Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
فردوس عاشق اعوان وزارت اطلاعات اور ساتھ ہی ایوان اقتدار سے بھی رخصت ہوگئیں ۔ایوان اقتدار سے اس لیے کہ ان کے پاس اپنے حلقے کی نمائندگی کے لیے بھی قومی اسمبلی کی سیٹ نہیں ہے ۔ان کی رخصتی یوں تو ایک عام سی بات ہے کہ ایساآنا جانا لگا رہتاہے ۔جہاں صبح کے تخت نشینوں کاشام کو مجرم ٹھہرنے کا دستور ہو وہاں کسی کو عہد ے سے صرف ہٹا دینا کوئی ایسا غیر معمولی واقع نہیں ہے ۔لیکن فردوس عاشق اعوان کے رخصت ہونے پر جس طرح اپوزیشن کے ساتھ ساتھ خود حکومتی صفوںسے تحسین کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں اس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔
سب سے پہلا سوال تو یہ کہ کیافردوس عاشق اعوان کے ذمے جو ڈیوٹی لگائی گئی تھی وہ انھوںنے پوری نہیں کی؟ اس ضمن میں دیکھا جائے تو انھوں نے اپنی حیثیت بلکہ ”اپنی اوقات “ سے بھی بڑھ کر کام کیاہے ۔ ان کے ایک سال کے بیانات اور ٹویٹس دیکھے جائیں تو شاید ہی کوئی ہو جس میں انھوںنے وزیراعظم عمران خان او راپوزیشن کا ذکر نہ کیا ہو۔ انھوںنے اس ایک سال میں جس طرح روز ٹی وی اور ٹویٹر پر اپوزیشن کولتاڑا اس سے قومی سطح پر سوائے اپوزیشن ، چور، ڈاکو، لٹیرے کے علاوہ قومی چیز نمایاں ہوئی ہو۔ اس ایک سال میں ان الفاظ کی جس طرح مٹی پلیدکی گئی شاید ہی کسی دور میں ایسا ہواہو۔(یادرہے کہ الفاظ کی اپنی ایک جیتی جاگتی حیثیت او رمرتبہ ہوتاہے ۔ان کا غلط استعمال کرنا ان کی حیثیت او رمرتبے کوگرادینے کے مترادف ہے)۔پچھلے چند ماہ سے صورت حال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ فردوس عاشق اعوان کے بیانا ت سن سن کر یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ کروناکی پیدائش ہی رائیونڈ محل یالاڑکانہ میں ہوئی ہے ۔ایسی صورت میں یہ کہنا کہ انھوں نے اپنے ڈیوٹی مکمل انجام نہیں دی میرے خیال میں درست نہیں۔( باقی سوالات کو کسی او رکالم پہ اٹھا رکھتے ہیں۔)
فردوس عاشق اعوان کے ذمے جو ڈیوٹی لگائی گئی تھی وہ انھوں نے خوب نبھائی او راگروہ کچھ عرصہ او ریہاں رہتی توشایداس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی ” رخصتی “ کا کیاجواز تھا؟
ہر ملک کے صاحب اقتدار کے سامنے کئی محاذہوتے ہیں ۔ایک طرف داخلی سطح پراسے اپوزیشن او رعوام کو جواب دہ ہونا ہوتاہے تو دوسری طرف خارجی سطح پر اسے ملک کے امیج کو بہتر بنانا کر پیش کرنا ہوتاہے ۔ اس عمل میںوزارت اطلاعات او روزارت خارجہ کا کام بنیادی اہمیت کاحامل ہوتاہے ۔ وزیراطلاعات ( یا مشیر اطلاعات او رمعاون خصوصی برائے اطلاعات بھی) اس حوالے سے خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ ان کے بیان کوقومی سطح سے اوپر اٹھ کر عالمی سطح پر بھی سنا جاتاہے ۔ وزارت اطلاعات کے سنگھاسن پر براجمان شخصیت کواپنا بیانیہ تشکیل دیتے وقت قومی مفادات کو مدنظر رکھنا پڑتاہے نہ کہ ذاتی مفادات کوترجیح دی جائے ۔فردوس عاشق اعوان کے پچھلے ایک سال کے بیانات کامجموعی جائزہ لیں تو کیاان میںپچاس فی صد بیانات بھی ایسے ہوں گے جن میں پاکستانی قوم او رپاکستان کوعالمی سطح پر ایک باوقار قوم او رملک کے پیش کیا گیاہو۔ ہرروز ٹی وی پہ آکے یہ بھاشن دینا کہ اپوزیشن کے برے دن آگئے ہیں۔ انھوںنے یہ چوری کی ، انھوںنے یہ لوٹا، انھوںنے یہ کرپشن کی ، انھوںنے یہ کیا ،وہ کیا۔۔ ذرا وسعت نظری سے دیکھیں تو فردوس عاشق اعوان نے اپوزیشن کے بارے جو کچھ بھی کہاکیااس کے کیس عدالتوں میں زیر سماعت نہیں ہیں ؟ اگر ہر معاملے پہ کیس عدالت میں ہے تو پھریہ معاملہ عدلیہ پہ ہی چھوڑ دینا چاہیے تھا اسے قومی بیانیہ بنانے کی کیا ضرورت تھی ۔اس معاملے کو قومی بیانیہ بنانے سے اپوزیشن کاتوشاید کچھ نہ بگڑا ہو(کیونکہ پاکستانی عوام بھی جانتی ہے کہ اپوزیشن پر ہر دور میں ایسے سچے یاجھوٹے الزامات لگتے آئے ہیں)، لیکن حکومت کی کارکردگی کی ترجمانی جیسے ہونی چاہیے تھی ویسی نہیں ہوپائی ۔ عالمی سطح پرپاکستان کے بہتر امیج کے لیے کوئی جاندار بیانیہ عوام کے سامنے نہ آسکا۔ انھوںنے اپنی ساری توانائیاں بے مصرف صرف کیں ، وزارت اطلاعات جس کابنیادی مقصدہی قومی بیانیے کی تشکیل اوراس کی ترویج ہوتاہے ،ایک سال میں وہ سامنے نہ آسکا۔یہی بڑی وجہ تھی کہ ایک سال تک طرح طرح کے بھاشن دینے کے بعد وہ رخصت ہوئیں او راپوزیشن سمیت حکومتی حلقوں میں بھی ان کی رخصتی کو قابل تحسین گردانا گیا۔
اب آتے ہیں وزارت اطلاعات کے موجودہ سیٹ اپ کی طرف۔ موجود ہ سیٹ اپ میں شبلی فراز اور عاصم باجوہ کی وزارت اطلاعات میں تعیناتی بادی النظر میںیقینا ایک اچھا فیصلہ ہے ۔ ایک طرف شبلی فراز ہیں جو ایک سلجھے ہوئے اور سنجیدہ ذہن کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے ادب و ثقافت سے بھی تعلق رکھتے ہیں ۔ دوسری طرف عاصم باجوہ ہیں جنھوںنے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوایا ہے ۔اپنی عسکری ملازمت کے دوران انھوںنے مسلح افواج کے بیانیے کی تشکیل او رپھراس کے اظہار میں جس جرات اورسنجیدگی کا مظاہرہ کیاہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ اب وزارت اطلاعات بے مصرف قضیوں میںپڑنے کی بجائے حقیقی بیانیے کی تشکیل اور ترویج کی طرف گامزن ہوگی۔
موجودہ سیٹ اپ کو یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ان کا سب سے بڑا کام قومی بیانیے کی تشکیل ہے ۔ ایک ایسا بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو پاکستان او رپاکستانی قوم کو ایک باوقار ملک او رقوم کے پیش کرے ۔ ایک طرف بھارت روز ہمیں آنکھیں دکھاتاہے تودوسری طرف عالمی سطح پر ہمیں دیگر بہت سے چیلنجز کاسامنا ہے ۔ ہماری وزارت اطلاعات کوان چیلنجز کو دیکھتے ہوئے اپنی کارکردگی میں جدت لانا ہوگی ۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی ٹی وی پر ہمارے منھ سے نکلاہوا ایک ایک لفظ ہمارا قومی بیانیہ قرا رپاتاہے ۔ اسے صرف حکمران جماعت کے حمایتی اورمخالفین ہی نہیں سن رہے ہوتے ایک تیسری قوت بھی ہوتی ہے جو سفیروں او رغیرملکی نمائندگان کی ہوتی ہے ۔ ہمیں ان کا بھی خیال رکھناہوتاہے ۔اس کے علاوہ ملک میں بیرونی سرمایہ کار بھی آیاہوتاہے ہمیں ا س کا بھی خیال رکھناہوتاہے ۔ قصہ مختصر کہ ہمیں اپنا قومی بیانیہ جدید عہدکے عالمی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دینا ہوگا۔ اس کے علاوہ وزارت اطلاعات و نشریات کو اپنے ذیلی شعبہ جات اور ماتحت اداروں کی تنظیم نو کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی۔ ادب وثقافت کی ترویج میں وزارت اطلاعات ونشریات کا بنیادی کردار ہوتاہے ، وزرات کواس طرف بھی توجہ دیناہوگی ۔ محض دوسروں کو چور ، ڈاکو کہنے سے اب کام نہیں چلے گا کیونکہ اب جس کے سامنے بھی بات دوسروں کی بات کریں تو سوال ہوتاہے ”تسی کی کیتااے؟‘،وزارت کو اس سوال کاجواب دینا ہوگا۔ یہ کچھ مشکل کام بھی نہیں ہے بس ذرا ہمت او ر ذہن بدلنے کی بات ہے ۔اس حقیقت کوجاننے کی ضرورت ہے کہ وزارت اطلاعات ونشریات کاکام صرف حکومت کی ترجمانی ہی نہیں ہوتا کیونکہ اس کام کے لیے وزیراعظم کے ترجمان موجود ہوتے ہیں ۔ وزارت اطلاعات کا کام قومی بیانیے کی تشکیل او رترویج ہوتاہے ، وزارت کو اس طرف آنا ہوگا۔ نئے سیٹ اپ کوہنگامی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے اس ایک ایسا تھنک ٹینک تشکیل دینا ہوگا جو قومی اور عالمی سطح کے مسائل او رتقاضوں کوسامنے رکھتے ہوئے ٹھوس اصول وضع کرے اورقومی بیانیہ تشکیل دے ۔ اورپھر میڈیا پربھی ان ٹھوس اصولو ں کوسامنے رکھتے ہوئے اس بیانیے کی ترویج کی جائے ۔ فردوس عاشق اعوان کا سب سے بڑاجرم ہی یہ تھا کہ وہ قومی بیانیہ تشکیل دینے میں مکمل طورپرناکام رہیں یہی وجہ ہے کہ ان کاتشکیل کردہ بیانیہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی جماعت نے بھی مسترد کردیا۔
فردوس عاشق اعوان وزارت اطلاعات اور ساتھ ہی ایوان اقتدار سے بھی رخصت ہوگئیں ۔ایوان اقتدار سے اس لیے کہ ان کے پاس اپنے حلقے کی نمائندگی کے لیے بھی قومی اسمبلی کی سیٹ نہیں ہے ۔ان کی رخصتی یوں تو ایک عام سی بات ہے کہ ایساآنا جانا لگا رہتاہے ۔جہاں صبح کے تخت نشینوں کاشام کو مجرم ٹھہرنے کا دستور ہو وہاں کسی کو عہد ے سے صرف ہٹا دینا کوئی ایسا غیر معمولی واقع نہیں ہے ۔لیکن فردوس عاشق اعوان کے رخصت ہونے پر جس طرح اپوزیشن کے ساتھ ساتھ خود حکومتی صفوںسے تحسین کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں اس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔
سب سے پہلا سوال تو یہ کہ کیافردوس عاشق اعوان کے ذمے جو ڈیوٹی لگائی گئی تھی وہ انھوںنے پوری نہیں کی؟ اس ضمن میں دیکھا جائے تو انھوں نے اپنی حیثیت بلکہ ”اپنی اوقات “ سے بھی بڑھ کر کام کیاہے ۔ ان کے ایک سال کے بیانات اور ٹویٹس دیکھے جائیں تو شاید ہی کوئی ہو جس میں انھوںنے وزیراعظم عمران خان او راپوزیشن کا ذکر نہ کیا ہو۔ انھوںنے اس ایک سال میں جس طرح روز ٹی وی اور ٹویٹر پر اپوزیشن کولتاڑا اس سے قومی سطح پر سوائے اپوزیشن ، چور، ڈاکو، لٹیرے کے علاوہ قومی چیز نمایاں ہوئی ہو۔ اس ایک سال میں ان الفاظ کی جس طرح مٹی پلیدکی گئی شاید ہی کسی دور میں ایسا ہواہو۔(یادرہے کہ الفاظ کی اپنی ایک جیتی جاگتی حیثیت او رمرتبہ ہوتاہے ۔ان کا غلط استعمال کرنا ان کی حیثیت او رمرتبے کوگرادینے کے مترادف ہے)۔پچھلے چند ماہ سے صورت حال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ فردوس عاشق اعوان کے بیانا ت سن سن کر یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ کروناکی پیدائش ہی رائیونڈ محل یالاڑکانہ میں ہوئی ہے ۔ایسی صورت میں یہ کہنا کہ انھوں نے اپنے ڈیوٹی مکمل انجام نہیں دی میرے خیال میں درست نہیں۔( باقی سوالات کو کسی او رکالم پہ اٹھا رکھتے ہیں۔)
فردوس عاشق اعوان کے ذمے جو ڈیوٹی لگائی گئی تھی وہ انھوں نے خوب نبھائی او راگروہ کچھ عرصہ او ریہاں رہتی توشایداس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی ” رخصتی “ کا کیاجواز تھا؟
ہر ملک کے صاحب اقتدار کے سامنے کئی محاذہوتے ہیں ۔ایک طرف داخلی سطح پراسے اپوزیشن او رعوام کو جواب دہ ہونا ہوتاہے تو دوسری طرف خارجی سطح پر اسے ملک کے امیج کو بہتر بنانا کر پیش کرنا ہوتاہے ۔ اس عمل میںوزارت اطلاعات او روزارت خارجہ کا کام بنیادی اہمیت کاحامل ہوتاہے ۔ وزیراطلاعات ( یا مشیر اطلاعات او رمعاون خصوصی برائے اطلاعات بھی) اس حوالے سے خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ ان کے بیان کوقومی سطح سے اوپر اٹھ کر عالمی سطح پر بھی سنا جاتاہے ۔ وزارت اطلاعات کے سنگھاسن پر براجمان شخصیت کواپنا بیانیہ تشکیل دیتے وقت قومی مفادات کو مدنظر رکھنا پڑتاہے نہ کہ ذاتی مفادات کوترجیح دی جائے ۔فردوس عاشق اعوان کے پچھلے ایک سال کے بیانات کامجموعی جائزہ لیں تو کیاان میںپچاس فی صد بیانات بھی ایسے ہوں گے جن میں پاکستانی قوم او رپاکستان کوعالمی سطح پر ایک باوقار قوم او رملک کے پیش کیا گیاہو۔ ہرروز ٹی وی پہ آکے یہ بھاشن دینا کہ اپوزیشن کے برے دن آگئے ہیں۔ انھوںنے یہ چوری کی ، انھوںنے یہ لوٹا، انھوںنے یہ کرپشن کی ، انھوںنے یہ کیا ،وہ کیا۔۔ ذرا وسعت نظری سے دیکھیں تو فردوس عاشق اعوان نے اپوزیشن کے بارے جو کچھ بھی کہاکیااس کے کیس عدالتوں میں زیر سماعت نہیں ہیں ؟ اگر ہر معاملے پہ کیس عدالت میں ہے تو پھریہ معاملہ عدلیہ پہ ہی چھوڑ دینا چاہیے تھا اسے قومی بیانیہ بنانے کی کیا ضرورت تھی ۔اس معاملے کو قومی بیانیہ بنانے سے اپوزیشن کاتوشاید کچھ نہ بگڑا ہو(کیونکہ پاکستانی عوام بھی جانتی ہے کہ اپوزیشن پر ہر دور میں ایسے سچے یاجھوٹے الزامات لگتے آئے ہیں)، لیکن حکومت کی کارکردگی کی ترجمانی جیسے ہونی چاہیے تھی ویسی نہیں ہوپائی ۔ عالمی سطح پرپاکستان کے بہتر امیج کے لیے کوئی جاندار بیانیہ عوام کے سامنے نہ آسکا۔ انھوںنے اپنی ساری توانائیاں بے مصرف صرف کیں ، وزارت اطلاعات جس کابنیادی مقصدہی قومی بیانیے کی تشکیل اوراس کی ترویج ہوتاہے ،ایک سال میں وہ سامنے نہ آسکا۔یہی بڑی وجہ تھی کہ ایک سال تک طرح طرح کے بھاشن دینے کے بعد وہ رخصت ہوئیں او راپوزیشن سمیت حکومتی حلقوں میں بھی ان کی رخصتی کو قابل تحسین گردانا گیا۔
اب آتے ہیں وزارت اطلاعات کے موجودہ سیٹ اپ کی طرف۔ موجود ہ سیٹ اپ میں شبلی فراز اور عاصم باجوہ کی وزارت اطلاعات میں تعیناتی بادی النظر میںیقینا ایک اچھا فیصلہ ہے ۔ ایک طرف شبلی فراز ہیں جو ایک سلجھے ہوئے اور سنجیدہ ذہن کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے ادب و ثقافت سے بھی تعلق رکھتے ہیں ۔ دوسری طرف عاصم باجوہ ہیں جنھوںنے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوایا ہے ۔اپنی عسکری ملازمت کے دوران انھوںنے مسلح افواج کے بیانیے کی تشکیل او رپھراس کے اظہار میں جس جرات اورسنجیدگی کا مظاہرہ کیاہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ اب وزارت اطلاعات بے مصرف قضیوں میںپڑنے کی بجائے حقیقی بیانیے کی تشکیل اور ترویج کی طرف گامزن ہوگی۔
موجودہ سیٹ اپ کو یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ان کا سب سے بڑا کام قومی بیانیے کی تشکیل ہے ۔ ایک ایسا بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو پاکستان او رپاکستانی قوم کو ایک باوقار ملک او رقوم کے پیش کرے ۔ ایک طرف بھارت روز ہمیں آنکھیں دکھاتاہے تودوسری طرف عالمی سطح پر ہمیں دیگر بہت سے چیلنجز کاسامنا ہے ۔ ہماری وزارت اطلاعات کوان چیلنجز کو دیکھتے ہوئے اپنی کارکردگی میں جدت لانا ہوگی ۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی ٹی وی پر ہمارے منھ سے نکلاہوا ایک ایک لفظ ہمارا قومی بیانیہ قرا رپاتاہے ۔ اسے صرف حکمران جماعت کے حمایتی اورمخالفین ہی نہیں سن رہے ہوتے ایک تیسری قوت بھی ہوتی ہے جو سفیروں او رغیرملکی نمائندگان کی ہوتی ہے ۔ ہمیں ان کا بھی خیال رکھناہوتاہے ۔اس کے علاوہ ملک میں بیرونی سرمایہ کار بھی آیاہوتاہے ہمیں ا س کا بھی خیال رکھناہوتاہے ۔ قصہ مختصر کہ ہمیں اپنا قومی بیانیہ جدید عہدکے عالمی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دینا ہوگا۔ اس کے علاوہ وزارت اطلاعات و نشریات کو اپنے ذیلی شعبہ جات اور ماتحت اداروں کی تنظیم نو کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی۔ ادب وثقافت کی ترویج میں وزارت اطلاعات ونشریات کا بنیادی کردار ہوتاہے ، وزرات کواس طرف بھی توجہ دیناہوگی ۔ محض دوسروں کو چور ، ڈاکو کہنے سے اب کام نہیں چلے گا کیونکہ اب جس کے سامنے بھی بات دوسروں کی بات کریں تو سوال ہوتاہے ”تسی کی کیتااے؟‘،وزارت کو اس سوال کاجواب دینا ہوگا۔ یہ کچھ مشکل کام بھی نہیں ہے بس ذرا ہمت او ر ذہن بدلنے کی بات ہے ۔اس حقیقت کوجاننے کی ضرورت ہے کہ وزارت اطلاعات ونشریات کاکام صرف حکومت کی ترجمانی ہی نہیں ہوتا کیونکہ اس کام کے لیے وزیراعظم کے ترجمان موجود ہوتے ہیں ۔ وزارت اطلاعات کا کام قومی بیانیے کی تشکیل او رترویج ہوتاہے ، وزارت کو اس طرف آنا ہوگا۔ نئے سیٹ اپ کوہنگامی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے اس ایک ایسا تھنک ٹینک تشکیل دینا ہوگا جو قومی اور عالمی سطح کے مسائل او رتقاضوں کوسامنے رکھتے ہوئے ٹھوس اصول وضع کرے اورقومی بیانیہ تشکیل دے ۔ اورپھر میڈیا پربھی ان ٹھوس اصولو ں کوسامنے رکھتے ہوئے اس بیانیے کی ترویج کی جائے ۔ فردوس عاشق اعوان کا سب سے بڑاجرم ہی یہ تھا کہ وہ قومی بیانیہ تشکیل دینے میں مکمل طورپرناکام رہیں یہی وجہ ہے کہ ان کاتشکیل کردہ بیانیہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی جماعت نے بھی مسترد کردیا۔
فردوس عاشق اعوان وزارت اطلاعات اور ساتھ ہی ایوان اقتدار سے بھی رخصت ہوگئیں ۔ایوان اقتدار سے اس لیے کہ ان کے پاس اپنے حلقے کی نمائندگی کے لیے بھی قومی اسمبلی کی سیٹ نہیں ہے ۔ان کی رخصتی یوں تو ایک عام سی بات ہے کہ ایساآنا جانا لگا رہتاہے ۔جہاں صبح کے تخت نشینوں کاشام کو مجرم ٹھہرنے کا دستور ہو وہاں کسی کو عہد ے سے صرف ہٹا دینا کوئی ایسا غیر معمولی واقع نہیں ہے ۔لیکن فردوس عاشق اعوان کے رخصت ہونے پر جس طرح اپوزیشن کے ساتھ ساتھ خود حکومتی صفوںسے تحسین کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں اس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔
سب سے پہلا سوال تو یہ کہ کیافردوس عاشق اعوان کے ذمے جو ڈیوٹی لگائی گئی تھی وہ انھوںنے پوری نہیں کی؟ اس ضمن میں دیکھا جائے تو انھوں نے اپنی حیثیت بلکہ ”اپنی اوقات “ سے بھی بڑھ کر کام کیاہے ۔ ان کے ایک سال کے بیانات اور ٹویٹس دیکھے جائیں تو شاید ہی کوئی ہو جس میں انھوںنے وزیراعظم عمران خان او راپوزیشن کا ذکر نہ کیا ہو۔ انھوںنے اس ایک سال میں جس طرح روز ٹی وی اور ٹویٹر پر اپوزیشن کولتاڑا اس سے قومی سطح پر سوائے اپوزیشن ، چور، ڈاکو، لٹیرے کے علاوہ قومی چیز نمایاں ہوئی ہو۔ اس ایک سال میں ان الفاظ کی جس طرح مٹی پلیدکی گئی شاید ہی کسی دور میں ایسا ہواہو۔(یادرہے کہ الفاظ کی اپنی ایک جیتی جاگتی حیثیت او رمرتبہ ہوتاہے ۔ان کا غلط استعمال کرنا ان کی حیثیت او رمرتبے کوگرادینے کے مترادف ہے)۔پچھلے چند ماہ سے صورت حال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ فردوس عاشق اعوان کے بیانا ت سن سن کر یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ کروناکی پیدائش ہی رائیونڈ محل یالاڑکانہ میں ہوئی ہے ۔ایسی صورت میں یہ کہنا کہ انھوں نے اپنے ڈیوٹی مکمل انجام نہیں دی میرے خیال میں درست نہیں۔( باقی سوالات کو کسی او رکالم پہ اٹھا رکھتے ہیں۔)
فردوس عاشق اعوان کے ذمے جو ڈیوٹی لگائی گئی تھی وہ انھوں نے خوب نبھائی او راگروہ کچھ عرصہ او ریہاں رہتی توشایداس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی ” رخصتی “ کا کیاجواز تھا؟
ہر ملک کے صاحب اقتدار کے سامنے کئی محاذہوتے ہیں ۔ایک طرف داخلی سطح پراسے اپوزیشن او رعوام کو جواب دہ ہونا ہوتاہے تو دوسری طرف خارجی سطح پر اسے ملک کے امیج کو بہتر بنانا کر پیش کرنا ہوتاہے ۔ اس عمل میںوزارت اطلاعات او روزارت خارجہ کا کام بنیادی اہمیت کاحامل ہوتاہے ۔ وزیراطلاعات ( یا مشیر اطلاعات او رمعاون خصوصی برائے اطلاعات بھی) اس حوالے سے خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ ان کے بیان کوقومی سطح سے اوپر اٹھ کر عالمی سطح پر بھی سنا جاتاہے ۔ وزارت اطلاعات کے سنگھاسن پر براجمان شخصیت کواپنا بیانیہ تشکیل دیتے وقت قومی مفادات کو مدنظر رکھنا پڑتاہے نہ کہ ذاتی مفادات کوترجیح دی جائے ۔فردوس عاشق اعوان کے پچھلے ایک سال کے بیانات کامجموعی جائزہ لیں تو کیاان میںپچاس فی صد بیانات بھی ایسے ہوں گے جن میں پاکستانی قوم او رپاکستان کوعالمی سطح پر ایک باوقار قوم او رملک کے پیش کیا گیاہو۔ ہرروز ٹی وی پہ آکے یہ بھاشن دینا کہ اپوزیشن کے برے دن آگئے ہیں۔ انھوںنے یہ چوری کی ، انھوںنے یہ لوٹا، انھوںنے یہ کرپشن کی ، انھوںنے یہ کیا ،وہ کیا۔۔ ذرا وسعت نظری سے دیکھیں تو فردوس عاشق اعوان نے اپوزیشن کے بارے جو کچھ بھی کہاکیااس کے کیس عدالتوں میں زیر سماعت نہیں ہیں ؟ اگر ہر معاملے پہ کیس عدالت میں ہے تو پھریہ معاملہ عدلیہ پہ ہی چھوڑ دینا چاہیے تھا اسے قومی بیانیہ بنانے کی کیا ضرورت تھی ۔اس معاملے کو قومی بیانیہ بنانے سے اپوزیشن کاتوشاید کچھ نہ بگڑا ہو(کیونکہ پاکستانی عوام بھی جانتی ہے کہ اپوزیشن پر ہر دور میں ایسے سچے یاجھوٹے الزامات لگتے آئے ہیں)، لیکن حکومت کی کارکردگی کی ترجمانی جیسے ہونی چاہیے تھی ویسی نہیں ہوپائی ۔ عالمی سطح پرپاکستان کے بہتر امیج کے لیے کوئی جاندار بیانیہ عوام کے سامنے نہ آسکا۔ انھوںنے اپنی ساری توانائیاں بے مصرف صرف کیں ، وزارت اطلاعات جس کابنیادی مقصدہی قومی بیانیے کی تشکیل اوراس کی ترویج ہوتاہے ،ایک سال میں وہ سامنے نہ آسکا۔یہی بڑی وجہ تھی کہ ایک سال تک طرح طرح کے بھاشن دینے کے بعد وہ رخصت ہوئیں او راپوزیشن سمیت حکومتی حلقوں میں بھی ان کی رخصتی کو قابل تحسین گردانا گیا۔
اب آتے ہیں وزارت اطلاعات کے موجودہ سیٹ اپ کی طرف۔ موجود ہ سیٹ اپ میں شبلی فراز اور عاصم باجوہ کی وزارت اطلاعات میں تعیناتی بادی النظر میںیقینا ایک اچھا فیصلہ ہے ۔ ایک طرف شبلی فراز ہیں جو ایک سلجھے ہوئے اور سنجیدہ ذہن کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے ادب و ثقافت سے بھی تعلق رکھتے ہیں ۔ دوسری طرف عاصم باجوہ ہیں جنھوںنے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوایا ہے ۔اپنی عسکری ملازمت کے دوران انھوںنے مسلح افواج کے بیانیے کی تشکیل او رپھراس کے اظہار میں جس جرات اورسنجیدگی کا مظاہرہ کیاہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ اب وزارت اطلاعات بے مصرف قضیوں میںپڑنے کی بجائے حقیقی بیانیے کی تشکیل اور ترویج کی طرف گامزن ہوگی۔
موجودہ سیٹ اپ کو یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ان کا سب سے بڑا کام قومی بیانیے کی تشکیل ہے ۔ ایک ایسا بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو پاکستان او رپاکستانی قوم کو ایک باوقار ملک او رقوم کے پیش کرے ۔ ایک طرف بھارت روز ہمیں آنکھیں دکھاتاہے تودوسری طرف عالمی سطح پر ہمیں دیگر بہت سے چیلنجز کاسامنا ہے ۔ ہماری وزارت اطلاعات کوان چیلنجز کو دیکھتے ہوئے اپنی کارکردگی میں جدت لانا ہوگی ۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی ٹی وی پر ہمارے منھ سے نکلاہوا ایک ایک لفظ ہمارا قومی بیانیہ قرا رپاتاہے ۔ اسے صرف حکمران جماعت کے حمایتی اورمخالفین ہی نہیں سن رہے ہوتے ایک تیسری قوت بھی ہوتی ہے جو سفیروں او رغیرملکی نمائندگان کی ہوتی ہے ۔ ہمیں ان کا بھی خیال رکھناہوتاہے ۔اس کے علاوہ ملک میں بیرونی سرمایہ کار بھی آیاہوتاہے ہمیں ا س کا بھی خیال رکھناہوتاہے ۔ قصہ مختصر کہ ہمیں اپنا قومی بیانیہ جدید عہدکے عالمی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دینا ہوگا۔ اس کے علاوہ وزارت اطلاعات و نشریات کو اپنے ذیلی شعبہ جات اور ماتحت اداروں کی تنظیم نو کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی۔ ادب وثقافت کی ترویج میں وزارت اطلاعات ونشریات کا بنیادی کردار ہوتاہے ، وزرات کواس طرف بھی توجہ دیناہوگی ۔ محض دوسروں کو چور ، ڈاکو کہنے سے اب کام نہیں چلے گا کیونکہ اب جس کے سامنے بھی بات دوسروں کی بات کریں تو سوال ہوتاہے ”تسی کی کیتااے؟‘،وزارت کو اس سوال کاجواب دینا ہوگا۔ یہ کچھ مشکل کام بھی نہیں ہے بس ذرا ہمت او ر ذہن بدلنے کی بات ہے ۔اس حقیقت کوجاننے کی ضرورت ہے کہ وزارت اطلاعات ونشریات کاکام صرف حکومت کی ترجمانی ہی نہیں ہوتا کیونکہ اس کام کے لیے وزیراعظم کے ترجمان موجود ہوتے ہیں ۔ وزارت اطلاعات کا کام قومی بیانیے کی تشکیل او رترویج ہوتاہے ، وزارت کو اس طرف آنا ہوگا۔ نئے سیٹ اپ کوہنگامی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے اس ایک ایسا تھنک ٹینک تشکیل دینا ہوگا جو قومی اور عالمی سطح کے مسائل او رتقاضوں کوسامنے رکھتے ہوئے ٹھوس اصول وضع کرے اورقومی بیانیہ تشکیل دے ۔ اورپھر میڈیا پربھی ان ٹھوس اصولو ں کوسامنے رکھتے ہوئے اس بیانیے کی ترویج کی جائے ۔ فردوس عاشق اعوان کا سب سے بڑاجرم ہی یہ تھا کہ وہ قومی بیانیہ تشکیل دینے میں مکمل طورپرناکام رہیں یہی وجہ ہے کہ ان کاتشکیل کردہ بیانیہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی جماعت نے بھی مسترد کردیا۔
فردوس عاشق اعوان وزارت اطلاعات اور ساتھ ہی ایوان اقتدار سے بھی رخصت ہوگئیں ۔ایوان اقتدار سے اس لیے کہ ان کے پاس اپنے حلقے کی نمائندگی کے لیے بھی قومی اسمبلی کی سیٹ نہیں ہے ۔ان کی رخصتی یوں تو ایک عام سی بات ہے کہ ایساآنا جانا لگا رہتاہے ۔جہاں صبح کے تخت نشینوں کاشام کو مجرم ٹھہرنے کا دستور ہو وہاں کسی کو عہد ے سے صرف ہٹا دینا کوئی ایسا غیر معمولی واقع نہیں ہے ۔لیکن فردوس عاشق اعوان کے رخصت ہونے پر جس طرح اپوزیشن کے ساتھ ساتھ خود حکومتی صفوںسے تحسین کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں اس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔
سب سے پہلا سوال تو یہ کہ کیافردوس عاشق اعوان کے ذمے جو ڈیوٹی لگائی گئی تھی وہ انھوںنے پوری نہیں کی؟ اس ضمن میں دیکھا جائے تو انھوں نے اپنی حیثیت بلکہ ”اپنی اوقات “ سے بھی بڑھ کر کام کیاہے ۔ ان کے ایک سال کے بیانات اور ٹویٹس دیکھے جائیں تو شاید ہی کوئی ہو جس میں انھوںنے وزیراعظم عمران خان او راپوزیشن کا ذکر نہ کیا ہو۔ انھوںنے اس ایک سال میں جس طرح روز ٹی وی اور ٹویٹر پر اپوزیشن کولتاڑا اس سے قومی سطح پر سوائے اپوزیشن ، چور، ڈاکو، لٹیرے کے علاوہ قومی چیز نمایاں ہوئی ہو۔ اس ایک سال میں ان الفاظ کی جس طرح مٹی پلیدکی گئی شاید ہی کسی دور میں ایسا ہواہو۔(یادرہے کہ الفاظ کی اپنی ایک جیتی جاگتی حیثیت او رمرتبہ ہوتاہے ۔ان کا غلط استعمال کرنا ان کی حیثیت او رمرتبے کوگرادینے کے مترادف ہے)۔پچھلے چند ماہ سے صورت حال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ فردوس عاشق اعوان کے بیانا ت سن سن کر یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ کروناکی پیدائش ہی رائیونڈ محل یالاڑکانہ میں ہوئی ہے ۔ایسی صورت میں یہ کہنا کہ انھوں نے اپنے ڈیوٹی مکمل انجام نہیں دی میرے خیال میں درست نہیں۔( باقی سوالات کو کسی او رکالم پہ اٹھا رکھتے ہیں۔)
فردوس عاشق اعوان کے ذمے جو ڈیوٹی لگائی گئی تھی وہ انھوں نے خوب نبھائی او راگروہ کچھ عرصہ او ریہاں رہتی توشایداس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی ” رخصتی “ کا کیاجواز تھا؟
ہر ملک کے صاحب اقتدار کے سامنے کئی محاذہوتے ہیں ۔ایک طرف داخلی سطح پراسے اپوزیشن او رعوام کو جواب دہ ہونا ہوتاہے تو دوسری طرف خارجی سطح پر اسے ملک کے امیج کو بہتر بنانا کر پیش کرنا ہوتاہے ۔ اس عمل میںوزارت اطلاعات او روزارت خارجہ کا کام بنیادی اہمیت کاحامل ہوتاہے ۔ وزیراطلاعات ( یا مشیر اطلاعات او رمعاون خصوصی برائے اطلاعات بھی) اس حوالے سے خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ ان کے بیان کوقومی سطح سے اوپر اٹھ کر عالمی سطح پر بھی سنا جاتاہے ۔ وزارت اطلاعات کے سنگھاسن پر براجمان شخصیت کواپنا بیانیہ تشکیل دیتے وقت قومی مفادات کو مدنظر رکھنا پڑتاہے نہ کہ ذاتی مفادات کوترجیح دی جائے ۔فردوس عاشق اعوان کے پچھلے ایک سال کے بیانات کامجموعی جائزہ لیں تو کیاان میںپچاس فی صد بیانات بھی ایسے ہوں گے جن میں پاکستانی قوم او رپاکستان کوعالمی سطح پر ایک باوقار قوم او رملک کے پیش کیا گیاہو۔ ہرروز ٹی وی پہ آکے یہ بھاشن دینا کہ اپوزیشن کے برے دن آگئے ہیں۔ انھوںنے یہ چوری کی ، انھوںنے یہ لوٹا، انھوںنے یہ کرپشن کی ، انھوںنے یہ کیا ،وہ کیا۔۔ ذرا وسعت نظری سے دیکھیں تو فردوس عاشق اعوان نے اپوزیشن کے بارے جو کچھ بھی کہاکیااس کے کیس عدالتوں میں زیر سماعت نہیں ہیں ؟ اگر ہر معاملے پہ کیس عدالت میں ہے تو پھریہ معاملہ عدلیہ پہ ہی چھوڑ دینا چاہیے تھا اسے قومی بیانیہ بنانے کی کیا ضرورت تھی ۔اس معاملے کو قومی بیانیہ بنانے سے اپوزیشن کاتوشاید کچھ نہ بگڑا ہو(کیونکہ پاکستانی عوام بھی جانتی ہے کہ اپوزیشن پر ہر دور میں ایسے سچے یاجھوٹے الزامات لگتے آئے ہیں)، لیکن حکومت کی کارکردگی کی ترجمانی جیسے ہونی چاہیے تھی ویسی نہیں ہوپائی ۔ عالمی سطح پرپاکستان کے بہتر امیج کے لیے کوئی جاندار بیانیہ عوام کے سامنے نہ آسکا۔ انھوںنے اپنی ساری توانائیاں بے مصرف صرف کیں ، وزارت اطلاعات جس کابنیادی مقصدہی قومی بیانیے کی تشکیل اوراس کی ترویج ہوتاہے ،ایک سال میں وہ سامنے نہ آسکا۔یہی بڑی وجہ تھی کہ ایک سال تک طرح طرح کے بھاشن دینے کے بعد وہ رخصت ہوئیں او راپوزیشن سمیت حکومتی حلقوں میں بھی ان کی رخصتی کو قابل تحسین گردانا گیا۔
اب آتے ہیں وزارت اطلاعات کے موجودہ سیٹ اپ کی طرف۔ موجود ہ سیٹ اپ میں شبلی فراز اور عاصم باجوہ کی وزارت اطلاعات میں تعیناتی بادی النظر میںیقینا ایک اچھا فیصلہ ہے ۔ ایک طرف شبلی فراز ہیں جو ایک سلجھے ہوئے اور سنجیدہ ذہن کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے ادب و ثقافت سے بھی تعلق رکھتے ہیں ۔ دوسری طرف عاصم باجوہ ہیں جنھوںنے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوایا ہے ۔اپنی عسکری ملازمت کے دوران انھوںنے مسلح افواج کے بیانیے کی تشکیل او رپھراس کے اظہار میں جس جرات اورسنجیدگی کا مظاہرہ کیاہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ اب وزارت اطلاعات بے مصرف قضیوں میںپڑنے کی بجائے حقیقی بیانیے کی تشکیل اور ترویج کی طرف گامزن ہوگی۔
موجودہ سیٹ اپ کو یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ان کا سب سے بڑا کام قومی بیانیے کی تشکیل ہے ۔ ایک ایسا بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو پاکستان او رپاکستانی قوم کو ایک باوقار ملک او رقوم کے پیش کرے ۔ ایک طرف بھارت روز ہمیں آنکھیں دکھاتاہے تودوسری طرف عالمی سطح پر ہمیں دیگر بہت سے چیلنجز کاسامنا ہے ۔ ہماری وزارت اطلاعات کوان چیلنجز کو دیکھتے ہوئے اپنی کارکردگی میں جدت لانا ہوگی ۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی ٹی وی پر ہمارے منھ سے نکلاہوا ایک ایک لفظ ہمارا قومی بیانیہ قرا رپاتاہے ۔ اسے صرف حکمران جماعت کے حمایتی اورمخالفین ہی نہیں سن رہے ہوتے ایک تیسری قوت بھی ہوتی ہے جو سفیروں او رغیرملکی نمائندگان کی ہوتی ہے ۔ ہمیں ان کا بھی خیال رکھناہوتاہے ۔اس کے علاوہ ملک میں بیرونی سرمایہ کار بھی آیاہوتاہے ہمیں ا س کا بھی خیال رکھناہوتاہے ۔ قصہ مختصر کہ ہمیں اپنا قومی بیانیہ جدید عہدکے عالمی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دینا ہوگا۔ اس کے علاوہ وزارت اطلاعات و نشریات کو اپنے ذیلی شعبہ جات اور ماتحت اداروں کی تنظیم نو کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی۔ ادب وثقافت کی ترویج میں وزارت اطلاعات ونشریات کا بنیادی کردار ہوتاہے ، وزرات کواس طرف بھی توجہ دیناہوگی ۔ محض دوسروں کو چور ، ڈاکو کہنے سے اب کام نہیں چلے گا کیونکہ اب جس کے سامنے بھی بات دوسروں کی بات کریں تو سوال ہوتاہے ”تسی کی کیتااے؟‘،وزارت کو اس سوال کاجواب دینا ہوگا۔ یہ کچھ مشکل کام بھی نہیں ہے بس ذرا ہمت او ر ذہن بدلنے کی بات ہے ۔اس حقیقت کوجاننے کی ضرورت ہے کہ وزارت اطلاعات ونشریات کاکام صرف حکومت کی ترجمانی ہی نہیں ہوتا کیونکہ اس کام کے لیے وزیراعظم کے ترجمان موجود ہوتے ہیں ۔ وزارت اطلاعات کا کام قومی بیانیے کی تشکیل او رترویج ہوتاہے ، وزارت کو اس طرف آنا ہوگا۔ نئے سیٹ اپ کوہنگامی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے اس ایک ایسا تھنک ٹینک تشکیل دینا ہوگا جو قومی اور عالمی سطح کے مسائل او رتقاضوں کوسامنے رکھتے ہوئے ٹھوس اصول وضع کرے اورقومی بیانیہ تشکیل دے ۔ اورپھر میڈیا پربھی ان ٹھوس اصولو ں کوسامنے رکھتے ہوئے اس بیانیے کی ترویج کی جائے ۔ فردوس عاشق اعوان کا سب سے بڑاجرم ہی یہ تھا کہ وہ قومی بیانیہ تشکیل دینے میں مکمل طورپرناکام رہیں یہی وجہ ہے کہ ان کاتشکیل کردہ بیانیہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی جماعت نے بھی مسترد کردیا۔