ہماری تنقید متن کے گرد گھومتی تو ہے اردگرد سے خوشہ چینی تو کرتی ہے مگر متن کو چھونے، ٹٹولنے اور اس کے اندر جھانکنے کی زحمت کم ہی کرتی ہے۔ بالخصوص نظم کی تعبیر اور تفہیم میں تو موضوع کو ہی مرکزی خیال سمجھ لیتی ہے۔ تخلیقیت کے اس جشنِ جاریہ میں نظم ایک ایسی صنف شاعری ہے جس کا زمانی اور مکانی عرصہ وسعت کے پیش نظر بے حد کار آمد ہے۔ فریحہ نقوی کی نظم ” کوئی الجھن” کی تفہیم سے پہلے یہ طے کر لینا ضروری ہے کہ نظم کیا ہے ؟ یہاں میری مراد نظم کی شکلیت یعنی Morphology نہیں بلکہ نظم کی وجودیات یعنی Ontology ہے میرے نزدیک نظم کی تعمیر میں نمو کاری اور نامیاتی وحدت کا جوہر بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور شاعر خیال کے مرکزہ کو تخلیقی تناؤ کے ساتھ یوں لے کر چلتا ہے کہ قاری نظم کے اختتام پر ایک یونٹ کی صورت میں قبول کرتے ہوئے بصیرت اور جمالیاتی احساس کی آسودگی سے ہم کنار ہوتا ہے۔ نظم جوالا مکھی روپ میں شاعر کے شعور سے باہر لپکتی ہے تو اپنی ذیلی کیفیات کے جلوس میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ شاعر کی قوتِ متخیلہ جب نظم کی ہیت میں ڈھلتی ہے تو نظم خود شاعر کو ہانکنے لگتی ہے یہی وجہ ہے کہ نظم کی تفہیم میں اردگرد گھومنے کی بجائے اس کے وجود کے خطوط اور متن پر توجہ دینے سے بہتر تعبیر ہوتی ہے۔ نظم کی ایسی ہی قرات قاری کے دل پر اثر کرتی ہے۔ نقش چھوڑتی ہے۔شاعر کے تجربے کی بازگشت سناتی ہے یا باطن میں کوئی لہر پیدا کر کے کسی یاد کو جگاتی ہے یا کشف کا کوئی در کھولتی ہے۔
نظم “کوئی الجھن” کے مصرعے قرات کے دوران نظم سے باہر آ کر گفت گو کرنے لگتے ہیں اور تھوڑی سی توجہ سے کسی دوشیزہ کے ایام بلوغت کے دوران پھٹنے والی قمیض کی طرح جا بجا معنوی خدوخال ظاہر کرنے لگتی ہے۔ نظم ایک الجھن سے شروع ہوتی ہے اور اپنا دائروی چکر کاٹنے کے بعد پھر سے الجھن پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن نظم کا متن سے اور خالی جگہیں جہاں دونوں معانی آکار لیتے ہیں ایک ایسا سلسلہ پھوٹتا ہے جو احساسات کے افلاک کو وسیع تر کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
زندگی کی معدومیت پر بیزاری کا احساس اور فریحہ نقوی کی نظم
اور وہ رمز جس کی تلاش میں شاعرہ فسانوں کی دنیا میں کئی مسافتیں طے کرتی رہی کھل کر سامنے آنے لگتی ہے۔ یہ رمز نظم کے متن میں موجود خلاوں سے ظہور پاتی ہے اور قاری کا متخیلہ مسجدوں کی دیواروں پر لگے اشتہار، مندروں کی مورتوں اور فلموں میں پردہءسیمیں کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ فسانوں کی دنیا میں جا کر انسانی ذہن عہدِ عتیق کی گہری گھاٹیوں میں جاتا ہے کبھی صفا و مرویٰ میں پانی کی تلاش جیسی پھرتی اور تیزی بھرتا ہے تاکہ وہ ان چکھا ذائقہ جو نارسائی، محبت، اور جنوں سے الگ ہے چکھ لیا جائے۔ مگر رمز کی بنتر نہیں کھل رہی تھی۔ وہ رمز کیا ہے؟ دائرے اور خط مستقیم کے درمیان معلق ہے۔ دائرہ اجتماعی زندگی کے اس تصور کی علامت ہے جو فرد کی آزادی کا منکر اور ہر لمحہ اپنی طرف مڑنے پر زور دیتا ہے۔ دائرہ اجتماعی اور سماجی جبر اور تسلط ہے۔ اس کا کوئی آغاز نہیں کوئی انجام نہیں اور ہر لمحہ قوسی سفر پر کھینچتا ہے۔ جب کہ خط مستقیم کا سفر فرد کی انفرادیت دائری چکر سے فرار اور اجتماعی تسلط اور جبر سے آزادی کی علامت ہے۔ یہ دائرہ اور خط مستقیم نظم کی ہیت میں موجود ہیں۔ پوری نظم ایک دائروی چکر ہے اور نظم کا کچھ حصہ جہاں شاعرہ فسانوں کی دنیا میں پھرتی رہی اور ایک مختصر راستے پر ایک ساتھ چلتی رہی ہے ایک خطِ مستقیم کا سفر ہے۔
زندگی تو وہی تھی جو ہم نے جہاں سے الگ
تین مرلے کے گھر میں گزاری
وہ اک مختصر راستہ ہم جہاں کچھ قدم ساتھ چلتے رہے
یہ سارا خطِ مستقیم کا سفر ہے اور جہاں سے الگ زندگی کے لمحات دراصل اجتماعی زندگی کے تسلط سے آزادی کے دن ہیں اور یہی خوب صورت یادیں ہیں۔ جو پتھر پر کندہ کیے ہوئے حروف ہیں صدیاں گزر جاتی ہیں مگر یہ حروف نہیں مٹتے. مگر بین المتن شاعرہ نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ خط مستقیم کا سفر کوئی آسان نہیں تھا ہر قدم اور ہر جست پر دائرے نے کھینچا اپنی طرف موڑا جس کے نتیجہ میں نارسائی کا دکھ، جنوں، رائیگانی اور تلخیوں نے کے ہنگاموں نے محبت کی صبحوں پہ شامیں اتار دیں اور آخر دائرہ اپنے ہنرمند اجزا اور پیشہ ور عناصر سے شاعرہ کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے مگر ان ایام کی یادیں انمٹ ہیں۔
جس عہد کی پہچان صارفیت، تشدد، اور بے حسی کے مختلف اسالیب ہوں اس کے پس منظر میں محبت زندگی کا شعور اور احساس بے معنی ہو جاتے ہیں۔ عصری سماجی تجربوں کے سیاق نے ہمارے عہد نے جو بیلنس شیٹ تیار کی ہے اس کے مطابق محبت، احساس اور جذبات حاشیے پر نظر آتے ہیں بالکل کہانی سے باہر گرے ہوئے آدھی کی طرح اور ایک غیر اہم اور فالتو عنصر کی طرح متروک سکے کی مانند ایک طرف دھکیل دیے گئے ہیں۔
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب موت کی طرح محبت کی کہانیاں بھی ہمارے اجتماعی لاشعور میں پیوست تھی۔ محبت جب تخلیقی اسلوب میں اظہار پاتی ہے تو دانش، آگہی اور بصیرت کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور قاری کے دماغ پر احساسات کی شعاعیں گرنے لگتی ہیں۔ یہی دانش اور آگہی شاعرہ کے شعور کا حصہ بننے پر تخلیقی اظہار کرتی ہے۔
زندگی کی کوئی رمز ہم سے چھپی رہ گئی
جسے ڈھونڈنے کے لیے
ہم فسانوں کی دنیا میں پھرتے رہے
نظم کے نت نئے تجربوں میں ڈھلے
شعر کی مخفی معنی کی پرتوں تلے
نارسائی محبت جنوں رائیگانی
کے سب ذائقے چکھ لیے
پر کوئی ان چکھا ذائقہ پھر بھی باقی رہا
جب زندگی کسی اپچ یا تازگی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ایک فرسودہ اور پامال اسلوب تشکیل دیتی ہے تو شاعرہ کے اندر ایک بے قراری اور بے چینی ہمکنے لگتی ہے اور وہ ان چکھا ذائقہ یاد آنے لگتا ہے جس کی اب امید تک نظر نہیں آتی اور نظم کے آخر پر یہی بے قراری ایک بصیرت تخلیق کرتی ہے اور خدشات کی موجودگی میں اس کا برملا اظہار بھی کرتی ہے
یہی روک دو
لوگ سن تو رہے ہیں
مگر روک دو
یہ کہہ کر شاعرہ نے طنز (irony) کی کا حسیاتی اظہار کیا ہے اور یہی وہ اہم عنصر ہے جو جمالیاتی کیفیت کے ساتھ پوری رمز کو کھولتا ہے اور قاری پر اجتماعیت کے تسلط اور دائرے کے جبر کو واضح کرتا ہے۔
پوری نظم کے داخلی آہنگ میں کرب، اذیت اور درد کی لہر نظم میں کے تمام کڑیوں کو مربوط کرتے ہوئے نامیاتی وحدت میں ڈھالتی ہے ایک طرف الجھن جو شروع سے آخر تک ہرن کے بچے کی طرح اچھلتی کودتی ایک رقص آگہی جنم دیتی ہے تو دوسری طرف یہ درد کی لہر نظم کو ایک تالاب کی سی گہری اور نامیاتی وحدت عطا کرتی ہے۔
میری تمام بحث کا محور نظم کا متن ہے۔ متن کی تفہیم میں معروضیت، استدلال اور معنی کا تعین اہم عناصر ہیں مگر شاعرانہ تعبیر اس سے بھی آگے کی چیز ہے۔ روایتی تنقید جن حقیقتوں کو اپنی گرفت میں لیتی ہے وہ انسانی فکر جذبے اور احساس پر وارد ہونے والے تجربوں کی آخری حد نہیں ہے۔ تخلیق کار جب تک میرے احساسات سے کوئی رشتہ قائم نہ کرے، میرے شعور میں اپنے لیے جگہ نہ بنائے مجھ پر اس کے مطالب اچھی طرح نہیں کھلتے۔ کیونکہ تخلیق محض ذہنی عمل نہیں بلکہ یہ احساسات، جذبات اور قوتِ متخیلہ کی مشترکہ سرگرمیوں سے وجود پذیر ہوتی ہے۔ فریحہ نقوی کی نظموں میں یہی خوبی ہے کہ وہ قاری کے ادبی شعور میں اپنے لیے خود جگہ بناتی ہیں اور پھر قاری کے احساسات اور جذبات کو ان دانش کدوں تک لے جاتی ہیں جہاں آدمی ایک لمحہ کے لیے سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے