Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ایسے میں جب کورونا کی وبا کے خوف سے ہر کوئی ہلکان و پریشان ہے۔ سماجی فاصلے کی دوری کا کچھ خیال رکھے ہوئے ہیں اور کچھ اسے ابتدا سے ہی خاطر میں نہیں لاتے, ہمارے پڑوسی خالو خلیل ستارہ نواز نے جب ہمیں چھت پرچڑھا دیکھ کر کراچی کے سہانے اور رم جھم موسم سے لطف اٹھانے میں خلل ڈال ہی دیا۔ بلند و بالا آواز سے دریافت کیا ’ہاں میاں جانور لے آئے؟‘ ہمارا جواب یقینی طور پر ’ناں‘ ہی تھا جس پر موصوف نے ہماری رائے جانے بغیر ہی فیصلہ سناتے ہوئے کہا ’چلیں پھر کل اتوار ہے ساتھ چلتے ہیں۔‘خود کو کوسنے دیے کیوں سہانے، رنگین اور برساتی موسم کا دیدار کرنے چھت پر آئے‘ نہ آتے تو کم از کم خالو خلیل ستارہ نواز سے تو بچت ہوجاتی ۔
یہ بھی پڑھئے:
کورونا میں عید قرباں | حفصہ خلجی
یقینی طور پر ہم انکار بھی کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اس کا موقع ہی نہیں دیا۔ کل ساتھ چلنے کا فرمان جاری کرتے ہوئے ایسے چھت سے غائب ہوئے جیسے ہم قرضہ نہ مانگ لیں۔ د ل میں خیال آیا کہ کل کی کل دیکھی جائے گی‘ آئے اگر تو بہانہ گھڑ لیں گے۔ لیکن اتنا ہمیں معلوم تھا کہ ایک دن کے لیے تویہ بلا ٹل جائے گی لیکن خالو خلیل کمبل بوریا بستر لے کر چپکنے میں خاصی شہرت رکھتے ہیں۔آسانی سے جان چھوڑنے والے نہیں چاہے دنیا اِدھر سے اُدھر ہوجائے۔ہمیں ان کے ساتھ جانے میں اس قدر کیوں قباحت تھی؟تو اس کی اہم وجہ پچھلے برس کے تلخ تجربات تھے۔ موصوف نے پورے آدھا دن مویشی منڈی میں گھمایا۔ بلکہ وہاں اس قدر وقت گزرا کہ شکلوں اور حلیوں سے ہم بھی بیوپاری ہی لگنے لگے۔جو جانور انہیں پسند آتا اس کی قیمت سن کر غصہ ساتویں آسمان کو چھونے لگتا۔ کچھ بیوپاری تو ان کی قیمت کم کرانے کی مہم سے اس قدر عاجز آگئے تھے کہ ہاتھ سے رسی چھڑا کر یہی کہتے نظر آئے ’جاؤ بابا دھندا کھوٹی مت کرو ‘۔ گھنٹوں بھوک پیاس میں ٹہلاتے رہے۔ ایک بار بولا بھی کہ’ ہونٹ خشک ہوگئے ہیں کچھ پی لیتے ہیں۔‘ لیکن خالو نے جیب پر ہونے والے ’ متوقع حملے ‘ کے پیش نظر جھٹ کہا ’ارے یہاں کی چیزیں مت کھانا، پتا نہیں کہاں سے پانی بھرتے ہیں، دس بیماریوں کو بلاوا دے دو گے۔‘ ہم نے تھک ہار کر کہا کہ ’سوفٹ ڈرنک تو کمپنی سے آتا ہے‘ اس کو پینے میں کیا مضائقہ ہے‘۔ فرمانے لگے ’ہمیں کیا پتا‘ سب دو نمبر فیکٹریوں کی کارستانی ہوگی۔‘ مطلب صاف دھیلے کا خرچا نہیں کرنا تھا۔لگا یہی کہ ہم جیسے خالو خلیل کے بکرے ہوں‘ جسے مٹر گشت یا چرانے کے لیے وہ منڈی لے آئے ہو۔بڑی مشکل سے ایک جانور پسند آیا جس کے بیوپاری کے سامنے خالو خلیل نے قیمت کے معاملے پر ہتھیار ڈال دیے۔ جانور تو خالو کو پسند آگیا تھا لیکن وہ اسے پسند نہ آئے۔ ایسا اڑیل کہ گاڑی میں سوار ہوتے ہوئے وہ نخرے دکھائے جیسے نرسری میں جاتے وقت ننھے منے پھول کرتے ہیں ۔ جنہیں زبردستی والدین، اسکول کے گیٹ سے اندر داخل کرتے ہیں۔ یہی ساری بپتا ہمارے ذہن میں نقش تھی اور نہیں چاہتے تھے کہ پھر سے یہی کہانی دہرائی جائے۔
دو ٹوک لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا تھا کہ ’میں نہیں جاؤں گا‘ لیکن یہ کہنے کے لیے اس لیے ہمت نہیں تھی کہ موصوف، والد صاحب کے جگری تھے۔ جو اسی کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔
اگلی صبح ڈور بیل بجی تو ہماری بدقسمتی ہی کہیے کہ دروازہ ہم نے ہی کھولا، اس میں کچھ قصور ہماری ’شارٹ میموری‘ کا بھی ہے۔ کیونکہ صبح تک ہم بھول چکے تھے کہ آج کہیں جانا ہے۔ خالو خلیل نے دانت نکالتے ہوئے ہوئے کہا ’چلو ہم تو تیار ہیں۔‘ ہم نے پھر بہانہ تراشا کہ کورونا وائرس پھیلا ہے، کہیں آس پاس کی منڈی سے خرید لیتے ہیں کیوں اتنی دور پٹرول برباد کریں جو پہلے ہی اتنا مہنگا ہوگیا ہے ۔ جواب ملا کہ ’یہ جو قریب و جوار میں جانور لے کر کھڑے ہوتے ہیں ناں یہ سب فراڈیے ہوتے ہیں۔ منڈی ہی چلتے ہیں۔‘ ہم نے ایک اور داؤ کھیلنے کی کوشش کی کہ ’ ابھی تو عید میں وقت ہے، آخری دنوں میں لے لیں سستا مل جائے گا۔‘ اس کا بھی جواب تھا کہ ’پچھلی دفعہ یاد نہیں بارش ہوگئی تھی اور پھر کیسی قیمت چڑھی تھی ، میں رسک نہیں لے سکتا یہ۔۔‘ اس بیان میں درحقیقت دھمکی نما یہ پیغام تھا کہ بیٹا چلنا تو پڑے گا۔
منڈی پہنچ کر کم از کم ہمیں تو ہرگز یہ احساس نہیں ہوا کہ اس وقت پوری قوم کورونا وائرس سے لڑ رہی ہے۔ کسی نے ماسک پہنا تھا تو کسی نے نہیں۔ جن کے چہرے پر آویزاں تھا، اس ماسک کو دیکھ کر یہ لگ رہا تھا کہ جب سے منڈی آئے ہیں، ممکن ہے ان بیوپاریوں نے دوسرا ماسک خریدنے کی کوشش سرے سے کی نہ ہو، میلا کچیلا، دھول مٹی سے اٹا ہوا، کچھ کا ماسک تو ان کی گندمی اور سیاہ رنگت سے جوڑ کھانے لگا تھا۔ شان کے خلاف دستانے پہننا بھی لگا ۔ جراثیم کش ادویات اور سینٹی ٹائزرکا استعمال بھی ’تبرک‘ کے طور پر کچھ بیوپاری کرتے نظر آئے جبکہ ہم تمام تر حفاظتی اقدامات کے ساتھ منڈی کا رخ کررہے تھے۔ اور کچھ ایسی ہی صورتحال خالو خلیل کی بھی تھی، جن کا بس چلتا تھا تو طبی عملے والا لباس بھی زیب تن کرلیتے۔
خالو خلیل کو ’ستارہ نواز‘ کیوں کہتے تھے، اس حوالے محلے کے ان کی عمر کے بڑے بوڑھوں کا کہنا تھا کہ جوانی میں انہوں نے کوئی بھلائی کا کام کیا تھا (جس کا ہمیں تو کم از کم یقین نہیں تھا) اور خالو کا دعویٰ تھا کہ انہیں حکومت کی طرف سے ا س پر ’ستارہ امتیاز‘ ملا تھا۔اب جس کارنامے پر ملا تھا‘ اس کو بتانے کے بجائے وہ ہر راہ چلتے سے صرف اور صرف اس ستارے کی شان بیان کرتے کہ ایسا ہے ویسا ہے ، طلائی ہے ، نگینے فٹ ہیں ’ اتنا بڑا ہے اور نجانے کیا کیا ۔۔ یوں بگڑتے بگڑتے ان کا نام ’خالو خلیل ستارہ نواز‘ ہی پڑ گیا۔ یہ بھی کتنی عجیب بات تھی کہ آج تک کسی نے وہ ستارہ نہیں دیکھا جس کی ملکیت کا خالو خلیل پہاڑا پڑھتے تھے ۔
خیر جی تلاش تھی ان کے لیے جانور کی، جو جان جوکھم والا کام ہی کہا جاسکتا ہے۔ایک دو جگہ ہم اور خالو خلیل نے بیوپاریوں کو ’دانہ‘ ڈالا۔ بھاؤ تاؤ جیسے ہی شروع ہوا‘ جناب ارد گرد ایک بھیڑ اکٹھی ہونا شروع ہوگئی۔ خالو کا سودا نہیں بنا‘ انہوں نے کھسکنے میں ہی عافیت جانی۔سمجھ نہیں آیا کہ جب سماجی فاصلے کا خیال رکھنے کی ہر جگہ تاکید کی جا رہی ہے پھر ’پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘ بن کر یہ لوگ کیوں خوامخواہ کے مزے اٹھانے آجاتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ بھاؤ تاؤ کے تجربات حاصل کرنے والے یہ نوسیکھئے ہوں۔ ہر تھوڑے فاصلے پر کچھ یہی نظارہ تھا اور جب کسی کا سودا بنتا نظر آتا تو وہ بیوپاری کے کان میں سرگوشی کے انداز میں اپنی خواہش بیان کرتے ہوئے سماجی دوری کا بھی پاس نہیں رکھ رہا تھا۔ خیر دل میں تو ہم یہی سوچ کر آئے تھے کہ آج تو پورے دن کی قربانی دینی ہوگی۔ لیکن خلاف توقع مویشی منڈی میں کورونا کی وبا کی ’ایس او پیز‘ کا ’اعلیٰ نظارہ‘ دیکھنے کے بعد خالو خلیل کی خود حالت پتلی ہوگئی۔فرمانے لگے کہ ’عمر کی ستر بہاریں دیکھ چکا ہوں لیکن زیادہ دیر یہاں رہے تو عید سے پہلے میں ہی کورونا کے ہاتھوں قرباں ہوجاؤ گا۔تم صحیح کہہ رہے تھے، محلے کے آس پاس سے ہی دیکھتے ہیں کوئی جانور، ایک تو یہاں مہنگے ہیں دوسرا یہاں آنے والے تو لگتا ہے کہ کورونا سے بے خوف و خطر لڑنے کا ارادہ کرچکے ہیں۔‘ کانوں پر یقین تو نہیں آرہا تھا، لیکن کرنا پڑا۔ اس سے پہلے خالو خلیل ستارہ نواز کا ذہن بدلے ہم نے کم و بیش مویشی منڈی کے مرکزی دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔ شکر ادا کیا کہ جان چھوٹی، گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ہم یہ سوچ رہے تھے کہ اگر یہ کورونا کی وبا نہ ہوتی تو ہمارا کیا حال ہوتا ہے۔ خوشی اس بات کی بھی تھی کہ خالو خلیل جیسے پرانے اور عمر رسیدہ افراد اس وبا کو واقعی سنجیدہ لے رہے ہیں، کیونکہ اُن کی عمر کے کچھ افراد تومان چکے ہیں کہ کورونا‘ فرنگیوں کی سازش ہے۔
@suffyyan
ایسے میں جب کورونا کی وبا کے خوف سے ہر کوئی ہلکان و پریشان ہے۔ سماجی فاصلے کی دوری کا کچھ خیال رکھے ہوئے ہیں اور کچھ اسے ابتدا سے ہی خاطر میں نہیں لاتے, ہمارے پڑوسی خالو خلیل ستارہ نواز نے جب ہمیں چھت پرچڑھا دیکھ کر کراچی کے سہانے اور رم جھم موسم سے لطف اٹھانے میں خلل ڈال ہی دیا۔ بلند و بالا آواز سے دریافت کیا ’ہاں میاں جانور لے آئے؟‘ ہمارا جواب یقینی طور پر ’ناں‘ ہی تھا جس پر موصوف نے ہماری رائے جانے بغیر ہی فیصلہ سناتے ہوئے کہا ’چلیں پھر کل اتوار ہے ساتھ چلتے ہیں۔‘خود کو کوسنے دیے کیوں سہانے، رنگین اور برساتی موسم کا دیدار کرنے چھت پر آئے‘ نہ آتے تو کم از کم خالو خلیل ستارہ نواز سے تو بچت ہوجاتی ۔
یہ بھی پڑھئے:
کورونا میں عید قرباں | حفصہ خلجی
یقینی طور پر ہم انکار بھی کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اس کا موقع ہی نہیں دیا۔ کل ساتھ چلنے کا فرمان جاری کرتے ہوئے ایسے چھت سے غائب ہوئے جیسے ہم قرضہ نہ مانگ لیں۔ د ل میں خیال آیا کہ کل کی کل دیکھی جائے گی‘ آئے اگر تو بہانہ گھڑ لیں گے۔ لیکن اتنا ہمیں معلوم تھا کہ ایک دن کے لیے تویہ بلا ٹل جائے گی لیکن خالو خلیل کمبل بوریا بستر لے کر چپکنے میں خاصی شہرت رکھتے ہیں۔آسانی سے جان چھوڑنے والے نہیں چاہے دنیا اِدھر سے اُدھر ہوجائے۔ہمیں ان کے ساتھ جانے میں اس قدر کیوں قباحت تھی؟تو اس کی اہم وجہ پچھلے برس کے تلخ تجربات تھے۔ موصوف نے پورے آدھا دن مویشی منڈی میں گھمایا۔ بلکہ وہاں اس قدر وقت گزرا کہ شکلوں اور حلیوں سے ہم بھی بیوپاری ہی لگنے لگے۔جو جانور انہیں پسند آتا اس کی قیمت سن کر غصہ ساتویں آسمان کو چھونے لگتا۔ کچھ بیوپاری تو ان کی قیمت کم کرانے کی مہم سے اس قدر عاجز آگئے تھے کہ ہاتھ سے رسی چھڑا کر یہی کہتے نظر آئے ’جاؤ بابا دھندا کھوٹی مت کرو ‘۔ گھنٹوں بھوک پیاس میں ٹہلاتے رہے۔ ایک بار بولا بھی کہ’ ہونٹ خشک ہوگئے ہیں کچھ پی لیتے ہیں۔‘ لیکن خالو نے جیب پر ہونے والے ’ متوقع حملے ‘ کے پیش نظر جھٹ کہا ’ارے یہاں کی چیزیں مت کھانا، پتا نہیں کہاں سے پانی بھرتے ہیں، دس بیماریوں کو بلاوا دے دو گے۔‘ ہم نے تھک ہار کر کہا کہ ’سوفٹ ڈرنک تو کمپنی سے آتا ہے‘ اس کو پینے میں کیا مضائقہ ہے‘۔ فرمانے لگے ’ہمیں کیا پتا‘ سب دو نمبر فیکٹریوں کی کارستانی ہوگی۔‘ مطلب صاف دھیلے کا خرچا نہیں کرنا تھا۔لگا یہی کہ ہم جیسے خالو خلیل کے بکرے ہوں‘ جسے مٹر گشت یا چرانے کے لیے وہ منڈی لے آئے ہو۔بڑی مشکل سے ایک جانور پسند آیا جس کے بیوپاری کے سامنے خالو خلیل نے قیمت کے معاملے پر ہتھیار ڈال دیے۔ جانور تو خالو کو پسند آگیا تھا لیکن وہ اسے پسند نہ آئے۔ ایسا اڑیل کہ گاڑی میں سوار ہوتے ہوئے وہ نخرے دکھائے جیسے نرسری میں جاتے وقت ننھے منے پھول کرتے ہیں ۔ جنہیں زبردستی والدین، اسکول کے گیٹ سے اندر داخل کرتے ہیں۔ یہی ساری بپتا ہمارے ذہن میں نقش تھی اور نہیں چاہتے تھے کہ پھر سے یہی کہانی دہرائی جائے۔
دو ٹوک لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا تھا کہ ’میں نہیں جاؤں گا‘ لیکن یہ کہنے کے لیے اس لیے ہمت نہیں تھی کہ موصوف، والد صاحب کے جگری تھے۔ جو اسی کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔
اگلی صبح ڈور بیل بجی تو ہماری بدقسمتی ہی کہیے کہ دروازہ ہم نے ہی کھولا، اس میں کچھ قصور ہماری ’شارٹ میموری‘ کا بھی ہے۔ کیونکہ صبح تک ہم بھول چکے تھے کہ آج کہیں جانا ہے۔ خالو خلیل نے دانت نکالتے ہوئے ہوئے کہا ’چلو ہم تو تیار ہیں۔‘ ہم نے پھر بہانہ تراشا کہ کورونا وائرس پھیلا ہے، کہیں آس پاس کی منڈی سے خرید لیتے ہیں کیوں اتنی دور پٹرول برباد کریں جو پہلے ہی اتنا مہنگا ہوگیا ہے ۔ جواب ملا کہ ’یہ جو قریب و جوار میں جانور لے کر کھڑے ہوتے ہیں ناں یہ سب فراڈیے ہوتے ہیں۔ منڈی ہی چلتے ہیں۔‘ ہم نے ایک اور داؤ کھیلنے کی کوشش کی کہ ’ ابھی تو عید میں وقت ہے، آخری دنوں میں لے لیں سستا مل جائے گا۔‘ اس کا بھی جواب تھا کہ ’پچھلی دفعہ یاد نہیں بارش ہوگئی تھی اور پھر کیسی قیمت چڑھی تھی ، میں رسک نہیں لے سکتا یہ۔۔‘ اس بیان میں درحقیقت دھمکی نما یہ پیغام تھا کہ بیٹا چلنا تو پڑے گا۔
منڈی پہنچ کر کم از کم ہمیں تو ہرگز یہ احساس نہیں ہوا کہ اس وقت پوری قوم کورونا وائرس سے لڑ رہی ہے۔ کسی نے ماسک پہنا تھا تو کسی نے نہیں۔ جن کے چہرے پر آویزاں تھا، اس ماسک کو دیکھ کر یہ لگ رہا تھا کہ جب سے منڈی آئے ہیں، ممکن ہے ان بیوپاریوں نے دوسرا ماسک خریدنے کی کوشش سرے سے کی نہ ہو، میلا کچیلا، دھول مٹی سے اٹا ہوا، کچھ کا ماسک تو ان کی گندمی اور سیاہ رنگت سے جوڑ کھانے لگا تھا۔ شان کے خلاف دستانے پہننا بھی لگا ۔ جراثیم کش ادویات اور سینٹی ٹائزرکا استعمال بھی ’تبرک‘ کے طور پر کچھ بیوپاری کرتے نظر آئے جبکہ ہم تمام تر حفاظتی اقدامات کے ساتھ منڈی کا رخ کررہے تھے۔ اور کچھ ایسی ہی صورتحال خالو خلیل کی بھی تھی، جن کا بس چلتا تھا تو طبی عملے والا لباس بھی زیب تن کرلیتے۔
خالو خلیل کو ’ستارہ نواز‘ کیوں کہتے تھے، اس حوالے محلے کے ان کی عمر کے بڑے بوڑھوں کا کہنا تھا کہ جوانی میں انہوں نے کوئی بھلائی کا کام کیا تھا (جس کا ہمیں تو کم از کم یقین نہیں تھا) اور خالو کا دعویٰ تھا کہ انہیں حکومت کی طرف سے ا س پر ’ستارہ امتیاز‘ ملا تھا۔اب جس کارنامے پر ملا تھا‘ اس کو بتانے کے بجائے وہ ہر راہ چلتے سے صرف اور صرف اس ستارے کی شان بیان کرتے کہ ایسا ہے ویسا ہے ، طلائی ہے ، نگینے فٹ ہیں ’ اتنا بڑا ہے اور نجانے کیا کیا ۔۔ یوں بگڑتے بگڑتے ان کا نام ’خالو خلیل ستارہ نواز‘ ہی پڑ گیا۔ یہ بھی کتنی عجیب بات تھی کہ آج تک کسی نے وہ ستارہ نہیں دیکھا جس کی ملکیت کا خالو خلیل پہاڑا پڑھتے تھے ۔
خیر جی تلاش تھی ان کے لیے جانور کی، جو جان جوکھم والا کام ہی کہا جاسکتا ہے۔ایک دو جگہ ہم اور خالو خلیل نے بیوپاریوں کو ’دانہ‘ ڈالا۔ بھاؤ تاؤ جیسے ہی شروع ہوا‘ جناب ارد گرد ایک بھیڑ اکٹھی ہونا شروع ہوگئی۔ خالو کا سودا نہیں بنا‘ انہوں نے کھسکنے میں ہی عافیت جانی۔سمجھ نہیں آیا کہ جب سماجی فاصلے کا خیال رکھنے کی ہر جگہ تاکید کی جا رہی ہے پھر ’پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘ بن کر یہ لوگ کیوں خوامخواہ کے مزے اٹھانے آجاتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ بھاؤ تاؤ کے تجربات حاصل کرنے والے یہ نوسیکھئے ہوں۔ ہر تھوڑے فاصلے پر کچھ یہی نظارہ تھا اور جب کسی کا سودا بنتا نظر آتا تو وہ بیوپاری کے کان میں سرگوشی کے انداز میں اپنی خواہش بیان کرتے ہوئے سماجی دوری کا بھی پاس نہیں رکھ رہا تھا۔ خیر دل میں تو ہم یہی سوچ کر آئے تھے کہ آج تو پورے دن کی قربانی دینی ہوگی۔ لیکن خلاف توقع مویشی منڈی میں کورونا کی وبا کی ’ایس او پیز‘ کا ’اعلیٰ نظارہ‘ دیکھنے کے بعد خالو خلیل کی خود حالت پتلی ہوگئی۔فرمانے لگے کہ ’عمر کی ستر بہاریں دیکھ چکا ہوں لیکن زیادہ دیر یہاں رہے تو عید سے پہلے میں ہی کورونا کے ہاتھوں قرباں ہوجاؤ گا۔تم صحیح کہہ رہے تھے، محلے کے آس پاس سے ہی دیکھتے ہیں کوئی جانور، ایک تو یہاں مہنگے ہیں دوسرا یہاں آنے والے تو لگتا ہے کہ کورونا سے بے خوف و خطر لڑنے کا ارادہ کرچکے ہیں۔‘ کانوں پر یقین تو نہیں آرہا تھا، لیکن کرنا پڑا۔ اس سے پہلے خالو خلیل ستارہ نواز کا ذہن بدلے ہم نے کم و بیش مویشی منڈی کے مرکزی دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔ شکر ادا کیا کہ جان چھوٹی، گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ہم یہ سوچ رہے تھے کہ اگر یہ کورونا کی وبا نہ ہوتی تو ہمارا کیا حال ہوتا ہے۔ خوشی اس بات کی بھی تھی کہ خالو خلیل جیسے پرانے اور عمر رسیدہ افراد اس وبا کو واقعی سنجیدہ لے رہے ہیں، کیونکہ اُن کی عمر کے کچھ افراد تومان چکے ہیں کہ کورونا‘ فرنگیوں کی سازش ہے۔
@suffyyan
ایسے میں جب کورونا کی وبا کے خوف سے ہر کوئی ہلکان و پریشان ہے۔ سماجی فاصلے کی دوری کا کچھ خیال رکھے ہوئے ہیں اور کچھ اسے ابتدا سے ہی خاطر میں نہیں لاتے, ہمارے پڑوسی خالو خلیل ستارہ نواز نے جب ہمیں چھت پرچڑھا دیکھ کر کراچی کے سہانے اور رم جھم موسم سے لطف اٹھانے میں خلل ڈال ہی دیا۔ بلند و بالا آواز سے دریافت کیا ’ہاں میاں جانور لے آئے؟‘ ہمارا جواب یقینی طور پر ’ناں‘ ہی تھا جس پر موصوف نے ہماری رائے جانے بغیر ہی فیصلہ سناتے ہوئے کہا ’چلیں پھر کل اتوار ہے ساتھ چلتے ہیں۔‘خود کو کوسنے دیے کیوں سہانے، رنگین اور برساتی موسم کا دیدار کرنے چھت پر آئے‘ نہ آتے تو کم از کم خالو خلیل ستارہ نواز سے تو بچت ہوجاتی ۔
یہ بھی پڑھئے:
کورونا میں عید قرباں | حفصہ خلجی
یقینی طور پر ہم انکار بھی کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اس کا موقع ہی نہیں دیا۔ کل ساتھ چلنے کا فرمان جاری کرتے ہوئے ایسے چھت سے غائب ہوئے جیسے ہم قرضہ نہ مانگ لیں۔ د ل میں خیال آیا کہ کل کی کل دیکھی جائے گی‘ آئے اگر تو بہانہ گھڑ لیں گے۔ لیکن اتنا ہمیں معلوم تھا کہ ایک دن کے لیے تویہ بلا ٹل جائے گی لیکن خالو خلیل کمبل بوریا بستر لے کر چپکنے میں خاصی شہرت رکھتے ہیں۔آسانی سے جان چھوڑنے والے نہیں چاہے دنیا اِدھر سے اُدھر ہوجائے۔ہمیں ان کے ساتھ جانے میں اس قدر کیوں قباحت تھی؟تو اس کی اہم وجہ پچھلے برس کے تلخ تجربات تھے۔ موصوف نے پورے آدھا دن مویشی منڈی میں گھمایا۔ بلکہ وہاں اس قدر وقت گزرا کہ شکلوں اور حلیوں سے ہم بھی بیوپاری ہی لگنے لگے۔جو جانور انہیں پسند آتا اس کی قیمت سن کر غصہ ساتویں آسمان کو چھونے لگتا۔ کچھ بیوپاری تو ان کی قیمت کم کرانے کی مہم سے اس قدر عاجز آگئے تھے کہ ہاتھ سے رسی چھڑا کر یہی کہتے نظر آئے ’جاؤ بابا دھندا کھوٹی مت کرو ‘۔ گھنٹوں بھوک پیاس میں ٹہلاتے رہے۔ ایک بار بولا بھی کہ’ ہونٹ خشک ہوگئے ہیں کچھ پی لیتے ہیں۔‘ لیکن خالو نے جیب پر ہونے والے ’ متوقع حملے ‘ کے پیش نظر جھٹ کہا ’ارے یہاں کی چیزیں مت کھانا، پتا نہیں کہاں سے پانی بھرتے ہیں، دس بیماریوں کو بلاوا دے دو گے۔‘ ہم نے تھک ہار کر کہا کہ ’سوفٹ ڈرنک تو کمپنی سے آتا ہے‘ اس کو پینے میں کیا مضائقہ ہے‘۔ فرمانے لگے ’ہمیں کیا پتا‘ سب دو نمبر فیکٹریوں کی کارستانی ہوگی۔‘ مطلب صاف دھیلے کا خرچا نہیں کرنا تھا۔لگا یہی کہ ہم جیسے خالو خلیل کے بکرے ہوں‘ جسے مٹر گشت یا چرانے کے لیے وہ منڈی لے آئے ہو۔بڑی مشکل سے ایک جانور پسند آیا جس کے بیوپاری کے سامنے خالو خلیل نے قیمت کے معاملے پر ہتھیار ڈال دیے۔ جانور تو خالو کو پسند آگیا تھا لیکن وہ اسے پسند نہ آئے۔ ایسا اڑیل کہ گاڑی میں سوار ہوتے ہوئے وہ نخرے دکھائے جیسے نرسری میں جاتے وقت ننھے منے پھول کرتے ہیں ۔ جنہیں زبردستی والدین، اسکول کے گیٹ سے اندر داخل کرتے ہیں۔ یہی ساری بپتا ہمارے ذہن میں نقش تھی اور نہیں چاہتے تھے کہ پھر سے یہی کہانی دہرائی جائے۔
دو ٹوک لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا تھا کہ ’میں نہیں جاؤں گا‘ لیکن یہ کہنے کے لیے اس لیے ہمت نہیں تھی کہ موصوف، والد صاحب کے جگری تھے۔ جو اسی کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔
اگلی صبح ڈور بیل بجی تو ہماری بدقسمتی ہی کہیے کہ دروازہ ہم نے ہی کھولا، اس میں کچھ قصور ہماری ’شارٹ میموری‘ کا بھی ہے۔ کیونکہ صبح تک ہم بھول چکے تھے کہ آج کہیں جانا ہے۔ خالو خلیل نے دانت نکالتے ہوئے ہوئے کہا ’چلو ہم تو تیار ہیں۔‘ ہم نے پھر بہانہ تراشا کہ کورونا وائرس پھیلا ہے، کہیں آس پاس کی منڈی سے خرید لیتے ہیں کیوں اتنی دور پٹرول برباد کریں جو پہلے ہی اتنا مہنگا ہوگیا ہے ۔ جواب ملا کہ ’یہ جو قریب و جوار میں جانور لے کر کھڑے ہوتے ہیں ناں یہ سب فراڈیے ہوتے ہیں۔ منڈی ہی چلتے ہیں۔‘ ہم نے ایک اور داؤ کھیلنے کی کوشش کی کہ ’ ابھی تو عید میں وقت ہے، آخری دنوں میں لے لیں سستا مل جائے گا۔‘ اس کا بھی جواب تھا کہ ’پچھلی دفعہ یاد نہیں بارش ہوگئی تھی اور پھر کیسی قیمت چڑھی تھی ، میں رسک نہیں لے سکتا یہ۔۔‘ اس بیان میں درحقیقت دھمکی نما یہ پیغام تھا کہ بیٹا چلنا تو پڑے گا۔
منڈی پہنچ کر کم از کم ہمیں تو ہرگز یہ احساس نہیں ہوا کہ اس وقت پوری قوم کورونا وائرس سے لڑ رہی ہے۔ کسی نے ماسک پہنا تھا تو کسی نے نہیں۔ جن کے چہرے پر آویزاں تھا، اس ماسک کو دیکھ کر یہ لگ رہا تھا کہ جب سے منڈی آئے ہیں، ممکن ہے ان بیوپاریوں نے دوسرا ماسک خریدنے کی کوشش سرے سے کی نہ ہو، میلا کچیلا، دھول مٹی سے اٹا ہوا، کچھ کا ماسک تو ان کی گندمی اور سیاہ رنگت سے جوڑ کھانے لگا تھا۔ شان کے خلاف دستانے پہننا بھی لگا ۔ جراثیم کش ادویات اور سینٹی ٹائزرکا استعمال بھی ’تبرک‘ کے طور پر کچھ بیوپاری کرتے نظر آئے جبکہ ہم تمام تر حفاظتی اقدامات کے ساتھ منڈی کا رخ کررہے تھے۔ اور کچھ ایسی ہی صورتحال خالو خلیل کی بھی تھی، جن کا بس چلتا تھا تو طبی عملے والا لباس بھی زیب تن کرلیتے۔
خالو خلیل کو ’ستارہ نواز‘ کیوں کہتے تھے، اس حوالے محلے کے ان کی عمر کے بڑے بوڑھوں کا کہنا تھا کہ جوانی میں انہوں نے کوئی بھلائی کا کام کیا تھا (جس کا ہمیں تو کم از کم یقین نہیں تھا) اور خالو کا دعویٰ تھا کہ انہیں حکومت کی طرف سے ا س پر ’ستارہ امتیاز‘ ملا تھا۔اب جس کارنامے پر ملا تھا‘ اس کو بتانے کے بجائے وہ ہر راہ چلتے سے صرف اور صرف اس ستارے کی شان بیان کرتے کہ ایسا ہے ویسا ہے ، طلائی ہے ، نگینے فٹ ہیں ’ اتنا بڑا ہے اور نجانے کیا کیا ۔۔ یوں بگڑتے بگڑتے ان کا نام ’خالو خلیل ستارہ نواز‘ ہی پڑ گیا۔ یہ بھی کتنی عجیب بات تھی کہ آج تک کسی نے وہ ستارہ نہیں دیکھا جس کی ملکیت کا خالو خلیل پہاڑا پڑھتے تھے ۔
خیر جی تلاش تھی ان کے لیے جانور کی، جو جان جوکھم والا کام ہی کہا جاسکتا ہے۔ایک دو جگہ ہم اور خالو خلیل نے بیوپاریوں کو ’دانہ‘ ڈالا۔ بھاؤ تاؤ جیسے ہی شروع ہوا‘ جناب ارد گرد ایک بھیڑ اکٹھی ہونا شروع ہوگئی۔ خالو کا سودا نہیں بنا‘ انہوں نے کھسکنے میں ہی عافیت جانی۔سمجھ نہیں آیا کہ جب سماجی فاصلے کا خیال رکھنے کی ہر جگہ تاکید کی جا رہی ہے پھر ’پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘ بن کر یہ لوگ کیوں خوامخواہ کے مزے اٹھانے آجاتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ بھاؤ تاؤ کے تجربات حاصل کرنے والے یہ نوسیکھئے ہوں۔ ہر تھوڑے فاصلے پر کچھ یہی نظارہ تھا اور جب کسی کا سودا بنتا نظر آتا تو وہ بیوپاری کے کان میں سرگوشی کے انداز میں اپنی خواہش بیان کرتے ہوئے سماجی دوری کا بھی پاس نہیں رکھ رہا تھا۔ خیر دل میں تو ہم یہی سوچ کر آئے تھے کہ آج تو پورے دن کی قربانی دینی ہوگی۔ لیکن خلاف توقع مویشی منڈی میں کورونا کی وبا کی ’ایس او پیز‘ کا ’اعلیٰ نظارہ‘ دیکھنے کے بعد خالو خلیل کی خود حالت پتلی ہوگئی۔فرمانے لگے کہ ’عمر کی ستر بہاریں دیکھ چکا ہوں لیکن زیادہ دیر یہاں رہے تو عید سے پہلے میں ہی کورونا کے ہاتھوں قرباں ہوجاؤ گا۔تم صحیح کہہ رہے تھے، محلے کے آس پاس سے ہی دیکھتے ہیں کوئی جانور، ایک تو یہاں مہنگے ہیں دوسرا یہاں آنے والے تو لگتا ہے کہ کورونا سے بے خوف و خطر لڑنے کا ارادہ کرچکے ہیں۔‘ کانوں پر یقین تو نہیں آرہا تھا، لیکن کرنا پڑا۔ اس سے پہلے خالو خلیل ستارہ نواز کا ذہن بدلے ہم نے کم و بیش مویشی منڈی کے مرکزی دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔ شکر ادا کیا کہ جان چھوٹی، گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ہم یہ سوچ رہے تھے کہ اگر یہ کورونا کی وبا نہ ہوتی تو ہمارا کیا حال ہوتا ہے۔ خوشی اس بات کی بھی تھی کہ خالو خلیل جیسے پرانے اور عمر رسیدہ افراد اس وبا کو واقعی سنجیدہ لے رہے ہیں، کیونکہ اُن کی عمر کے کچھ افراد تومان چکے ہیں کہ کورونا‘ فرنگیوں کی سازش ہے۔
@suffyyan
ایسے میں جب کورونا کی وبا کے خوف سے ہر کوئی ہلکان و پریشان ہے۔ سماجی فاصلے کی دوری کا کچھ خیال رکھے ہوئے ہیں اور کچھ اسے ابتدا سے ہی خاطر میں نہیں لاتے, ہمارے پڑوسی خالو خلیل ستارہ نواز نے جب ہمیں چھت پرچڑھا دیکھ کر کراچی کے سہانے اور رم جھم موسم سے لطف اٹھانے میں خلل ڈال ہی دیا۔ بلند و بالا آواز سے دریافت کیا ’ہاں میاں جانور لے آئے؟‘ ہمارا جواب یقینی طور پر ’ناں‘ ہی تھا جس پر موصوف نے ہماری رائے جانے بغیر ہی فیصلہ سناتے ہوئے کہا ’چلیں پھر کل اتوار ہے ساتھ چلتے ہیں۔‘خود کو کوسنے دیے کیوں سہانے، رنگین اور برساتی موسم کا دیدار کرنے چھت پر آئے‘ نہ آتے تو کم از کم خالو خلیل ستارہ نواز سے تو بچت ہوجاتی ۔
یہ بھی پڑھئے:
کورونا میں عید قرباں | حفصہ خلجی
یقینی طور پر ہم انکار بھی کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اس کا موقع ہی نہیں دیا۔ کل ساتھ چلنے کا فرمان جاری کرتے ہوئے ایسے چھت سے غائب ہوئے جیسے ہم قرضہ نہ مانگ لیں۔ د ل میں خیال آیا کہ کل کی کل دیکھی جائے گی‘ آئے اگر تو بہانہ گھڑ لیں گے۔ لیکن اتنا ہمیں معلوم تھا کہ ایک دن کے لیے تویہ بلا ٹل جائے گی لیکن خالو خلیل کمبل بوریا بستر لے کر چپکنے میں خاصی شہرت رکھتے ہیں۔آسانی سے جان چھوڑنے والے نہیں چاہے دنیا اِدھر سے اُدھر ہوجائے۔ہمیں ان کے ساتھ جانے میں اس قدر کیوں قباحت تھی؟تو اس کی اہم وجہ پچھلے برس کے تلخ تجربات تھے۔ موصوف نے پورے آدھا دن مویشی منڈی میں گھمایا۔ بلکہ وہاں اس قدر وقت گزرا کہ شکلوں اور حلیوں سے ہم بھی بیوپاری ہی لگنے لگے۔جو جانور انہیں پسند آتا اس کی قیمت سن کر غصہ ساتویں آسمان کو چھونے لگتا۔ کچھ بیوپاری تو ان کی قیمت کم کرانے کی مہم سے اس قدر عاجز آگئے تھے کہ ہاتھ سے رسی چھڑا کر یہی کہتے نظر آئے ’جاؤ بابا دھندا کھوٹی مت کرو ‘۔ گھنٹوں بھوک پیاس میں ٹہلاتے رہے۔ ایک بار بولا بھی کہ’ ہونٹ خشک ہوگئے ہیں کچھ پی لیتے ہیں۔‘ لیکن خالو نے جیب پر ہونے والے ’ متوقع حملے ‘ کے پیش نظر جھٹ کہا ’ارے یہاں کی چیزیں مت کھانا، پتا نہیں کہاں سے پانی بھرتے ہیں، دس بیماریوں کو بلاوا دے دو گے۔‘ ہم نے تھک ہار کر کہا کہ ’سوفٹ ڈرنک تو کمپنی سے آتا ہے‘ اس کو پینے میں کیا مضائقہ ہے‘۔ فرمانے لگے ’ہمیں کیا پتا‘ سب دو نمبر فیکٹریوں کی کارستانی ہوگی۔‘ مطلب صاف دھیلے کا خرچا نہیں کرنا تھا۔لگا یہی کہ ہم جیسے خالو خلیل کے بکرے ہوں‘ جسے مٹر گشت یا چرانے کے لیے وہ منڈی لے آئے ہو۔بڑی مشکل سے ایک جانور پسند آیا جس کے بیوپاری کے سامنے خالو خلیل نے قیمت کے معاملے پر ہتھیار ڈال دیے۔ جانور تو خالو کو پسند آگیا تھا لیکن وہ اسے پسند نہ آئے۔ ایسا اڑیل کہ گاڑی میں سوار ہوتے ہوئے وہ نخرے دکھائے جیسے نرسری میں جاتے وقت ننھے منے پھول کرتے ہیں ۔ جنہیں زبردستی والدین، اسکول کے گیٹ سے اندر داخل کرتے ہیں۔ یہی ساری بپتا ہمارے ذہن میں نقش تھی اور نہیں چاہتے تھے کہ پھر سے یہی کہانی دہرائی جائے۔
دو ٹوک لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا تھا کہ ’میں نہیں جاؤں گا‘ لیکن یہ کہنے کے لیے اس لیے ہمت نہیں تھی کہ موصوف، والد صاحب کے جگری تھے۔ جو اسی کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔
اگلی صبح ڈور بیل بجی تو ہماری بدقسمتی ہی کہیے کہ دروازہ ہم نے ہی کھولا، اس میں کچھ قصور ہماری ’شارٹ میموری‘ کا بھی ہے۔ کیونکہ صبح تک ہم بھول چکے تھے کہ آج کہیں جانا ہے۔ خالو خلیل نے دانت نکالتے ہوئے ہوئے کہا ’چلو ہم تو تیار ہیں۔‘ ہم نے پھر بہانہ تراشا کہ کورونا وائرس پھیلا ہے، کہیں آس پاس کی منڈی سے خرید لیتے ہیں کیوں اتنی دور پٹرول برباد کریں جو پہلے ہی اتنا مہنگا ہوگیا ہے ۔ جواب ملا کہ ’یہ جو قریب و جوار میں جانور لے کر کھڑے ہوتے ہیں ناں یہ سب فراڈیے ہوتے ہیں۔ منڈی ہی چلتے ہیں۔‘ ہم نے ایک اور داؤ کھیلنے کی کوشش کی کہ ’ ابھی تو عید میں وقت ہے، آخری دنوں میں لے لیں سستا مل جائے گا۔‘ اس کا بھی جواب تھا کہ ’پچھلی دفعہ یاد نہیں بارش ہوگئی تھی اور پھر کیسی قیمت چڑھی تھی ، میں رسک نہیں لے سکتا یہ۔۔‘ اس بیان میں درحقیقت دھمکی نما یہ پیغام تھا کہ بیٹا چلنا تو پڑے گا۔
منڈی پہنچ کر کم از کم ہمیں تو ہرگز یہ احساس نہیں ہوا کہ اس وقت پوری قوم کورونا وائرس سے لڑ رہی ہے۔ کسی نے ماسک پہنا تھا تو کسی نے نہیں۔ جن کے چہرے پر آویزاں تھا، اس ماسک کو دیکھ کر یہ لگ رہا تھا کہ جب سے منڈی آئے ہیں، ممکن ہے ان بیوپاریوں نے دوسرا ماسک خریدنے کی کوشش سرے سے کی نہ ہو، میلا کچیلا، دھول مٹی سے اٹا ہوا، کچھ کا ماسک تو ان کی گندمی اور سیاہ رنگت سے جوڑ کھانے لگا تھا۔ شان کے خلاف دستانے پہننا بھی لگا ۔ جراثیم کش ادویات اور سینٹی ٹائزرکا استعمال بھی ’تبرک‘ کے طور پر کچھ بیوپاری کرتے نظر آئے جبکہ ہم تمام تر حفاظتی اقدامات کے ساتھ منڈی کا رخ کررہے تھے۔ اور کچھ ایسی ہی صورتحال خالو خلیل کی بھی تھی، جن کا بس چلتا تھا تو طبی عملے والا لباس بھی زیب تن کرلیتے۔
خالو خلیل کو ’ستارہ نواز‘ کیوں کہتے تھے، اس حوالے محلے کے ان کی عمر کے بڑے بوڑھوں کا کہنا تھا کہ جوانی میں انہوں نے کوئی بھلائی کا کام کیا تھا (جس کا ہمیں تو کم از کم یقین نہیں تھا) اور خالو کا دعویٰ تھا کہ انہیں حکومت کی طرف سے ا س پر ’ستارہ امتیاز‘ ملا تھا۔اب جس کارنامے پر ملا تھا‘ اس کو بتانے کے بجائے وہ ہر راہ چلتے سے صرف اور صرف اس ستارے کی شان بیان کرتے کہ ایسا ہے ویسا ہے ، طلائی ہے ، نگینے فٹ ہیں ’ اتنا بڑا ہے اور نجانے کیا کیا ۔۔ یوں بگڑتے بگڑتے ان کا نام ’خالو خلیل ستارہ نواز‘ ہی پڑ گیا۔ یہ بھی کتنی عجیب بات تھی کہ آج تک کسی نے وہ ستارہ نہیں دیکھا جس کی ملکیت کا خالو خلیل پہاڑا پڑھتے تھے ۔
خیر جی تلاش تھی ان کے لیے جانور کی، جو جان جوکھم والا کام ہی کہا جاسکتا ہے۔ایک دو جگہ ہم اور خالو خلیل نے بیوپاریوں کو ’دانہ‘ ڈالا۔ بھاؤ تاؤ جیسے ہی شروع ہوا‘ جناب ارد گرد ایک بھیڑ اکٹھی ہونا شروع ہوگئی۔ خالو کا سودا نہیں بنا‘ انہوں نے کھسکنے میں ہی عافیت جانی۔سمجھ نہیں آیا کہ جب سماجی فاصلے کا خیال رکھنے کی ہر جگہ تاکید کی جا رہی ہے پھر ’پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘ بن کر یہ لوگ کیوں خوامخواہ کے مزے اٹھانے آجاتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ بھاؤ تاؤ کے تجربات حاصل کرنے والے یہ نوسیکھئے ہوں۔ ہر تھوڑے فاصلے پر کچھ یہی نظارہ تھا اور جب کسی کا سودا بنتا نظر آتا تو وہ بیوپاری کے کان میں سرگوشی کے انداز میں اپنی خواہش بیان کرتے ہوئے سماجی دوری کا بھی پاس نہیں رکھ رہا تھا۔ خیر دل میں تو ہم یہی سوچ کر آئے تھے کہ آج تو پورے دن کی قربانی دینی ہوگی۔ لیکن خلاف توقع مویشی منڈی میں کورونا کی وبا کی ’ایس او پیز‘ کا ’اعلیٰ نظارہ‘ دیکھنے کے بعد خالو خلیل کی خود حالت پتلی ہوگئی۔فرمانے لگے کہ ’عمر کی ستر بہاریں دیکھ چکا ہوں لیکن زیادہ دیر یہاں رہے تو عید سے پہلے میں ہی کورونا کے ہاتھوں قرباں ہوجاؤ گا۔تم صحیح کہہ رہے تھے، محلے کے آس پاس سے ہی دیکھتے ہیں کوئی جانور، ایک تو یہاں مہنگے ہیں دوسرا یہاں آنے والے تو لگتا ہے کہ کورونا سے بے خوف و خطر لڑنے کا ارادہ کرچکے ہیں۔‘ کانوں پر یقین تو نہیں آرہا تھا، لیکن کرنا پڑا۔ اس سے پہلے خالو خلیل ستارہ نواز کا ذہن بدلے ہم نے کم و بیش مویشی منڈی کے مرکزی دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔ شکر ادا کیا کہ جان چھوٹی، گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ہم یہ سوچ رہے تھے کہ اگر یہ کورونا کی وبا نہ ہوتی تو ہمارا کیا حال ہوتا ہے۔ خوشی اس بات کی بھی تھی کہ خالو خلیل جیسے پرانے اور عمر رسیدہ افراد اس وبا کو واقعی سنجیدہ لے رہے ہیں، کیونکہ اُن کی عمر کے کچھ افراد تومان چکے ہیں کہ کورونا‘ فرنگیوں کی سازش ہے۔
@suffyyan