Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
موجودہ حکومت کے دور میں نہ تو کالجز میں کوئی نئی تقرری ہوئی اور نہ ہی پروفیسرز کی ترقی ہوئی. اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پنجاب کے ساڑھے سات سو کالجز میں اساتذہ کی منظور شدہ سیٹیں تئیس ہزار کے لگ بھگ ہیں جن میں سے چھے ہزار سے زائد خالی ہیں. پروفیسرز کی آخری بھرتی دو ہزار سترہ میں ہوئی تھی اور اسی برس پروفیسرز کو ترقی دے کر اگلے سکیلز میں بھیجا گیا. تاہم پچھلے ڈھائی برس سے کالج اساتذہ ترقی سے محروم ہیں. پنجاب میں جو پروفیسرز کی سیٹیں خالی ہیں ان پر عارضی بنیادوں پر لوگوں کو بھرتی کرکے کام چلایا جاتا ہے. تعلیم کے ساتھ اس قسم کی غیر سنجیدہ رویے سے اساتذہ برادری میں بہت بے چینی پائی جاتی ہے. اس سلسلے میں جب تحریک اساتذہ کی راہنما پروفیسر آمنہ منٹو سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ پروفیسر برادری کو موجودہ حکومت سے بہت سی توقعات تھیں تاہم اس حکومت نے اساتذہ برادری کو بہت مایوس کیا ہے. کالجز میں چھے ہزار سے زائد سیٹیں خالی ہیں اور دور دور تک نئی بھرتیوں کا امکان نظر نہیں آرہا. محکمانہ ترقی کی رفتار بھی نہایت مایوس کن ہے. ترقی کے لیے جن لیکچررز کے کیس دوہزار سترہ میں طلب کیے گئے تھے وہ بھی اب تک ترقی سے محروم ہیں. کیس جمع کروانے کے سوا دو سال بعد محکمانہ پروموشن کرنے والی کمیٹی کا اجلاس ہوا لیکن اس نے بھی ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں دیا. جس کی وجہ سے پروفیسر کمیونٹی میں بہت بے چینی پائی جاتی ہے. پروفیسر آمنہ منٹو نے آوازہ کو یہ بھی بتایا کہ ہماری برادری میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنھیں پچھلے پچیس برس میں صرف ایک ترقی ملی ہے. کالجز کے علاوہ اس کی مثال کہیں نہیں ملتی کہ چوتھائی صدی تک خدمت کرنے کے بعد ایک شخص گریڈ سترہ سے اٹھارہ تک ہی پہنچ پایا ہو. آمنہ منٹو نے آوازہ کے توسط سے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کم از کم ان لیکچررز کو فوری طور پر پرموٹ کیا جائے جن کے کیس پروموشن کمیٹی ڈسکس کر چکی ہے.
موجودہ حکومت کے دور میں نہ تو کالجز میں کوئی نئی تقرری ہوئی اور نہ ہی پروفیسرز کی ترقی ہوئی. اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پنجاب کے ساڑھے سات سو کالجز میں اساتذہ کی منظور شدہ سیٹیں تئیس ہزار کے لگ بھگ ہیں جن میں سے چھے ہزار سے زائد خالی ہیں. پروفیسرز کی آخری بھرتی دو ہزار سترہ میں ہوئی تھی اور اسی برس پروفیسرز کو ترقی دے کر اگلے سکیلز میں بھیجا گیا. تاہم پچھلے ڈھائی برس سے کالج اساتذہ ترقی سے محروم ہیں. پنجاب میں جو پروفیسرز کی سیٹیں خالی ہیں ان پر عارضی بنیادوں پر لوگوں کو بھرتی کرکے کام چلایا جاتا ہے. تعلیم کے ساتھ اس قسم کی غیر سنجیدہ رویے سے اساتذہ برادری میں بہت بے چینی پائی جاتی ہے. اس سلسلے میں جب تحریک اساتذہ کی راہنما پروفیسر آمنہ منٹو سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ پروفیسر برادری کو موجودہ حکومت سے بہت سی توقعات تھیں تاہم اس حکومت نے اساتذہ برادری کو بہت مایوس کیا ہے. کالجز میں چھے ہزار سے زائد سیٹیں خالی ہیں اور دور دور تک نئی بھرتیوں کا امکان نظر نہیں آرہا. محکمانہ ترقی کی رفتار بھی نہایت مایوس کن ہے. ترقی کے لیے جن لیکچررز کے کیس دوہزار سترہ میں طلب کیے گئے تھے وہ بھی اب تک ترقی سے محروم ہیں. کیس جمع کروانے کے سوا دو سال بعد محکمانہ پروموشن کرنے والی کمیٹی کا اجلاس ہوا لیکن اس نے بھی ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں دیا. جس کی وجہ سے پروفیسر کمیونٹی میں بہت بے چینی پائی جاتی ہے. پروفیسر آمنہ منٹو نے آوازہ کو یہ بھی بتایا کہ ہماری برادری میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنھیں پچھلے پچیس برس میں صرف ایک ترقی ملی ہے. کالجز کے علاوہ اس کی مثال کہیں نہیں ملتی کہ چوتھائی صدی تک خدمت کرنے کے بعد ایک شخص گریڈ سترہ سے اٹھارہ تک ہی پہنچ پایا ہو. آمنہ منٹو نے آوازہ کے توسط سے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کم از کم ان لیکچررز کو فوری طور پر پرموٹ کیا جائے جن کے کیس پروموشن کمیٹی ڈسکس کر چکی ہے.
موجودہ حکومت کے دور میں نہ تو کالجز میں کوئی نئی تقرری ہوئی اور نہ ہی پروفیسرز کی ترقی ہوئی. اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پنجاب کے ساڑھے سات سو کالجز میں اساتذہ کی منظور شدہ سیٹیں تئیس ہزار کے لگ بھگ ہیں جن میں سے چھے ہزار سے زائد خالی ہیں. پروفیسرز کی آخری بھرتی دو ہزار سترہ میں ہوئی تھی اور اسی برس پروفیسرز کو ترقی دے کر اگلے سکیلز میں بھیجا گیا. تاہم پچھلے ڈھائی برس سے کالج اساتذہ ترقی سے محروم ہیں. پنجاب میں جو پروفیسرز کی سیٹیں خالی ہیں ان پر عارضی بنیادوں پر لوگوں کو بھرتی کرکے کام چلایا جاتا ہے. تعلیم کے ساتھ اس قسم کی غیر سنجیدہ رویے سے اساتذہ برادری میں بہت بے چینی پائی جاتی ہے. اس سلسلے میں جب تحریک اساتذہ کی راہنما پروفیسر آمنہ منٹو سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ پروفیسر برادری کو موجودہ حکومت سے بہت سی توقعات تھیں تاہم اس حکومت نے اساتذہ برادری کو بہت مایوس کیا ہے. کالجز میں چھے ہزار سے زائد سیٹیں خالی ہیں اور دور دور تک نئی بھرتیوں کا امکان نظر نہیں آرہا. محکمانہ ترقی کی رفتار بھی نہایت مایوس کن ہے. ترقی کے لیے جن لیکچررز کے کیس دوہزار سترہ میں طلب کیے گئے تھے وہ بھی اب تک ترقی سے محروم ہیں. کیس جمع کروانے کے سوا دو سال بعد محکمانہ پروموشن کرنے والی کمیٹی کا اجلاس ہوا لیکن اس نے بھی ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں دیا. جس کی وجہ سے پروفیسر کمیونٹی میں بہت بے چینی پائی جاتی ہے. پروفیسر آمنہ منٹو نے آوازہ کو یہ بھی بتایا کہ ہماری برادری میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنھیں پچھلے پچیس برس میں صرف ایک ترقی ملی ہے. کالجز کے علاوہ اس کی مثال کہیں نہیں ملتی کہ چوتھائی صدی تک خدمت کرنے کے بعد ایک شخص گریڈ سترہ سے اٹھارہ تک ہی پہنچ پایا ہو. آمنہ منٹو نے آوازہ کے توسط سے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کم از کم ان لیکچررز کو فوری طور پر پرموٹ کیا جائے جن کے کیس پروموشن کمیٹی ڈسکس کر چکی ہے.
موجودہ حکومت کے دور میں نہ تو کالجز میں کوئی نئی تقرری ہوئی اور نہ ہی پروفیسرز کی ترقی ہوئی. اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پنجاب کے ساڑھے سات سو کالجز میں اساتذہ کی منظور شدہ سیٹیں تئیس ہزار کے لگ بھگ ہیں جن میں سے چھے ہزار سے زائد خالی ہیں. پروفیسرز کی آخری بھرتی دو ہزار سترہ میں ہوئی تھی اور اسی برس پروفیسرز کو ترقی دے کر اگلے سکیلز میں بھیجا گیا. تاہم پچھلے ڈھائی برس سے کالج اساتذہ ترقی سے محروم ہیں. پنجاب میں جو پروفیسرز کی سیٹیں خالی ہیں ان پر عارضی بنیادوں پر لوگوں کو بھرتی کرکے کام چلایا جاتا ہے. تعلیم کے ساتھ اس قسم کی غیر سنجیدہ رویے سے اساتذہ برادری میں بہت بے چینی پائی جاتی ہے. اس سلسلے میں جب تحریک اساتذہ کی راہنما پروفیسر آمنہ منٹو سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ پروفیسر برادری کو موجودہ حکومت سے بہت سی توقعات تھیں تاہم اس حکومت نے اساتذہ برادری کو بہت مایوس کیا ہے. کالجز میں چھے ہزار سے زائد سیٹیں خالی ہیں اور دور دور تک نئی بھرتیوں کا امکان نظر نہیں آرہا. محکمانہ ترقی کی رفتار بھی نہایت مایوس کن ہے. ترقی کے لیے جن لیکچررز کے کیس دوہزار سترہ میں طلب کیے گئے تھے وہ بھی اب تک ترقی سے محروم ہیں. کیس جمع کروانے کے سوا دو سال بعد محکمانہ پروموشن کرنے والی کمیٹی کا اجلاس ہوا لیکن اس نے بھی ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں دیا. جس کی وجہ سے پروفیسر کمیونٹی میں بہت بے چینی پائی جاتی ہے. پروفیسر آمنہ منٹو نے آوازہ کو یہ بھی بتایا کہ ہماری برادری میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنھیں پچھلے پچیس برس میں صرف ایک ترقی ملی ہے. کالجز کے علاوہ اس کی مثال کہیں نہیں ملتی کہ چوتھائی صدی تک خدمت کرنے کے بعد ایک شخص گریڈ سترہ سے اٹھارہ تک ہی پہنچ پایا ہو. آمنہ منٹو نے آوازہ کے توسط سے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کم از کم ان لیکچررز کو فوری طور پر پرموٹ کیا جائے جن کے کیس پروموشن کمیٹی ڈسکس کر چکی ہے.