Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
کرونا کی تباہ کاریوں سے قبل اٹلی کا ذکر مختلف معنوں میں ہی آتا تھا کھانوں میں پیزا،پاستا کانام سنتے ہی بہت سوں کے منہ میں پانی آجاتا تو عمر رسیدہ لوگ مرحومہ ویسپا کواٹلی کا حوالہ جانتے ۔ فیشن کی دنیا میں مشہور برانڈز ارمانی، گوچی اور پراڈا کا ڈنکا بجتا توکاروں میں فیراری، لمبوگینی اٹلی کی پہچان کرواتی کہیں پیسا کا ٹاور وجہ شہرت تو کہیں وینس”شہر آب” کا تذکرہ،روم، پوپ، ویٹیکن کاذکرتوکہیں،لیونارڈوڈاؤنچی کی مصوری وجہ افتخار۔ موت میت، لاچاری بیماری جیسے الفاظ سے قبل ازکرونااٹلی کے باشندے اس قدر آشنا نہ تھے۔ پھر یوں ہوا کہ چراغوں میں روشنی نہ رہی اوراب تک تیرہ ہزارہلاکتیں اٹلی میں ہوچکی ہیں۔ فلورنس،میلان اور وینس جیسے سیاحتی شہرویران ہیں تو دوسری جانب لاک ڈاؤن سےمعیشت یومیہ ناقابل تلافی نقصان اٹھا رہی ہے۔ مگر حالات ایسے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے بغیر گزارہ نہیں۔
قرنطینہ بھی اطالوی زبان کا ہی لفظ ہے جسکے معنی چالیس کے ہیں۔ گزرے وقتوں میں وبائی امراض سے متاثرہ علاقوں سے لوٹ کر آنے والوں کو آبادی سے دور معالج کی زیر نگرانی چالیس دن تک رکھا جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ مدت سکڑ کر صرف چودہ دن تک محدود ہو گئی۔ سناگیا کہ کروناسےبچنے کی حکومتی ہدایات کو اٹلی کی عوام نے ہوا میں اڑایا، کھیل تماشے ملنا ملانا سب جاری رہا۔ اور اب نعشیں ہیں جو دفنائی جا رہی ہیں، انکی تعداد الامان الحفیظ اب آنسو ہیں کہ تھمتے نہیں،اور وباءہے جو ٹلتی نہیں۔ اٹلی کی ہلاکتیں (تیرہ ہزار ایک سو پچپن)اب تک سب سے زیادہ ہیں،پھر اسپین کی اموات نو ہزارتین سو ستاسی اور تو اور برطانیہ میں بھی دو ہزار تین سو پچاس سے زائد اموات کا سبب یہ وائرس بنا یوں تو پاکستان کا حال بہتر ہے کہ ابھی تک اكتیس افراد ہی لقمہ اجل بنے اس قاتل مرض سے پر جس تیزی سے مرض ہمارے معاشرے میں پیر پھیلا رہا ہے کنفرم مریض دو ہزار سے تجاوز کر چکے ہیں یہ تعداد خطرے کی گھنٹی زور سے بجا رہی ہے۔ وینٹیلٹرز کو جانے دیجیے یہاں تو ڈاکٹر ہی نہایت کم ہیں۔اٹلی میں ہزار لوگوں پر چار ڈاکٹر، اسپین میں تین اعشاریہ نو، برطانیہ میں دو اعشاریہ نو جبکہ ہمارے پاس صرف صفر اعشاریہ نو ہیں۔ یعنی ایک یا ایک سے بھی کم ہزار لوگوں پر
اب رخ کرتے ہیں چین و جنوجی کوریا کا جو بظاہر اس عفریت کو شکست دے چکے ہیں گارڈین کی رپورٹ کے مطابق وہاں پر اب بھی اس وباء کے دوسرے حملے کا خوف پایا جاتا ہے اسی خوف کے پیش نظراعلیٰ ثانوی داخلے کے مرکزی امتحانات ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ اسی رپورٹ میں جان ہاپکنز یونیورسٹی کی ایک تحقیق کاحوالہ دیا گیا ہے جس میں بتایا گیا کہ پوری دنیا کے چالیس فیصد انسان اس وائرس کے ہاتھوں رضا کارانہ یا جبری طور گھروں میں مقید ہیں۔
کہیں کیوبا سے انٹرفیرون لے کر تجربہ کیا جا رہا ہے تو کہیں کلورو کوئین کو ایڈز کی ادویات کے ساتھ ملا کر آزمایا جارہا ہے تو کہیں کرونا سے صحت یاب ہونے والوں کا بلڈ پلازما کرونا کے مریضوں کو چڑھا کے مثبت نتائج حاصل کئے جا رہے ہیں۔ مگر حتمی ویکسین آنے میں ابھی بہت دیر ہے۔
اب سوال اٹھتا ہے کیا کیا جاۓ۔ ؟ کہ جب اٹلی اسپین برطانیہ امریکہ اپنے بہترین نظام صحت کے ساتھ اس وباء کے ہاتھوں پریشان ہوں۔ اور ہم چین کی بانسری بجائیں تو بیوقوف کہلائیں گے۔ تحمل تدبر اور ہم آہنگی کیساتھ اس عفریت سے چھٹکارا پانا ہوگا۔
ڈاکٹروں کو مکمل حفاظتی سامان (فل باڈی کٹ) اور جو بھی انکی ضروریات ہیں انہیں ترجیحی بنیادوں پر پورا کرنا ہو گا۔
جارحانہ ٹیسٹنگ کرنی ہوگی۔ تاکہ آبادیوں کو محفوظ بنایاجاسکے۔
مکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں معاشرے کے سب سے نچلےطبقے(موچی،دھوبی،نائی اوردیگریومیہ اجرت پر کام کرنے والے
لوگوں) کی ذمہ داری فلاحی اداروں کے بجائے حکومت کو خود لینی ہوگی۔
رہ گئے شہری علاقوں کے منچلے اور دیہی علاقوں کے مختارے ان سے پولیس تو نبٹ ہی رہی ہے مگر یہ سب کسی نہ کسی سیاسی و مذہبی گروہ کے زیر اثر تو ہوتے ہی ہیں۔ تمام سیاسی و مذہبی قائدین کو پابند کیا جائے کہ اپنے پیروکاروں کو سختی سے حکومتی ہدایات کی پابندی کروائیں۔
ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد
ہر کہ خود رادید او محروم شد
شیخ سعدی اس شعر میں لگتا ہے حکومت پاکستان سے ہی مخاطب ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ موقع ملا ہے تو غریبوں،ناداروں کی خدمت کو شعار بناؤ آگےچل کر وه خود تمہاری خدمت کریں گے یعنی اگر اس وبائی صورتحال میں دل سے خدمت کی تو اگلے بیس،پچیس سال کے ووٹ پکے، اور اگر خود کی خدمت میں ہی مصروف عمل رہے تو اگلے الیکشن میں ہی منتخب ہونے سے محروم رہ جا ؤ گے۔
وسائل کے اعتبار سے اعداد و شمار اس بات کی غمازی کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کسی بھی قسم کی هنگامی صورت حال کا متحمل نہیں ہو سکتا تو اٹلی کی حالت ہمیں سکھاتی ہے کہ قرنطینہ ہی بہتر ہے۔
کرونا کی تباہ کاریوں سے قبل اٹلی کا ذکر مختلف معنوں میں ہی آتا تھا کھانوں میں پیزا،پاستا کانام سنتے ہی بہت سوں کے منہ میں پانی آجاتا تو عمر رسیدہ لوگ مرحومہ ویسپا کواٹلی کا حوالہ جانتے ۔ فیشن کی دنیا میں مشہور برانڈز ارمانی، گوچی اور پراڈا کا ڈنکا بجتا توکاروں میں فیراری، لمبوگینی اٹلی کی پہچان کرواتی کہیں پیسا کا ٹاور وجہ شہرت تو کہیں وینس”شہر آب” کا تذکرہ،روم، پوپ، ویٹیکن کاذکرتوکہیں،لیونارڈوڈاؤنچی کی مصوری وجہ افتخار۔ موت میت، لاچاری بیماری جیسے الفاظ سے قبل ازکرونااٹلی کے باشندے اس قدر آشنا نہ تھے۔ پھر یوں ہوا کہ چراغوں میں روشنی نہ رہی اوراب تک تیرہ ہزارہلاکتیں اٹلی میں ہوچکی ہیں۔ فلورنس،میلان اور وینس جیسے سیاحتی شہرویران ہیں تو دوسری جانب لاک ڈاؤن سےمعیشت یومیہ ناقابل تلافی نقصان اٹھا رہی ہے۔ مگر حالات ایسے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے بغیر گزارہ نہیں۔
قرنطینہ بھی اطالوی زبان کا ہی لفظ ہے جسکے معنی چالیس کے ہیں۔ گزرے وقتوں میں وبائی امراض سے متاثرہ علاقوں سے لوٹ کر آنے والوں کو آبادی سے دور معالج کی زیر نگرانی چالیس دن تک رکھا جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ مدت سکڑ کر صرف چودہ دن تک محدود ہو گئی۔ سناگیا کہ کروناسےبچنے کی حکومتی ہدایات کو اٹلی کی عوام نے ہوا میں اڑایا، کھیل تماشے ملنا ملانا سب جاری رہا۔ اور اب نعشیں ہیں جو دفنائی جا رہی ہیں، انکی تعداد الامان الحفیظ اب آنسو ہیں کہ تھمتے نہیں،اور وباءہے جو ٹلتی نہیں۔ اٹلی کی ہلاکتیں (تیرہ ہزار ایک سو پچپن)اب تک سب سے زیادہ ہیں،پھر اسپین کی اموات نو ہزارتین سو ستاسی اور تو اور برطانیہ میں بھی دو ہزار تین سو پچاس سے زائد اموات کا سبب یہ وائرس بنا یوں تو پاکستان کا حال بہتر ہے کہ ابھی تک اكتیس افراد ہی لقمہ اجل بنے اس قاتل مرض سے پر جس تیزی سے مرض ہمارے معاشرے میں پیر پھیلا رہا ہے کنفرم مریض دو ہزار سے تجاوز کر چکے ہیں یہ تعداد خطرے کی گھنٹی زور سے بجا رہی ہے۔ وینٹیلٹرز کو جانے دیجیے یہاں تو ڈاکٹر ہی نہایت کم ہیں۔اٹلی میں ہزار لوگوں پر چار ڈاکٹر، اسپین میں تین اعشاریہ نو، برطانیہ میں دو اعشاریہ نو جبکہ ہمارے پاس صرف صفر اعشاریہ نو ہیں۔ یعنی ایک یا ایک سے بھی کم ہزار لوگوں پر
اب رخ کرتے ہیں چین و جنوجی کوریا کا جو بظاہر اس عفریت کو شکست دے چکے ہیں گارڈین کی رپورٹ کے مطابق وہاں پر اب بھی اس وباء کے دوسرے حملے کا خوف پایا جاتا ہے اسی خوف کے پیش نظراعلیٰ ثانوی داخلے کے مرکزی امتحانات ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ اسی رپورٹ میں جان ہاپکنز یونیورسٹی کی ایک تحقیق کاحوالہ دیا گیا ہے جس میں بتایا گیا کہ پوری دنیا کے چالیس فیصد انسان اس وائرس کے ہاتھوں رضا کارانہ یا جبری طور گھروں میں مقید ہیں۔
کہیں کیوبا سے انٹرفیرون لے کر تجربہ کیا جا رہا ہے تو کہیں کلورو کوئین کو ایڈز کی ادویات کے ساتھ ملا کر آزمایا جارہا ہے تو کہیں کرونا سے صحت یاب ہونے والوں کا بلڈ پلازما کرونا کے مریضوں کو چڑھا کے مثبت نتائج حاصل کئے جا رہے ہیں۔ مگر حتمی ویکسین آنے میں ابھی بہت دیر ہے۔
اب سوال اٹھتا ہے کیا کیا جاۓ۔ ؟ کہ جب اٹلی اسپین برطانیہ امریکہ اپنے بہترین نظام صحت کے ساتھ اس وباء کے ہاتھوں پریشان ہوں۔ اور ہم چین کی بانسری بجائیں تو بیوقوف کہلائیں گے۔ تحمل تدبر اور ہم آہنگی کیساتھ اس عفریت سے چھٹکارا پانا ہوگا۔
ڈاکٹروں کو مکمل حفاظتی سامان (فل باڈی کٹ) اور جو بھی انکی ضروریات ہیں انہیں ترجیحی بنیادوں پر پورا کرنا ہو گا۔
جارحانہ ٹیسٹنگ کرنی ہوگی۔ تاکہ آبادیوں کو محفوظ بنایاجاسکے۔
مکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں معاشرے کے سب سے نچلےطبقے(موچی،دھوبی،نائی اوردیگریومیہ اجرت پر کام کرنے والے
لوگوں) کی ذمہ داری فلاحی اداروں کے بجائے حکومت کو خود لینی ہوگی۔
رہ گئے شہری علاقوں کے منچلے اور دیہی علاقوں کے مختارے ان سے پولیس تو نبٹ ہی رہی ہے مگر یہ سب کسی نہ کسی سیاسی و مذہبی گروہ کے زیر اثر تو ہوتے ہی ہیں۔ تمام سیاسی و مذہبی قائدین کو پابند کیا جائے کہ اپنے پیروکاروں کو سختی سے حکومتی ہدایات کی پابندی کروائیں۔
ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد
ہر کہ خود رادید او محروم شد
شیخ سعدی اس شعر میں لگتا ہے حکومت پاکستان سے ہی مخاطب ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ موقع ملا ہے تو غریبوں،ناداروں کی خدمت کو شعار بناؤ آگےچل کر وه خود تمہاری خدمت کریں گے یعنی اگر اس وبائی صورتحال میں دل سے خدمت کی تو اگلے بیس،پچیس سال کے ووٹ پکے، اور اگر خود کی خدمت میں ہی مصروف عمل رہے تو اگلے الیکشن میں ہی منتخب ہونے سے محروم رہ جا ؤ گے۔
وسائل کے اعتبار سے اعداد و شمار اس بات کی غمازی کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کسی بھی قسم کی هنگامی صورت حال کا متحمل نہیں ہو سکتا تو اٹلی کی حالت ہمیں سکھاتی ہے کہ قرنطینہ ہی بہتر ہے۔
کرونا کی تباہ کاریوں سے قبل اٹلی کا ذکر مختلف معنوں میں ہی آتا تھا کھانوں میں پیزا،پاستا کانام سنتے ہی بہت سوں کے منہ میں پانی آجاتا تو عمر رسیدہ لوگ مرحومہ ویسپا کواٹلی کا حوالہ جانتے ۔ فیشن کی دنیا میں مشہور برانڈز ارمانی، گوچی اور پراڈا کا ڈنکا بجتا توکاروں میں فیراری، لمبوگینی اٹلی کی پہچان کرواتی کہیں پیسا کا ٹاور وجہ شہرت تو کہیں وینس”شہر آب” کا تذکرہ،روم، پوپ، ویٹیکن کاذکرتوکہیں،لیونارڈوڈاؤنچی کی مصوری وجہ افتخار۔ موت میت، لاچاری بیماری جیسے الفاظ سے قبل ازکرونااٹلی کے باشندے اس قدر آشنا نہ تھے۔ پھر یوں ہوا کہ چراغوں میں روشنی نہ رہی اوراب تک تیرہ ہزارہلاکتیں اٹلی میں ہوچکی ہیں۔ فلورنس،میلان اور وینس جیسے سیاحتی شہرویران ہیں تو دوسری جانب لاک ڈاؤن سےمعیشت یومیہ ناقابل تلافی نقصان اٹھا رہی ہے۔ مگر حالات ایسے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے بغیر گزارہ نہیں۔
قرنطینہ بھی اطالوی زبان کا ہی لفظ ہے جسکے معنی چالیس کے ہیں۔ گزرے وقتوں میں وبائی امراض سے متاثرہ علاقوں سے لوٹ کر آنے والوں کو آبادی سے دور معالج کی زیر نگرانی چالیس دن تک رکھا جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ مدت سکڑ کر صرف چودہ دن تک محدود ہو گئی۔ سناگیا کہ کروناسےبچنے کی حکومتی ہدایات کو اٹلی کی عوام نے ہوا میں اڑایا، کھیل تماشے ملنا ملانا سب جاری رہا۔ اور اب نعشیں ہیں جو دفنائی جا رہی ہیں، انکی تعداد الامان الحفیظ اب آنسو ہیں کہ تھمتے نہیں،اور وباءہے جو ٹلتی نہیں۔ اٹلی کی ہلاکتیں (تیرہ ہزار ایک سو پچپن)اب تک سب سے زیادہ ہیں،پھر اسپین کی اموات نو ہزارتین سو ستاسی اور تو اور برطانیہ میں بھی دو ہزار تین سو پچاس سے زائد اموات کا سبب یہ وائرس بنا یوں تو پاکستان کا حال بہتر ہے کہ ابھی تک اكتیس افراد ہی لقمہ اجل بنے اس قاتل مرض سے پر جس تیزی سے مرض ہمارے معاشرے میں پیر پھیلا رہا ہے کنفرم مریض دو ہزار سے تجاوز کر چکے ہیں یہ تعداد خطرے کی گھنٹی زور سے بجا رہی ہے۔ وینٹیلٹرز کو جانے دیجیے یہاں تو ڈاکٹر ہی نہایت کم ہیں۔اٹلی میں ہزار لوگوں پر چار ڈاکٹر، اسپین میں تین اعشاریہ نو، برطانیہ میں دو اعشاریہ نو جبکہ ہمارے پاس صرف صفر اعشاریہ نو ہیں۔ یعنی ایک یا ایک سے بھی کم ہزار لوگوں پر
اب رخ کرتے ہیں چین و جنوجی کوریا کا جو بظاہر اس عفریت کو شکست دے چکے ہیں گارڈین کی رپورٹ کے مطابق وہاں پر اب بھی اس وباء کے دوسرے حملے کا خوف پایا جاتا ہے اسی خوف کے پیش نظراعلیٰ ثانوی داخلے کے مرکزی امتحانات ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ اسی رپورٹ میں جان ہاپکنز یونیورسٹی کی ایک تحقیق کاحوالہ دیا گیا ہے جس میں بتایا گیا کہ پوری دنیا کے چالیس فیصد انسان اس وائرس کے ہاتھوں رضا کارانہ یا جبری طور گھروں میں مقید ہیں۔
کہیں کیوبا سے انٹرفیرون لے کر تجربہ کیا جا رہا ہے تو کہیں کلورو کوئین کو ایڈز کی ادویات کے ساتھ ملا کر آزمایا جارہا ہے تو کہیں کرونا سے صحت یاب ہونے والوں کا بلڈ پلازما کرونا کے مریضوں کو چڑھا کے مثبت نتائج حاصل کئے جا رہے ہیں۔ مگر حتمی ویکسین آنے میں ابھی بہت دیر ہے۔
اب سوال اٹھتا ہے کیا کیا جاۓ۔ ؟ کہ جب اٹلی اسپین برطانیہ امریکہ اپنے بہترین نظام صحت کے ساتھ اس وباء کے ہاتھوں پریشان ہوں۔ اور ہم چین کی بانسری بجائیں تو بیوقوف کہلائیں گے۔ تحمل تدبر اور ہم آہنگی کیساتھ اس عفریت سے چھٹکارا پانا ہوگا۔
ڈاکٹروں کو مکمل حفاظتی سامان (فل باڈی کٹ) اور جو بھی انکی ضروریات ہیں انہیں ترجیحی بنیادوں پر پورا کرنا ہو گا۔
جارحانہ ٹیسٹنگ کرنی ہوگی۔ تاکہ آبادیوں کو محفوظ بنایاجاسکے۔
مکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں معاشرے کے سب سے نچلےطبقے(موچی،دھوبی،نائی اوردیگریومیہ اجرت پر کام کرنے والے
لوگوں) کی ذمہ داری فلاحی اداروں کے بجائے حکومت کو خود لینی ہوگی۔
رہ گئے شہری علاقوں کے منچلے اور دیہی علاقوں کے مختارے ان سے پولیس تو نبٹ ہی رہی ہے مگر یہ سب کسی نہ کسی سیاسی و مذہبی گروہ کے زیر اثر تو ہوتے ہی ہیں۔ تمام سیاسی و مذہبی قائدین کو پابند کیا جائے کہ اپنے پیروکاروں کو سختی سے حکومتی ہدایات کی پابندی کروائیں۔
ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد
ہر کہ خود رادید او محروم شد
شیخ سعدی اس شعر میں لگتا ہے حکومت پاکستان سے ہی مخاطب ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ موقع ملا ہے تو غریبوں،ناداروں کی خدمت کو شعار بناؤ آگےچل کر وه خود تمہاری خدمت کریں گے یعنی اگر اس وبائی صورتحال میں دل سے خدمت کی تو اگلے بیس،پچیس سال کے ووٹ پکے، اور اگر خود کی خدمت میں ہی مصروف عمل رہے تو اگلے الیکشن میں ہی منتخب ہونے سے محروم رہ جا ؤ گے۔
وسائل کے اعتبار سے اعداد و شمار اس بات کی غمازی کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کسی بھی قسم کی هنگامی صورت حال کا متحمل نہیں ہو سکتا تو اٹلی کی حالت ہمیں سکھاتی ہے کہ قرنطینہ ہی بہتر ہے۔
کرونا کی تباہ کاریوں سے قبل اٹلی کا ذکر مختلف معنوں میں ہی آتا تھا کھانوں میں پیزا،پاستا کانام سنتے ہی بہت سوں کے منہ میں پانی آجاتا تو عمر رسیدہ لوگ مرحومہ ویسپا کواٹلی کا حوالہ جانتے ۔ فیشن کی دنیا میں مشہور برانڈز ارمانی، گوچی اور پراڈا کا ڈنکا بجتا توکاروں میں فیراری، لمبوگینی اٹلی کی پہچان کرواتی کہیں پیسا کا ٹاور وجہ شہرت تو کہیں وینس”شہر آب” کا تذکرہ،روم، پوپ، ویٹیکن کاذکرتوکہیں،لیونارڈوڈاؤنچی کی مصوری وجہ افتخار۔ موت میت، لاچاری بیماری جیسے الفاظ سے قبل ازکرونااٹلی کے باشندے اس قدر آشنا نہ تھے۔ پھر یوں ہوا کہ چراغوں میں روشنی نہ رہی اوراب تک تیرہ ہزارہلاکتیں اٹلی میں ہوچکی ہیں۔ فلورنس،میلان اور وینس جیسے سیاحتی شہرویران ہیں تو دوسری جانب لاک ڈاؤن سےمعیشت یومیہ ناقابل تلافی نقصان اٹھا رہی ہے۔ مگر حالات ایسے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے بغیر گزارہ نہیں۔
قرنطینہ بھی اطالوی زبان کا ہی لفظ ہے جسکے معنی چالیس کے ہیں۔ گزرے وقتوں میں وبائی امراض سے متاثرہ علاقوں سے لوٹ کر آنے والوں کو آبادی سے دور معالج کی زیر نگرانی چالیس دن تک رکھا جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ مدت سکڑ کر صرف چودہ دن تک محدود ہو گئی۔ سناگیا کہ کروناسےبچنے کی حکومتی ہدایات کو اٹلی کی عوام نے ہوا میں اڑایا، کھیل تماشے ملنا ملانا سب جاری رہا۔ اور اب نعشیں ہیں جو دفنائی جا رہی ہیں، انکی تعداد الامان الحفیظ اب آنسو ہیں کہ تھمتے نہیں،اور وباءہے جو ٹلتی نہیں۔ اٹلی کی ہلاکتیں (تیرہ ہزار ایک سو پچپن)اب تک سب سے زیادہ ہیں،پھر اسپین کی اموات نو ہزارتین سو ستاسی اور تو اور برطانیہ میں بھی دو ہزار تین سو پچاس سے زائد اموات کا سبب یہ وائرس بنا یوں تو پاکستان کا حال بہتر ہے کہ ابھی تک اكتیس افراد ہی لقمہ اجل بنے اس قاتل مرض سے پر جس تیزی سے مرض ہمارے معاشرے میں پیر پھیلا رہا ہے کنفرم مریض دو ہزار سے تجاوز کر چکے ہیں یہ تعداد خطرے کی گھنٹی زور سے بجا رہی ہے۔ وینٹیلٹرز کو جانے دیجیے یہاں تو ڈاکٹر ہی نہایت کم ہیں۔اٹلی میں ہزار لوگوں پر چار ڈاکٹر، اسپین میں تین اعشاریہ نو، برطانیہ میں دو اعشاریہ نو جبکہ ہمارے پاس صرف صفر اعشاریہ نو ہیں۔ یعنی ایک یا ایک سے بھی کم ہزار لوگوں پر
اب رخ کرتے ہیں چین و جنوجی کوریا کا جو بظاہر اس عفریت کو شکست دے چکے ہیں گارڈین کی رپورٹ کے مطابق وہاں پر اب بھی اس وباء کے دوسرے حملے کا خوف پایا جاتا ہے اسی خوف کے پیش نظراعلیٰ ثانوی داخلے کے مرکزی امتحانات ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ اسی رپورٹ میں جان ہاپکنز یونیورسٹی کی ایک تحقیق کاحوالہ دیا گیا ہے جس میں بتایا گیا کہ پوری دنیا کے چالیس فیصد انسان اس وائرس کے ہاتھوں رضا کارانہ یا جبری طور گھروں میں مقید ہیں۔
کہیں کیوبا سے انٹرفیرون لے کر تجربہ کیا جا رہا ہے تو کہیں کلورو کوئین کو ایڈز کی ادویات کے ساتھ ملا کر آزمایا جارہا ہے تو کہیں کرونا سے صحت یاب ہونے والوں کا بلڈ پلازما کرونا کے مریضوں کو چڑھا کے مثبت نتائج حاصل کئے جا رہے ہیں۔ مگر حتمی ویکسین آنے میں ابھی بہت دیر ہے۔
اب سوال اٹھتا ہے کیا کیا جاۓ۔ ؟ کہ جب اٹلی اسپین برطانیہ امریکہ اپنے بہترین نظام صحت کے ساتھ اس وباء کے ہاتھوں پریشان ہوں۔ اور ہم چین کی بانسری بجائیں تو بیوقوف کہلائیں گے۔ تحمل تدبر اور ہم آہنگی کیساتھ اس عفریت سے چھٹکارا پانا ہوگا۔
ڈاکٹروں کو مکمل حفاظتی سامان (فل باڈی کٹ) اور جو بھی انکی ضروریات ہیں انہیں ترجیحی بنیادوں پر پورا کرنا ہو گا۔
جارحانہ ٹیسٹنگ کرنی ہوگی۔ تاکہ آبادیوں کو محفوظ بنایاجاسکے۔
مکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں معاشرے کے سب سے نچلےطبقے(موچی،دھوبی،نائی اوردیگریومیہ اجرت پر کام کرنے والے
لوگوں) کی ذمہ داری فلاحی اداروں کے بجائے حکومت کو خود لینی ہوگی۔
رہ گئے شہری علاقوں کے منچلے اور دیہی علاقوں کے مختارے ان سے پولیس تو نبٹ ہی رہی ہے مگر یہ سب کسی نہ کسی سیاسی و مذہبی گروہ کے زیر اثر تو ہوتے ہی ہیں۔ تمام سیاسی و مذہبی قائدین کو پابند کیا جائے کہ اپنے پیروکاروں کو سختی سے حکومتی ہدایات کی پابندی کروائیں۔
ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد
ہر کہ خود رادید او محروم شد
شیخ سعدی اس شعر میں لگتا ہے حکومت پاکستان سے ہی مخاطب ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ موقع ملا ہے تو غریبوں،ناداروں کی خدمت کو شعار بناؤ آگےچل کر وه خود تمہاری خدمت کریں گے یعنی اگر اس وبائی صورتحال میں دل سے خدمت کی تو اگلے بیس،پچیس سال کے ووٹ پکے، اور اگر خود کی خدمت میں ہی مصروف عمل رہے تو اگلے الیکشن میں ہی منتخب ہونے سے محروم رہ جا ؤ گے۔
وسائل کے اعتبار سے اعداد و شمار اس بات کی غمازی کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کسی بھی قسم کی هنگامی صورت حال کا متحمل نہیں ہو سکتا تو اٹلی کی حالت ہمیں سکھاتی ہے کہ قرنطینہ ہی بہتر ہے۔