گلگت بلتستان کے چیف کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ وہ اگلے تین ماہ میں الیکشن کرائیں۔ گلگت بلتستان میں الیکشن مہم زور پکڑ چکی ہے۔ تحریک انصاف کی طرف منتخب ہونے کے قابل امیدواروں کا رجحان بڑھ چکا ہے۔عمومی طور پر گلگت بلتستان میں رائے عامہ اسلام آباد میں برسراقتدار جماعت کی حمایت کرتی ہے۔ گزشتہ تین الیکشن کا تجربہ تو ہی بتاتاہے۔ آج کل بھی مختلف جماعتوں سے مستعفی ہوکر یا پھر سیاسی اور سماجی قدکاٹھ کے حامل امیدواروں کی کوشش ہے کہ وہ تحریک انصاف کے بلے پر الیکشن لڑیں۔پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نون ، تحریک جعفریہ کے ممتاز لیڈر بھی تحریک انصاف کا پرچم فخر سے گلے میں ڈال رہے ہیں۔ نومبر تک الیکشن ہونے کا قوی امکان ہے ۔اس دوران سیاسی کھیل تیز تر ہوگا اور کانٹے کامقابلہ متوقع ہے۔
ایک طرف الیکشن کا معرکہ برپا ہے تو دوسری طرف اسلام آباد میںکے بااثر حلقوں میں یہ بحث ومباحثہ بھی جاری ہے کہ الیکشن سے قبل کیوں نہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ قراردے دیا جائے تاکہ یہ قصہ بھی ایک بار تمام ہوجائے۔عشروں سے سرکاری اور غیر سرکاری سطح یہ موضوع زیر بحث رہاہے لیکن یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھ نہ سکا۔ شکست خودرہ ذہنیت کے مالک شخصیات کا خیال ہے کہ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی۔ ریاست جموں وکشمیر کا جو بھی حصہ پاکستان کے پاس ہے وہ اسے قومی دھارے میں شامل کرے اور مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہدآزادی کی حمایت جاری رکھے۔
بظاہر یہ دلیل صائب اور دانشمندمندانہ نظر آتی ہے لیکن اس کے قانونی ، سیاسی اور بین الاقوامی اثرات تو مضمرات کا گہرائی سے جائزہ لیاجاتاہے تو جو بیلنس شیٹ بنتی ہے وہ پاکستان کے مفادات پر ضرب کاری سے کم نہیں۔مثال کے طور پر کسی کو اچھا لگے یا برا۔ چودہ اگست 1947تک گلگت بلتستان مہاراجہ ہری سنگھ کی ریاست جموں وکشمیر کا حصہ تھا۔ مقامی بغاوت کے نتیجے میں یہ خطہ آزاد ہوا تو حکومت پاکستان نے اسے ضم کرنے کے بجائے متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کا حصہ قراردیا۔ یہ فیصلہ قائداعظم ،وزیراعظم لیاقت علی خان اور سرظفرا للہ خان نے کیا۔غالباً آج کے پاکستانی ماہرین قانون یا سیاسی حکمت کاروں میں ان کے پائے کا کوئی نہیں۔
آزادجموں وکشمیر میں مہاراجہ کی حکومت کے طرز پر ایک نظام حکومت تشکیل دیاگیا ۔ سلامتی کونسل ہو یا دیگر عالمی ادارے پاکستان نے اپنی اسی پوزیشن کو دہرایا۔اکتوبر 1950 میںشیخ محمد عبداللہ کی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں الیکشن کا اعلان کیا تاکہ منتخب اسمبلی ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کرسکے۔حکومت پاکستان اعتراض پر مسئلہ سلامتی کونسل نے 30 مارچ 1951کو ایک قرارداد میں کہا کہ یہ اسمبلی رائے شماری کا متبادل ہے اور نہ ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے۔
پاکستان کو جنوری 1957کو اطلاع ملی کہ بھارتی حکومت ریاستی اسمبلی کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ قرار دینے والی ہے۔ایک بار پھر سلامتی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹایا۔چنانچہ 14 جنوری 1957 کوسلامتی کونسل نے 1951 کی قرارداد کا اعادہ کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ریاستی اسمبلی کشمیر کے مستقبل کے بارے میں فیصلے کا اختیار رکھتی ہے اور نہ ہی یہ رائے شماری کا متبادل ہے۔خود پاکستان کے آئین کی شق 257کہتی ہے کہ ریاست جموں وکشمیر پاکستان سے الحاق کرے گی تو باہمی تعلقات کار کا تعین شہریوں کی مرضی سے ہوگا۔ گلگت بلتستان کو اگر اس سارے عمل کو نظر انداز کرکے صوبہ بنایاجاتاہے تو پاکستان کے اسٹرٹیجک مفادات پر گہری ضرب پڑتی ہے اور اس کے بیانیے سے ہوا نکل جائے گی۔
بھارت کو آج تک پاکستان عالمی فورمز پرجن اصولوں پر دفاعی پوزیشن میں دھکیلتاہے اس کی بنیاد یہ ہے کہ اسلام آباد ریاست کی تمام اکائیوں کے شہریوں کی رائے کے بغیر ان پر کوئی حل مسلط کرنے کے خلاف ہے۔یہ اصول اسے بھارت پر اخلاقی برتری عطا کرتاہے اور اسے کشمیریوں کی سیاسی فکر سے ہم آہنگ کرتاہے۔ گزشتہ برس وزیراعظم عمران خان نے تین بار کہا کہ کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے ہم ان پر کوئی رائے مسلط نہیں کرتے۔ اس بیان نے کشمیر میں پاکستان مخالف حلقوں کو بھی ان کا گرویدہ بنایا کیونکہ کشمیر یہ آواز سننے کے لیے ترس گئے تھے جہاں انہیں اپنی تقدیر کا مالک قراردیا جائے۔سری نگر کے لال چوک میں بڑی سکرین لگا کر لوگوں نے وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تقریر تقریر سنی۔ کیونکہ عمران خان کے پاکستان کو بھارت پر اخلاقی برتری حاصل ہے۔ وہ کشمیریوں کے جمہوری حقوق کی بات کرتاہے۔ بھارت کے برعکس زمین ہتھیانے اور مادی وسائل پر قبضے کے بجائے لوگوں کی رائے کو اہمیت دیتاہے۔ یہ وہ پہلو جو فیصلہ سازی کے عمل میں نذراندار نہیںہونا چاہیے۔
میرا احساس ہے کہ پاکستان میں عمومی طور پر اور بالخصوص سرکاری اداروں میں کشمیر کی بدلتی ہوئی سیاسی حرکیات کا درست ادراک کم پایا جاتاہے۔ کئی سو سال سے جبر کے شکار کشمیر ی آسانی سے دل بات زبان پر نہیں لاتے۔ جو بحثیں قہوا خانوں اور سرشام ڈرائنگ رومز میں ہوتی ہیں وہ اس گفتگو سے بہت مختلف ہوتی ہے جو سرکاری یا عوامی مجالس میں کی جاتی ہیں۔آج کا ہر کشمیر ی دکھی اور خوف زدہ ہے۔ ریاستی شناخت چھن گئی۔ تھوڑی بہت جو داخلی خودمختاری تھی وہ بھی ہتھیالی گئی۔ آبادی کا تناسب بگاڑنے کا منصوبہ روبہ کار آچکا ہے۔ اعلیٰ سرکاری عہدوں سے کشمیریوں کو نکال باہر کیا گیا۔ دنیا تماشائی بنی سب دیکھتی رہی۔ مسلم امہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ایک پاکستان ہی تو ہے جو امیدوں کا مرکز ہے۔
ایک لابی گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا آوازہ بلند کرتی ہے تو دوسرا دھڑا آزادکشمیر کو ضم یا بے اختیارکرنے کا اعلان ۔ کوئی نہیں جانتا کہ کشمیریوں کے دلوں پر ان بیانات سے کیا گزرتی ہے۔ آج کا کشمیری سیاسی طور پر بہت ہی بالغ اور اپنے حقوق سے آشنا ہے۔ وہ سیاست اور بین الاقوامی امور کا گہرا ادراک رکھتاہے۔ریاست کی شناخت، مسلم اکثریت ، اس کی جغرافیائی وحدت اور حق خودارادیت پر مفاہمت کرنے پر کوئی تیار نہیں۔
سیّد علی گیلانی ، میرواعظ عمرفاروق،یاسین ملک سے لے کر آزادکشمیر کے تمام سیاستدان گلگت بلتستان کو صوبوں سے بھی زیادہ حقوق دینے کے حامی ہیں ۔ گلگت بلتستان کونسل کے پاس جو مالی، انتظامی اورآئینی اختیارات ہیںوہ بھی گلگت بلتستان اسمبلی کو دیئے جائیں تاکہ خطہ شمال کے لوگ اپنے فیصلہ مقامی سطح پر کرسکیں لیکن کوئی ایسا اقدام قابل قبول نہیں جو یہ ظاہر کرے کہ ریاست جموں وکشمیر کے حصے بکھرے کیے جارہے ہیں ۔کم ازکم کشمیری رائے عامہ ایسے فیصلوں کو قبول نہیں کرے گی۔کشمیریوں میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو گلگت بلتستان کو بااختیار نہ دیکھنا چاہتاہو۔ وہ صرف قائداعظم محمد علی جناح کی کشمیر پالیسی کا تسلسل چاہتے ہیں۔ بھارت کے نقش قدم پر نہ چلنے کا مشورہ دیتے ہیں۔