گزشتہ دو سالوں میں حکومت نے جو فقیدالمثال کارکردگی دکھائی ہے وہ پچھلی حکومتوں سے کچھ مختلف نہیں۔ مضبوط معیشت کسی سرمایہ دار کے لیے تو تسلی بخش ہو سکتی ہے مگر غریب آدمی کو جب تک اس کے ثمرات نہیں پہنچتے اس کے لئے لیے مضبوط معیشت بے معنی ہے۔ کووڈ -19 عرف عام کورونا وائرس نے جہاں دنیا کی معیشتوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے وہاں بہت سے مواقع بھی پیدا کیے ہیں۔ بہت سے ممالک جن میں چائنہ سرفہرست ہے جو کہ کرونا وائرس کا متاثرہ پہلا ملک تھا اس بحرانی کیفیت میں بجائے آہ و بکا کرنے کے ایسی پالیسیاں بنائی جو کہ نہ صرف ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے میں کامیاب ہوئیں بلکہ ان سے خوب سرمایہ کمایا گیا صحت کی صنعت نے تاریخی پیداوار دی جس سے برآمدات کا حجم بڑھا اور خوب سرمایا کمایا گیا لیکن پاکستان میں صورتحال یکسر مختلف رہی بجائے اس کے کہ ہم مقامی نظام صحت کو بہتر بناتے اور اس صورتحال میں محکمہ صحت میں سرمایہ کاری کر کے اسے مزید مضبوط بناتے، ہم دنیا کے سامنے مقروض ملکوں کے علمبردار بند کر کھڑے ہو گئے مثال کے طور پر بدقسمتی سے سرکاری لیبارٹریوں سے کرونا کا ٹیسٹ ہونے کی بجائے پرائیویٹ لیبارٹریوں کے حوالے کر دیے گئے جو ایک انفرادی ٹیسٹ کم از کم ساڑھے چھ ہزار روپے کے عوض کرتے ہیں۔ اور وہی ٹیسٹ سرکاری سطح پر مفت کیے جاتے ہیں لیکن ان کو قابل قبول نہیں سمجھا جاتا اب بھی جو اوورسیز ایمپلائیز واپس جا رہے ہیں ان کو بھی پرائیویٹ لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کروانے کی ہدایات کی گئی ہیں اسی طرح حال ہی میں سرکاری اساتذہ کو کرونا ٹیسٹ کروانے کی تجویز دی گئی ہے اگر یہ ٹیسٹ بھی پرائیویٹ لیبارٹریوں کے ذریعے کروائے جاتے ہیں تو نہ صرف اربوں روپے پرائیویٹ لیبارٹریوں کو منافع کی مد میں دیے جائیں گے بلکہ سرکاری اساتذہ کا متوسط طبقے پر جو حکومتی اندازے سے سے ماہانہ لاکھوں روپے کماتے ہیں ان پر اضافی بوجھ بھی پڑے گا اور سرکاری محکمہ صحت کو اس کا چنداں فائدہ نہ ہوگا یہ وہ دلچسپی ہے جو موجودہ حکومت نے سرکاری اداروں میں دکھائی ہے۔ وطن عزیز کی حکومت کو نہ جانے کس مشیر نے مشورہ دیا ہے اس ملک کا سب سے بڑا ناسور سرکاری ادارے ہیں۔ جس کے ملازمین کوئی کام کیے بغیر گھروں میں بیٹھے تنخواہیں ہڑپ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ سب سرکاری ملازمین ایسے ہی گذشتہ حکومتی نظام کے میرٹ سے نکل کر آئے بہترین دماغ ہیں۔ اور ایسے ہی حکومتی رویوں کی وجہ سے بہت سے بہترین دماغ باہر کے ممالک کیلیئے اپنی خدمات بخوبی سرانجام دے رہے ہیں اس عمل کو ہم جس میں نوجوان طبقہ حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے ملک کو چھوڑ کر باہر چلے جاتے ہیں اسے برین ڈرین کہتے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں کی ناکامی روز بروز سرکاری اداروں کو پرائیویٹائزیشن کی طرف لے جا رہی ہیں۔ اگر پرائیویٹائزیشن کرنا ہی مقصود ہے تو سب سے پہلے پالیسی بنانے والے اداروں کو پرائیویٹائز کیا جائے تاکہ اچھی پالیسی بنانے والے لوگ سامنے آئیں۔ جو اداروں کے لیےکامیاب پالیسیاں بنا سکیں وگرنہ پرائیوٹائزیشن کا انفرادی منافع کے علاوہ کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ سرکاری اداروں کی سست روی یا نا اہلی کا الزام حکومتی پالیسیوں کے سر جاتا ہے ورنہ ملازمین کی کیا ہمت کہ وہ حکومتی پالیسیوں کو من و عن تسلیم نہ کریں۔