• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home فکر و خیال

نتیجے کا دن

روزنامچہ: ڈاکٹر طارق کلیم

ڈاکٹر طارق کلیم by ڈاکٹر طارق کلیم
April 3, 2020
in فکر و خیال
0
ڈاکٹر طارق کلیم
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)

ماضی کے چند اجتماعی تجربات بھولے نہیں بھولتے. ان میں سے ایک اکتیس مارچ کا دن بھی ہے،. یہ وہ دن تھاکہ جب  سکول امتحانی نتائج کا اعلان کرتے . ملک بھرمیں  ایک ہی دن نتیجے کا اعلان کیا جاتا اور اسے نتیجہ بولنا کہتے . جن  والدین کو بچے کی کامیابی کا یقین ہوتا  وہ اس دن کے لیے نئے کپڑے بھی بنوا کر دیتے. کپڑے نئے نہ بھی دستیاب ہوں تو اہتمام سے ضرور پہنے جاتے. اس دور کے مروجہ فیشن بھی کیے جاتے. سکول کے باہر پھولوں کے ہار بیچنے والے کھڑے ہوتے اور یہ ہار پاس ہونے والے، اساتذہ کے گلے میں ڈالتے.

یہ وہ دور تھا جب بچہ یا تو پاس ہوتا تھا یا فیل. ابھی نمبروں اور گریڈوں کی دوڑ شروع نہیں ہوئی تھی. اترانے کے لیے پاس ہونا ہی کافی تھا بلکہ پاس ہونے والوں کے والدین گلی محلے میں مٹھائی یا بتاشے بانٹتے. اکتیس مارچ رونق کے حوالے سے کسی بھی بڑے تہوار کے برابر تھا. اس کے بعد دس دن کی چھٹیاں. سال میں یہی چھٹیاں ہوتی تھیں جن میں گھر کے لیے کام نہ ملتا . کامل فراغت اور عام طور پر یہ چھٹیاں ننھیال میں گزرتی. پڑھے لکھے لوگ شادیاں انھی چھٹیوں کو پیش نظر رکھ کر طے کرتے. سارا سال ان چھٹیوں کا انتظار رہتا. پھر یہ ہوا کہ نجی سکول آگئے. ان تعلیمی اداروں نے تعلیم فروخت کرنے کے لیے نئے نئے حربے ایجاد کیے. خود کو دوسروں سے منفرد ثابت کرنے کے لیے نئے نئے حیلے تراشے. والدین کو متاثر کرنے کے لیے انھیں نمبروں کے کھیل میں الجھا دیا.

Ad (2024-01-27 16:31:23)

نمبروں کی دوڑ نے سب تہس نہس کردیا. فیل ہونے والے کو تو چھوڑیے پاس ہونے والا بھی شرمندہ شرمندہ پھرتا ہے کہ پرسنٹیج والدین کی توقع سے کم ہے. نوے فیصد سے زیادہ نمبر لینے والے بھی والدین کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں. رزلٹ کارڈ کلچر نے مقابلے بازی کو فروغ دیا. اب سب کے نمبر سب کو پتا ہوتے ہیں. بچے اپنا کارڈ کم اور دوستوں کا زیادہ دیکھتے ہیں. ایک ایک نمبر کے کم زیادہ ہونے پر منہ بسورتے ہیں. صرف پاس کے اعلان میں ہم جیسے کتنوں کا بھرم رہ جاتا تھا.سب ہی برابر خوش ہوتے، تینتیس فیصد والے بھی نوے والے بھی. بس ” پاس کا تمغہ” سجائے گھر آتے اور ماں باپ کی محبتیں سمیٹتے. آہ! وہ اللہ کے شکر گزار بندے. وہ ہمارے بزرگ، جو صرف ہمارے پاس ہوجانے پر ہی اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے. ماؤں کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی. مانی ہوئی منتیں پوری کی جاتیں. بچے بھی دوسروں کے نمبر دیکھنے کی بجائے ایک دوسرے کو گلے مل مل کر مبارک دیتے . خوب اچھل کود اور ہلا گلا ہوتا. آہستہ آہستہ سب کچھ ہی بدل گیا. شکر گزاری کی جگہ مقابلے نے لے لی . مارکیٹنگ کا عفریت اُس سادہ اور بے ساختہ تہوار کو نگل گیا کہ  جس کے رومانس سے اس عمر میں بھی نہیں نکل پایا. کان ترس گئے کہ سنوں کہ کل نتیجہ بولا جائے گا. اب تو یہ بھی نہیں پتا کہ سکولوں میں نتیجہ بولنے کا دن کونسا ہے..

Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: امتحانی نتائجڈاکٹر طارق کلیمگریڈوں کی دوڑ
Previous Post

اٹلی کا سبق

Next Post

مجھے آدمی کی بقا چاہیے

ڈاکٹر طارق کلیم

ڈاکٹر طارق کلیم

ڈاکٹر طارق کلیم ، پی ایچ ڈی اردو، بائیس فروری انیس سو سڑسٹھ کو جڑانوالہ ضلع لائلپور ( فیصل آباد) میں پیدائش. ابتدائی تعلیم معظم آباد ( سرگودھا). گورنمنٹ جامعہ قاسم العلوم سرگودھا، گورنمنٹ کالج سرگودھا، گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن فار سائنس لاہور، سے تعلیمی مدارج طے کیے، سائنس ٹیچر کی حیثیت سے سرگودھا کے دیہی گاؤں سے کیرئیر کا آغاز، بعد میں کالج اور یونیورسٹی میں تدریس. مشفق خواجہ کی کالم نگاری پر مقالہ لکھ کر ایم فل اور " اردو کی ظریفانہ شاعری میں مزاحمتی عناصر" پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی. آج کل ایم اے او کالج لاہور میں تدریسی فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔

Next Post
ڈاکٹر محمد کامران

مجھے آدمی کی بقا چاہیے

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions