محمدداؤدطاہراُردو کے منفرد سفرنامہ نگارہیں۔ان کا دل پذیراورسادہ اسلوب قاری کو اپنے ساتھ لے کرچلتاہے اورقاری ایسامحسوس کرتاہے کہ وہ یہ سب پڑھ نہیں رہا،بلکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہے۔انہوں نے ابتداغیرملکی اسفار کے دلچسپ سفرناموں سے کی۔پھرخود کوپاکستان کے شہروں اورگلی کوچوں سے قارئین کومتعارف کرانے کافریضہ سنبھال لیا۔ ”ارمُغانِ ملتان“ محمدداود طاہر کی پاکستان کے شہروں اور قصبوں پرچوتھی کتاب ہے۔جس میں ملتان کے اہم تاریخی آثار،معروف بزرگانِ دین اوربعض مشاہیرکاجامع تذکرہ شامل ہے۔”ارمُغانِ ملتان“ کوبجاطور پرملتان شہرکاانسائیکوپیڈیاقراردیاجاسکتاہے۔
محمدداؤد طاہردسمبر1944ءکومتحدہ ہندوستان کے ضلع گرداسپورمیں پیداہوئے۔پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کی ڈگری لینے کے بعد 1969ءمیں سی ایس ایس کاامتحان پاس کیا،اور پاکستان ٹیکسیشن سروس کمیشن کے لیے منتخب ہوئے اورریٹائرمنٹ تک اسی سے وابستہ رہے۔تکمیلِ ملازمت کے بعد کئی سال تک ممبر،پنجاب سروس کمیشن کی خدمات انجام دیتے رہے۔محمدداؤدطاہرکا پہلاسفرنامہ” شوق ہمسفر میرا“ تھا۔اورانہوں نے اس پہلے سفرنامے سے ہی اپنی دھاک بٹھادی۔نامورسفرنامہ نگاروں اورناقدین نے ان کی تحریرکواعلیٰ پائے کی ادبی کاوش قراردیا۔معروف شاعر،نثروڈرامہ نگار اوراستاد امجداسلام امجدنے لکھا۔” مصنف نے انتہائی خوبصورتی اورمہارت سے ایسا ارژنگ سجایاہے ،جس کی ایک ایک تصویرانتہائی سچی اوراوریجنل ہے۔“ڈرامہ وناول نگاراصغرندیم سیدنے ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔” داؤد طاہربہت سادہ اورمربوط نثرلکھنے کاہُنرجانتے ہیں جس میں تخلیقی گہرائی اورفنی باریکی اپناجادُوجگاتی ہے،بذلہ سنجی اورلطافت شائستگی سے ہم آہنگ ہوتی ہے اورواقعات کاداخلی رابطہ ان کے حافظے اور تیکنیکی شعورکی گواہی دیتاہے۔“نامورادیب ،نقاداورماہرتعلیم غلام جیلانی اصغرنے اس یقین کااظہارکیا۔” شوق ہمسفرمیرا“سفرناموں کی طویل فہرست میں ایک نمایاں مقام حاصل کرے گااوراسے بہت شوق سے پڑھاجائے گا۔“ معروف ادیب اوردانشورفتح محمدملک کی رائے کے مطابق۔” اس کتاب نے سفرنگاری کی وہ فراموش شدہ روایت زندہ کی ہے جس کے تحت سفروسیلہءظفرسمجھاجاتاتھا،وسیلہءابتذال نہیں۔“جبکہ ادیب ،شاعر،نقاداوردانشوروزیرآغامرحوم کی رائے ہے۔” اس سفرنامے میں حیرت کے ساتھ ساتھ دوسروں کوحیران کرنے کارویہ بھی موجود ہے۔“
داؤد طاہرکاایران وترکی کے اسفارپرمبنی دوسرا سفرنامہ ”سفرزندگی ہے“شائع ہوا،تو”شوق ہمسفرمیرا“ کی طرح اسے بھی خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔اردوکے مقبول ترین سفرنامہ نگارمستنصرحسین تارڑکے الفاظ میں۔”مصنف یہ سفرنامہ لکھ کرسفرنامے کی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔“ سید ضمیرجعفری مرحوم نے خیال ظاہرکیا۔” اس کتاب کے مطالعہ سے قاری ایران وترکی کودیکھ بھی سکتا ہے اورسمجھ بھی سکتاہے۔“جمیل الدین عالی کی رائے میں۔” مصنف نے پُرمعنی سادہ بیانی کی ایک خوبصورت مثال قائم کی ہے۔“
اپنے تیسرے سفرنامے ”اک سفراورسہی“ میں مصنف نے اپنے کویت کے سفر کی تفصیلی داستان قلم بند کی تھی۔اشفاق احمدمرحوم کا کہناہے۔ ” داؤد طاہر کے طرزِ بیان سے کویت کی ایسی ایسی پرتیں کھُلی ہیں جن پراس کے اپنے باسیوں کی بھی نظرنہیں گئی تھی۔“ شاید اسی خوبی سے متاثر ہوکرافتخارعارف نے کہاتھا۔”یہ سفرنامہ اردوکے عصری ادب میں لائق ِ تحسین وتوجہ گرداناجائے گا۔“
ان تین سفرناموں کے بعدمحمدداؤدطاہر نے پاکستان کے طول وعرض پرپھیلے ہوئے آثارقدیمہ اورتاریخی اورثقافتی اہمیت کے اُن مقامات کو مرکزِ نگاہ بنالیا جوعوام الناس کی نظروں سے اوجھل ہیں ۔اس حوالے سے ان کی پہلی کتاب”منزل نہ کرقبول“ کے نام سے شائع ہوئی جس میں اٹک خورد سے لے کرشاہدرہ تک کے سبھی اہم مقامات کاسفرنامے کی شکل میں احاطہ کیاگیاہے۔اس سلسلے کی دوسری کڑی”نئی منزلیں ہیں پکارتیں“ تھی،جس میں اسلام آباد،لاہوراورلاہور،فیصل آبادموٹروے اوراس کے نواح میں واقع اکثروبیشتراہم تاریخی اورسیاحتی مقاما ت کوسفرنامے کی صورت میں پیش کیاگیا۔ان کتابوں کونہ صرف عوامی پذیرائی حاصل ہوئی بلکہ حکومتِ پنجاب نے دونوں کتابوں کوپنجاب کی تاریخ وثقافت کی بہترین کتب قراردیے ہوئے مصنف کوایک لاکھ اورپچاس ہزارروپے کانقدانعام دیا۔
”اک جہاں اور“پاکستان کے تاریخی مقامات کے سلسلے کی داؤدطاہرکا تیسراسفرنامہ تھا،جس میں لاہوراورملتان کے درمیان واقع اہم تاریخی آثارکاجائزہ پیش کیاگیاتھا۔”ارمُغان ِ ملتان“ مصنف کے اسی سلسلے کی چوتھی اوراب تک کی آخری کتاب ہے۔محمدداؤد طاہرپس منظر میں رہ کرکام کرنے والی شخصیت ہیں اوران کے بارے میں معلومات گوگل یادیگرذرائع سے بھی نہیں ملتی۔”ارمُغانِ ملتان“ دوہزار گیارہ میں شائع ہوئی تھی۔اس میں مصنف کی زیرِ تصنیف کئی کتب کا بھی ذکرکیاگیاتھا۔جن میں سفرنامہ چین وملائیشیا، سفرنامہ تھائی لینڈ، سنگا پوروکوریا،سفرنامہ دبئی وعمان،سفرنامہ بھارت اورادبی مشاہیرکے ساتھ ان کے دوستانہ روابط کاتذکرہ شامل ہے۔وہ اپنی عملی زندگی کے تجربات پرخامہ فرسائی کے علاوہ انکم ٹیکس جیسے اہم موضوع پرعام آدمی کی رہنمائی کے لیے کچھ لکھنے کاارادہ بھی رکھتے ہیں۔محمدداؤد طاہر نے سفرنگاری میں ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ان کاکام مقدارمیں کم ہونے کے باوجود بہت اعلیٰ ہے اورقارئین کوان کے مزید سفرناموں کا بے چینی سے انتظارہے۔
نامورتاریخ دان اورمصنف ڈاکٹرمبارک علی نے دیباچہ میں لکھا۔”تاریخ میں شہراپنی اہمیت کی وجہ سے یادرکھے جاتے ہیں،کسی شہرکی شہرت اس کی عبادت گاہوںاورزیارت گاہوں سے ہوتی ہے جن کی وجہ سے عقیدت منداورزائرین دوردورسے وہاں کھنچے چلے آتے ہیںتوکوئی شہرسیاست کامرکزہونے کی وجہ سے اہمیت اختیارکرلیتاہے۔سیاسی مرکزیت کی وجہ سے شہرمیں علما،ادبا،شعرااورفنکاروں کی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں۔جوسرپرستی کی امید میں شہرکارُخ کرتے ہیں اورشہرکی علمی فضاکوپروان چڑھاتے ہیں۔ہم ملتان شہرکی تاریخ پرنظرڈالیں تو اس میں یہ ساری خصوصیات بیک وقت نظرآتی ہیں۔یہ شہرمذہبی،سیاسی،سماجی،علمی اورتجارتی اعتبارسے ہمیشہ اہم رہاہے اوراسی وجہ سے قدیم زمانے سے لے کرآج تک اپنی جداگانہ شناخت رکھتاہے۔محمدداؤدطاہرکی یہ کاوش قابلِ قدرکہ انہوں نے ان شخصیتوںکودوبارہ زندہ کردیاہے جووقت کی دُھول میں کھوچکی تھیں۔ان میں ڈاکٹرہرگوبندکھوراناہیں جوملتان کے ایک نواحی گاؤں میں پیداہوئے لیکن سائنس کی دنیامیں اس قدرنام کمایاکہ نوبل پرائزان کامقدرٹھہرا۔بال کشن بترہ جوملتان کے ناموراہلِ قلم تھے۔مصنف نے ڈاکٹرکھورانا اوربال کشن بترہ کامکان ڈھونڈنکالا۔انہیں یہاں سے گئے مدتیں بیت گئی تھیں لیکن ان کوپہچاننے والے اب تک زندہ تھے۔فاضل مصنف نے یہ انکشاف کرکے مجھے حیرت میں مبتلاکردیاکہ ملتان میں جینیوں کی بہت کم تعدادکے باوجود قیامِ پاکستان کے وقت ان کے چارمندرموجود تھے اورجین مت کے ایک فرقہ کابانی ملتان ہی کارہنے والاتھا۔محمدداؤد طاہرنے گوردوارہ تھڑہ صاحب کاذکرخاصی تفصیل سے کیاہے اور دربارشمس سبزواری کے موجودہ سجادہ نشین کی مدد سے اس مقام کاتعین کیاہے جسے دیوان ساون مل کے دورِ حکومت میں گوردوارے میں سکھو ں کے داخلے کے لیے استعمال کیاجاتاتھا۔اپنی محدود تعداد میں پارسی کمیونٹی کاملتان کی سماجی اورمعاشرتی زندگی میں بہت فعال کرداررہاہے اورمصنف نے اس کابھی احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ملتان کی جن روحانی شخصیات کاتفصیلی ذکراس کتاب میں کیاگیاہے ان میں حضرت شاہ یوسف گردیزؒ، حضرت بہاوالدین زکریاؒ، حضرت صدرالدین عارفؒ اوران کی رفیقہ حیات حضرت بی بی راستیؒ،حضرت شاہ رکنِ عالمؒ،حضرت موسیٰ پاک ؒ،حضرت حافظ محمدجمال اللہؒ اوربعض دیگربزرگان شامل ہیں۔اس کتاب میں جن اہم تاریخی آثارکااحاطہ کیاگیاہے ان کی فہرست بھی خاصی طویل ہے۔گمشدہ تاریخ کی تشکیل نئی دنیادریافت کرنے کے مترادف ہے۔تاریخ سے آگہی کے اس عمل سے شہریو ں کواپنے شہرسے اُنس پیداہوتاہے۔تاریخ کاعلم نہ صرف ماضی کے بارے میں بتاتاہے بلکہ ذہنوں میں وسعت بھی پیداکرتاہے۔“
”منظورہے گزارشِ احوال واقعی“ میں مصنف کاکہناہے۔” آج سے کئی سال پہلے جب میراتیسراغیرملکی سفرنامہ زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکا تومیری توجہ اپنے ملک کے تاریخی،تہذیبی اورثقافتی آثارکی طرف مبذول ہوئی۔اُس وقت میں ایک ہی کتاب میں ان جُملہ مقامات کا احاطہ کرناچاہتاتھا لیکن جلد ہی مجھے موضوع کی وسعت کااندازہ ہوگیااورمجھے ”منزل نہ کرقبول“ میں خودکوجی ٹی روڈ پراٹک خورداورشاہدرہ تک محدود کرناپڑا۔”نئی منزلیں ہیں پکارتی“ میں پنجاب کے ان علاقوں کے تاریخی اورتہذیبی آثارکی نشاندہی کی گئی تھی جہاں موٹروے کے ذریعے پہنچاجاسکتاہے۔اسی تسلسل میں میری تیسری کتاب”اک جہاں اور“ ہے جولاہورسے ملتان کے درمیان موجوداہم تاریخی وتہذیبی مقامات کے تذکرے پرمشتمل ہے۔میں نے اپنی اس کتاب کااختتام سرگانہ کی ایک قدیم مسجدکے ذکرپرکرتے ہوئے اس اُمیدکااظہارکیا تھاکہ زندگی رہی توملتان سے صادق آبادتک موجود تاریخی مقامات اوراس علاقے کی ثقافت کے بارے میں چیدہ چیدہ باتیں اگلی صحبت میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔جب میں نے عملاً یہ کام شروع کیاتومجھے ایک پھراس کی وسعت کااحساس ہواورمیں یہ فیصلہ کیے بنا نہ رہ سکاکہ ملتان شہرایک الگ کتاب کامتقاضی ہے اوراپنی تمام تر توجہ مدینة اولیاپرمرکوزکردی اورمیری اس کوشش کانتیجہ آپ کے سامنے ہے۔“
کتاب کاپہلاباب”قلعہ میں اب کیاہے کوئی ذکراس کاکیاکرے“ ہے۔قلعہ ملتان کی بنیاد کس نے کب رکھی،کسی دستاویزی ثبوت کی عدم موجودگی میں اس سوال کاجواب صرف تاریخی شواہدکی بنیاد پرہی دیاجاسکتاہے۔ضلع ملتان کے گزیٹیئرمیں اس امرکاذکرموجود ہے کہ محکمہ آثارقدیمہ کے سربراہ الیکذنڈرکننگھم نے قلعہ کے اندرپرہلادپوری مندرکے قریب تجرباتی طورپرچالیس فٹ گہراایک کنواں کھوداتھا۔اس کھدائی کے نتیجے میں دوفٹ گہرائی تک انگلستان کی بنی ہوئی شیشے کی ٹوٹی پھوٹی بوتلیں،لوہے کے گولوں کے چھوٹے بڑے ٹکڑے اووسیسے کی گولیاں برآمدہوئیں تھیں۔ان سب اشیاکاتعلق اٹھارویں صدی سے تھا۔چارسے پانچ فٹ گہرائی سے سولہویں صدی کے روغنی برتن اور ٹائلیں چھ فٹ گہرائی سے پندرویں صدی سے تعلق رکھنے والی چھ انچ لمبی،چارانچ چوڑی اورایک انچ موٹی اینٹیں دستیاب ہوئیں۔گیارہ فٹ پرملتان کے حکمران مُعزالدین کیکبادکے دورے کے سکے اورنیلے رنگ کایک روغنی چراغ ملاتھا۔جبکہ بارہ فٹ گہرائی سے بارہویں صدی کے کچھ سکے ملے۔اڑتیس فٹ گہرائی سے دوسے تین سوسال قبل مسیح کی اشیادستیاب ہوئیں۔اورمصّفیٰ قدرتی مٹی برآمدہوئی۔کننگھم کاخیال تھاکہ ملنے والی سرخ راکھ کاتعلق ملتان پرمحمدبن قاسم کے قبضے کے زمانے سے تھاجبکہ راکھ کی دوفٹ موٹی تہہ سکندرکے مزعومہ قبضے کے دورسے تھا۔اگرچہ یہ پھربھی ثابت نہیں ہوتاکہ اس قلعے کی بنیادکس نے اورکب رکھی تھی۔داو¿دطاہرہرباب میں متعلقہ مقام یاشخصیت کی تفصیلات بتاکرآخر میں بہت دلچسپ انداز میں اگلے باب کاذکرکرتے ہیں،جیسے ’قلعہ پرموجودعمارات میں سب سے پہلے کچھ ذکرپر ہلادپوری مندرکا‘کہہ کرقاری کواگلی منزل کی جانب لے چلتے ہیں۔“
یہ ذکراس شاعرانہ انداز میں ” ایک پہلویہ بھی ہے ملتان کی تصویرکا“ہے۔بال کشن بترہ نے اپنی کتاب ”تواریخِ ملتان“ میں اس مندرکی تاریخ بیان کرتے لکھاہے کہ ”مشہوربھگت پرہلاد کازمانہ اب سے اندازہ ً تیس لاکھ سال پہلے کاہے جب اُس کاباپ مہاراجہ ہرنیہ کشیپوکی حکمرانی شہرملتان پرتھی جس کواُس زمانے میں کیشپ پورکہتے تھے۔ہرنیہ کشیپوبہت بڑاجاپ کرکے شری برہماجی کی بھگتی کی تھی اوران سے یہ وردان مانگاتھاکہ”مجھے کوئی دیوتامارسکے نہ انسان،نہ پرندسے موت ہونہ درندے سے،نہ سانب سے نہ کسی ہتھیارسے،نہ کسی جادوسے اور نہ آسمان میں مروں نہ زمین پر۔ نہ عناصرخمسہ میری موت کاسبب ہوں ،نہ دن کومروں نہ رات کو۔“یہ وردان حاصل کرکے اس نے اعلان عام کردیاکہ کوئی شخص پرماتماکویاکسی دیوی ،دیوتاکونہ مانے بلکہ میراہی نام لیاکرے۔اسی ہرنیہ کشیپوکے گھرپرہلادپیداہوا جس نے بھگوان کانام عالمِ طفولیت ہی میں جپناشروع کردیااورہرنیہ کانام لینے سے انکارکردیا۔پرہلادکودھمکایاگیا،نہ ماننے پرپہاڑسے پھینکاگیا،پانی میں ڈالاگیا،گرم تیل میں ڈالاگیاتب بھی وہ بچ گیا۔تنگ آکرہرنیہ کی بہن ہولکانے کہاکہ میراجسم بجر کاہے۔اس کوآگ نہیں جلاسکتی۔میں آگ پر پرہلادکولے کربیٹھوں گی تب وہ جل جائے گا۔لیکن آگ سے پرہلادکے بجائے ہولکاخود جل گئی۔ہرنیہ کشیپوکیسے مرایہ بھی اس دلچسپ کہانی کااہم حصہ ہے۔“ یہ اورایسی بے شمارداستانیں،”ارمُغانِ ملتان“ میں شامل ہیں اورقاری کی توجہ کتاب سے ہٹنے نہیں دیتیں۔
”ارمُغانِ ملتان“ شہرملتان کی تاریخ وثقافت اورشخصیات کابھرپورمرقع ہے۔جس کااندازہ چھ سوبانوے صفحات کی کتاب کے پینسٹھ عنوانات سے بخوبی کیاجاسکتاہے۔کئی کے ذیلی عنوان کے تحت مزیدتفاصیل بھی ہیں۔جن میں شہرکی قدیم تاریخ سے لے کرماضی وحال کی اہم شخصیات و واقعات کااحاطہ کیاگیاہے۔سادہ اوردلچسپ اندازِ بیان کی وجہ سے قاری کسی مرحلے پربوریت کاشکارنہیں ہوتا۔چندعنوانات ملاحظہ کریں ۔ جس سے کتاب کی اہمیت واضح ہوگی۔”حضرت بہاو¿الدین زکریاؒ“ اس کے چارذیلی عنوانات بھی ہیں۔”نواب مظفرخان شہید“ دوذیلی عنوانوں ”جس ڈھب سے کوئی مقتل کوگیاوہ شان سلامت رہتی ہے“ اور”پیکری اژدھائی آتشباز“ سے شخصیت کے مختلف گوشے عیاں کیے ہیں۔”مولاناحامدعلی خان“ اس کے بھی تین ذیلی عنوان ہیں۔”ایک بے مثل کاشی گر“،” ایک مورخ اورمحقق“ ،”حضرت سیدجمال الدین محمدیوسف گردیزیؒ“،”حضرت سیدمحمدجمال الدین موسیٰ المعروف موسیٰ پاکؒ “ ،” دوتاریخی مساجد“ ،”دوقدیمی برزگ“، ” جین مندر“،” نواب سعیدخاں قریشی“،” ساوی مسجد“،” محلہ میراثیاںکی لال کنور“،” آغاپورہ اوراس کاایک نامورمدفون“،”ملتان میں تعزیہ داری کابانی“،”حضرت شمس تبریزسبزواریؒ“،”گردوارہ تھڑہ صاحب“،” کیاشاہ شجاع یہاں دفن ہے؟“،”ماضی کی بعض اہم یادگار یں“ ،”ایک ناموربرزگ“،”صحافت ،ادب اورمصوری کی چارنمائندہ شخصیات“ ،”نشترمیڈیکل کالج کی کہانی“دومحسنین ِ ملتان“ ،”سید عطا اللہ شاہ بخاری“،”مائی مہربان“،”پارسیان ِ ملتان“،”عزیزمیاں قوال“اور ڈاکٹر ہرگوبندکھوراناکارَے پور“ کتاب کے کچھ عنوانات ہیں۔ ”ارمُغانِ ملتان“ پاکستان کی تہذیب،ثقافت اورتاریخ سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کوپڑھنی چاہیے۔اس میں ملتان کے بارے میں ایسی معلومات ہیں جواہلِ ملتان کوبھی حاصل نہیں ہوں گی۔جس کااندازہ مصنف کی بعض واقعات،شخصیات اورمقامات کی کھوج سے ہوتا ہے ۔ جن کے لیے اسے بہت زیادہ جستجوکرنا پڑی۔لیکن انہوں نے حقائق ڈھونڈ نکالے۔فیروزسنزنے محمدداودطاہرکی تمام کتب شائع کی ہیں۔ ان کی مزیدکتابیں بھی منظرعام پرآنی چاہئیں۔