ماضی کے چند اجتماعی تجربات بھولے نہیں بھولتے. ان میں سے ایک اکتیس مارچ کا دن بھی ہے،. یہ وہ دن تھاکہ جب سکول امتحانی نتائج کا اعلان کرتے . ملک بھرمیں ایک ہی دن نتیجے کا اعلان کیا جاتا اور اسے نتیجہ بولنا کہتے . جن والدین کو بچے کی کامیابی کا یقین ہوتا وہ اس دن کے لیے نئے کپڑے بھی بنوا کر دیتے. کپڑے نئے نہ بھی دستیاب ہوں تو اہتمام سے ضرور پہنے جاتے. اس دور کے مروجہ فیشن بھی کیے جاتے. سکول کے باہر پھولوں کے ہار بیچنے والے کھڑے ہوتے اور یہ ہار پاس ہونے والے، اساتذہ کے گلے میں ڈالتے.
یہ وہ دور تھا جب بچہ یا تو پاس ہوتا تھا یا فیل. ابھی نمبروں اور گریڈوں کی دوڑ شروع نہیں ہوئی تھی. اترانے کے لیے پاس ہونا ہی کافی تھا بلکہ پاس ہونے والوں کے والدین گلی محلے میں مٹھائی یا بتاشے بانٹتے. اکتیس مارچ رونق کے حوالے سے کسی بھی بڑے تہوار کے برابر تھا. اس کے بعد دس دن کی چھٹیاں. سال میں یہی چھٹیاں ہوتی تھیں جن میں گھر کے لیے کام نہ ملتا . کامل فراغت اور عام طور پر یہ چھٹیاں ننھیال میں گزرتی. پڑھے لکھے لوگ شادیاں انھی چھٹیوں کو پیش نظر رکھ کر طے کرتے. سارا سال ان چھٹیوں کا انتظار رہتا. پھر یہ ہوا کہ نجی سکول آگئے. ان تعلیمی اداروں نے تعلیم فروخت کرنے کے لیے نئے نئے حربے ایجاد کیے. خود کو دوسروں سے منفرد ثابت کرنے کے لیے نئے نئے حیلے تراشے. والدین کو متاثر کرنے کے لیے انھیں نمبروں کے کھیل میں الجھا دیا.
نمبروں کی دوڑ نے سب تہس نہس کردیا. فیل ہونے والے کو تو چھوڑیے پاس ہونے والا بھی شرمندہ شرمندہ پھرتا ہے کہ پرسنٹیج والدین کی توقع سے کم ہے. نوے فیصد سے زیادہ نمبر لینے والے بھی والدین کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں. رزلٹ کارڈ کلچر نے مقابلے بازی کو فروغ دیا. اب سب کے نمبر سب کو پتا ہوتے ہیں. بچے اپنا کارڈ کم اور دوستوں کا زیادہ دیکھتے ہیں. ایک ایک نمبر کے کم زیادہ ہونے پر منہ بسورتے ہیں. صرف پاس کے اعلان میں ہم جیسے کتنوں کا بھرم رہ جاتا تھا.سب ہی برابر خوش ہوتے، تینتیس فیصد والے بھی نوے والے بھی. بس ” پاس کا تمغہ” سجائے گھر آتے اور ماں باپ کی محبتیں سمیٹتے. آہ! وہ اللہ کے شکر گزار بندے. وہ ہمارے بزرگ، جو صرف ہمارے پاس ہوجانے پر ہی اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے. ماؤں کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی. مانی ہوئی منتیں پوری کی جاتیں. بچے بھی دوسروں کے نمبر دیکھنے کی بجائے ایک دوسرے کو گلے مل مل کر مبارک دیتے . خوب اچھل کود اور ہلا گلا ہوتا. آہستہ آہستہ سب کچھ ہی بدل گیا. شکر گزاری کی جگہ مقابلے نے لے لی . مارکیٹنگ کا عفریت اُس سادہ اور بے ساختہ تہوار کو نگل گیا کہ جس کے رومانس سے اس عمر میں بھی نہیں نکل پایا. کان ترس گئے کہ سنوں کہ کل نتیجہ بولا جائے گا. اب تو یہ بھی نہیں پتا کہ سکولوں میں نتیجہ بولنے کا دن کونسا ہے..