پاکستان انسانوں کا میلہ ہے، جس میں صرف سیاستدانوں کا ٹھیلا ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، ہمارے کچھ پاکستانی دیر سے بیدار ہوتے ہیں، کچھ زیادہ دیر سے بیدار ہوتے ہیں، اور کچھ کے ضمیر کبھی بیداد نہیں ہوتے۔ یہ والے لوگ وہ ہوتے ہیں، جن کے دل میں بغض اور زہر بھرا ہوتا ہے۔ مگر بول ہمیشہ میٹھا بولتے ہیں۔ یہ ہمیشہ بے وفا محبوب کی طرح جھوٹے وعدے کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی پوری زندگی دو اصولوں پر کاربند نظر آتی ہے، پہلا اصول اپنی غلطی ہمیشہ دوسرے پر ڈال دو اور دوسرا اچھا کام کبھی غلطی سے بھی نہ کرو۔ اب تک تو بیوقوف سے بیوقوف جیالا، پٹواری اور کھلاڑی بھی سمجھ چکا ہوگا کہ میں ان کے سیاستدانوں کی بات کر رہا ہوں۔
ہمارے بعض سیاستدان ان جونکوں کی طرح ہیں، جو معاشرے کے ساتھ جڑ کے رہتے ہیں اور خون چوستے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی جڑیں اس لیے بھی کھوکھلی کرتے ہیں، تاکہ ان کی جڑیں مضبوط ہوں۔ اس لیے زیادہ تر لیڈر عزت دینے کے قابل نہیں بلکہ زہر دینے کے قابل ہیں۔ ان کے کالے اعمال کی وجہ سے ان کے مدمقابل دور دور تک کوئی نہیں ہے۔ ہاں ہمارے سیاست دانوں سے اگر کسی کو رقابت محسوس ہوئی ہے تو صرف شیطان کو ہے، آخری اطلاعات تک دونوں کے درمیان سخت مقابلہ جاری ہے۔
قوم واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہے ظالم اور مظلوم ، امیر اور غریب ۔ یہی ان کے نزدیک دو قومی نظریہ ہے. انہیں اللہ تعالی نے مختلف اوصاف سے نوازا ہوتا ہے۔ مثلاً ہمارا پاکستانی ووٹر میڈیا کی آگاہی کی وجہ سے مرچ کی طرح تیز ہوتا جا رہا ہے۔ مگر ووٹر جتنا بھی تیز ہو، سیاستدان اسکا اچار ڈال ہی لیتا ہے۔ دوسری صفت اس سے بھی اعلی ہے۔ آپ کے علاقے میں گیس آتی ہو یا نہ ہو اگر سیاستدان کا آنا جانا ہے تو گھر گھر آگ لگی ہو گی۔ ویسے بھی آگ میں وہ آگ کہاں جو سیاستدان اپنی باتوں سے لگاتے ہیں۔ پاکستان میں چند ماہ تک سردی آنے والی ہے اور پاکستان میں سردی میں تب ہھی بچا جا سکتا ہے، جب سردی نہ ہو یا سردیوں میں اپنی باتوں سے آگ لگانے والے لیڈر موجود ہوں۔
صرف پاکستان میں ہمارے سیاستدان آبادی بڑھنے پر خوش ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کو بے زبان غلاموں کا بن خریدے اضافہ اچھا لگتا ہے۔ ویسے سنا ہے باہر کے ملک میں بچہ پیدا ہو تو کھلونے لے کر دیتے ہیں تاکہ بچہ کھیلے، پاکستان میں بچہ پیدا ہو تو والدین ایک اور پیدا کردیتے ہیں تاکہ دونوں آپس میں کھیلیں اور اگر سیاستدان کے گھر بچہ پیدا ہو تو وہ دن رات ایک کر کے اپنے حلقے کے مسائل میں اضافہ کرنے میں لگ جاتا ہے، تاکہ اسکا بچہ بڑا ہو کر حلقہ پر حکمرانی کر سکے اور ان کے جذبات سے کھیل سکے۔
مہنگائی کے دور میں بھی کچھ بکے یا نہ بکے۔ سیاست دانوں کا ہر نیا چونا ضرور بیکتا ہے۔ کبھی روٹی کپڑا مکان ، کبھی نیا پاکستان، کبھی لبرل یا سیکولر پاکستان تو کبھی اسلامک پاکستان، کبھی شیر کا پاکستان تو کبھی بھائی اور قائد کا پاکستان، کبھی ووٹر سے پاکستان تو کبھی فوج سے پاکستان۔ عموماً یہ چونا بیچنے والے سیاستدان ان پڑھ ہوتے ہیں۔ اور فکر نہ کریں انہیں کچھ آتا ہو یا نہ ہو، گنتی ضرور آتی ہے۔ ظاہری بات ہے، پیسوں کی گنتی، ووٹوں کی گنتی۔ سنا ہے الیکشن کے دنوں میں ایک سیاستدان ہسپتال کے احاطے میں ٹہل رہا تھا، کہ نرس نے آکر مبارکباد دی اور کہا آپ کے تین جڑواں بچے پیدا ہوئے ہیں۔ سیاستدان خیالات سے چونکا، اور جلدی سے بولا یہ نہیں ہوسکتا، دوبارہ گنتی کراؤ۔
ہمارے ایک ووٹر دوست ایک دن ہم سے مشورہ کر رہے تھے، کہ نوکری تو ملتی نہیں سوچتا ہوں جرائم پیشہ گروہ میں شامل ہو جاؤں۔ ہم نے احتیاطاً پوچھ لیا، اچھا گورنمنٹ یا پرائیویٹ سیکٹر میں ؟ کہتے نہیں یار تم سمجھے نہیں، میں سیاست میں شامل ہونے کی بات کر رہا ہوں۔ یہ وہی دوست ہے، جن کے حلقے میں سیاستدان تقریر کر رہے تھے، کہ ایسا کام کرنا چاہتا ہوں کے علاقے کا نام میرے نام سے جانا جائے۔ ہمارے دوست نے بھی بلند آواز میں کہہ دیا، آپ کے نام سے پہلے ہی نا گپور اور دیوستان جانا چاہتا ہے پر آپ کے وعدوں کو اگر دیکھا جائے تو جھوٹ ستان اور فریبستان بھی نام رکھا جا سکتا ہے۔ یہ اکثر سر عام ہاتھ بلند کرکے بلند آواز میں دعا مانگتے نظر آتے ہیں، میری دعا ہے ایسے سیاستدان ہماری زندگی میں چاند کی مانند ہو جائیں اور جتنی دور چاند ہے، اتنی دور ہو جائیں۔ ایک دفعہ اقبالیات پڑھتے پڑھتے لہک کر بولے:
ایک ہی صف میں کھڑے ہو جائیں سیاست کے محمود و ایاز
دوسری صف میں کھڑے ہو جائیں خودکش بمبار
ہو پھر وہی جو اقبال نے فرمایا تھا
نہ کوئی بندہ رہے نہ کوئی بندہ نواز