Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ڈاکٹر راشد حق کے ساتھ میں براہ راست رابطے میں تھی انہوں نے بتایا کہ اس کانفرنس کے دعوت نامے جرمنی میں اردو انجمن برلن اور بزم ادب برلن کے اراکین کو بھیجے گئے ہیں اور ساتھ ہی برطانیہ کی تنظیم یارک شائر ادبی فورم کی روح رواں محترمہ مہ جبیں غزل انصاری کو بھی ان کے اراکین کے ساتھ مدعو کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی ایک تنظیم کے اراکین و منتظمین کا نام لیا لیکن مہ جبیں کا نام سن کر میں سوچ میں پڑ گئی ۔ کیونکہ میں کچھ عرصہ قبل مہ جبیں سے کراچی میں متعدد بار مل چکی تھی بہت اچھی شاعرہ اور دلچسپ گفتگو کرنے والی خاتون ہیں۔ سب سے بڑھ کر ایک نرم و حساس طبیعت کی مالک ہیں۔ لیکن صدف مرزا اور مہ جبین غزل انصاری کی ایک دوسرے کے ساتھ ادبی مخالفین کی حیثیت سے اردو شاعری کے کئی لوگ واقف ہیں۔ صدف بھی ان کی مخالفت میں ایک سرد جنگ جاری رکھتی ہیں اور مہ جبین بھی میدان ادب کی اس د شنام طرازی میں ان سے پیچھے نہیں ہیں۔ مجھے ایسی صورتحال میں ان دونوں خواتین کے مابین اپنا توازن برقرار رکھنے کی فکر ہوگئی ۔ اپنی صحت سے متعلق تحفظات اور مقالے کا موضوع کہیں پیچھے رہ گیا۔ اب تصور میں صرف اس کانفرنس میں شریک ہونے والی میرے علاوہ ان پاکستانی دو خواتین کا چہرہ نظر کے سامنے تھا اور مستقبل کا واضح حال دکھائی دے رہا تھا جس میں وہ دونوں ایک مشرق کی سمت اور دوسری مغرب کی سمت مجھے درمیان میں رکھ کر کھینچ رہی ہیں۔ اس دوران صدف نے مجھے پیش کش کی کہ ہم ایک کمرہ بک کر لیتے ہیں اس سے قبل کہ دوسری جانب سے پیشکش آتی میں نے اپنا ڈبل روم بک کروا کر معذرت کی کہ میں اپنا سونے کا کمرہ سوائے اپنی فیملی کے کسی اور کے ساتھ شئیر نہیں کرتی۔ میرے اس عذر کو صدف مرزا نے بخوشی قبول کیا۔ اسی ہوٹل میں جناب راجہ شفیق کیانی صاحب بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ راجہ شفیق کیانی صاحب نہایت خوش اخلاق اور زیرک انسان ہیں ۔ وہ اسپین کے شہر بارسلونا میں ریڈیو پاک سلونا اور پاکستانی ثقافت و تمدن کے حوالے سے اوراپنی ایک اسپینش تصنیف کے لیے یورپ میں بہت معتبر پہچان رکھتے ہیں۔ برسلز کانفرنس کے علاوہ ہم نے واپسی کے وقت ائر پورٹ پر کئی گھنٹے ساتھ گزارے اور ایک دوسرے کو بہترین طور پر جان پائے تھے۔ راجہ شفیق کیانی صاحب اچھا ذوق رکھنے والے اور ادب و شاعری سے رغبت رکھنے والے ایک اچھے انسان ہیں۔ برسلز کانفرنس میں جو چیز مجھے اُن کی سب سے اچھی لگی تھی وہ ان کی انکساری ، حق گوئی اور خواتین کا احترام کرنا تھا۔ اس سے قبل عارف نقوی صاحب بھی کیانی صاحب کی تعریف کر چکے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ صدف مرزا جیسی ذہین اور با صلاحیت ادیبہ و شاعرہ اور کیانی صاحب کے ہمراہ یہ سفر یاد گار ہوگا دیگر اردو ادب سے وابستہ شخصیات اور مہ جبین کو بھی اس سفر میں قریب سے جاننے کا موقع ملے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صدف اور مہ جبین کے درمیان یہ عدو دوستی میں بدل جائے ۔ میرا مہ جبیں غزل انصاری سے فون پر اکثر رابطہ رہتا ہے وہ بھی بہت نرم دل اور دھمی طبیعت والی بہت معزز شاعرہ ہیں ۔ جناب فہیم اختر بھی اس کانفرنس میں شامل تھے ۔ فہیم بھائی ایک سادہ طبیعت کے بھولے بھالے ادیب ہیں جو دل و جان سے اردو ادب اور ادیب کی خدمت و دوستی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ وہ کئی بار برلن آچُکے ہیں اور ہمارے گھر پہ بطور مہمان بھی رہ چکے تھے اس لیے ان سے کچھ گھریلو اور برادرانہ تعلقات ویسے بھی تھے ۔ اس کے علاوہ احسان شاہد صاحب بھی برطانیہ سے تشریف لارہے تھے جو شاعر و ادیب ہیں لیکن میں انہیں نہیں جانتی تھی۔
بہر حال چند ضروری سامان اور مقالے کی تیاری کے بعد وہ دن آگیا جس دن مجھے استنبول کے لیے روانہ ہونا تھا۔ راشد حق صاحب نے واضح طور پر بتا دیا کہ شعبہ ء اردو کی خواتین میں سے کوئی بھی مجھے ائرپورٹ لینے نہیں آسکتا لیکن وہ اپنے تئیں کوشش کریں گے۔
میں صبح کی فلائیٹ سے استنبول کے لیے روانہ ہوئی تھی ۔ فلائیٹ سے ایک دن قبل ائر لائین والوں کا میسج آیا کہ جرمنی میں ایسٹر کی چھٹیاں شروع ہونے کے سبب ائر پورٹ پر رش ہونے کے امکانات ہیں ۔ لہذا مسافر اپنی فلائیٹ وقت پر لینے کے لیے پلان شدہ وقت سے ایک گھنٹہ قبل ائیر پورٹ آجائیں۔ ہم لوگ سفر سے ایک دن قبل عموماً بورڈنگ کارڈ گھر پر ہی انٹرنیٹ سے نکال کر پرنٹ کر لیتے ہیں لیکن اس بار بورڈنگ کارڈ بھی انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں ہوا تو اگلے دن فلائیٹ کے مقررہ وقت سے دو ڈھائی گھنٹے قبل ائر پورٹ پہنچ گئی۔ لیکن ائرپورٹ پہ اتنا رش نہیں تھا اور نہ ہی فلائٹ بہت بھری ہوئی تھی۔ بہرحال پیگاسس ائیر جو ترکش ائر لائین کی ذیلی فلائیٹ ہے نہایت کم خرچ میں اپنے مقررہ وقت کے مطابق مشرقی استنبول میں واقع صبیحہ گوکن ائر پورٹ پر لے آئی۔ یورپ کی دیگر سستی فلائیٹ سے اس کا میعار کہیں بہتر تھا۔ صرف کھانا پینا خرید کر کھانا تھا اور کوئی فلم یا پروگرام دیکھنے کے لیے ونڈ اسکرین سیٹ کے پیچھے موجود نہیں تھی۔ لیکن اس کے برعکس جہاز کی نشست کشادہ تھی اور ٹائلیٹ جانے کے لیے کوئی اضافی چارجز نہ تھے۔ شاید اسی لیے پورے ڈھائی گھنٹے کی فلائیٹ میں مسافر یا تو سوتے رہے یا پھر ٹائیلٹ کی مفت سروس سے جی بھر کر فائدہ اٹھاتے رہے اور جہاز کی درمیانی راہداری کو ٹائلیٹ جانے کے لیے بنائی گئی قطار سے آراستہ رکھا۔
سفر کرنے والے زیادہ تر ترکی لوگ تھے۔ جہاز میں اعلان بھی صرف ترکی زبان میں ہورہا تھا۔ مجھے میرا پڑوسی ترک بوڑھا اپنی ٹوٹی پھوٹی جرمن میں ترجمہ کر کے تمام اعلانات مجھے بتانا اپنا فرض سمجھ رہا تھا۔ استنبول پہنچتے ہی تمام مسافر نہایت تیزی سے اپنا اپنا سامان سنبھالنا شروع ہوگئے اور جہاز جیسے ہی ہوائی اڈے پر ایک مخصوص گیٹ پر رُکا تو مسافر گیٹ کی طرف رخ کر کے جہاز سے نکلنے کو بے چین دکھائی دیئے۔
ڈاکٹر راشد حق کے ساتھ میں براہ راست رابطے میں تھی انہوں نے بتایا کہ اس کانفرنس کے دعوت نامے جرمنی میں اردو انجمن برلن اور بزم ادب برلن کے اراکین کو بھیجے گئے ہیں اور ساتھ ہی برطانیہ کی تنظیم یارک شائر ادبی فورم کی روح رواں محترمہ مہ جبیں غزل انصاری کو بھی ان کے اراکین کے ساتھ مدعو کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی ایک تنظیم کے اراکین و منتظمین کا نام لیا لیکن مہ جبیں کا نام سن کر میں سوچ میں پڑ گئی ۔ کیونکہ میں کچھ عرصہ قبل مہ جبیں سے کراچی میں متعدد بار مل چکی تھی بہت اچھی شاعرہ اور دلچسپ گفتگو کرنے والی خاتون ہیں۔ سب سے بڑھ کر ایک نرم و حساس طبیعت کی مالک ہیں۔ لیکن صدف مرزا اور مہ جبین غزل انصاری کی ایک دوسرے کے ساتھ ادبی مخالفین کی حیثیت سے اردو شاعری کے کئی لوگ واقف ہیں۔ صدف بھی ان کی مخالفت میں ایک سرد جنگ جاری رکھتی ہیں اور مہ جبین بھی میدان ادب کی اس د شنام طرازی میں ان سے پیچھے نہیں ہیں۔ مجھے ایسی صورتحال میں ان دونوں خواتین کے مابین اپنا توازن برقرار رکھنے کی فکر ہوگئی ۔ اپنی صحت سے متعلق تحفظات اور مقالے کا موضوع کہیں پیچھے رہ گیا۔ اب تصور میں صرف اس کانفرنس میں شریک ہونے والی میرے علاوہ ان پاکستانی دو خواتین کا چہرہ نظر کے سامنے تھا اور مستقبل کا واضح حال دکھائی دے رہا تھا جس میں وہ دونوں ایک مشرق کی سمت اور دوسری مغرب کی سمت مجھے درمیان میں رکھ کر کھینچ رہی ہیں۔ اس دوران صدف نے مجھے پیش کش کی کہ ہم ایک کمرہ بک کر لیتے ہیں اس سے قبل کہ دوسری جانب سے پیشکش آتی میں نے اپنا ڈبل روم بک کروا کر معذرت کی کہ میں اپنا سونے کا کمرہ سوائے اپنی فیملی کے کسی اور کے ساتھ شئیر نہیں کرتی۔ میرے اس عذر کو صدف مرزا نے بخوشی قبول کیا۔ اسی ہوٹل میں جناب راجہ شفیق کیانی صاحب بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ راجہ شفیق کیانی صاحب نہایت خوش اخلاق اور زیرک انسان ہیں ۔ وہ اسپین کے شہر بارسلونا میں ریڈیو پاک سلونا اور پاکستانی ثقافت و تمدن کے حوالے سے اوراپنی ایک اسپینش تصنیف کے لیے یورپ میں بہت معتبر پہچان رکھتے ہیں۔ برسلز کانفرنس کے علاوہ ہم نے واپسی کے وقت ائر پورٹ پر کئی گھنٹے ساتھ گزارے اور ایک دوسرے کو بہترین طور پر جان پائے تھے۔ راجہ شفیق کیانی صاحب اچھا ذوق رکھنے والے اور ادب و شاعری سے رغبت رکھنے والے ایک اچھے انسان ہیں۔ برسلز کانفرنس میں جو چیز مجھے اُن کی سب سے اچھی لگی تھی وہ ان کی انکساری ، حق گوئی اور خواتین کا احترام کرنا تھا۔ اس سے قبل عارف نقوی صاحب بھی کیانی صاحب کی تعریف کر چکے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ صدف مرزا جیسی ذہین اور با صلاحیت ادیبہ و شاعرہ اور کیانی صاحب کے ہمراہ یہ سفر یاد گار ہوگا دیگر اردو ادب سے وابستہ شخصیات اور مہ جبین کو بھی اس سفر میں قریب سے جاننے کا موقع ملے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صدف اور مہ جبین کے درمیان یہ عدو دوستی میں بدل جائے ۔ میرا مہ جبیں غزل انصاری سے فون پر اکثر رابطہ رہتا ہے وہ بھی بہت نرم دل اور دھمی طبیعت والی بہت معزز شاعرہ ہیں ۔ جناب فہیم اختر بھی اس کانفرنس میں شامل تھے ۔ فہیم بھائی ایک سادہ طبیعت کے بھولے بھالے ادیب ہیں جو دل و جان سے اردو ادب اور ادیب کی خدمت و دوستی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ وہ کئی بار برلن آچُکے ہیں اور ہمارے گھر پہ بطور مہمان بھی رہ چکے تھے اس لیے ان سے کچھ گھریلو اور برادرانہ تعلقات ویسے بھی تھے ۔ اس کے علاوہ احسان شاہد صاحب بھی برطانیہ سے تشریف لارہے تھے جو شاعر و ادیب ہیں لیکن میں انہیں نہیں جانتی تھی۔
بہر حال چند ضروری سامان اور مقالے کی تیاری کے بعد وہ دن آگیا جس دن مجھے استنبول کے لیے روانہ ہونا تھا۔ راشد حق صاحب نے واضح طور پر بتا دیا کہ شعبہ ء اردو کی خواتین میں سے کوئی بھی مجھے ائرپورٹ لینے نہیں آسکتا لیکن وہ اپنے تئیں کوشش کریں گے۔
میں صبح کی فلائیٹ سے استنبول کے لیے روانہ ہوئی تھی ۔ فلائیٹ سے ایک دن قبل ائر لائین والوں کا میسج آیا کہ جرمنی میں ایسٹر کی چھٹیاں شروع ہونے کے سبب ائر پورٹ پر رش ہونے کے امکانات ہیں ۔ لہذا مسافر اپنی فلائیٹ وقت پر لینے کے لیے پلان شدہ وقت سے ایک گھنٹہ قبل ائیر پورٹ آجائیں۔ ہم لوگ سفر سے ایک دن قبل عموماً بورڈنگ کارڈ گھر پر ہی انٹرنیٹ سے نکال کر پرنٹ کر لیتے ہیں لیکن اس بار بورڈنگ کارڈ بھی انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں ہوا تو اگلے دن فلائیٹ کے مقررہ وقت سے دو ڈھائی گھنٹے قبل ائر پورٹ پہنچ گئی۔ لیکن ائرپورٹ پہ اتنا رش نہیں تھا اور نہ ہی فلائٹ بہت بھری ہوئی تھی۔ بہرحال پیگاسس ائیر جو ترکش ائر لائین کی ذیلی فلائیٹ ہے نہایت کم خرچ میں اپنے مقررہ وقت کے مطابق مشرقی استنبول میں واقع صبیحہ گوکن ائر پورٹ پر لے آئی۔ یورپ کی دیگر سستی فلائیٹ سے اس کا میعار کہیں بہتر تھا۔ صرف کھانا پینا خرید کر کھانا تھا اور کوئی فلم یا پروگرام دیکھنے کے لیے ونڈ اسکرین سیٹ کے پیچھے موجود نہیں تھی۔ لیکن اس کے برعکس جہاز کی نشست کشادہ تھی اور ٹائلیٹ جانے کے لیے کوئی اضافی چارجز نہ تھے۔ شاید اسی لیے پورے ڈھائی گھنٹے کی فلائیٹ میں مسافر یا تو سوتے رہے یا پھر ٹائیلٹ کی مفت سروس سے جی بھر کر فائدہ اٹھاتے رہے اور جہاز کی درمیانی راہداری کو ٹائلیٹ جانے کے لیے بنائی گئی قطار سے آراستہ رکھا۔
سفر کرنے والے زیادہ تر ترکی لوگ تھے۔ جہاز میں اعلان بھی صرف ترکی زبان میں ہورہا تھا۔ مجھے میرا پڑوسی ترک بوڑھا اپنی ٹوٹی پھوٹی جرمن میں ترجمہ کر کے تمام اعلانات مجھے بتانا اپنا فرض سمجھ رہا تھا۔ استنبول پہنچتے ہی تمام مسافر نہایت تیزی سے اپنا اپنا سامان سنبھالنا شروع ہوگئے اور جہاز جیسے ہی ہوائی اڈے پر ایک مخصوص گیٹ پر رُکا تو مسافر گیٹ کی طرف رخ کر کے جہاز سے نکلنے کو بے چین دکھائی دیئے۔
ڈاکٹر راشد حق کے ساتھ میں براہ راست رابطے میں تھی انہوں نے بتایا کہ اس کانفرنس کے دعوت نامے جرمنی میں اردو انجمن برلن اور بزم ادب برلن کے اراکین کو بھیجے گئے ہیں اور ساتھ ہی برطانیہ کی تنظیم یارک شائر ادبی فورم کی روح رواں محترمہ مہ جبیں غزل انصاری کو بھی ان کے اراکین کے ساتھ مدعو کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی ایک تنظیم کے اراکین و منتظمین کا نام لیا لیکن مہ جبیں کا نام سن کر میں سوچ میں پڑ گئی ۔ کیونکہ میں کچھ عرصہ قبل مہ جبیں سے کراچی میں متعدد بار مل چکی تھی بہت اچھی شاعرہ اور دلچسپ گفتگو کرنے والی خاتون ہیں۔ سب سے بڑھ کر ایک نرم و حساس طبیعت کی مالک ہیں۔ لیکن صدف مرزا اور مہ جبین غزل انصاری کی ایک دوسرے کے ساتھ ادبی مخالفین کی حیثیت سے اردو شاعری کے کئی لوگ واقف ہیں۔ صدف بھی ان کی مخالفت میں ایک سرد جنگ جاری رکھتی ہیں اور مہ جبین بھی میدان ادب کی اس د شنام طرازی میں ان سے پیچھے نہیں ہیں۔ مجھے ایسی صورتحال میں ان دونوں خواتین کے مابین اپنا توازن برقرار رکھنے کی فکر ہوگئی ۔ اپنی صحت سے متعلق تحفظات اور مقالے کا موضوع کہیں پیچھے رہ گیا۔ اب تصور میں صرف اس کانفرنس میں شریک ہونے والی میرے علاوہ ان پاکستانی دو خواتین کا چہرہ نظر کے سامنے تھا اور مستقبل کا واضح حال دکھائی دے رہا تھا جس میں وہ دونوں ایک مشرق کی سمت اور دوسری مغرب کی سمت مجھے درمیان میں رکھ کر کھینچ رہی ہیں۔ اس دوران صدف نے مجھے پیش کش کی کہ ہم ایک کمرہ بک کر لیتے ہیں اس سے قبل کہ دوسری جانب سے پیشکش آتی میں نے اپنا ڈبل روم بک کروا کر معذرت کی کہ میں اپنا سونے کا کمرہ سوائے اپنی فیملی کے کسی اور کے ساتھ شئیر نہیں کرتی۔ میرے اس عذر کو صدف مرزا نے بخوشی قبول کیا۔ اسی ہوٹل میں جناب راجہ شفیق کیانی صاحب بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ راجہ شفیق کیانی صاحب نہایت خوش اخلاق اور زیرک انسان ہیں ۔ وہ اسپین کے شہر بارسلونا میں ریڈیو پاک سلونا اور پاکستانی ثقافت و تمدن کے حوالے سے اوراپنی ایک اسپینش تصنیف کے لیے یورپ میں بہت معتبر پہچان رکھتے ہیں۔ برسلز کانفرنس کے علاوہ ہم نے واپسی کے وقت ائر پورٹ پر کئی گھنٹے ساتھ گزارے اور ایک دوسرے کو بہترین طور پر جان پائے تھے۔ راجہ شفیق کیانی صاحب اچھا ذوق رکھنے والے اور ادب و شاعری سے رغبت رکھنے والے ایک اچھے انسان ہیں۔ برسلز کانفرنس میں جو چیز مجھے اُن کی سب سے اچھی لگی تھی وہ ان کی انکساری ، حق گوئی اور خواتین کا احترام کرنا تھا۔ اس سے قبل عارف نقوی صاحب بھی کیانی صاحب کی تعریف کر چکے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ صدف مرزا جیسی ذہین اور با صلاحیت ادیبہ و شاعرہ اور کیانی صاحب کے ہمراہ یہ سفر یاد گار ہوگا دیگر اردو ادب سے وابستہ شخصیات اور مہ جبین کو بھی اس سفر میں قریب سے جاننے کا موقع ملے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صدف اور مہ جبین کے درمیان یہ عدو دوستی میں بدل جائے ۔ میرا مہ جبیں غزل انصاری سے فون پر اکثر رابطہ رہتا ہے وہ بھی بہت نرم دل اور دھمی طبیعت والی بہت معزز شاعرہ ہیں ۔ جناب فہیم اختر بھی اس کانفرنس میں شامل تھے ۔ فہیم بھائی ایک سادہ طبیعت کے بھولے بھالے ادیب ہیں جو دل و جان سے اردو ادب اور ادیب کی خدمت و دوستی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ وہ کئی بار برلن آچُکے ہیں اور ہمارے گھر پہ بطور مہمان بھی رہ چکے تھے اس لیے ان سے کچھ گھریلو اور برادرانہ تعلقات ویسے بھی تھے ۔ اس کے علاوہ احسان شاہد صاحب بھی برطانیہ سے تشریف لارہے تھے جو شاعر و ادیب ہیں لیکن میں انہیں نہیں جانتی تھی۔
بہر حال چند ضروری سامان اور مقالے کی تیاری کے بعد وہ دن آگیا جس دن مجھے استنبول کے لیے روانہ ہونا تھا۔ راشد حق صاحب نے واضح طور پر بتا دیا کہ شعبہ ء اردو کی خواتین میں سے کوئی بھی مجھے ائرپورٹ لینے نہیں آسکتا لیکن وہ اپنے تئیں کوشش کریں گے۔
میں صبح کی فلائیٹ سے استنبول کے لیے روانہ ہوئی تھی ۔ فلائیٹ سے ایک دن قبل ائر لائین والوں کا میسج آیا کہ جرمنی میں ایسٹر کی چھٹیاں شروع ہونے کے سبب ائر پورٹ پر رش ہونے کے امکانات ہیں ۔ لہذا مسافر اپنی فلائیٹ وقت پر لینے کے لیے پلان شدہ وقت سے ایک گھنٹہ قبل ائیر پورٹ آجائیں۔ ہم لوگ سفر سے ایک دن قبل عموماً بورڈنگ کارڈ گھر پر ہی انٹرنیٹ سے نکال کر پرنٹ کر لیتے ہیں لیکن اس بار بورڈنگ کارڈ بھی انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں ہوا تو اگلے دن فلائیٹ کے مقررہ وقت سے دو ڈھائی گھنٹے قبل ائر پورٹ پہنچ گئی۔ لیکن ائرپورٹ پہ اتنا رش نہیں تھا اور نہ ہی فلائٹ بہت بھری ہوئی تھی۔ بہرحال پیگاسس ائیر جو ترکش ائر لائین کی ذیلی فلائیٹ ہے نہایت کم خرچ میں اپنے مقررہ وقت کے مطابق مشرقی استنبول میں واقع صبیحہ گوکن ائر پورٹ پر لے آئی۔ یورپ کی دیگر سستی فلائیٹ سے اس کا میعار کہیں بہتر تھا۔ صرف کھانا پینا خرید کر کھانا تھا اور کوئی فلم یا پروگرام دیکھنے کے لیے ونڈ اسکرین سیٹ کے پیچھے موجود نہیں تھی۔ لیکن اس کے برعکس جہاز کی نشست کشادہ تھی اور ٹائلیٹ جانے کے لیے کوئی اضافی چارجز نہ تھے۔ شاید اسی لیے پورے ڈھائی گھنٹے کی فلائیٹ میں مسافر یا تو سوتے رہے یا پھر ٹائیلٹ کی مفت سروس سے جی بھر کر فائدہ اٹھاتے رہے اور جہاز کی درمیانی راہداری کو ٹائلیٹ جانے کے لیے بنائی گئی قطار سے آراستہ رکھا۔
سفر کرنے والے زیادہ تر ترکی لوگ تھے۔ جہاز میں اعلان بھی صرف ترکی زبان میں ہورہا تھا۔ مجھے میرا پڑوسی ترک بوڑھا اپنی ٹوٹی پھوٹی جرمن میں ترجمہ کر کے تمام اعلانات مجھے بتانا اپنا فرض سمجھ رہا تھا۔ استنبول پہنچتے ہی تمام مسافر نہایت تیزی سے اپنا اپنا سامان سنبھالنا شروع ہوگئے اور جہاز جیسے ہی ہوائی اڈے پر ایک مخصوص گیٹ پر رُکا تو مسافر گیٹ کی طرف رخ کر کے جہاز سے نکلنے کو بے چین دکھائی دیئے۔
ڈاکٹر راشد حق کے ساتھ میں براہ راست رابطے میں تھی انہوں نے بتایا کہ اس کانفرنس کے دعوت نامے جرمنی میں اردو انجمن برلن اور بزم ادب برلن کے اراکین کو بھیجے گئے ہیں اور ساتھ ہی برطانیہ کی تنظیم یارک شائر ادبی فورم کی روح رواں محترمہ مہ جبیں غزل انصاری کو بھی ان کے اراکین کے ساتھ مدعو کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی ایک تنظیم کے اراکین و منتظمین کا نام لیا لیکن مہ جبیں کا نام سن کر میں سوچ میں پڑ گئی ۔ کیونکہ میں کچھ عرصہ قبل مہ جبیں سے کراچی میں متعدد بار مل چکی تھی بہت اچھی شاعرہ اور دلچسپ گفتگو کرنے والی خاتون ہیں۔ سب سے بڑھ کر ایک نرم و حساس طبیعت کی مالک ہیں۔ لیکن صدف مرزا اور مہ جبین غزل انصاری کی ایک دوسرے کے ساتھ ادبی مخالفین کی حیثیت سے اردو شاعری کے کئی لوگ واقف ہیں۔ صدف بھی ان کی مخالفت میں ایک سرد جنگ جاری رکھتی ہیں اور مہ جبین بھی میدان ادب کی اس د شنام طرازی میں ان سے پیچھے نہیں ہیں۔ مجھے ایسی صورتحال میں ان دونوں خواتین کے مابین اپنا توازن برقرار رکھنے کی فکر ہوگئی ۔ اپنی صحت سے متعلق تحفظات اور مقالے کا موضوع کہیں پیچھے رہ گیا۔ اب تصور میں صرف اس کانفرنس میں شریک ہونے والی میرے علاوہ ان پاکستانی دو خواتین کا چہرہ نظر کے سامنے تھا اور مستقبل کا واضح حال دکھائی دے رہا تھا جس میں وہ دونوں ایک مشرق کی سمت اور دوسری مغرب کی سمت مجھے درمیان میں رکھ کر کھینچ رہی ہیں۔ اس دوران صدف نے مجھے پیش کش کی کہ ہم ایک کمرہ بک کر لیتے ہیں اس سے قبل کہ دوسری جانب سے پیشکش آتی میں نے اپنا ڈبل روم بک کروا کر معذرت کی کہ میں اپنا سونے کا کمرہ سوائے اپنی فیملی کے کسی اور کے ساتھ شئیر نہیں کرتی۔ میرے اس عذر کو صدف مرزا نے بخوشی قبول کیا۔ اسی ہوٹل میں جناب راجہ شفیق کیانی صاحب بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ راجہ شفیق کیانی صاحب نہایت خوش اخلاق اور زیرک انسان ہیں ۔ وہ اسپین کے شہر بارسلونا میں ریڈیو پاک سلونا اور پاکستانی ثقافت و تمدن کے حوالے سے اوراپنی ایک اسپینش تصنیف کے لیے یورپ میں بہت معتبر پہچان رکھتے ہیں۔ برسلز کانفرنس کے علاوہ ہم نے واپسی کے وقت ائر پورٹ پر کئی گھنٹے ساتھ گزارے اور ایک دوسرے کو بہترین طور پر جان پائے تھے۔ راجہ شفیق کیانی صاحب اچھا ذوق رکھنے والے اور ادب و شاعری سے رغبت رکھنے والے ایک اچھے انسان ہیں۔ برسلز کانفرنس میں جو چیز مجھے اُن کی سب سے اچھی لگی تھی وہ ان کی انکساری ، حق گوئی اور خواتین کا احترام کرنا تھا۔ اس سے قبل عارف نقوی صاحب بھی کیانی صاحب کی تعریف کر چکے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ صدف مرزا جیسی ذہین اور با صلاحیت ادیبہ و شاعرہ اور کیانی صاحب کے ہمراہ یہ سفر یاد گار ہوگا دیگر اردو ادب سے وابستہ شخصیات اور مہ جبین کو بھی اس سفر میں قریب سے جاننے کا موقع ملے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صدف اور مہ جبین کے درمیان یہ عدو دوستی میں بدل جائے ۔ میرا مہ جبیں غزل انصاری سے فون پر اکثر رابطہ رہتا ہے وہ بھی بہت نرم دل اور دھمی طبیعت والی بہت معزز شاعرہ ہیں ۔ جناب فہیم اختر بھی اس کانفرنس میں شامل تھے ۔ فہیم بھائی ایک سادہ طبیعت کے بھولے بھالے ادیب ہیں جو دل و جان سے اردو ادب اور ادیب کی خدمت و دوستی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ وہ کئی بار برلن آچُکے ہیں اور ہمارے گھر پہ بطور مہمان بھی رہ چکے تھے اس لیے ان سے کچھ گھریلو اور برادرانہ تعلقات ویسے بھی تھے ۔ اس کے علاوہ احسان شاہد صاحب بھی برطانیہ سے تشریف لارہے تھے جو شاعر و ادیب ہیں لیکن میں انہیں نہیں جانتی تھی۔
بہر حال چند ضروری سامان اور مقالے کی تیاری کے بعد وہ دن آگیا جس دن مجھے استنبول کے لیے روانہ ہونا تھا۔ راشد حق صاحب نے واضح طور پر بتا دیا کہ شعبہ ء اردو کی خواتین میں سے کوئی بھی مجھے ائرپورٹ لینے نہیں آسکتا لیکن وہ اپنے تئیں کوشش کریں گے۔
میں صبح کی فلائیٹ سے استنبول کے لیے روانہ ہوئی تھی ۔ فلائیٹ سے ایک دن قبل ائر لائین والوں کا میسج آیا کہ جرمنی میں ایسٹر کی چھٹیاں شروع ہونے کے سبب ائر پورٹ پر رش ہونے کے امکانات ہیں ۔ لہذا مسافر اپنی فلائیٹ وقت پر لینے کے لیے پلان شدہ وقت سے ایک گھنٹہ قبل ائیر پورٹ آجائیں۔ ہم لوگ سفر سے ایک دن قبل عموماً بورڈنگ کارڈ گھر پر ہی انٹرنیٹ سے نکال کر پرنٹ کر لیتے ہیں لیکن اس بار بورڈنگ کارڈ بھی انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں ہوا تو اگلے دن فلائیٹ کے مقررہ وقت سے دو ڈھائی گھنٹے قبل ائر پورٹ پہنچ گئی۔ لیکن ائرپورٹ پہ اتنا رش نہیں تھا اور نہ ہی فلائٹ بہت بھری ہوئی تھی۔ بہرحال پیگاسس ائیر جو ترکش ائر لائین کی ذیلی فلائیٹ ہے نہایت کم خرچ میں اپنے مقررہ وقت کے مطابق مشرقی استنبول میں واقع صبیحہ گوکن ائر پورٹ پر لے آئی۔ یورپ کی دیگر سستی فلائیٹ سے اس کا میعار کہیں بہتر تھا۔ صرف کھانا پینا خرید کر کھانا تھا اور کوئی فلم یا پروگرام دیکھنے کے لیے ونڈ اسکرین سیٹ کے پیچھے موجود نہیں تھی۔ لیکن اس کے برعکس جہاز کی نشست کشادہ تھی اور ٹائلیٹ جانے کے لیے کوئی اضافی چارجز نہ تھے۔ شاید اسی لیے پورے ڈھائی گھنٹے کی فلائیٹ میں مسافر یا تو سوتے رہے یا پھر ٹائیلٹ کی مفت سروس سے جی بھر کر فائدہ اٹھاتے رہے اور جہاز کی درمیانی راہداری کو ٹائلیٹ جانے کے لیے بنائی گئی قطار سے آراستہ رکھا۔
سفر کرنے والے زیادہ تر ترکی لوگ تھے۔ جہاز میں اعلان بھی صرف ترکی زبان میں ہورہا تھا۔ مجھے میرا پڑوسی ترک بوڑھا اپنی ٹوٹی پھوٹی جرمن میں ترجمہ کر کے تمام اعلانات مجھے بتانا اپنا فرض سمجھ رہا تھا۔ استنبول پہنچتے ہی تمام مسافر نہایت تیزی سے اپنا اپنا سامان سنبھالنا شروع ہوگئے اور جہاز جیسے ہی ہوائی اڈے پر ایک مخصوص گیٹ پر رُکا تو مسافر گیٹ کی طرف رخ کر کے جہاز سے نکلنے کو بے چین دکھائی دیئے۔