جان پہچان کوئی نہیں تھی مگرا س شخص کو ہاتھوں میں کتابیں تھامیں آتے جاتے اکثر دیکھتا، وضع قطع اور ظاہری خدوخال شہری نہ تھے، یہ ضرور تھا کہ کتابیں اس بات کا ثبوت تھیں کہ وہ کوئی علم دوست ہے کیونکہ جس انسان نے بڑی محبت اور اپنائیت سے کتاب کو پکڑا ہو وہ لازمی طور پر اس کا طلب گار ہی ہوتا ہے۔
غائبانہ تعارف کا حوالہ بعد کے دنوں میں کہیں بنا تو معلوم ہوا یہ کوئی اور نہیں اپنے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، میرے چند ایک دوست بھی ان کے شناسا نکلے بتایا گیا کہ نعیم اللہ ملک سیالکوٹ کے تھے اور میڈیا سے وابستگی بھی پرانی تھی۔
ہم نے اخبار سے ٹی وی میں قدم رکھا تو وہاں بے شمار نئے چہرے تھے جن سے اچھا تعلق بنا، ان میں ایک عمر ملک تھے انتہائی ذہین اور کام میں چست، عمر ملک ملنسار ہونے کے باعث جلد تعلق بنانے میں کامیاب ہوئے اور پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ عمر ملک، نعیم اللہ کے صاحبزادے ہیں۔ یوں ہمارا ایک نیا تعارف بن گیا، ملاقات ہوئی تو نعیم اللہ ملک نے بتایا کہ وہ پی ٹی وی سمیت مختلف قومی اخبارات کے نیوز روم میں فرائض انجام دیتے رہے ہیں، انہیں کتب بینی کا شوق تو تھا مگر جاننے پر معلوم ہوا کہ کوئی اچھی کتاب مل جائے تو ترجمہ بھی کردیتے ہیں۔
نعیم اللہ ملک سے قریبی تعلق کا ایک نیا وسیلہ نئی رہائش تھی حروف تہجی میں نام قریب تھے وہ گھروں کی قربت کا بھی باعث بن گئے۔ نئی آبادی میں جب بہت کم لوگ آکر بستے ہیں تو پھر زیادہ بات چیت اور رابطے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ نعیم اللہ ملک اور میرے ساتھ ہوا،ان کا کہنا تھا انسان کو اکثر اس کے حلیئے کی بنیاد پر دوسرا انسان قبول کرتا یا ترک تعلق کردیتا ہے۔ کہتے میں ایک دیسی شکل وصورت کا آدمی ہوں اور میری زبان بھی ٹھیٹ پنجابی لہجہ بیان کرتی ہے ملنے والا یہی سمجھتا ہے کوئی گاؤں سے آیا سیدھا سادہ شخص ہے، جو کہ حقیقت بھی ہے میں اپنا تعارف کراتا ہوں تو پھر بھی انہیں گمان گزرتا ہے کہ میں غلط بیانی سے کام لے رہا ہوں۔
مجھے ملک صاحب کے اس موقف سے اختلاف تھا میرا کہنا تھا کہ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ بے شمار مثالیں جس میں سادہ شخصیت والے لوگ اعلیٰ اور اچھے عہدوں پر بیٹھے اور انہیں دوسروں نے قبول بھی کیا، مگر ملک صاحب کا استدلال تھا کہ میں کون سا بڑے عہدے پر فائز ہیں یا کوئی ڈی سی لگا ہوں۔
لیکن ایک بات ضرور ہے یہ محض ایک حوالہ تھا ملک صاحب نے اسے اپنی احساس کمتری نہیں بننے دیا وہ اس پر خوش ہوتے بلکہ یہ سب بھی بڑی سادگی اور زندہ دلی کے ساتھ بیان کرتے تھے۔
ملک صاحب کی شخصیت کی خاص بات ہی ان کی سادہ طبیعیت تھی ان کا مسکراتا چہرہ اور نگاہوں میں ایک فکر کا انداز، کئی بار ملنے والے کو سوچنے پر مجبور کردیتا تھا کہ اس شخص نے زندگی میں کیا کچھ دیکھا اور پڑھا مگر مزاج میں کوئی اظہار نہیں تھا۔
دیہی پس منظر کے باعث زمین سے تعلق کو مضبوط بنانے کا ایک قدیم اور خوبصورت طریقہ ان کے ہاتھ میں تھا، وہ شہر میں رہنے کے باوجود کھیتی باڑی سے وابستہ اپنے علم کو باغبانی میں بھرپور طریقے سے استعمال کرتے تھے۔
ملک صاحب کی اس عادت نے مجھے ان کے قریب جانے اور انہیں سمجھنے پر مجبور کیا، وہ کہتے کہ انسان کو اپنا یہ تعلق نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ زمین سے جڑا ہے اسی زمین میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے معیشت رکھی ہے جس کا قرآن میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
زمانے کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ رہائش کے باوجود گھر کے باہر لان اور گرین بیلٹ ملک صاحب کے وقت گزارنے کی جگہ تھی جہاں گھاس کی صفائی، پودوں کی مٹی نرم کرنے اور پھر سبزیوں اور نئے پودوں کے لیے زمین کو ہموار کرنے میں مصروف نظر آتے۔
ان کی اولین ترجیح یہی ہوتی کہ یہیں گھر کے باہر درخت کے سائے تلے بیٹھ کر سانس لی جائے اور چائے پی جائے، ملک صاحب سے ملنے والا کوئی بھی آتا وہ اسی مقام پر اسے بٹھانے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔
ملک صاحب نے زندگی میں مالی اعتبار سے کوئی خاص نہیں کمایا، ایک روائتی گلہ کبھی لبوں پر آبھی جاتا تو کہتے اس کا کوئی تاسف نہیں مجھے اپنے سادہ طرز زندگی پر نہ صرف خوشی ہے بلکہ میں اس پر بے حد مطمئن ہوں۔ انہیں دینی علوم پر بھی دسترس حاصل تھی کبھی ایسا کوئی موضوع آتا تو ہماری معلومات میں اضافہ کرتے۔
ملک صاحب کوئی بڑے دانشور نہیں تھے لیکن علم و حکمت کے اسرارورموز سے آگاہی رکھتے تھے۔ جرمن مصنفہ این میری شمل کو پڑھا تو ملک صاحب کو اقبال کے افکار سے بھی روشناس ہونے کا موقع ملا،کہتے کہ مجھے فارسی عربی نہیں آتی، لیکن اقبال کی شاعری اور فلسفے کو سمجھنے کے دوران مجھے دونوں زبانوں سے واقفیت بھی ہوئی۔
ملک صاحب کو اس کام کے دوران سیرت النبی پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی اپنی معلومات کو دوسروں تک پہنچاتے ہوئے بعض اوقات وہ بڑے جذباتی ہوجاتے، کہتے اللہ کے نبیﷺ نے اتنی سادہ اور بھرپور زندگی گزاردی ہم لوگ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہمارے لیے تو آج کے دور میں بجلی چلی جائے تو زندگی جیسے ختم ہوجاتی ہے۔
ملک صاحب ایک علم دوست آدمی تھے لیکن وہ اکثر بڑے عام آدمی کی طرح اپنے جیسے افراد کے ساتھ وقت گزارنے کو پسند کرتے تھے ان کی دوستیاں بھی انہیں لوگوں سے تھیں، میں نے محسوس کیا کہ صاحب حیثیت افراد سے بہت زیادہ قربت کے طلبگار بھی نہیں تھے بلکہ کچھ فاصلہ رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔
ایک اچھے انسان کی ایک اچھی خصوصیت ملک صاحب میں بڑی خوبی کے ساتھ پائی جاتی تھی، وہ کسی کے ساتھ زیادہ دیر تک ناراض نہیں رہتے تھے ترک تعلق کو ذات کا حصہ نہیں بننے دیا گلے شکوے،ناراضی یہ انسان کی فطرت کا حصہ ہیں، ملک صاحب بھی اس سے گزرتے اپنوں سے بھی بعض اوقات انہیں ایسی کیفیت سے دوچار ہونا پڑتا لیکن یہ سلسلہ زیادہ برقرار نہیں رکھ پاتے تھے ملک صاحب گھر کے باہر گرین بیلٹ پر کرسی رکھ کر براجمان ہوتے اگر کوئی ملنے والے کو دیکھتے تو آمد سے پہلے ہی کرسی لینے اندر چلے جاتے یہ اس بات کی علامت ہوتا کہ میں تمہارے ساتھ نشست کرنا چاہتا ہوں پھر ارادہ نہ بھی ہوتا تو آنے والا ملک صاحب کی صحبت میں بیٹھ جاتا۔
اسی کرسی پر بیٹھے وہ اپنا مطالعہ، خصوصاً اپنی تحریروں کی پروف ریڈنگ کرتے، ملک صاحب کو بچوں سے بڑی انسیت تھی اپنے پوتے پوتیوں کے علاوہ کسی بھی بچے کو پیار کئے بغیر نہ رہتے بڑے بچوں کو روائتی بڑے بوڑھوں کی طرح اچھی نصیحتیں ضرور کرتے اور اس کا انداز بھی بڑا سادہ اور ایسا رکھتے کہ بچوں کےلیے قابل قبول ہو ۔
یہی وجہ تھی کہ بچے اور خصوصاً نوعمر افراد بھی ملک صاحب کا احترام کرتے ۔
ملک صاحب شاید بہت زیادہ مادیت پرست نہیں تھے لیکن ایک انسان ہونے کے ناطے کچھ خواہشات تھیں مگر انہیں کبھی دل سے نہیں لگایا وہ اپنی خاندانی زمین کے مقدمات کی پیروی بڑی سنجیدگی سے کرتے تھے۔
میں نے ایک بار پوچھا ملک صاحب اتنی دولت کیا کرنی ہے، کہتے میں ساری زندگی کچھ نہیں کیاجب دولت کمانے کے مواقع بھی آئے، اب بڑھاپے میں کیا خاک تیر چلانے ہیں مجھے بس اتنی خواہش ہے کہ یہ زمینیں واپس لوں اور ان میں بیٹھ کر کاشتکاری کروں، یہ میری ہمیشہ سے خواہش تھی، معلوم نہیں اگر زمین مل گئی تو میں یہ سب کر بھی پاؤں گا یا نہیں؟
انسان کو اچھی خواہشات دل میں پالنی چاہیں یہ کوئی بُری بات نہیں، ملک صاحب کو زندگی میں بہت زیادہ کی لالچ کبھی نہیں رہی ، کہتے انسان ایک وقت میں ایک لقمہ ہی لے سکتا ہے لیکن اسے بہت زیادہ کی بھوک نے نہ جانے کیا سے کیا بنا ڈالا ہے۔
نعیم اللہ ملک زندگی میں پیش آنے والے مختلف حادثات پر بھی بہت زیادہ غمزدہ یا دل گرفتہ نہیں ہوتے تھے وہ اللہ کی رضا پر بہت زیادہ یقین رکھنے والے تھے، ملک صاحب اپنے آبائی علاقے مراکیوال کا اکثر ذکر کرتے، یہ اس بات کی علامت تھی کہ وہ اپنے اصل سے تعلق نہیں توڑنا چاہتے، لوگوں کی زندگی میں شامل اس بہت زیادہ “مصروفیت” سے ملک صاحب گھبرا جاتے، کہتے نہ جانے اب دوسروں کا حال جاننے یا ایک دوسرے کے پاس بیٹھنے کیلئے وقت کہاں چلا گیا۔
ان کا دلچسپ فقرہ تھا کہتے فارغ قوم کی مصروفیت پر گورے بہت حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ لوگوں کی بغیر کوئی تعمیری کام کئے انتہائی مصروفیت ناقابل فہم ہے۔
ملک صاحب کا کہنا تھا ہمار المیہ زندگی کی حقیقت اور اساس کو سمجھنے سے انکار ہے، ہم یہ جاننا ہی نہیں چاہتے کہ ہماری زندگی کی اصل مقصد کیا ہے، ترقی کرنے کی دوڑ ہماری تنزلی کاباعث بنی ہے، اپنی ذات کو سامنے رکھ کر دوسروں کے سروں کو پھلانگ کر آگے بڑھنے کی لگن نے اجتماعیت کی سوچ اور ملکر چلنے کے جذبے کو کہیں دفن کردیا، یہ نعیم اللہ ملک کا دُکھ نہیں، ہمارے معاشرے کے ہر حساس شخص کا نوحہ ہے، ہم ملک صاحب جیسے لوگوں کو بڑے آسانی سے کھو دیتے ہیں پھر چند الفاظ اور کلمات ان کی تعریف میں بول کر اپنا فرض ادا کرجاتے ہیں۔
نعیم اللہ ملک اپنی کرسی پر بیٹھے نہ جانے کن سوچوں میں گم تھے کسی کو خبر بھی ہونے نہ دی کہ بس اب بہت ہوگیا میرا تم لوگوں کے ساتھ سفر اتنا ہی تھا، مجھے اب نئی منزل کیلئے روانہ ہونا ہے جس کا مجھے کافی عرصے سے انتظار تھا انہوں شاید یہ کہا اور رخت سفر باندھ لیا۔
نعیم اللہ ملک 2016 جون کی پہلی اتوار کی شام سفر پر بڑے پرسکون اور مطمئن چہرے کے ساتھ رخصت ہوئے، ایک بار پھر کسی کو پریشان نہیں کیا، عزیز رشتہ دار اور ملنے والے سب یہی گلہ کرتے رہ گئے، ملک صاحب نے پتہ ہی چلنے نہیں دیا اور چلے گئے۔
ملک صاحب کی یہ عادت تھی وہ اپنا دکھ اور تکلیف کسی کو پتہ نہیں چلنے دیتے تھے اپنے زخموں کی نمائش کرنا ان کے مزاج میں نہیں تھا ایسے موقع پر اکثر کہا جاتا ہے کاش ملک صاحب اپنا کچھ بتاتے، لیکن یہ لوگ اپنا بڑاپن ایسے ہی وقت کے لیے چھوڑ رکھتے ہیں جب ان کی عظمت سے دوسرے آشنا ہوتے ہیں۔ نعیم اللہ ملک کو بھولنا شائد اتنا آسان نہ ہوگا اور یہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی کمائی ہے۔