Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
انسان پیرس جیسے شہر جاکر اور کیا لکھ سکتا ہے بھلا؟ محبت نامہ یا داستانِ محبت ۔۔۔ یقین مانئیے کہ اس شہر کی ہوا جب آئفل ٹاور سے ٹکرانے کے بعد آپ کے گالوں کو چھوتی ہوئی کانوں میں سرگوشیاں کرتی ہے تو محبت کے ساز خو بہ خود ہی دل و دماغ میں بجتے محسوس ہوتے ہیں ۔شہر کی رنگینیاں یہاں کی معطر ہواؤں میں بسی محبت کی مہک اور شہر کی طویل آوارہ سڑکوں پہ آزادی کا پروانہ تھامی ہوئی زرد روشنی والی قندیلیں اور لوگوں کا دنیا کے غم سے آزاد مست قہقہے لگاتا ہجوم اس شہر کا خاصہ ہے۔اس بار میرا پیرس چوتھی مرتبہ جانے کا ارادہ عملی جامہ پہننے کو تھا۔ میں پہلی بار 1996 میں پیرس گئی تھی میرے شوہر انور ظہیر رہبر اس سفر ہمارے سچ مچ کے رہبر تھے ، کیونکہ وہ کئی بار پیرس آچُکے تھے ۔میں اُس وقت ہمارے ساتھ ایک چھوٹا سا ٹورسٹ گروپ تھا جس میں پاکستانی اسٹوڈنٹس برادران معین اور جمال کے ساتھ ساتھ پاکستان سے آئے ہوئے میرے جرمن زبان کے پہلے استاد اور ے گوئٹے انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر جناب شمیم منظر اور ان کی اہلیہ بھی شامل تھیں۔ ہم چھ لوگ ایک بس کے بارہ گھنٹے کے سفر سے پیرس پہنچے تھے۔ بس سروس اور ہوٹل کی بکنگ سے لے کر شہر کی سیاحی تک انور نے ٹورسٹ گائیڈ جیسی ذمہ داری سنبھالی ہوئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ ماہ قبل میرے ابا کا انتقال ہوا تھا اور میں بہت زیادہ ڈسٹرب تھی۔ ادھورے سیمسٹر کی ناکامی وجہ سے دل مزید اُداس تھا لیکن شمیم منظر صاحب اور بھابھی کی برلن آمد کے بعد اس اُداس ماحول میں تبدیلی آگئی تھی۔ دھیان دوسری جانب بٹ گیا تھا۔ انور نے بھی گرمیوں کی تعطیلات شروع ہوتے ہی اعلان کیا تھا کہ اس بار ہم پیرس چلیں گے۔ اُس وقت یورپی یونین کی بنیاد نہیں رکھی گئی تھی لہذا اپنے پاکستانی پاسپورٹ پر ذرا تگ و دو کر نے کے بعد ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور ایک یادگار و خوشگوار سفر کے لئے ہم سب پیرس پہنچ گئے۔ اس سفر کی بہت سی خوبصورت یادیں آج بھی ہماری خوشگوار زندگی کا حصہ ہیں۔
دوسری بار جب ہم پیرس گئے تو ہمارے بچے چھوٹے تھے ۔ بچوں کی دلچسپی کی خاطر ڈزنی لینڈ کا ارادہ کیا تھا لیکن بھرپور گہما گہمی والے شہر پیرس میں ہم صرف ایک دن گزار کر پیرس شہر کے باہر ہی ایک فارم ہاؤس میں اپنی ساری چھٹیاں گزار آئے۔ بچے اس فارم ہاؤس سے نکلنے کو تیار نہیں تھے وہ فارم ہاؤس کے گھوڑے، بکریوں اور مرغیوں کی سنگت میں زندگی کے حقیقی روپ اور قدرت کے رنگ سے آشنا ہونا زیادہ انجوائے کر رہے تھے اور ہم بھی شہر کی بھاگتی دوڑتی زندگی سے دور ان کھیت و کھلیان کی تازہ آب و ہوامیں اپنی چھٹیاں گزار رہے تھے۔ لیکن جب سارہ اور مایا ذرا بڑی ہوئیں تو ایک دن انہیں احساس ہوا کہ ہم نے پیرس جیسے شہر کی رنگینی و روشنی کا نظارہ مسترد کر کے اس وقت غلطی کی تھی لہٰذا اب اس غلطی کے سدھار کے لیے پیرس دوبارہ جانا ضروری ہوگیا تھا۔ لہٰذا دو ہزار بارہ میں نے اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ پیرس کی سیر کے لیے پروگرام بنایا اور ہم تینوں ٹرین کے سفر سے پیرس گئے اور بہت اچھی اور خوبصورت یادوں کے ساتھ چند دن گزار کر واپس لوٹے۔
یہ چوتھی بار کا پیرس جانا صرف ایک ویک اینڈ کے لیے تھا ۔ ایک ادبی تنظیم “ پیرس ادبی فورم “ کی روح رواں محترمہ سمن شاہ نے میرے پہلے شعری مجموعے کی رسمِ اجراء کی تقریب اس محبتوں اور خوشبوؤں کے شہر میں سجانے کا دعوت نامہ بھیجا تو ظاہر سی بات ہے ہم بھی اپنے محبتوں و خلوص سے مہکتے کلام کو اس شہر دلفریب کی فضاؤں میں کیوں نہ سناتے اور اس اعزاز سے خود کو کیوں محروم رکھتے۔
انسان پیرس جیسے شہر جاکر اور کیا لکھ سکتا ہے بھلا؟ محبت نامہ یا داستانِ محبت ۔۔۔ یقین مانئیے کہ اس شہر کی ہوا جب آئفل ٹاور سے ٹکرانے کے بعد آپ کے گالوں کو چھوتی ہوئی کانوں میں سرگوشیاں کرتی ہے تو محبت کے ساز خو بہ خود ہی دل و دماغ میں بجتے محسوس ہوتے ہیں ۔شہر کی رنگینیاں یہاں کی معطر ہواؤں میں بسی محبت کی مہک اور شہر کی طویل آوارہ سڑکوں پہ آزادی کا پروانہ تھامی ہوئی زرد روشنی والی قندیلیں اور لوگوں کا دنیا کے غم سے آزاد مست قہقہے لگاتا ہجوم اس شہر کا خاصہ ہے۔اس بار میرا پیرس چوتھی مرتبہ جانے کا ارادہ عملی جامہ پہننے کو تھا۔ میں پہلی بار 1996 میں پیرس گئی تھی میرے شوہر انور ظہیر رہبر اس سفر ہمارے سچ مچ کے رہبر تھے ، کیونکہ وہ کئی بار پیرس آچُکے تھے ۔میں اُس وقت ہمارے ساتھ ایک چھوٹا سا ٹورسٹ گروپ تھا جس میں پاکستانی اسٹوڈنٹس برادران معین اور جمال کے ساتھ ساتھ پاکستان سے آئے ہوئے میرے جرمن زبان کے پہلے استاد اور ے گوئٹے انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر جناب شمیم منظر اور ان کی اہلیہ بھی شامل تھیں۔ ہم چھ لوگ ایک بس کے بارہ گھنٹے کے سفر سے پیرس پہنچے تھے۔ بس سروس اور ہوٹل کی بکنگ سے لے کر شہر کی سیاحی تک انور نے ٹورسٹ گائیڈ جیسی ذمہ داری سنبھالی ہوئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ ماہ قبل میرے ابا کا انتقال ہوا تھا اور میں بہت زیادہ ڈسٹرب تھی۔ ادھورے سیمسٹر کی ناکامی وجہ سے دل مزید اُداس تھا لیکن شمیم منظر صاحب اور بھابھی کی برلن آمد کے بعد اس اُداس ماحول میں تبدیلی آگئی تھی۔ دھیان دوسری جانب بٹ گیا تھا۔ انور نے بھی گرمیوں کی تعطیلات شروع ہوتے ہی اعلان کیا تھا کہ اس بار ہم پیرس چلیں گے۔ اُس وقت یورپی یونین کی بنیاد نہیں رکھی گئی تھی لہذا اپنے پاکستانی پاسپورٹ پر ذرا تگ و دو کر نے کے بعد ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور ایک یادگار و خوشگوار سفر کے لئے ہم سب پیرس پہنچ گئے۔ اس سفر کی بہت سی خوبصورت یادیں آج بھی ہماری خوشگوار زندگی کا حصہ ہیں۔
دوسری بار جب ہم پیرس گئے تو ہمارے بچے چھوٹے تھے ۔ بچوں کی دلچسپی کی خاطر ڈزنی لینڈ کا ارادہ کیا تھا لیکن بھرپور گہما گہمی والے شہر پیرس میں ہم صرف ایک دن گزار کر پیرس شہر کے باہر ہی ایک فارم ہاؤس میں اپنی ساری چھٹیاں گزار آئے۔ بچے اس فارم ہاؤس سے نکلنے کو تیار نہیں تھے وہ فارم ہاؤس کے گھوڑے، بکریوں اور مرغیوں کی سنگت میں زندگی کے حقیقی روپ اور قدرت کے رنگ سے آشنا ہونا زیادہ انجوائے کر رہے تھے اور ہم بھی شہر کی بھاگتی دوڑتی زندگی سے دور ان کھیت و کھلیان کی تازہ آب و ہوامیں اپنی چھٹیاں گزار رہے تھے۔ لیکن جب سارہ اور مایا ذرا بڑی ہوئیں تو ایک دن انہیں احساس ہوا کہ ہم نے پیرس جیسے شہر کی رنگینی و روشنی کا نظارہ مسترد کر کے اس وقت غلطی کی تھی لہٰذا اب اس غلطی کے سدھار کے لیے پیرس دوبارہ جانا ضروری ہوگیا تھا۔ لہٰذا دو ہزار بارہ میں نے اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ پیرس کی سیر کے لیے پروگرام بنایا اور ہم تینوں ٹرین کے سفر سے پیرس گئے اور بہت اچھی اور خوبصورت یادوں کے ساتھ چند دن گزار کر واپس لوٹے۔
یہ چوتھی بار کا پیرس جانا صرف ایک ویک اینڈ کے لیے تھا ۔ ایک ادبی تنظیم “ پیرس ادبی فورم “ کی روح رواں محترمہ سمن شاہ نے میرے پہلے شعری مجموعے کی رسمِ اجراء کی تقریب اس محبتوں اور خوشبوؤں کے شہر میں سجانے کا دعوت نامہ بھیجا تو ظاہر سی بات ہے ہم بھی اپنے محبتوں و خلوص سے مہکتے کلام کو اس شہر دلفریب کی فضاؤں میں کیوں نہ سناتے اور اس اعزاز سے خود کو کیوں محروم رکھتے۔