Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ہمارے کمرے میں پتیوں کی مہک نے
سگریٹ کے رقص کرتے دھوئیں سے مل کر ،
عجیب ماحول کر دیا ہے
اور اس پہ اب یہ گھڑی کی ٹک ٹک نے،
دل اُداسی سے بھر دیا ہے
کسی زمانے میں ہم نے،
ناصر، فراز، محسن، جمال، ثروت کے شعر اپنی چہکتی دیوار پر لکھے تھے
اب اس میں سیلن کیوں آگئی ہے…….. ؟
ہمارا بستر کہ جس میں کوئی شکن نہیں ہے ، اسی پہ کب سے،
(وہ دائیں جانب، میں بائیں جانب…. )
نہ جانے کب سے دراز ہیں ہم … !!!
میں اس سے شاید خفا نہیں ہوں ،
اُسے بھی کوئی گلہ نہیں ہے
مگر ہماری خمیدہ پشتیں جو پچھلی کتنی ہی ساعتوں سے
بس ایک دوجے کو تک رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔
وہ تھک گئی ہیں !
فریحہ نقوی کی نظم ” بیزاری ” پڑھنے کا اتفاق ہوا پہلی ہی قرات میں نظم نے اپنی گرفت میں لے لیا اور احساس ہوا کہ عورت کی محض جسمانی ساخت ہی نہیں بلکہ ذہن میں بھی ایک کوکھ ہوتی ہے جو اس کے خوابوں، خیالوں اور افکار کی آماجگاہ ہوتی ہے
نظم ” بیزاری” بہ ظاہر ایک سادہ سی رومانوی نظم ہے مگر یہ اتنی سادہ بھی نہیں جتنی کہہ رہا ہوں بلکہ یہ نظم معنوی اور فکری سطح پر بہت مسحور کن ہے یہی وجہ ہے کہ تفہیم و تشریح کے عمل سے گزرتے ہوئے شاعرہ کے فکری نظام اور متن میں موجود معنیاتی خوب صورتی کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں
جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ شاعرہ بیزاری کی ایک کیفیت سے گزر رہی ہے اور یہ مسلسل بیزاری تھکا دینے والی حالت تک پہنچ چکی ہی مگر یہاں سوال پیدا ہوتا کہ کہ یہ بیزاری کیسی ہے اور اس کا محرک کیا ہے؟ کیا شاعرہ کسی سماجی بیانیہ سے بیزار ہیں یا کسی معاشی و اقتصادی نظام کی پیچیدگیوں سے تو جواب نفی میں آئے گا شاعرہ کی بیزاری تو کچھ اور نوعیت کی ہے نظم کے ابتدائی مصرعے بیزاری کی نوعیت اور محرک کی غمازی کر رہے ہیں
ہمارے کمرے میں پتیوں کی مہک نے
سگریٹ کے رقص کرتے دھوئیں سے مل کر
عجیب ماحول کر دیا ہے
“عجیب ماحول کر دیا” کا مدلول شاعرہ کے ذہن میں موجود فینٹیسی سے ٹکراؤ کی صورتِ حال وضع کرتا ہے اور یہ فینٹیسی محض خواب وخیال کی زائیدہ نہیں بلکہ ماضی کی یادوں سے بھی ساخت پذیر ہوتی ہے ان ماضی کی یادوں کا ذکر نظم کے آیندہ مصرعوں میں موجود ہے
اور اس پہ اب یہ گھڑی کی ٹک ٹک نے
دل اداسی سے بھر دیا ہے
یہ بیزار کن ٹکراؤ شاعرہ کے ذہن میں بیٹھ گیا ہے اور اس پر گھڑی کی ٹک ٹک وقت کی رائیگانی کا احساس بڑھا رہی ہے کہ ہم گزر رہے ہیں اور گزرتے جا رہے ہیں اور وقت جو ہمارے ماضی کا شاہد اور مستقبل کا ضامن ہے اور اپنے اندر بے پناہ ارتقاء کا حامل ہے شاعرہ کے خوابوں کو تعمیرے بغیر ابد کے سمندر میں گرتا جا رہا ہے یہی رائیگانی کا احساس شاعرہ کے ہاں ایک مسلسل اداسی تخلیق کرتا ہے
کسی زمانے میں ہم نے
ناصر، فراز، محسن، جمال، ثروت کے شعر اپنی چہکتی دیوار پر لکھے تھے
اب اس میں سیلن کیوں آ گئی ہے
یہی وہ خواب ہیں جو شاعرہ نے ماضی میں دیکھے تھے اور اپنے کمرے کی دیواروں پر تحریر کیے تھے مگر وقت ارجن کے خدا کی طرح اپنے ہی شاہکاروں کو تباہ کر دیتا ہے اپنی چہکتی دیواروں پر لکھے شعر دراصل شاعرہ کے ٹین ایجی کے خواب ہیں جن کے نقوش ذہن میں ثبت ہیں مگر اب یہ نقش نہ جانے کیوں مدھم ہونے لگے ہیں انھیں خوابوں کے ادھورے پن پر نظم میں مایوسی اور بیزاری کی کیفیت جنم لیتی ہے
ہمارا بستر کہ جس میں کوئی شکن نہیں ہے اس پہ کب سے
( وہ دائیں جانب میں بائیں جانب)
نہ جانے کب سے دراز ہیں ہم
ان مصرعوں میں تخلیقی زبان کا خوب صورت استعمال ہے بستر پر چادر کا اکٹھا ہونا اور شکن پڑنا ایک ایسا امیج خلق کرتا ہے جب مرد اور عورت ایک لمحہ زنجیر کرتے ہیں ایک ایسا لمحہ جب ذہن قطرہ قطرہ پگھل کر دل پر گرتا ہے اور منجمد حالت میں بہاؤ پیدا ہوتا ہے جس سے جسموں کے خلا پاٹے جا سکتے ہیں یہی بہاؤ دراصل محبت کا جوہر ہے جسم و روح کی ہم آہنگی سے ایک مالیکولر فورس پیدا ہوتی ہے یہ بہاؤ اسی مالیکیولر فورس کا زائیدہ ہے جو جسم قریب کر کے محبت کو امر کرتا ہے اور لمحہ زنجیر کرتا ہے ” ہمارا بستر کہ جس میں کوئی شکن نہیں ہے” کا مدلول اس بہاؤ اور مالیکیولر فورس کی نفی کر رہا تو نظم ہمیں بیزاری کا شدید احساس دلاتی ہے جب انجماد اور سکڑ پن میں دائیں بائیں جانب پڑے جسم دیکھنے کو ملتے ہیں
میں اس سے شاید خفا نہیں ہوں اسے بھی مجھ سے گلہ نہیں ہے
مگر ہماری خمیدہ پشتیں جو پچھلی کتنی ہی ساعتوں سے بس ایک دوجے کو تک رہی ہیں
وہ تھک گئی ہیں
خمیدہ پشتیں دراصل جسموں کے درمیان خلاؤں سے پیدا ہونے والی بیزاری کی علامت ہیں اور اب کا ایک دوسرے کو مسلسل تکتے رہنا خواہش کے زندہ رہنے کو ظاہر کرتا ہے یہ خمیدہ پشتیں نہ جانے کتنی ساعتوں سے اس بہاؤ کی منتظر ہیں جو جسموں کے خلاؤں کو پاٹ کر روحوں کی تجسیم کر سکے مگر وقت جو اپنے اندر بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے شدید محرومی اور تھکن کا احساس دیے گزرتا چلا جا رہا ہے
فریحہ نقوی کی یہ نظم اس کی ذات کا نوحہ نہیں ہے بلکہ زندگی کی معدومیت پر بیزاری کا احساس ہے کچھ کیے بغیر ہم گزر رہے ہیں اور مسلسل گزرتے جا رہے ہیں کا شدید احساس اعصاب کو تھکا دیتا ہے اور آدمی ایک نہ مختنم سی بیزاری سے دوچار ہوتا ہے۔
ہمارے کمرے میں پتیوں کی مہک نے
سگریٹ کے رقص کرتے دھوئیں سے مل کر ،
عجیب ماحول کر دیا ہے
اور اس پہ اب یہ گھڑی کی ٹک ٹک نے،
دل اُداسی سے بھر دیا ہے
کسی زمانے میں ہم نے،
ناصر، فراز، محسن، جمال، ثروت کے شعر اپنی چہکتی دیوار پر لکھے تھے
اب اس میں سیلن کیوں آگئی ہے…….. ؟
ہمارا بستر کہ جس میں کوئی شکن نہیں ہے ، اسی پہ کب سے،
(وہ دائیں جانب، میں بائیں جانب…. )
نہ جانے کب سے دراز ہیں ہم … !!!
میں اس سے شاید خفا نہیں ہوں ،
اُسے بھی کوئی گلہ نہیں ہے
مگر ہماری خمیدہ پشتیں جو پچھلی کتنی ہی ساعتوں سے
بس ایک دوجے کو تک رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔
وہ تھک گئی ہیں !
فریحہ نقوی کی نظم ” بیزاری ” پڑھنے کا اتفاق ہوا پہلی ہی قرات میں نظم نے اپنی گرفت میں لے لیا اور احساس ہوا کہ عورت کی محض جسمانی ساخت ہی نہیں بلکہ ذہن میں بھی ایک کوکھ ہوتی ہے جو اس کے خوابوں، خیالوں اور افکار کی آماجگاہ ہوتی ہے
نظم ” بیزاری” بہ ظاہر ایک سادہ سی رومانوی نظم ہے مگر یہ اتنی سادہ بھی نہیں جتنی کہہ رہا ہوں بلکہ یہ نظم معنوی اور فکری سطح پر بہت مسحور کن ہے یہی وجہ ہے کہ تفہیم و تشریح کے عمل سے گزرتے ہوئے شاعرہ کے فکری نظام اور متن میں موجود معنیاتی خوب صورتی کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں
جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ شاعرہ بیزاری کی ایک کیفیت سے گزر رہی ہے اور یہ مسلسل بیزاری تھکا دینے والی حالت تک پہنچ چکی ہی مگر یہاں سوال پیدا ہوتا کہ کہ یہ بیزاری کیسی ہے اور اس کا محرک کیا ہے؟ کیا شاعرہ کسی سماجی بیانیہ سے بیزار ہیں یا کسی معاشی و اقتصادی نظام کی پیچیدگیوں سے تو جواب نفی میں آئے گا شاعرہ کی بیزاری تو کچھ اور نوعیت کی ہے نظم کے ابتدائی مصرعے بیزاری کی نوعیت اور محرک کی غمازی کر رہے ہیں
ہمارے کمرے میں پتیوں کی مہک نے
سگریٹ کے رقص کرتے دھوئیں سے مل کر
عجیب ماحول کر دیا ہے
“عجیب ماحول کر دیا” کا مدلول شاعرہ کے ذہن میں موجود فینٹیسی سے ٹکراؤ کی صورتِ حال وضع کرتا ہے اور یہ فینٹیسی محض خواب وخیال کی زائیدہ نہیں بلکہ ماضی کی یادوں سے بھی ساخت پذیر ہوتی ہے ان ماضی کی یادوں کا ذکر نظم کے آیندہ مصرعوں میں موجود ہے
اور اس پہ اب یہ گھڑی کی ٹک ٹک نے
دل اداسی سے بھر دیا ہے
یہ بیزار کن ٹکراؤ شاعرہ کے ذہن میں بیٹھ گیا ہے اور اس پر گھڑی کی ٹک ٹک وقت کی رائیگانی کا احساس بڑھا رہی ہے کہ ہم گزر رہے ہیں اور گزرتے جا رہے ہیں اور وقت جو ہمارے ماضی کا شاہد اور مستقبل کا ضامن ہے اور اپنے اندر بے پناہ ارتقاء کا حامل ہے شاعرہ کے خوابوں کو تعمیرے بغیر ابد کے سمندر میں گرتا جا رہا ہے یہی رائیگانی کا احساس شاعرہ کے ہاں ایک مسلسل اداسی تخلیق کرتا ہے
کسی زمانے میں ہم نے
ناصر، فراز، محسن، جمال، ثروت کے شعر اپنی چہکتی دیوار پر لکھے تھے
اب اس میں سیلن کیوں آ گئی ہے
یہی وہ خواب ہیں جو شاعرہ نے ماضی میں دیکھے تھے اور اپنے کمرے کی دیواروں پر تحریر کیے تھے مگر وقت ارجن کے خدا کی طرح اپنے ہی شاہکاروں کو تباہ کر دیتا ہے اپنی چہکتی دیواروں پر لکھے شعر دراصل شاعرہ کے ٹین ایجی کے خواب ہیں جن کے نقوش ذہن میں ثبت ہیں مگر اب یہ نقش نہ جانے کیوں مدھم ہونے لگے ہیں انھیں خوابوں کے ادھورے پن پر نظم میں مایوسی اور بیزاری کی کیفیت جنم لیتی ہے
ہمارا بستر کہ جس میں کوئی شکن نہیں ہے اس پہ کب سے
( وہ دائیں جانب میں بائیں جانب)
نہ جانے کب سے دراز ہیں ہم
ان مصرعوں میں تخلیقی زبان کا خوب صورت استعمال ہے بستر پر چادر کا اکٹھا ہونا اور شکن پڑنا ایک ایسا امیج خلق کرتا ہے جب مرد اور عورت ایک لمحہ زنجیر کرتے ہیں ایک ایسا لمحہ جب ذہن قطرہ قطرہ پگھل کر دل پر گرتا ہے اور منجمد حالت میں بہاؤ پیدا ہوتا ہے جس سے جسموں کے خلا پاٹے جا سکتے ہیں یہی بہاؤ دراصل محبت کا جوہر ہے جسم و روح کی ہم آہنگی سے ایک مالیکولر فورس پیدا ہوتی ہے یہ بہاؤ اسی مالیکیولر فورس کا زائیدہ ہے جو جسم قریب کر کے محبت کو امر کرتا ہے اور لمحہ زنجیر کرتا ہے ” ہمارا بستر کہ جس میں کوئی شکن نہیں ہے” کا مدلول اس بہاؤ اور مالیکیولر فورس کی نفی کر رہا تو نظم ہمیں بیزاری کا شدید احساس دلاتی ہے جب انجماد اور سکڑ پن میں دائیں بائیں جانب پڑے جسم دیکھنے کو ملتے ہیں
میں اس سے شاید خفا نہیں ہوں اسے بھی مجھ سے گلہ نہیں ہے
مگر ہماری خمیدہ پشتیں جو پچھلی کتنی ہی ساعتوں سے بس ایک دوجے کو تک رہی ہیں
وہ تھک گئی ہیں
خمیدہ پشتیں دراصل جسموں کے درمیان خلاؤں سے پیدا ہونے والی بیزاری کی علامت ہیں اور اب کا ایک دوسرے کو مسلسل تکتے رہنا خواہش کے زندہ رہنے کو ظاہر کرتا ہے یہ خمیدہ پشتیں نہ جانے کتنی ساعتوں سے اس بہاؤ کی منتظر ہیں جو جسموں کے خلاؤں کو پاٹ کر روحوں کی تجسیم کر سکے مگر وقت جو اپنے اندر بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے شدید محرومی اور تھکن کا احساس دیے گزرتا چلا جا رہا ہے
فریحہ نقوی کی یہ نظم اس کی ذات کا نوحہ نہیں ہے بلکہ زندگی کی معدومیت پر بیزاری کا احساس ہے کچھ کیے بغیر ہم گزر رہے ہیں اور مسلسل گزرتے جا رہے ہیں کا شدید احساس اعصاب کو تھکا دیتا ہے اور آدمی ایک نہ مختنم سی بیزاری سے دوچار ہوتا ہے۔
ہمارے کمرے میں پتیوں کی مہک نے
سگریٹ کے رقص کرتے دھوئیں سے مل کر ،
عجیب ماحول کر دیا ہے
اور اس پہ اب یہ گھڑی کی ٹک ٹک نے،
دل اُداسی سے بھر دیا ہے
کسی زمانے میں ہم نے،
ناصر، فراز، محسن، جمال، ثروت کے شعر اپنی چہکتی دیوار پر لکھے تھے
اب اس میں سیلن کیوں آگئی ہے…….. ؟
ہمارا بستر کہ جس میں کوئی شکن نہیں ہے ، اسی پہ کب سے،
(وہ دائیں جانب، میں بائیں جانب…. )
نہ جانے کب سے دراز ہیں ہم … !!!
میں اس سے شاید خفا نہیں ہوں ،
اُسے بھی کوئی گلہ نہیں ہے
مگر ہماری خمیدہ پشتیں جو پچھلی کتنی ہی ساعتوں سے
بس ایک دوجے کو تک رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔
وہ تھک گئی ہیں !
فریحہ نقوی کی نظم ” بیزاری ” پڑھنے کا اتفاق ہوا پہلی ہی قرات میں نظم نے اپنی گرفت میں لے لیا اور احساس ہوا کہ عورت کی محض جسمانی ساخت ہی نہیں بلکہ ذہن میں بھی ایک کوکھ ہوتی ہے جو اس کے خوابوں، خیالوں اور افکار کی آماجگاہ ہوتی ہے
نظم ” بیزاری” بہ ظاہر ایک سادہ سی رومانوی نظم ہے مگر یہ اتنی سادہ بھی نہیں جتنی کہہ رہا ہوں بلکہ یہ نظم معنوی اور فکری سطح پر بہت مسحور کن ہے یہی وجہ ہے کہ تفہیم و تشریح کے عمل سے گزرتے ہوئے شاعرہ کے فکری نظام اور متن میں موجود معنیاتی خوب صورتی کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں
جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ شاعرہ بیزاری کی ایک کیفیت سے گزر رہی ہے اور یہ مسلسل بیزاری تھکا دینے والی حالت تک پہنچ چکی ہی مگر یہاں سوال پیدا ہوتا کہ کہ یہ بیزاری کیسی ہے اور اس کا محرک کیا ہے؟ کیا شاعرہ کسی سماجی بیانیہ سے بیزار ہیں یا کسی معاشی و اقتصادی نظام کی پیچیدگیوں سے تو جواب نفی میں آئے گا شاعرہ کی بیزاری تو کچھ اور نوعیت کی ہے نظم کے ابتدائی مصرعے بیزاری کی نوعیت اور محرک کی غمازی کر رہے ہیں
ہمارے کمرے میں پتیوں کی مہک نے
سگریٹ کے رقص کرتے دھوئیں سے مل کر
عجیب ماحول کر دیا ہے
“عجیب ماحول کر دیا” کا مدلول شاعرہ کے ذہن میں موجود فینٹیسی سے ٹکراؤ کی صورتِ حال وضع کرتا ہے اور یہ فینٹیسی محض خواب وخیال کی زائیدہ نہیں بلکہ ماضی کی یادوں سے بھی ساخت پذیر ہوتی ہے ان ماضی کی یادوں کا ذکر نظم کے آیندہ مصرعوں میں موجود ہے
اور اس پہ اب یہ گھڑی کی ٹک ٹک نے
دل اداسی سے بھر دیا ہے
یہ بیزار کن ٹکراؤ شاعرہ کے ذہن میں بیٹھ گیا ہے اور اس پر گھڑی کی ٹک ٹک وقت کی رائیگانی کا احساس بڑھا رہی ہے کہ ہم گزر رہے ہیں اور گزرتے جا رہے ہیں اور وقت جو ہمارے ماضی کا شاہد اور مستقبل کا ضامن ہے اور اپنے اندر بے پناہ ارتقاء کا حامل ہے شاعرہ کے خوابوں کو تعمیرے بغیر ابد کے سمندر میں گرتا جا رہا ہے یہی رائیگانی کا احساس شاعرہ کے ہاں ایک مسلسل اداسی تخلیق کرتا ہے
کسی زمانے میں ہم نے
ناصر، فراز، محسن، جمال، ثروت کے شعر اپنی چہکتی دیوار پر لکھے تھے
اب اس میں سیلن کیوں آ گئی ہے
یہی وہ خواب ہیں جو شاعرہ نے ماضی میں دیکھے تھے اور اپنے کمرے کی دیواروں پر تحریر کیے تھے مگر وقت ارجن کے خدا کی طرح اپنے ہی شاہکاروں کو تباہ کر دیتا ہے اپنی چہکتی دیواروں پر لکھے شعر دراصل شاعرہ کے ٹین ایجی کے خواب ہیں جن کے نقوش ذہن میں ثبت ہیں مگر اب یہ نقش نہ جانے کیوں مدھم ہونے لگے ہیں انھیں خوابوں کے ادھورے پن پر نظم میں مایوسی اور بیزاری کی کیفیت جنم لیتی ہے
ہمارا بستر کہ جس میں کوئی شکن نہیں ہے اس پہ کب سے
( وہ دائیں جانب میں بائیں جانب)
نہ جانے کب سے دراز ہیں ہم
ان مصرعوں میں تخلیقی زبان کا خوب صورت استعمال ہے بستر پر چادر کا اکٹھا ہونا اور شکن پڑنا ایک ایسا امیج خلق کرتا ہے جب مرد اور عورت ایک لمحہ زنجیر کرتے ہیں ایک ایسا لمحہ جب ذہن قطرہ قطرہ پگھل کر دل پر گرتا ہے اور منجمد حالت میں بہاؤ پیدا ہوتا ہے جس سے جسموں کے خلا پاٹے جا سکتے ہیں یہی بہاؤ دراصل محبت کا جوہر ہے جسم و روح کی ہم آہنگی سے ایک مالیکولر فورس پیدا ہوتی ہے یہ بہاؤ اسی مالیکیولر فورس کا زائیدہ ہے جو جسم قریب کر کے محبت کو امر کرتا ہے اور لمحہ زنجیر کرتا ہے ” ہمارا بستر کہ جس میں کوئی شکن نہیں ہے” کا مدلول اس بہاؤ اور مالیکیولر فورس کی نفی کر رہا تو نظم ہمیں بیزاری کا شدید احساس دلاتی ہے جب انجماد اور سکڑ پن میں دائیں بائیں جانب پڑے جسم دیکھنے کو ملتے ہیں
میں اس سے شاید خفا نہیں ہوں اسے بھی مجھ سے گلہ نہیں ہے
مگر ہماری خمیدہ پشتیں جو پچھلی کتنی ہی ساعتوں سے بس ایک دوجے کو تک رہی ہیں
وہ تھک گئی ہیں
خمیدہ پشتیں دراصل جسموں کے درمیان خلاؤں سے پیدا ہونے والی بیزاری کی علامت ہیں اور اب کا ایک دوسرے کو مسلسل تکتے رہنا خواہش کے زندہ رہنے کو ظاہر کرتا ہے یہ خمیدہ پشتیں نہ جانے کتنی ساعتوں سے اس بہاؤ کی منتظر ہیں جو جسموں کے خلاؤں کو پاٹ کر روحوں کی تجسیم کر سکے مگر وقت جو اپنے اندر بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے شدید محرومی اور تھکن کا احساس دیے گزرتا چلا جا رہا ہے
فریحہ نقوی کی یہ نظم اس کی ذات کا نوحہ نہیں ہے بلکہ زندگی کی معدومیت پر بیزاری کا احساس ہے کچھ کیے بغیر ہم گزر رہے ہیں اور مسلسل گزرتے جا رہے ہیں کا شدید احساس اعصاب کو تھکا دیتا ہے اور آدمی ایک نہ مختنم سی بیزاری سے دوچار ہوتا ہے۔
ہمارے کمرے میں پتیوں کی مہک نے
سگریٹ کے رقص کرتے دھوئیں سے مل کر ،
عجیب ماحول کر دیا ہے
اور اس پہ اب یہ گھڑی کی ٹک ٹک نے،
دل اُداسی سے بھر دیا ہے
کسی زمانے میں ہم نے،
ناصر، فراز، محسن، جمال، ثروت کے شعر اپنی چہکتی دیوار پر لکھے تھے
اب اس میں سیلن کیوں آگئی ہے…….. ؟
ہمارا بستر کہ جس میں کوئی شکن نہیں ہے ، اسی پہ کب سے،
(وہ دائیں جانب، میں بائیں جانب…. )
نہ جانے کب سے دراز ہیں ہم … !!!
میں اس سے شاید خفا نہیں ہوں ،
اُسے بھی کوئی گلہ نہیں ہے
مگر ہماری خمیدہ پشتیں جو پچھلی کتنی ہی ساعتوں سے
بس ایک دوجے کو تک رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔
وہ تھک گئی ہیں !
فریحہ نقوی کی نظم ” بیزاری ” پڑھنے کا اتفاق ہوا پہلی ہی قرات میں نظم نے اپنی گرفت میں لے لیا اور احساس ہوا کہ عورت کی محض جسمانی ساخت ہی نہیں بلکہ ذہن میں بھی ایک کوکھ ہوتی ہے جو اس کے خوابوں، خیالوں اور افکار کی آماجگاہ ہوتی ہے
نظم ” بیزاری” بہ ظاہر ایک سادہ سی رومانوی نظم ہے مگر یہ اتنی سادہ بھی نہیں جتنی کہہ رہا ہوں بلکہ یہ نظم معنوی اور فکری سطح پر بہت مسحور کن ہے یہی وجہ ہے کہ تفہیم و تشریح کے عمل سے گزرتے ہوئے شاعرہ کے فکری نظام اور متن میں موجود معنیاتی خوب صورتی کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں
جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ شاعرہ بیزاری کی ایک کیفیت سے گزر رہی ہے اور یہ مسلسل بیزاری تھکا دینے والی حالت تک پہنچ چکی ہی مگر یہاں سوال پیدا ہوتا کہ کہ یہ بیزاری کیسی ہے اور اس کا محرک کیا ہے؟ کیا شاعرہ کسی سماجی بیانیہ سے بیزار ہیں یا کسی معاشی و اقتصادی نظام کی پیچیدگیوں سے تو جواب نفی میں آئے گا شاعرہ کی بیزاری تو کچھ اور نوعیت کی ہے نظم کے ابتدائی مصرعے بیزاری کی نوعیت اور محرک کی غمازی کر رہے ہیں
ہمارے کمرے میں پتیوں کی مہک نے
سگریٹ کے رقص کرتے دھوئیں سے مل کر
عجیب ماحول کر دیا ہے
“عجیب ماحول کر دیا” کا مدلول شاعرہ کے ذہن میں موجود فینٹیسی سے ٹکراؤ کی صورتِ حال وضع کرتا ہے اور یہ فینٹیسی محض خواب وخیال کی زائیدہ نہیں بلکہ ماضی کی یادوں سے بھی ساخت پذیر ہوتی ہے ان ماضی کی یادوں کا ذکر نظم کے آیندہ مصرعوں میں موجود ہے
اور اس پہ اب یہ گھڑی کی ٹک ٹک نے
دل اداسی سے بھر دیا ہے
یہ بیزار کن ٹکراؤ شاعرہ کے ذہن میں بیٹھ گیا ہے اور اس پر گھڑی کی ٹک ٹک وقت کی رائیگانی کا احساس بڑھا رہی ہے کہ ہم گزر رہے ہیں اور گزرتے جا رہے ہیں اور وقت جو ہمارے ماضی کا شاہد اور مستقبل کا ضامن ہے اور اپنے اندر بے پناہ ارتقاء کا حامل ہے شاعرہ کے خوابوں کو تعمیرے بغیر ابد کے سمندر میں گرتا جا رہا ہے یہی رائیگانی کا احساس شاعرہ کے ہاں ایک مسلسل اداسی تخلیق کرتا ہے
کسی زمانے میں ہم نے
ناصر، فراز، محسن، جمال، ثروت کے شعر اپنی چہکتی دیوار پر لکھے تھے
اب اس میں سیلن کیوں آ گئی ہے
یہی وہ خواب ہیں جو شاعرہ نے ماضی میں دیکھے تھے اور اپنے کمرے کی دیواروں پر تحریر کیے تھے مگر وقت ارجن کے خدا کی طرح اپنے ہی شاہکاروں کو تباہ کر دیتا ہے اپنی چہکتی دیواروں پر لکھے شعر دراصل شاعرہ کے ٹین ایجی کے خواب ہیں جن کے نقوش ذہن میں ثبت ہیں مگر اب یہ نقش نہ جانے کیوں مدھم ہونے لگے ہیں انھیں خوابوں کے ادھورے پن پر نظم میں مایوسی اور بیزاری کی کیفیت جنم لیتی ہے
ہمارا بستر کہ جس میں کوئی شکن نہیں ہے اس پہ کب سے
( وہ دائیں جانب میں بائیں جانب)
نہ جانے کب سے دراز ہیں ہم
ان مصرعوں میں تخلیقی زبان کا خوب صورت استعمال ہے بستر پر چادر کا اکٹھا ہونا اور شکن پڑنا ایک ایسا امیج خلق کرتا ہے جب مرد اور عورت ایک لمحہ زنجیر کرتے ہیں ایک ایسا لمحہ جب ذہن قطرہ قطرہ پگھل کر دل پر گرتا ہے اور منجمد حالت میں بہاؤ پیدا ہوتا ہے جس سے جسموں کے خلا پاٹے جا سکتے ہیں یہی بہاؤ دراصل محبت کا جوہر ہے جسم و روح کی ہم آہنگی سے ایک مالیکولر فورس پیدا ہوتی ہے یہ بہاؤ اسی مالیکیولر فورس کا زائیدہ ہے جو جسم قریب کر کے محبت کو امر کرتا ہے اور لمحہ زنجیر کرتا ہے ” ہمارا بستر کہ جس میں کوئی شکن نہیں ہے” کا مدلول اس بہاؤ اور مالیکیولر فورس کی نفی کر رہا تو نظم ہمیں بیزاری کا شدید احساس دلاتی ہے جب انجماد اور سکڑ پن میں دائیں بائیں جانب پڑے جسم دیکھنے کو ملتے ہیں
میں اس سے شاید خفا نہیں ہوں اسے بھی مجھ سے گلہ نہیں ہے
مگر ہماری خمیدہ پشتیں جو پچھلی کتنی ہی ساعتوں سے بس ایک دوجے کو تک رہی ہیں
وہ تھک گئی ہیں
خمیدہ پشتیں دراصل جسموں کے درمیان خلاؤں سے پیدا ہونے والی بیزاری کی علامت ہیں اور اب کا ایک دوسرے کو مسلسل تکتے رہنا خواہش کے زندہ رہنے کو ظاہر کرتا ہے یہ خمیدہ پشتیں نہ جانے کتنی ساعتوں سے اس بہاؤ کی منتظر ہیں جو جسموں کے خلاؤں کو پاٹ کر روحوں کی تجسیم کر سکے مگر وقت جو اپنے اندر بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے شدید محرومی اور تھکن کا احساس دیے گزرتا چلا جا رہا ہے
فریحہ نقوی کی یہ نظم اس کی ذات کا نوحہ نہیں ہے بلکہ زندگی کی معدومیت پر بیزاری کا احساس ہے کچھ کیے بغیر ہم گزر رہے ہیں اور مسلسل گزرتے جا رہے ہیں کا شدید احساس اعصاب کو تھکا دیتا ہے اور آدمی ایک نہ مختنم سی بیزاری سے دوچار ہوتا ہے۔