اُردو کے مشہور محقق، ادیب، شاعر اور معلم پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ موصوف دبستانِ لاہور کے علمی اور ادبی حلقوں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ایشیا کی سب سے بڑی درس گاہ جامعہ پنجاب میں بطور پروفیسر (اردو زبان و ادب) اپنے تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے بے شمار موضوعات پر قلم فرسائی کی ہے۔ ان کی ہر ایک تصنیف ان کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اقبال کے حوالے سے ان کا کام ان کی علم دوستی کی سند ہے۔ انھوں نے مولانا ظفر علی خان کے حوالے سے ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا جس سے ادبی دنیا اس سے پہلے نا آشنا تھی۔ مکاتیب ظفر علی خان کی دریافت، ترتیب اور تدوین کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے وہ ان کی ظفر شناسی کی عمدہ مثال ہیں۔
ڈاکٹر زاہد منیر عامر پرکشش، سنجیدہ، پروقار اور بارعب شخصیت کے مالک ہیں۔ بڑی بڑی روشن آنکھیں، چہرے پر چھوٹی چھوٹی داڑھی، درمیانہ قد، چلتے ہیں تو نظریں جھکا کر، ہر وقت کتابوں کی دلدل میں غرق، نئے سے نئے موضوعات کی تلاش میں سر گرداں، دوستوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملنا، ہر چھوٹے بڑے کی عزت کرنا ان کے شعار میں شامل ہے۔ جب بات کرتے ہیں تو ٹھہر ٹھہر کر اور بردباری کے ساتھ تاکہ اگلے انسان تک تمام بات کا ابلاغ مکمل طور پر ہو جائے۔میں نے کبھی کسی معاملے میں ان کو جلدی کرتے نہیں دیکھا۔ یہ بات ان کے مزاج کا حصہ نہیں ہے۔ کبھی غصہ کرتے اور کسی کو ڈانٹتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ہر ایک کے ساتھ ادبی انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ملازمین سے بات کرنے کا انداز بھی ادبی ہے۔ یہاں تک کہ ان کی غیر موجودگی میں بھی ان کے ملازمین کو ان کی بہت زیادہ تعریف کرتے سنا ہے۔ اپنے شاگردوں کی اصلاح ایسے انداز سے کرتے ہیں کہ ان کی دل آزاری کا کوئی پہلو نہیں پایا جاتا۔ دوسروں کو اصلاح دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ کبھی کسی سے گلہ شکوہ کرتے نہیں دیکھا۔ صابر و شاکر طبیعت کے مالک ہیں۔ اردو اتنے درست تلفظ کے ساتھ بولتے ہیں کہ سننے والوں پر سحر طاری ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر زاہد منیر اب تک چالیس سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان کی کتابیں ملک اور بیرون ملک سے اردو عربی اور انگریزی میں شائع ہوئی ہیں۔ وہ ایک خوش کلام شاعر بھی ہیں۔ ان کی شاعری کے بھی کئی مجموعے چھپ چکے ہیں اور ان کی شاعری دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکی ہے جن میں عربی، فرانسیسی، انگریزی، فارسی، پنجابی وغیرہ شامل ہیں۔ ظفر شناسی پر ان کی مستقل تصانیف کی تعداد پانچ ہے، ان کے علاوہ ان کی بعض دوسری کتابوں میں بھی مولانا ظفر علی خان پر ابواب شامل ہیں۔ مولانا ظفر علی خان کے حوالے سے مختلف ملکی اور غیر ملکی رسائل میں مطبوعہ مقالہ جات اور مضامین کی تعداد کم و بیش ۶۲ ہے۔ اخبارات اور ہفت روزہ رسائل میں چھپنے والے مضامین کی مجموعی تعداد ۰۰۴ سے زائد ہے۔ وہ ۲۱ ادبی رسالوں کی ادارت بھی کر چکے ہیں۔ علمی و ادبی، اسلامی اور تحقیقی موضوعات پر پاکستان کے مختلف چینلز پر چار سو (۰۰۴) سے زائد لیکچرز دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ریڈیو پاکستان پر بھی ان کے بے شمار پروگرام براہ راست نشر ہو چکے ہیں۔ وہ عالمی اور قومی پریس میں کالم نگاری بھی کرتے رہے ہیں۔ دورِ حاضر میں ان کا کالم روزنامہ ’نئی بات‘ میں ’تناظر‘ کے عنوان سے چھپ رہا ہے اور علمی و ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر زاہد منیر کا یہ تمام کام انھیں منفرد شخصیت کا حامل محقق اور مصنف بنا دیتا ہے۔
مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبال پر آپ کے کام کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ نوجوان نسل کو اقبال پڑھانا اور اقبال کی فکر سے آگاہ کرنا ان کا جذبہ اور شوق ہے۔ انھیں دنیا کی مختلف یونیورسٹیز میں لیکچرز کے لیے بلایا جاتا ہے۔ وہ تیس برس مصر کی مشہور یونیورسٹی جامعہ الازہر میں تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔ مصر، شام، ماریشش، جاپان، اردن، لبنان، جرمنی، فرانس، اسپین اور سوئٹزرلینڈ وغیرہ میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ آپ نے ایک محقق اور استاد کی حیثیت سے مختلف ممالک کے سفر کیے۔ ان کا ظفر علی خان کے حوالے سے تحقیقی کام ان کی لگن اور فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
”میں نے اقبال کو پڑھ کر دین اسلام کو سمجھا ہے۔ اقبال ایسا مفکر ہے جس نے حیات کائنات کے مسائل پر غور کیا ہے۔ پوری انسانی تاریخ کی روشنی میں بنی نوع انسان کے لیے ایک لائحہ عمل تجویز کیا ہے۔ وہ لائحہ عمل وہی ہے جو قرآن تجویز کرتا ہے۔ اقبال نے کہا ’میں نے جو کچھ کہا ہے وہ سب قرآن سے ماخوذ ہے۔‘ اقبال نے ایک خاص انداز میں کہا ’اگر میرا دل دھندلا اور آئینہ ہو اور میری باتوں میں قرآن کے سوا کوئی اور بات پوشیدہ ہو تو قیامت کے دن مجھے ذلیل و رسوا کر دیا جائے۔ رسول پاک ﷺ کے بوسہ مبارک سے محروم کر دیا جائے۔ میں نے سوچا جب اتنا بڑا مفکر اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام ہی انسان کی فلاح کا راستہ ہے تو پھر اسی طریقے کو سمجھنا چاہئے۔“
ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے شعری سفر کا آغاز بہت ابتدائی عمر میں ہو گیا تھا۔ پہلے پہل انھیں تاریخی اور اسلامی شاعری سے دلچسپی پیدا ہوئی لیکن بہت جلد ان کے خیالات میں وسعت آئی اور وہ ادب کے وسیع میدانوں سے متعارف ہو گئے۔ ان کے دورِ طالب علمی کے ایک دوست ایم اسلم شہزاد نے اپنے ایک مضمون ’ایک ہشت پہلو نگینہ‘ میں ان کی شخصیت کے اس پہلو کا تجزیہ کرتے ہوئے اب سے تیس برس قبل ۶۸۹۱ءمیں لکھا:
”ایک وقت تھا کہ ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی لائبریری میں شاہنامہ اسلام کے سوا شاعری کی کوئی اور کتاب موجود نہیں تھی، لیکن آج ان کی لائبریری جو دانش کدہ کے نام سے منسوب ہے اس میں غالب سے لے کر احمد فراز، نظیر اکبر آبادی سے لے کر ساحر لدھیانوی تک اور اختر شیرانی، مصطفی زیدی سے لے کر امرتا پریتم تک اردو بلکہ پنجابی کے بھی تمام قابل ذکر مجموعے موجود ہیں۔ اس وسعت مطالعہ اور اردو شاعری پر گہری نظر کے باعث ڈاکٹر زاہد منیر نے اردو شاعری کی مختلف اصناف پر عبور حاصل کر لیا۔ ان کی پہلی غزل کا شعر ملاحظہ ہو:
عقل کہتی ہے نیا روپ نئے چہرے ہوں
مرا وجدان وہی لوگ پرانے مانگے
اس جیسا شعر کہنے والا شاعر جب ‘تجدید پیمانُ، ’انکشافات‘، ’جاوداں‘ اور ’لمحوں کا قرض‘ جیسی معرکة الآرا نظمیں لکھتا ہے اور ’زمیں سے تابہ فلک اضطراب کتنے تھے‘ جیسی جدید اورمنفرد لب و لہجے کی غزلیات ڈاکٹر زاہد منیر عامر کو ایک بڑا شاعر بنا دیتی ہیں۔
وہی روش ہے وہی اضطراب کا موسم
پھر آگیا ہے مسلسل عذاب کا موسم
سوال اگتے ہیں پھیلتے ہیں پھیل جاتے ہیں
پران پہ آتا نہیں جواب کا موسم
ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی غزل میں جن انوکھے خیالات اور منفرد جذبات کو الفاظ کا روپ دیا ہے شاید ہی کسی اور شاعر کی نگاہ یہاں پہنچی ہو۔ ان کی غزل میں معیار کی پختگی اور زبان کی سلاست موجود ہے اور خیالات کو اس نادر انداز میں قلم بند کرتے ہیں کہ ان کا مضمون امر کر دیتے ہیں۔ ان اشعار میں مثال دیکھئے:
زمیں سے تابہ فلک اضطراب کتنے تھے
نظر ملی نہ تھی جب تک حجاب کتنے تھے
امیدیں توڑ کے کتنا سکون ملتا ہے
توقعات کے غم میں عذاب کتنے تھے
میں زندگی کے تسلسل کی فکر میں گم تھا
فضا کی گود میں رقصاں حباب کتنے تھے
کتاب زیست سے جو میں نے پھاڑ ڈالے ہیں
وہ یاس و حسرت و مشکل کے باب کتنے تھے
جنوں کے جذبوں نے دبا دیا ورنہ
میں نوجوان ہوں مجھ میں شباب کتنے تھے
صرف ان چند اشعار سے ہی ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی سوچ اور فکر کے ساتھ فن کی عمدگی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ یہ زاہد منیر عامر کی شاعری پر اب سے تیس برس پہلے کیا گیا تبصرہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انھوں نے بہت کچھ سیکھا اور ان کا فنی سفر مسلسل آگے بڑھتا رہا۔
بقول ذوالکفل بخاری مرحوم انھوں نے ربع صدی میں صدیوں کا سفر طے کیا اور آج ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا شمار اردو کے نامور شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی سوچ اور فکر میں گہرائی پائی جاتی ہے اور ان کے فن میں داخلیت کے پہلو واضح دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ہاں اس دور کی نادر تشبیہات بھی ملتی ہیں اور ان کی غزل میں ہلکا سوز اور دھیمے مزاج کی مٹھاس اور ادب کی چاشنی پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔ کون جگر سے سینچے ہوئے الفاظ کبھی بے اثر نہیں ہوتے۔ بلا شبہ ڈاکٹر زاہد منیر عامر اس دور کے بڑے شاعر ہیں جن کی شاعری کو احمد ندیم قاسمی نے بڑی شاعری میں شامل کیا اور ڈاکٹر وزیر آغا نے ان کی نظموں کو سراہا۔ زاہد منیر عامر کے اوّلین شعری مجموعے ’پہلی سحر کے رنگ‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز دانش اور حکیم محمد سعید شہید نے لکھا تھا:
”پہلی سحر کے رنگ، زاہد منیر عامر کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ اس سے پہلے ان کی چھ نثری تصانیف ہیں۔ ’لمحوں کا قرض‘، ’اپنی دنیا آپ پیدا کر‘، ’مکاتیب ظفر علی خان‘، ’نقوش جاوداں‘، ’مولانا تاج محمود‘ اور ’سید عطاءاللہ شاہ بخاری‘ شائع ہو چکی ہیں۔ یہ تمام تصانیف ان کی فکری استعداد اور تحقیقی صلاحیت کی آئینہ دار ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ بھی شائع ہو گیا ہے۔ یہ مجموعہ ان کی فکر کا غماز ہے۔ اتنی کم عمری میں ان کی فکر دیکھ کر تعجب ہوتا ہے اور امید ہوتی ہے کہ آگے چل کر یہ نوجوان ایسے کارہائے نمایاں سر انجام دے گا جو تاریخ میں جگہ پا سکیں گے۔ ان کی شاعری تمام ڈگر سے بٹتی ہوئی نظر آتی ہے۔ وہ معاملات حسن و عشق سے مسائل حیات و کائنات پر توجہ دیتے ہیں۔ زبان نہایت سلیس اور سادہ بیان نہایت شگفتہ ہوتا ہے۔ وہ الفاظ نئے ڈھنگ سے استعمال کرنے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اور شاید الفاظ کا تخلیقی سطح پر استعمال ہی شاعری کی شرط اوّلین ہے۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ نئی لسانی تشکیل نام پر زبان کو مسخ اور شاعری کو بے رنگ اور مہمل بنا رہے ہیں لیکن زاہد منیر عامر اُن لوگوں سے یکسر مختلف ہیں، یہ الفاظ کے مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے انھیں نئے انداز سے استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے بیان کی شگفتگی مجروح نہیں ہوتی اور نہ احمال کی کوئی چھاپ پڑتی ہے۔“
اُن کا دوسرا شعری مجموعہ ’تراعکس آئنوں میں‘ شائع ہوا۔ تیسرے شعری مجموعے ’نظم مجھ سے کلام کرتی ہے‘ تک پہنچتے پہنچتے ان کا فنی سفر بہت آگے بڑھ چکا تھا۔ چنانچہ اب ان کی شاعری احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر وزیر آغا، حنیف رامے، نظیر صدیقی، عطاءالحق قاسمی، ڈاکٹر انور سدید، پروفیسر صابر لودھی جیسے فنکاروں سے خراج تحسین حاصل کر رہی تھی۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے خیال ظاہر کیا کہ زاہد منیر عامر کی نظموں میں موضوعات کا تنوع ہے۔ اس نے سامنے کی گری پڑی چیزوں سے لے کر آسمان تک کے لطیف ترین ابعاد تک کو اپنی نظموں میں پیش کیا ہے لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ ’محبت‘ اس کا عزیز ترین موضوع ہے۔ جناب حنیف رامے نے ڈاکٹر زاہد منیر کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
”زاہد منیر عامر وہ شاعر ہے جو جنون اور زُہد کے سنگم پر کھڑا ہے، اس کے دل میں جنون کا دور دورہ ہے مگر اس کا ذہن زُہد کا پاسدار ہے، اس کے جنون کی نوعیت عاشقانہ ہے کیونکہ اس کا خمیر ہی عشق سے اٹھا ہے لیکن اردگرد کی تیز حرکت کرتی زندگی سے اتنی فرصت عشق نہیں دیتی جس کی طلب اس کے دل میں ہے اور نہ ہی اس کی اخلاقی تربیت اسے عشق کے مقام سے گر کر ہوس کے دائرے میں داخل ہونے کی اجازت دیتی ہے۔ اس کشمکش نے اس کے کلام میں شائستگی اور اداسی کے کتنے ہی نایاب رنگ شامل کر دیے ہیں، یہ نہیں کہ اسے اپنے محبوب سے جفا کا گِلہ ہے، نہیں، وہ تو اس کا عکس ستاروں اور درختوں کے علاوہ فطرت کے ہر آئینے میں دیکھتا اور سرخوشی اور شادابی کے عالم میں پکار اٹھتا ہے
ترے آنچل کے موتی چمکتے رہیں
تیری افشاں کی کرنیں لپکتی رہیں
خواب آنکھوں میں تیری اُترتے رہیں
لفظ ہونٹوں پہ تیرے مہکتے رہیں
ان کی ایک نظم محبت امتحاں ہے بڑی دلکش اسلوب کی حامل ہے ملاحظہ ہو۔
ذرا دیکھو گزرتے روزوشب کو
ہر اک لمحہ ستارہ ہے
اگرتسخیر ہوجائے توہرلمحہ تمھاراہے
تمھارے خوب صورت ہاتھ میں کتنے ستارے ہیں
انھیں تسخیر کر لوتوتمھاری مانگ میں یہ سب ستارے جگمگائیں گے
ستارے اور آئیں گے
فلک بھی اورآئیں گے
اگرتم روشنی سے دوستی کرلو
تویہ جانو کہ ہرلمحہ محبت کا نشاں ہے
محبت امتحاں ہے
لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کے دل میں اُن لمحوں کے زیاں کا دکھ بھرا غم بھی موجزن رہتا ہے جو عشق میں صرف ہونے کے بجائے ستم ہائے روزگار اور حزم و احتیاط کی نذر ہو گئے۔ بہر حال اس زیاں کا ایک فائدہ زاہد منیر عامر کو پہنچا ہے جو حالی کے بعد آج کے دور کے بیشتر شاعروں کو نصیب نہیں ہوا کہ اس کے زُہد نے اُس کے عشق کی تہذیب کر دی ہے اور بے لگام جذبوں کو متانت کا لباس عطا کر دیا ہے، اس کی شاعری کا مجموعی تاثر ایک روحانی اضطراب سے عبارت ہے جسے غالب نے ’ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب‘ کہہ کر زبان دی تھی۔
ڈاکٹر زاہد منیرکے تمام تر فیوض سے بہرہ ور ہونے کے باوجود اس لیے اداس نظر آتا ہے کہ وہ موجود سے زیادہ مقصود کا متلاشی ہے، اس کے اضطراب کی یہی جہت کہ ’ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں‘ اسے اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہے۔“
جہاں تک ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی ادبی زندگی کا تعلق ہے اس میں شاعری کے علاوہ تصنیف و تالیف، صحافت اور تنقید کا بھی بڑا حصہ موجود ہے۔ زاہد منیر عامر کی پہلی حیثیت ایک مصنف اور محقق کی ہے۔ ان کی اس حیثیت کو ثابت کرنے کے لیے ’مکاتیب ظفر علی خاں‘ چلچر اغ، روشناس، خطوط و خیوط ظفر علی خان، تاریخ جامعہ پنجاب، چار موسم ایچی سن کالج میں کلیات میر سوز اور اقبالیات پر ان کی انگریزی و اردو کتب بطور نمونہ پیش کی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی شخصیت مختلف جہتوں پر مشتمل خوبیوں کا مجموعہ ہے، ان کو ہم کسی ایک جہت میں محدود نہیں کر سکتے۔ انھوں نے بے شمار موضوعات پر لکھا ہے۔ وہ بیک وقت شاعر بھی ہیں، ادیب بھی، کالم نگار بھی، ٹیلی ویژن کے میزبان بھی، مؤلف و مدون بھی ہیں، پروفیسر بھی، اقبال شناس بھی، ظفر شناس بھی، مخطوطہ شناس بھی ہیں، میر سوز شناس بھی، سفر نامہ نگار بھی، نقاد بھی، مفکر بھی ہیں محقق بھی جدید ادب کے پارکھ بھی ہیں اور قدیم ادب کے عاشق بھی۔ غرض ان کا کام مختلف حوالوں سے مختلف اصنافِ نظم و نثر میں بکھرا ہوا ہے۔ لہذا ایسی شخصیت کو کسی ایک شعبے میں محدود یا کسی ایک صنف کے ساتھ منسوب کرنامناسب نہیں ۔
غالب کا یہ شعر ان پر ہی صادق آتاہے ۔
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشاکہیں جسے
ایساکہاں سے لاﺅں کہ تجھ ساکہیں جسے