداروں میں کتب مواد کی بنیاد پر نہیں لگائی جاتیں . اس کی عام طور پر دو صورتیں ہیں. بہت مہنگے سکول جو برانڈ بن گئے ہیں وہ کتابیں بھی برانڈڈ ہی پڑھاتے ہیں. برانڈڈ چیزوں پر تو ہم پہلے ہی سے ایمان لا چکے ہوتے ہیں. آکسفورڈ کی چھپی کتاب میں غلطی کی نشاندہی کرنے والا احمق ہی تصور ہوگا. ان کی غلطی ثابت کرنے کے لیے کیسا بھی بھاری بھر کم حوالہ تلاش کر لیا جائے اس کی کوئی حیثیت نہیں. کیا یہ ہمارا روز مرہ کا معمول نہیں کہ ہم کوئی برائی صرف اس لیے قبول کر لیتے ہیں کہ اس کے اچھا ہونے کی سند مغرب دے چکا ہے. سو برانڈڈ چیزوں کو قبول کرنا ہماری مجبوری ہے. دوسری صورت ان تعلیمی اداروں میں نظر آتی ہے جو ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں قدرے معروف پبلشرز کی کتب پڑھاتے اور چونکہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لیے عام طور پر یہاں کمیشن پر فیصلہ ہوتا ہے. جس طرح بہت سے ڈاکٹرز کی بہت سی عیاشیاں دوا ساز کمپنیوں کے ذمہ ہوتی ہیں اسی طرح سکول انتظامیہ کے بھی بہت سے اخراجات پبلشرز، سائنسی تجربات کا سامان بنانے والے، سکول کی وردی بنانے والے برداشت کرتے ہیں. ایسی صورت میں وہ انتظامیہ کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ مال کی کوالٹی پر بحث کریں. ہمیں ان تعلیمی اداروں میں اپنے بچے پڑھانے پر کوئی مجبور نہیں کرتا. یہ ہمارا شوق ہے اور سیانے کہتے ہیں کہ شوق کا کوئی مُل ( قیمت) نہیں. اس کے لیے دین، دھرم، وطن، سب قربان کیا جاسکتا ہے. جب ہم خود یہ سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں تو پھر رائے منظور ناصر صاحب آپ یا آپ جیسے چند اور لوگ کیا کرلیں گے.