کورونا کے دنوں میں فارغ بیٹھنا بہت بیزار کن تجربہ ثابت ہو رہا ہے . بے کاری کو چھوتی فراغت میں بھی کوئی دلچسپی نہیں. سونا ، کھانا ،دوستوں سے گپ شپ، سیر سپاٹے، آوارہ گردی، موسیقی، شعر، فلم حتیٰ کہ مطالعے کا لطف بھی اسی وقت آتا ہے جب انسان آٹھ گھنٹے کام کر کے آیا ہو. آج کل تو نہ سونے میں لطف نہ جاگنے میں مزا . ناصر کاظمی کہتے تھے نا کہ
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
تو ہمارا خیال ہے کہ ناصر کاظمی کے پاس مصروفیت کی کمی ہوگی. جس بندے نے دن میں پوری توانائی کے ساتھ آٹھ گھنٹے کام کیا ہو اس کا بیزاری سے کیا لینا دینا. ان دنوں ہم سب شاید زندگی کی بد ترین بے زاری سے گزر رہے ہیں. ہر کوئی اپنے طور پر اس بیزاری سے مقابلہ کررہا ہے . ہم نے بھی اسے کم کرنے کے لیے اور بہت سے کاموں کے ساتھ ساتھ فلم بینی کا سہارا لیا .
سچی بات ہے کہ اس بیکاری میں سچے سُچے آرٹ میں بھی جی نہیں لگتا. آرٹ تو ایک طرف رہا، اگر فلم میں ڈرامائی کیفیات ذرا زیادہ ہوں تو بھی گھبراہٹ ہونے لگتی ہے. ہیرو ہیروئین کا وقتی اور لمحاتی فراق بھی دلِ محزوں پہ گراں گزرتا ہے. ایسے میں ایک دوست نے مشورہ دیا کہ جنوبی ہند کی فلمیں دیکھو کہ نہ کوئی خاص موضوع، نہ زیادہ ڈرامائیت اور نہ ہی عشق کی گہرائی. سیدھی سادی مار دھاڑ. حق و باطل کی کشمکش کہ جسے اس یقین سے دیکھا جاسکتا ہے کہ آخر میں حق فتح یاب ہو گا.
شاعری اور ڈرامے کے باب میں ارسطو نے کتھارسس کو ان فنون کی علت غائی قرار دیا. اس نے بتایا کہ ڈرامہ دیکھنے سے ناظر کا کتھارسس ہوجاتا ہے. اس نے اس صنف کے لیے ٹریجڈی کا لفظ استعمال کیا اور ہم نے اسے اردو میں المیہ کہ دیا. ارسطو نے المیہ تخلیق کرنے کا طریقہ بھی بتایا. اس کے خیال میں جب ہیرو کسی چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے بہت بڑی مشکل کا شکار ہو جائے اور اسے ان مصائب کا سامنا کرنا پڑے کہ جن کا وہ سزا وار نہ تھا تو المیہ پیدا ہوتا ہے. ناظر کو ہیرو سے ہم دردی پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے دکھ کو محسوس کرنے کے بعد ناظر کے جذبات اعتدال میں آجا تے ہیں اور اسے ہی کتھارسس کہتے ہیں.
یہ بہت دلچسپ نظریہ ہے. باذوق قارئین کرام کبھی اس کی بوطیقا ضرور پڑھیں . انھیں محسوس ہوگا کہ ہمارے ڈرامے پر ارسطو کے نظریے کے اثرات آج بھی دکھائی دیتے ہیں . آج بھی ٹریجڈی کے لیے وہی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جو بوطیقا میں بیان ہوئے ہیں. جنوبی ہند کی فلموں کی صورت حال البتہ قدرے مختلف ہے. ان فلموں میں ہیرو کے ساتھ ساتھ ولن بھی مصیبت کا شکار رہتا ہے. فلم کے آغاز سے ہی یہ بیچارہ پٹنا شروع کردیتا ہے اور آخر میں تو جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے. اس سے پتا نہیں کتھارسس تو ہوتا ہے یا نہیں البتہ وقت خوب گزرتا ہے. جنوبی ہند کی فلموں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں ہیرو ہیروئین کی صورت سے زیادہ سیرت کو اہمیت دی جاتی ہے. اللہ کی بنائی صورتوں میں عیب نکالنے والے ہم کون ہوتے ہیں مگر کیا کہیے کہ فلمی ہیرو ہیروئین کا جو تصور بچپن سے ذہن میں بیٹھا ہے ان کی شکل وصورت اس کے مقابلے میں بہت دبی دبی سے ہوتی ہے. ہم نے تو کوئی فلم ایسی نہیں دیکھی کہ جس میں دلیپ کمار، محمد علی. دیو آنند، وحید مراد، ندیم ، سنتوش یا سلمان خان نظر آئے ہوں یا کوئی ایسی ہیروئین دکھائی پڑی ہو کہ جسے پرانی فلمی زبان میں ” پری چہرہ” کہا جاسکے اور جسے دیکھ کر دین و دل کی فکر پڑجائے. ہیرو کے کردار میں جو پختگی، ہمت، اعلیٰ ظرفی، بہادری وغیرہ عام طور پر نظر آتی ہے وہ ہمارے تصوراتی ہیرو سے سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے. یہ ہیرو ایسی جسمانی طاقت کا حامل ہوتا ہے کہ ہرکولیس بھی دیکھے تو رشک کرے. اکیلا بیسیوں مسلح غنڈوں سے نہتا بھڑ جاتا ہے اور سب کو دھول چٹا دیتا ہے.
اب تک ہم جنوبی ہند کی درجنوں فلمیں دیکھ چکے ہیں . البتہ ان میں سے کسی فلم کا نام معلوم نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یو ٹیوب پر جنوبی ہند کی فلموں کا نام لکھا ہی نہیں جاتا. ہم نے شروع کی ایک آدھ فلم تو وقت گزاری کے لیے دیکھی مگر پھر ہمیں ان میں کچھ دلچسپی پیدا ہو گئی. یہ دلچسپی ہیرو کی وجہ سے نہیں تھی کہ جو رزمِ حق و باطل میں تو فولاد ہوتا مگر جیسے ہی کسی دوشیزہ سے سامنا ہوتا تو بالکل ریشم کی طرح نرم ہو جاتا ہے . راکشش لوگوں کو فنا کے گھاٹ اتارنے کے بعد جو تھوڑا بہت وقت بچتا اسے وہ کسی دوشیزہ کی ذلفوں کے سائے میں گزارتا . نہ ہی ہمیں اس کی بہادری اور طاقت نے دلچسپی لینے پر مجبور کیا. اور تو اور ان فلموں میں ہیرو ہیروئین بھی ایک دوسرے سے محفوظ فاصلے پر رہتے ہیں سو دلچسپی کا یہ باب بھی بند ہی سمجھیں. آپ پوچھ سکتے ہیں کہ آخر پھر ایسی کیا چیز ہے جس نے ہمیں دلچسپی لینے پر مجبور کر دیا. تو معزز قارئین! ہماری دلچسپی کا باعث ان فلموں کے منفی کردار ہیں. پہلی دو تین فلمیں جو دیکھیں، ان سب میں منفی کردار سیاست دان تھے. ہم نے اسے محض اتفاق سمجھا. تاہم جب اگلی دوتین فلمیں بھی ایسی ہی ثابت ہوئیں تو ہماری دلچسپی بڑھی. ہم نے مزید فلمیں دیکھیں اور دیکھا کہ لگ بھگ اسی فیصد فلموں میں منفی کردار ان کے نیتا یعنی سیاست دان ہیں. قتل، غنڈہ گردی، خواتین کی عصمت دری، انسانی سمگلنگ، انسانی اعضا کی تجارت، اسلحے اور منشیات کی خرید و فروخت، ذخیرہ اندوزی، زمینوں پر قبضوں، بھتا خوری سمیت وہ کون سا عیب ہے جو ان نیتاؤں میں نہیں پایا جاتا. یہ نیتا سراپا معصیت دکھائے جاتے ہیں کہ جن سے غلطی سے بھی کوئی خیر کا عمل سرزد نہیں ہوتا. یہ نیتا اور ان کے زیر اثر چلنے والے تمام سیاسی ادارے گویا ظلم کے سرپرست ہیں. یہ لوگ اور ادارے چند ٹکوں کی خاطر دین دھرم اور دیس سب کچھ بیچنے کوتیار ہو جاتے ہیں. اکثر فلموں میں ہیرو کا خاندان انھی نیتاؤں کے جبر کا نشانہ بنتا ہے جس کا وہ جوان ہونے کے بعد بدلا لیتا ہے. ہیرو بے شمار لوگوں کو قتل اور گھائل کرکے علاقے سے شر کا نام و نشان مٹا دیتا ہے. آخر میں وہ مقامی سیاست دان کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے . یہ رویہ ہمیں کسی حد تک بالی وڈ کی فلموں میں بھی نظر آتا ہے.
ان نیتاؤں کو شر کی علامت کے طور پر پیش کرنا ہمارے لیے خاصی حیرت کی بات ہے . ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے. اس نے بہرحال بری بھلی جمہوری روایات بھی قائم کرلی ہیں. مسلسل الیکشن ہوتے ہیں اور انتقال اقتدار پرامن طریقے سے ہوجاتا ہے. آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ الیکشن تاخیر سے ہوئے ہوں اور یہ کہ کسی غیر جمہوری قوت نے اقتدار کو للچائی نظروں سے دیکھا ہو. سیاست دان بہت حد تک اپنی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں. ہم یہ بات پوری ذمہ داری سے کہ سکتے ہیں کہ ان جنوبی ہند کی فلموں میں جو کچھ دیکھایا جا رہا ہے اس کا حقیقت سے کم کم ہی تعلق ہے. . یہ درست کہ فلم میں بھی دیگر فنون کی طرح مبالغہ آرائی ہوتی ہے. بلکہ فلم میں مبالغہ آرائی کچھ زیادہ ہوتی ہے کیوں کہ اسے بڑے پردے پر دیکھا جاتا ہے. مگر یہ کیا کہ مبالغے کو اس سطح پر پہنچا دیا جائے کہ وہ حقیقت کا منہ چڑانے لگے. نیتا کبھی بھی اتنے ظالم نہیں ہوسکتے کہ جس قدر انھیں دکھایا جاتا ہے. ان بے چاروں نے بہرحال عوام میں رہنا ہے . وہ عوام کے ووٹوں سے ہی منتخب ہو کر ایوان اقتدار تک پہنچتے ہیں. نیتا کی مجبوری ہے کہ وہ کم از کم اکاون فیصد لوگوں کو مطمئن رکھے. ان کی خدمت کرے، ان کے دکھ سکھ میں شریک ہو، ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرے، ان کی جائز ضروریات کو پورا کرنے کی سعی کرے. رعب اور خوف پیدا کرکے ہزار پانچ سو ووٹرز کو تو اپنے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے مگر اکاون فیصد کو نہیں . اور اگر دھونس دھاندلی سے ووٹ لینا ممکن ہو تو اس کا نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ حلقے کے سارے کے سارے ووٹ ظالم ترین امیدوار کو ملیں اور یہ بھی کہ سارے کے سارے امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوں . ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوتا. ہر حلقے میں کئی امیدوار میدان میں اترتے ہیں اور ان کے درمیان صحت مند مقابلہ ہوتا ہے. یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اگر یہ سیاست دان اتنے ہی ظالم ہوں جس قدر فلموں میں دکھائے جاتے ہیں تو کیا کوئی فلم ساز ان کے خلاف فلم بنانے کی جسارت کرے؟ یقیناً نہیں.
ہر فلم میں ریاستی ہوم منسٹر اور مقامی ایم ایل اے ظلم کے سرپرست دکھائے جاتے ہیں. ان کے ظلم و ستم کے خاتمے کے لیے ایک نوجوان مسیحا نمودار ہوتا ہے . فلموں کا یہ مسیحا ہمیشہ غیر جمہوری طریقے سے شر کا خاتمہ کرتا ہے. جمہوریت پر ہی کیا موقوف وہ تو قانون کی پاسداری کو بھی ضروری نہیں سمجھتا. ٹھیک ہے کہ جب شر قانون کی پاسداری نہیں کرتا تو خیر کیوں قانون کے تقاضوں کو پورا کرنے میں وقت ضائع کرے اور خاص طور پر اس صورت میں کہ جب قانون نیتاؤں کے ہاتھ میں موم کی ناک بن گیا ہو مگر یہ تو سوچنا پڑے گا کہ اس قسم کی فلموں سے معاشرے میں متشددانہ رویوں کو فروغ ملے گا جو کسی بھی معاشرے کے لیے مفید ثابت نہیں ہو سکتا.
ہندوستان اپنی جمہوریت پر فخر بھی کرتا ہے اور اپنے سیاسی اداروں کا بے دردی سے مذاق بھی اڑاتا ہے. کوئی بھی شخص فلم دیکھنے کے بعد ان ہندی سیاست دانوں سے نفرت کیے بغیر نہیں رہ سکتا. ہند ان لوگوں کی تضحیک کررہا ہے جو اس کا فخر ہیں. جمہوریت آج بھی دنیا کا مقبول ترین مہا بیانیہ ہے. اسے دنیا نے عقیدے کے طور پر قبول کر لیا ہے اور اس عقیدے کو ماننے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہندوستان میں بستی ہے.
پاکستان میں جمہوریت کی صورت حال کبھی قابل فخر نہیں رہی. جمہوریت کی گاڑی بار بار پٹڑی سے اترتی رہی. اس کے باوجود ہمارے یہاں یہ کلچر نہیں کہ ہر فلم میں سیاست دانوں کو رگیدنا شروع کردیں. ہر جرم کی وجہ انھیں قرار دے دیں . ہم نے بے شمار پاکستانی اردو اور پنجابی فلمیں دیکھی ہیں لیکن کسی فلم میں بھی سیاست دانوں کے بارے میں اتنا منظم پراپگنڈہ نہیں دیکھا.
ہماری فلموں میں بہر حال سیاست دان شر کی علامت نہیں ہیں. کسی دور میں جاگیرداروں کو بارڈر کے دونوں طرف شر کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا تھا مگر اس کی ٹھوس وجوہات تھیں. ایک تو صنعت کاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والا سرمایہ داری نظام تھا کہ جسے زرعی شعبہ اپنے پھیلاؤ کے راستے میں رکاوٹ نظر آتا اور دوسری وجہ مارکسسٹ سوچ تھی . مارکسسٹ بھی اپنے مقاصد کے حصول کی راہ میں جاگیر داری اور بڑی زمین داریوں کو رکاوٹ سمجھتے . سو اس دور میں ” اوے جاگیردارا” ظلم اور استبداد کے خلاف ایک نعرے کی شکل اختیار کر گیا. اس کا فائدہ مارکسسٹوں کو تو پتا نہیں ہوا یا نہیں لیکن سرمایہ دار کو ضرور ہوا. سیاسیات کے سنجیدہ طالب علموں کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہندوستان میں ان نیتاؤں کو گالی بنا کر پیش کیا جارہا ہے. کیا یہ صرف فلم سازوں کے ذہن کی اختراع ہے یا اس کے پیچھے کچھ طاقت ور ادارے بھی موجود ہیں. کیا ہندوستانی فوج اور دہلی کے چند اداروں کے سوا باقی سب لوگوں کو بددیانت قرار دینا جنوبی ہند والوں کے لیے کوئی پیغام تو نہیں. دیکھنا چاہیے کہ یہ صرف کمرشل فلم سازی ہے یا اس کے پیچھے کوئی سوچی سمجھی سازش موجود ہے اور یہ بھی کہ اگر یہ سازش ہے تو اس کا فائدہ کس کو ہوگا. یہ اور ان جیسے اور سوالات کے جواب ہم جیسے عام لوگوں کے لیے بھی دلچسپی کا باعث ہوں گے