دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہو؟ وہ دنیا کہ جس کی تقلید ہمیں اپنے دین و ایمان سے بھی زیادہ عزیز ہے. ممکن ہے وہ بھی استاد کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتی ہو. وہاں بھی الیکشن استاد ہی کرواتے ہوں. گھر گھر جا کر پولیو کے قطرے پلانا استاد کی ذمہ داری ہو. وہاں بھی مردم شماری استاد کے ذریعے ہوتی ہو. استاد کی ڈیوٹی ہو کہ جب کوئی بڑا صاحب آئے تو وہ طلبہ سمیت پہنچ کر پنڈال کی رونق میں اضافہ کرے. شاید دیگر ملکوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہو کہ آسٹریلیا اور ایران کے کبڈی میچ کے دوران میں سٹیڈیم اساتذہ اور طلبہ بھریں. خیر اگر دنیا میں ایسا ہوتا بھی ہو تو ہمیں پھر بھی ایسا نہیں کرنا کیونکہ ہم جس دین کے ماننے والے ہیں وہ استاد کو بہت اہمیت دیتاہے . یہ دین جس نبی کی وساطت سے ہمیں نصیب ہوا اس نے خود کو استاد قرار دیا.جو دنیا بھر کے اساتذہ کے لیے باعث افتخار ہے. کبھی عرض کیا تھاکہ معلمی پیشہ پیغمبری ہے اور ہمارے یہاں اس کے ساتھ سلوک بھی وہی کیا جاتا ہے جو بنی اسرائیل اپنے پیغمبروں سے کرتے تھے. بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اساتذہ کو پریشان کیا جاتا ہے.( اس موضوع پر پھر کبھی تسلی سے بات ہوگی)
حال ہی میں پنجاب میں سرکاری کالج اساتذہ کے لیے تبادلوں کی پالیسی منظر عام پر آئی ہے کہ جسے دیکھ کر “ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اسے کیا کہیے.”
اک زمانہ تھا کہ کالجز صرف بڑے شہروں میں تھے. آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں تعلیم کا شوق بھی بڑھا. بڑے شہر تعلیمی بوجھ اٹھانے سے قاصر تھے سو دیہی علاقوں میں بھی کالج قائم کردیئے گئے. اس وقت پنجاب میں لگ بھگ ساڑھے سات سو سرکاری کالج طلبہ کو زیور علم سے آراستہ کررہے ہیں. جن میں زیادہ تر قصبات اور دیہی علاقوں میں قائم ہیں. تعلیم کی فراہمی کے لیے کالج کی عمارت ہی کافی نہیں بلکہ اساتذہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے جن کی فراہمی کے تین طریقے رائج ہیں. ایک تو پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے مستقبل بھرتی. دوسرے یہ ہے کہ حکومت کسی خالی پوسٹ پر کچھ معاوضے پر لوگوں کو چھے سے آٹھ ماہ کے لیے بھرتی کرلیتی ہے یہ لوگ سی ٹی آئی کہلاتے ہیں. عام طور پر ان کا معاہدہ اکتوبر سے مئی تک ہوتا ہے. اس دوران میں اگر کوئی مستقل استاد آجائے تو ان کا معاہدہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے. تیسری صورت بڑے کالجز میں نظر آتی ہے جو اپنے وسائل سے وزٹنگ فیکلٹی رکھ لیتے ہیں. جو لوگ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے مستقل بنیادوں پر بھرتی ہوتے ہیں انھیں صوبے میں کہیں بھی تعینات کیا جاسکتا ہے. اکثر اوقات پوسٹنگ گھر سے دور کسی دیہاتی کالج میں ملتی ہے. بیروزگاری کے دور میں انکار کرنے کی ہمت کون کرسکتا ہے سو اس امید پر ملازمت شروع کردیتے ہیں کہ چلو سال چھے مہینے میں تبادلہ کروا کر گھر کے قریب آجائیں گے . اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بعض پروفیسرز روز سو سو کوس سفر کرکے کالج جاتے ہیں. ان سفر کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد خواتین کی بے اور یہ سفر برس ہا برس سے جاری ہے. ان پروفیسرز کی فطری طور پر سب بڑی خواہش گھر کے قریب تعیناتی ہے.
یہاں کچھ دوست مشورہ دیں گےکہ جہاں کالج ہے پروفیسرز وہاں کیوں نہیں رہ لیتے. کیوں روز اتنا سفر کرکے وقت اور وسائل کا زیاں کررہے ہیں؟ بات کسی حد تک ٹھیک ہے. مگر مسئلہ یہ ہے کہ اب کالجز دیہی علاقوں میں قائم کردیے گئے ہیں جہاں رہنے کے لیے کسی مناسب مکان کی دستیابی ناممکن امر ہے. اگر مل بھی جائے پھر بھی خواتین کا مسئلہ کیسے حل ہو. کیا کسی غیر شادی شدہ لڑکی کا اس طرح کسی گاؤں میں کرائے کے مکان میں اکیلے رہنا ممکن ہے ؟ ایک اور بات یہ بھی ہے کہ پچھلے بیس پچیس برسوں میں جو نئے کالج بنے ہیں ان میں اساتذہ کے لیے مکان تعمیر نہیں نہیں کیے گئے
خیر بات ہورہی تھی تبادلوں کی. افسر شاہی نے پروفیسرز سے تبادلوں کے لیے آن لائن درخواستیں طلب کی ہیں. تبادلے کے لیے بہت سی شرائط ہیں. جن میں سے زیادہ تر نامعقول ہیں. صرف ایک شرط کا ہی جائزہ لے لیتے ہیں. جب آن لائن درخواست دی جاتی ہے تو کمپیوٹر پوچھتا کہ ” کہیں آپ اس کالج میں اپنے مضمون کے واحد استاد تو نہیں” اگر جواب اثبات میں ہو تو کمپیوٹر آپ سے معذرت کرلیتا ہے.بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہ اگر واحد استاد کو تبادلہ کر دیا جائے تو طلبہ کا بہت نقصان ہوگا. بہ ظاہر بات معقول ہے. مگر آپ کو اعداد و شمار کا علم ہو تو پالیسی سازوں کی بددیانتی صاف نظر آجاتی ہے. اس وقت پنجاب میں کالجز اساتذہ کی دستیاب سیٹیں تیئیس ہزار کے قریب ہیں جن میں سے چھے ہزار سے زائد خالی ہیں. اگر پالیسی سازوں کے پیٹ میں قوم کی خدمت کا ایسا ہی درد اٹھتا ہے تو وہ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے فوری طور پر چھے ہزار اساتذہ کی بھرتی کریں . شہری علاقوں کے برعکس دیہی علاقوں کے کالجوں میں عام طور پر ہر مضمون کا ایک ہی پروفیسر ہوتا ہے. اگر اس پالیسی پر عملدرآمد ہوا تو یہ پروفیسر کبھی اپنے گھر کے قریب تعینات نہیں ہوسکیں گے. یہ تو ساری عمر بسوں اور ویگنوں میں سفر کرتے گزار دیں گے. چونکہ پالیسیاں افسر شاہی بناتی ہے اور پہلے بھی کسی تحریر میں عرض کیا تھا کہ ان کے خیال میں اس کرّے پر ان سے زیادہ سمجھدار مخلوق پیدا نہیں ہوئی. ایک طرف تو لیاقت کا زعم اور دوسری طرف احساس حکمرانی… یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں جو انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہیں. خود کو عقل کل اور دوسروں کو اپنا غلام سمجھنے والا کم کم ہی کسی سے مشورہ لیتا ہے. حالانکہ مشورے میں برکت ہوتی ہے اور کسی سے پوچھ لیا جائے تو کسی بھی مسئلے کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے. لیکن ایسا کیوں کیا جائے؟ اول تو ہماری حاکم بیوروکریسی کے نزدیک اساتذہ کا تبادلہ کوئی مسئلہ ہی نہیں. اور اگر ہو بھی تو کیا ضروری ہے کہ اسے حل کرنے کے لیے اپنے سے کم تر لوگوں سے مشورہ کیا جائے. تبادلوں کے متعلق پالیسی سے پروفیسرز میں شدید پریشانی اور بے چینی پائی جاتی ہے. اگر اس انگریز سے تحفے میں ملی افسر شاہی میں ذرا سی بھی عقل سلیم ہوتی تو وہ اساتذہ کے نمائندوں کو بلاتی اور ان کے مشورے سے اساتذہ کے تبادلوں کی کوئی قابل عمل پالیسی وضع کرلیتی. اساتذہ کے نمائندے زمینی حقائق سے واقف ہوتے ہیں اور وہ ایسے حل بتا سکتے ہیں جو فریقین کے لیے قابل قبول ہوں.
تبادلوں کے سلسلے میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ سال میں ایک مرتبہ کیے جاتے ہیں. کبھی روایتی طریقوں سے تو کبھی آن لائن. پالیسی بیوروکریسی خود بناتی ہے. وہ پالیسی ایسی ہوتی ہے کہ جس سے بہت کم لوگ استفادہ کرسکتے ہیں. ایک آدھ ماہ تبادلے کیے جاتے ہیں اور پھر تبادلوں پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے. مگر کیا کہیے کہ تبادلے سارا سال ہوتے رہتے ہیں بس تگڑی سفارش کی ضرورت ہوتی ہے یا اس پہیے کی کہ جس کا ذکر ملک ریاض کرتے ہیں. پچھلے برس پابندی کے دنوں میں اساتذہ کے تبادلوں کا نرخ پچاس ہزار روپے سے پونے دو لاکھ تک رہا. . جب قانون پسند پروفیسر اپنے سامنے یہ سب کچھ ہوتا دیکھتے ہیں تو ان میں احساس محرومی پیدا ہونا لازمی امر ہے. سفارش سے محروم کوئی دکھیارا فریاد لے کر حاکم کے پاس چلا جائے تو رعونت سے جواب دیا جاتا ہے کہ ہر شخص کو مرضی کی پوسٹنگ دینا ممکن نہیں. مثال کے طور پر وہ حاکم اپنی ذاتِ با برکات کوپیش کردیتا ہے کہ “دیکھو میں بھی تو دور دراز کے علاقوں میں اتنے برس گزار کے آیا ہوں” . اب سائل میں اتنی ہمت تو ہوتی نہیں کہ وہ کہ سکے کہ “حضور کا اقبال بلند ہو. آپ تو جہاں جاتے ہیں وہاں آپ کے لیے بہترین بنگلے موجود ہوتے ہیں. نوکر چاکر ہوتے ہیں . ہمارے لیے کیا ہے؟ ہم نے تو بسوں اور ویگنوں کے دھکے کھانے ہیں”. ظاہر ہے کہ حاکم وقت کے سامنے ایسی جسارت کون کرے گا. سو یہ دھندہ چلتا رہتا ہے. سال میں ایک مرتبہ کسی عجیب و غریب میرٹ پر تبادلے اور اس کے بعد سفارش اور نذرانوں کی بدولت. چلیں اگر میرٹ پر ہی پوری طرح عمل کرلیا جائے تب بھی لوگوں کو سکون آجائے مگر ایسا نہیں ہوتا. تبادلوں پر پابندی کے باوجود جب کوئی شخص تبادلے کا پروانہ لے کر کالج میں داخل ہوتا ہے تو قانون پسند لوگوں کے دل پہ جو گزرتی ہوگی کچھ وہی جانتے ہیں. واقفان حال تو کہتے ہیں کہ پیچیدہ پالیسی بنائی ہی اس لیے جاتی ہے کہ کم سے کم لوگوں کو فائدہ ہو اور بعد میں پورا سال لاٹ صاحب کے دفتر کے بابوؤں کی روزی روٹی چلتی رہے. سائلین ان کے دروازے پر آئیں اور ان کے احساس کمتری کی تسکین کا باعث بنیں. اگرچہ افسر شاہی کے صحرا میں اذان دینے کا کوئی فائدہ تو نہیں پھر بھی مفاد عامہ میں عرض کیے دیتے ہیں کہ حضور قوم کا مفاد اس میں ہے کہ آپ فوری طور پر چھے ہزار خالی نشستوں کو پر کریں. اپنی انتظامی نااہلی کی سزا پروفیسرز کو مت دیں. مان لیا کہ واحد استاد کے تبادلے سے طلبہ کا نقصان ہو سکتا ہے تو آپ وہاں سی ٹی آئیز رکھ کر گزرا کرلیں . عام طور پر یہ سی ٹی آئیز مقامی ہوتے ہیں اور انھیں وہ مسائل نہیں ہوتے جو مستقل پروفیسرز کو ہوتے ہیں. ویسے بھی تو ہر سال عارضی طور پر چار پانچ ہزار لوگوں کو رکھتے ہی ہیں نا. طلبہ کی ضرورت کے ساتھ ساتھ اگر اساتذہ کی سہولت بھی دیکھ لی جائے تو کیا حرج ہے. پھر یہ بھی کہ جہاں یہ استاد تبادلہ کروا کے جاتا ہے وہاں بھی تو اس مضمون کے استاد کی ضرورت ہوتی ہے نا. معلوم ہونا چاہیے کہ جو شخص جتنے اچھے ماحول میں کام کرے گا اس کی استعدادِکار میں اسی قدر اضافہ ہو گا. آخر میں ایک بات دہرانا چاہوں گا کہ جب بھی ایسی پالیسی بنائیں کہ جس کا براہ راست اثر اساتذہ پر پڑے تو براہ کرم اساتذہ کے نمائندوں سے بھی مشورہ کرلیا کریں. اس سے نہ صرف یہ کہ اساتذہ کو سہولت ہو جائے گی بلکہ آپ کے بارے میں بھی لوگوں کی رائے مثبت ہو جائے گی.