ہمارا بچپن بھی دوسرے بچوں کی طرح نانی اماں کی کہانیاں اور نصیحتیں سن کر گزرا ہے۔ والدہ بھی کچھ حقیقی واقعات پر مبنی قصے بیان کرتیں ان میں کچھ فرق تھا جس کا احساس آنے والے دنوں میں بڑے بھائیوں نے دلایا کہ امی جان ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں اور ان کا تعلق شعبہ تدریس سے تھا اس لئے وہ خیالی اور پریوں کی کہانیوں سے زیادہ واقف نہ تھیں بلکہ بڑی حقیقت پسند سوچ رکھتی تھیں تاہم تائی جی کی بات مختلف تھی، ان کی خوفناک کہانیاں کی یاد آج بھی یاد آتی ہیں۔
بچوں کو مزیدار جن، بھوت اور سنسنی خیز واقعات پر مشتمل کہانیاں ہمیشہ زیادہ اچھی اور پرکشش لگتی ہیں۔ ہمیں اس دنیا کا تعارف ہماری تائی جی نے کرایا۔ ددھیال میں بہت زیادہ جانا نہیں ہوتا تھا اگر جاتے بھی تو دن دن وہاں گزارتے اور گھر لوٹ آتے۔ رات بسر کرنے کی نوبت نہ آتی اور طویل وقت گزارنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔
1977 کے مارشل لاء نے یہ چھپی خواہش پوری کردی۔ میری والدہ حادثے میں شدید زخمی ہوگئیں اگرچہ میں بھی ساتھ تھا مگر مجھے معمولی چوٹیں آئیں۔ والدہ کو ہاسپٹل قریب ہونے پر دادی اماں کے گھر یعنی ددھیال لے آئے تاکہ سارا خاندان تیمارداری کرسکے۔ یہاں سارے کزنز مل کر رہتے تھے۔ کھیل کود کا خوب موقع ملا۔ کرفیو لگا تھا بڑے بھی گھر سے باہر کم ہی قدم رکھتے۔ بچوں کے ساتھ کئی کھیل بھی کھیل کر وقت گزارتے۔
یہ بھی پڑھئے:
کون پکڑے گا نواز شریف دشمنی میں پاکستان کو برباد کرنے والوں کو؟
مصر کے بازار میں پاکستانی شاہ کار
ہوش اڑاتی مہنگائی اور سفید پوش لوگوں کا المیہ
جڑانوالہ: مسجد کس کے قبضے میں ہے؟
بچوں کیلئے بہت وافر وقت تھا۔ تفریح کے لئے کوئی بھی موقع ضائع نہیں کرتے تھے۔ یہاں دو تایا اور دو چچا کی فیملی رہتی تھی۔ ایک تایا فوت ہوچکے تھے۔ ان کے تین بیٹے میرے بڑے دو بھائیوں کے ہم عمر تھے۔ ان کے مشاغل مختلف تھے میں دس سال کا تھا اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ ملکر کچھ نہ کچھ کرتا ۔ ہماری تائی جی بچوں سے بہت پیار کرتی تھیں۔ یہ ایک نفسیاتی اور فطری عمل ہے کیونکہ والد کا سایہ سر پر نہیں تھا ایسے میں اپنے بچوں کیلئے دوسروں کی توجہ کی خواہش ہوتی ہے۔ تائی جی ہم بچوں کو کوئی نہ کوئی بات بتاتی رہتیں جس میں کوئی معلومات یا کوئی تجسس ہوتا۔ وہ کبھی کبھار یہ بھی کہہ دیتیں کہ تمہاری مائیں میرے پاس بیٹھنے کا برا نہ مان لیں۔ حالانکہ میری والدہ کی تائی جی سے بڑی گاڑھی چھنتی مطلب اچھے مراسم تھے ہمارے ابو بھی تینوں بھتیجوں سے باقی بچوں کے مقابلے میں زیادہ پیار کرتے تھے۔ ان کی اپنے مرحوم بڑے بھائی کے ساتھ بڑی گہری دوستی تھی۔ وہ انہیں بہت یاد کرتے۔
تائی جی بڑی سیلف میڈ اور اناپسند تھیں کسی کی غلط بات برداشت نہ کرتیں اپنے بچوں کو کسی محرومی کا احساس نہیں ہونے دیتی تھیں۔ ہمیں ان کی کہانیوں میں زیادہ دلچسپی ہوتی تھی۔ میرے ہم عمر لڑکے لڑکیوں میں تائی جی مجھے پسند کرتی تھیں شاید میری والدہ سے دوستی کی وجہ تھی۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کسی نے تائی جی سے کہانی کی فرمائش کرنا انہوں نے انکار کردینا مگر میرے اصرار پر تائی جی رضامند ہو جاتی تھیں۔
تائی جی کہانیوں میں پائے جانے والے مافوق الفطرت کردار جہاں خوف اور ڈر کی علامت تھے وہیں بچوں کی کشش کا باعث بھی بنتے تھے۔ ایک بار انہوں نے ایک قصے کو حقیقی بتاکر ہمیں سنایا جس میں چڑیل یا ایسی ہی الٹے پاؤں والی مخلوق کا ذکر کیا جسے دیکھنے والے کو بخار ہوجاتا اور وہ فوت ہوجاتا۔ یہ قصہ سن کر مجھے نہ صرف کپکپی محسوس ہوئی بلکہ اگلی صبح بخار بھی ہوگیا پہلے خوف کے مارے کسی سے ذکر نہ کیا لیکن بعد میں والدہ کے گوش گزار کردیا۔ انہوں نے اچھا محسوس نہ کیا میں نے اپنی کیفیت کو نظر انداز کرکے تائی جی کے دفاع میں بولنا شروع کردیا والدہ بڑی حیران ہوئیں بولیں بچے ڈر کے مارے خوفزدہ ہیں لیکن تائی کی محبت میں یہ سب تسلیم کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہے۔
میں اپنی نانی اماں سے بھی اس سب کا ذکر کیا وہ بولیں ایسے قصے کبھی کبھار بچوں میں اعتماد کی کمی کا شکار بنادیتے لیکن کچھ بچوں میں انجانے خوف سے فرار میں مدد بھی ملتی ہے ۔
تائی جی گھریلو اخراجات چلانے کیلئے کچھ نہ کچھ سرگرمی کرتی رہتیں جس میں خواتین کے ملبوسات دوسرے شہروں سے لاکر فروخت کرنا بھی شامل تھا۔ ایک بار تائی جی نے میری والدہ کو بھی اس سفر میں شریک کیا۔ جس کے دوران میں کھو گیا تھا۔ تائی جی نے تلاش کے بعد مل جانے پر مجھے گلے لگایا۔ اس وقت اپنی والدہ کے ساتھ ساتھ ان کے چہرے پر ایک پریشانی دکھ اور خوف کے تاثرات واضح دکھائی دے رہے تھے۔
تائی جی نے زندگی میں بہت تکالیف مصائب اور بدترین حالات دیکھے تھے انہوں بڑی ہمت اور حوصلے کے ساتھ یہ ایام گزارے اس سب میں ان کے بیٹوں نے بھرپور ساتھ دیا اور اپنی ماں کی کسی قسم کی حکم عدولی نہ کی۔ تائی جی کے لہجے سے کبھی کبھار تلخی بھی چھلک آتی لیکن وہ جلد اس کیفیت سے خود کو نکال لیتی تھیں۔ ان کا دکھ بچے بہتر طور پر جانتے لیکن انہوں نے بڑی جانفشانی اور خندہ پیشانی سے وقت کا مقابلہ کیا ایک بہتر اور خوشحال زندگی کا خواب پورا کیا۔ وہ بے شمار عورتوں کیلئے مشعل راہ ہیں جنہوں نے کبھی حالات کے آگے جھکنا نہیں سیکھا بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ تائی جی جیسی خواتین خاندان بناتی ہیں اور ہر مشکل کا سامنا پراعتماد طریقے سے کرتی ہیں۔
تائی جی دنیا سے رخصت ہوگئیں مگر ان کی نصیحتیں آب بیتیاں اور سنسنی خیز کہانیاں آج بھی ان کی یاد دلاتی ہیں۔