بیس برس اُدھر کی بات ہوگی کہ جب جنرل پرویز مشرف نے نیا بلدیاتی نظام متعارف کروایا تھا. ضلعی حکومتیں بنیں اور ان کو بہت سے اختیارات بھی سونپے گئے. ایک تحصیل ناظم نے سالانہ شجر کاری کے سلسلے میں میٹنگ طلب کی. مجھ سمیت بیس افراد ہوں گے جو شجرکاری سے متعلق مشورے دے رہے تھے. بتا رہے تھے کہ درخت کن جگہوں پر لگائے جائیں گے اور کون سے درخت مناسب ہوں گے. موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عرض کی کہ اگر اس مرتبہ پھل دار درخت لگائے جائیں تو بہتر ہوگا. ناظمِ تحصیل نے ہمیں ایسی نظروں سے گھورا گویا ہماری ذہنی صحت پہ شک ہو. پھر فرمایا کہ ” لوگ پھل توڑ کے کھا جائیں گے” اس جملے کے بعد شرکا نے ایک قہقہہ بلند کیا اور سب نے ہمیں ایسی ہی نظروں سے دیکھا جن سے کچھ دیر پہلے جناب ناظمِ تحصیل دیکھ چکے تھے. ان نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہم گھبرا گئے اور یہ بھی نہ کہ سکے کہ جناب ” آپ اس خوف سے پھل دار درخت اگانے سے گریزاں ہیں کہ کہیں آپ کی رعایا مفت پھل نہ کھا لے. اسے نرم سے نرم لفظوں میں بھی سنگ دلی ہی کہا جا سکتا ہے” تاہم یہ بات ہماری زباں تک نہ آپائی اور سفیدے کے حق میں اتفاق رائے سے فیصلہ ہوگیا. تحصیل ناظم نے جو جواب دیا دراصل وہ ہماری سیاسی اشرافیہ کی ذہنیت کی عکاس ہے. ان کے نزدیک غریب عوام کو کوئی ذرا سی سہولت دینا بھی ایک مضحکہ خیز کام ہے. یہ اشرافیہ اس امکان پر غور کرنے کو بھی تیار نہیں کہ رعایا کے چند لوگ مفت میں پھل چکھ لیں اور سیاسی اشرافیہ پر ہی کیا موقوف ہم خود بھی ایسی ہی سوچ کے حامل ہیں. آپ ویسے چند لوگوں میں بیٹھ کر یہ بات کرکے دیکھیں تو آدھے تو یہی جواب دیں گے کہ ” یوں تو جس کا جی چاہے گا پھل توڑ کر کھا جائے” نہ جانے اس ذہنیت کے ڈانڈے نوآبادیاتی نظام سے ملتے ہیں یا کوئی نفسیاتی الجھن ہے. بہرحال وجہ جو بھی ہم پھل دار درخت کی بجائے سفیدے جیسا نقصان دہ درخت لگانے کو تیار ہیں کہ جس نے ہمارے ماحولیاتی نظام کو درہم برہم کردیا صرف اس لیے کہ اس کا پھل کوئی نہیں کھاسکتا.
یہ درخت برصغیر سے باہر کا ہے. جب بھی کسی دوسرے خطے سے کوئی درخت درآمد کیا جاتا ہے تو وہ آکر ماحولیاتی نظام میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور کرتا ہے. جب تک ان کی تعداد کم رہے اس وقت تک مقامی ماحول کی فعال قوتیں اس کی طرف سے پیدا ہونے والے منفی اثرات کو دبائے رکھتی ہیں مگر جب ان درآمد کردہ اشجار کی تعداد ایک حد سے بڑھ جائے تو یہ اپنی مرضی کا ماحولیاتی نظام متعارف کروا دیتے ہیں. جس کا ناقابل تلافی نقصان مقامی پودوں کو ہوتا ہے. . یہی کچھ سفیدے نے کیا. جب ان کی تعداد بہت بڑھ گئی تو انھوں نے یہاں کے ماحولیاتی نظام کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا شروع کر دیا. قارئین کو یاد ہو گا کہ پندرہ سولہ سال پہلے ہمارے یہاں شیشم کے درخت کو “ڈائی بیک “نامی بیماری نے آلیا تھا. اس بیماری کی وجہ سے درخت کی نشوونما رک جاتی اور وہ چوٹی سے سوکھنا شروع ہوجاتا . کچھ عرصے میں درخت سوکھ کر صرف جلانے کے قابل ہی رہ جاتا. شیشم ہماری زرعی معاشرت میں نہایت اہمیت کا حامل درخت ہے. یہ درخت ایسی کرنسی ہے جسے کسی وقت بھی استعمال کیا جاسکتا ہے. بہترین فرنیچر اسی کی لکڑی سے بنتا ہے اور کاشتکار اس درخت کو شوق سے لگاتے کہ کسی بھی غیر معمولی صورتحال میں یہ درخت فوری طور پر مہنگے داموں فروخت کیا جاسکتا تھا. مشہور تھا کہ دو تین ٹاہلیوں ( شیشم) سے بیٹی کی شادی ہو جاتی ہے. شیشم کا سوکھنا کاشتکار کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوا. پھر کچھ عرصے بعد پھل دار پودوں کو بھی ڈائی بیک نے آلیا. بہت سے زرعی ماہرین کا خیال تھا کہ اس کی وجہ سفیدوں کی غیر معمولی تعداد ہے. کچھ علاقوں سے تجرباتی طور پر یہ درخت تلف کیا گیا تو وہاں صورتحال بہتر ہو گئی.
قارئین کرام، درخت یا تو چھاؤں کے لیے لگایا جاتا ہے، پھل کے لیے یا پھر لکڑی کے لیے. سفیدہ ایسا نامراد درخت ہے جو یہ تینوں ضروریات پوری نہیں کرتا. ماہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایک صحت مند سفیدہ ایک دن میں بیس لیٹر سے زائد پانی زمین سے کشید کرکے ہوا میں اڑا دیتا ہے. اسی لیے جن علاقوں میں اس کی بہتات ہے وہاں زیر زمین پانی بہت نیچے چلا گیا ہے جو بذات خود ایک ماحولیاتی مسئلہ ہے. پھر یہ بھی کہ اس کے پتے بہت گرتے ہیں. مقامی درختوں سے گرنے والے پتے کچھ عرصے میں گل سڑ کر کھاد بن جاتے ہیں اور زمین کی زرخیزی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں. مگر سفیدے کے پتے گلنے کا نام ہی نہیں لیتے. اس طرح یہ نائٹروجنی چکر کو توڑ دیتے ہیں. اس درخت کا تو جو تھوڑا بہت سایہ ہوتا ہے وہ بھی بہت نقصان دہ ہے . کسی بھی کاشتکار سے پوچھ لیں وہ یہ بات بتائے گا کہ جہاں جہاں اس درخت کا سایہ جاتا ہے وہاں فصل نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے . مگر اسے کیا کہیے کہ اس سب کے باوجود نہ جانے ہم اسے اتنے شوق سے کیوں لگاتے رہے. یقین سے تو نہیں کہ سکتا مگر سنا ہے کہ اب سرکاری اداروں میں اسے اگانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے. اگر ایسا ہے تو یہ بہت خوش آئند بات ہے.
خیر بات ہو رہی تھی پھل دار درختوں اور ہمارے رویے کی . سفیدہ خواہ مخواہ بیچ میں آگیا. لیکن کیا کریں کہ جس طرف آنکھ اٹھائیں اسی کی “تصویراں” ہیں. آپ لاہور سے اسلام آباد کی طرف موٹر وے پر سفر کریں تو سڑک کی دونوں طرف یہی درخت نظر آتا ہے اور ہم اسے دیکھ کر ہمیشہ کوفت کا شکار ہوتے ہیں. عجیب بے رونق درخت ہے. سنا ہے اس سے ماچس کی تیلیاں اچھی بنتی ہیں .
اگرچہ ہم ایک مرتبہ اس حوالے سے اپنی ذہنی حالت پر سوالیہ نشان لگوا چکے ہیں پھر بھی دل سے وہ بات نہیں نکلتی. ایسے ہی دل میں خیال آتا ہے کہ اگر سڑک کے اطراف سفیدے نہ ہوں تو کتنا اچھا ہو. لاہور سے نکلتے ہی سڑک کے دونوں طرف لیچی اور امرود کے پیڑ ہوں. درمیان کہیں کہیں بیری ہو، یہ زمین جامن کو بھی قبول کر لیتی ہے. تھوڑا سا آگے آئیں تو دریائے چناب پار کرنے کے بعد سٹرس فروٹ کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے. چج دو آبے ( چناب سے جہلم تک کا علاقہ) میں موٹر وے کے دونوں طرف اتنی جگہ ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں سٹرس کے پودے لگائے جاسکتے ہیں. دریائے جہلم کے بعد پہاڑی علاقے تک بیری لگائی جاسکتی ہے. پہاڑی علاقے میں اکثر جگہوں پر لوکاٹ اور انار بہت کامیابی سے کاشت کیا جاسکتا ہے.
اگر ملتان کی موٹر وے کو دیکھا جائے تو دونوں طرف آم اور جامن کے درخت لگائے جاسکتے ہیں. درمیان کہیں کہیں نیم کے درخت بھی (نیم پھل دار تو نہیں مگر بہت ماحول دوست درخت ہے) یہ درست ہے کہ انھیں پانی دینا ایک مسئلہ ہوگا مگر یہ مسئلہ وہاں زیادہ ہوتا ہے جہاں ہمارا مقصد زیادہ پیداوار لینا ہو. موٹر وے کے اطراف کی جانے والی اس شجر کاری کا مقصد بھرپور فصل حاصل کرنا نہیں ہے. جو تھوڑا بہت پھل لگ گیا وہی منافع. پانی کی فراہمی کے سلسلے میں عرض یہ ہے کہ پہلے دو تین برس کچھ محنت کی ضرورت ہے جب جڑیں ایک خاص حد تک گہری ہو جائیں تو پھر معمول کی بارشیں ہی پودے کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہوتی ہیں.
ایسے ہی خیال آتا ہے کہ ہم آسانی سے موٹر وے کے کنارے لیچی، شہتوت، امرود، انار، کینو، موسمی، لوکاٹ، آم اور جامن کے بے شمار درخت لگا سکتے ہیں. اس طرح موٹر وے کے اطراف ہر موسم کا پھل موجود ہوگا. محکمہ جنگلات پہلے سے موجود ہے اس کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں. عام شاہراہوں کے ساتھ بھی پھل دار درخت لگائے جاسکتے ہیں مگر ان کی حفاظت ذرا مشکل ہے . یہ شاہ راہیں دیہی علاقوں سے گزرتی ہیں. سڑکوں کے کنارے جانور چرتے ہیں. یہ جانور پھل دار درختوں کو شوق سے کھاتے ہیں. اس لیے شاید عام شاہراہوں پر انھیں اگانا ممکن نہ ہو. موٹر وے پر سہولت یہ ہے کہ اسے کے ساتھ ساتھ باڑھ لگی ہے جس کی وجہ سے جانور آسانی سے پودوں تک نہیں پہنچ سکتے . یہاں تھوڑی سی محنت سے یہ تجربہ کامیاب ہو سکتا ہے.( ویسے تو سکولوں کالجوں اور جامعات کو بھی پابند کیا جاسکتا ہے کہ وہ صرف پھل دار درخت ہی اگائیں) . ذرا تصور کریں کہ آپ موٹر وے پر سفر کررہے ہوں اور آپ کے اردگرد پھل دار درخت اپنی بہار دکھا رہے ہوں. آپ ایک طرف گاڑی روکیں اور موسم کے تازہ پھل سے لطف اندوز ہو لیں. تعلیمی اداروں میں طلبہ مفت میں تازہ پھولوں سے فائدہ اٹھائیں. ہمیں کچھ یاد پڑتا ہے کہ شہباز شریف نے اپنے دور حکومت میں سرکاری تعلیمی اداروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے طور پر سبزیوں کی کاشت کریں. دیکھا جائے تو یہ بہت عمدہ ہدایت تھی. اکثر تعلیمی اداروں کے پاس جگہ بھی ہے اور کاشت کے لیے افرادی قوت بھی. تھوڑی سی محنت سے اتنی سبزی پیدا کی جاسکتی ہے کہ کم از کم سٹاف کی روز مرہ کی ضرورت پوری ہوسکے . مگر کیا کہیے کہ اس ہدایت پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوا. شاید ہم اچھی باتوں کو ماننے کی صلاحیت سے ہی محروم ہو گئے ہیں. ہم کسی بھی کام کے کرنے سے پہلے ہی اس کے منفی پہلو سوچنے لگتے ہیں. ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ ہم عملی طور پر اتنے منفی ہیں کہ گاڑی خریدنے سے پہلے ہی سوال کردیں گے کہ اس کی ری سیل ویلیو کیسی ہے؟ چلانے سے پہلے ہی خرابی کے بارے میں سوچ لیں گے اور سوال کریں گے کہ کیا اس کے سپئر پارٹس مل جاتے ہیں.
خیر منفی مثبت سے بالا تر ہو کر ہم نے تو تجویز دے دی ہے مگر اب یہ سوچ رہے ہیں کہ ممکن ہے یہ پڑھتے ہوئے قارئین ہمیں انھی نظروں سے دیکھ رہے ہوں جن نظروں سے کبھی تحصیل ناظم نے دیکھا تھا اور کچھ ہماری ذہنی صحت پر شبہ کررہے ہوں. اگر ایسا ہے تو رہنے دیجیے کیا ضرورت ہے یہ کشٹ اٹھانے کی، کیوں ہم اپنی بھلائی کا سوچ سوچ کر ہلکان ہوں. دینا جیسے چل رہی ہے اسے چلتا رہنے دینا چاہیے. تاہم یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ جو قومیں اپنے بھلے کا نہیں سوچتیں ان کی قسمت میں پھل دار درختوں کی بجائے سفیدے ہی ہوتے ہیں.