ADVERTISEMENT
ہم کیوں نہیں جانتے کہ ہماری مساجد میں کون بیٹھا ہے، جڑانوالہ کی طرح کون اشتعال انگیزی کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت دیتا ہے؟ چونکا دینے والے انکشافات فاروق عادل کے کالم میں
۔۔۔۔۔۔۔
ہری پور ہزارہ سے تعلق رکھنے والے ایک ممتاز عالم دین تھے۔ تقریر ایسی کیا کرتے کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ علم اور فن خطابت کی جتنی خوبیاں بھی ہو سکتی ہیں، ان کی ذات میں جمع تھیں لیکن کمزوری ایک ہی تھی، مولانا مودودی۔ کسی نہ کسی بہانے وہ خود ان کا ذکر کر دیتے پھر موضوع سے بھٹک جاتے۔ اس کے بعد مودودی کا ذکر ہوتا اور ان کی دانست میں اس کی گمراہیوں کا تذکرہ۔ جماعت اسلامی کے نوجوان اور جذباتی کارکنان بھی اُن کی مصروفیات کی ٹوہ میں رہتے جہاں کہیں وہ خطاب کے لیے تشریف لے جاتے ، وہ بھی پہنچ جاتے۔ وہ بزرگ اگر خود یہ تذکرہ بھول جاتے تو یہ ستم ظریف اِنھیں یاد دلا دیتے پھر تماشا دیکھنے والا ہوتا۔ کبھی کبھی یہ مشق دل لگی سے بڑھ کر بدصورت مناظر کا پیش خیمہ بھی بن جاتی۔ یہ پرانی بھولی بسری یاد مجھے جڑانوالہ کے بدقسمت واقعات کی تفصیل جان کر ہوئی۔
اِس بدقسمت شہر میں جو کچھ ہوا، اس کی بنیاد بظاہر نوعیت کے اعتبار سے اسی قسم کا واقعہ ہے، تاریخ سے جس کی ذرا دل چسپ سی مثال یہاں پیش کی گئی ہے۔ جڑانوالہ میں قرآن حکیم کے صفحات پر بدکلامی اور ان کی بے حرمتی کرنے والا شخص بد بخت، بد قسمت اور بدترین مجرم تو ہے ہی لیکن پاکستانی عوام کی نفسیات اور کمزوریوں کو بھی بڑی باریک بینی سے سمجھنے والا ہے بالکل اسی طرح جیسے ہزارہ کے عالم دین کی شان دار تقریر کو بڑی چابک دستی سے غارت کرنے والے ان کی نفسیات اور کمزوری سے آگاہ تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے خلاف افسوس ناک واقعات کی وجہ ظاہر ہے کہ توہین قرآن حکیم ہی کا واقعہ ہے لیکن یہ واقعہ جس سانحے میں تبدیل ہو گیا، اس کے اسباب اور وجوہات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پر میں نے قرآن حکیم کے وہ اوراق دیکھے ہیں جن پر ہرزہ سرائی کی گئی ہے۔ یہ بہت تکلیف دہ حرکت ہے جس سے نہایت احتیاط کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت تھی۔ اس سانحے کے دو ڈھائی دن کے بعد مفتی تقی عثمانی صاحب کا ردعمل آیا ۔ ان کا مؤقف بہترین ہے جس سے یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ اگر کچھ غلط ہوا تھا تو مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے تھا۔ انھوں نے فرمایا ہے کہ اس واقعے یا سازش سے نمٹنے کے لیے چوں کہ قانونی ذرائع موجود ہیں، اس لیے ہجوم کے مسیحی برادری کے گھروں اور عبادت گاہوں پر حملے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ مفتی تقی عثمانی صاحب اور دیگر علمائے کبار کا ردعمل دیر سے آنے یا ابھی تک نہ آنے کے معاملے پر بھی گفتگو ضروری ہے لیکن اس سے اہم ایک اور معاملہ بھی ہے۔
اس معاملے کی میں نے جب کرید شروع کی تو سب سے پہلے مجھے ایک وڈیو دیکھنے کا موقع ملا۔ اس وڈیو میں ایک ہجوم نعرہ زن تھا جس میں کسی مقامی عالم دین کے ساتھ سادہ کپڑوں میں کوئی پولیس افسر کھڑا تھا جس نے ہجوم کو آگاہ کیا کہ ملزم گرفت میں آ چکا ہے جس پر ہجوم نے سوال کیا کہ کیا اسے سزا دے دی گئی؟ پولیس افسر نے بتایا کہ یہ کام تو عدالت کرے گی جس پر ہجوم نے نعرے لگائے کہ سزا ہم دیں گے۔ یہ نعرے دیر تک جاری رہے لیکن ہجوم کی قیادت کرنے والے بزرگ اپنے چہرے پر فاتحانہ تاثرات سجائے خاموش رہے۔
اس سلسلے میں دوسرا وڈیو میں نے وہی دیکھا جس پر ایک شخص کی گرفتاری ہوئی ہے۔ یہ وہی شخص ہے جو مسجد کے لاڈ اسپیکر پر عوام کو مشتعل کر کے انھیں سڑکوں پر آنے کی ترغیب دے رہا تھا۔ ان دو واقعات کی نوعیت اور اس کے نقصانات کا فہم پیدا ہو جائے تو مجھے یقین ہے کہ مسئلہ سمجھ میں آ جائے گا اور اس کا علاج بھی۔
جڑانولہ کے پرسکون ماحول میں قرآن حکیم کی بے حرمتی کرنے والا شخص جانتا تھا کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے، اس کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد عقل و خرد سے بے گانہ ہو کر کیا کچھ کر سکتی ہے اور کیا کچھ کر ڈالے گی۔ اس نے اپنا ہدف نہایت آسانی کے ساتھ حاصل کر لیا۔ میری بہن شنیلا عمار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جب بھی سرمایہ کاری کا راستہ ہموار ہونے لگتا ہے، اس طرح کا کوئی نہ کوئی واقعہ ہو جاتا ہے۔ گویا یہ ایک سازش ہے۔ ہمارے ایک اور لائق سیاسی مبصر آغا اقرار ہارون اسے بھارت کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس واقعے کے بعد بھارت کے مانی پور میں انتہا پسند ہندوں کے ہاتھوں عیسائی کش فسادات کا معاملہ پس پشت چلا گیا ہے۔ یہ دونوں امکانات ہو سکتے ہیں اور ہوں گے لیکن اس قسم کی سازشوں سے زیادہ وہ سماج زیادہ قابل رحم ہوتا ہے جو اس قسم کے جال میں آسانی کے ساتھ پھنس جاتا ہے۔
جڑانوالہ میں پولیس اور عالم دین والے ہجوم، گرجا گھر اور مسیحی برادری کے گھروں کو تاراج کرنے والے اور ان گھروں کے باسیوں کو بے گھر کرنے والے لوگوں کی نفسیات کا جائزہ لیا جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ لوگ نہ دین کے احکامات اور ان کی حرمت سے واقف ہیں، نہ ریاست اور اس کے آئین اور قانون کو سمجھتے اور نہ اس کی پابندی کرنے والے ہیں۔ یہ بھی ایک مستقل نوعیت کا مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے احتیاط سے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے لیکن ایک مسئلہ اس سے بھی سوا ہے۔
یہ مسئلہ مسلمانوں کے سب سے بڑے دینی اور سماجی ادارے یعنی مسجد کی انتظامی حیثیت کا ہے۔ اسلامی روایت میں مسجد کا ادارہ نماز کی امامت اور خطبہ جمعہ ریاست کی ذمے داری تھا۔ خلفائے راشدین، بعد کے خلفا اور حکمرانوں کے ادوار میں یہی طریقہ کار رائج رہا ہے۔ مسجد ریاست کا ادارہ اس لیے تھی تاکہ حکمراں اپنی پالیسیوں اور فیصلوں سے قوم کو آگاہ کر سکیں۔ بعد کے زمانوں میں سیاسی حالات بدلنے سے اس معاملے میں بھی بہت کچھ بدلا لیکن مسلم دنیا کے بیشتر حصوں میں اب بھی یہی طریقہ رائج ہے یعنی مسجد ریاست کا ادارہ ہے لیکن صرف برصغیر میں صورت حال مختلف رہی۔ مسلمان بادشاہوں خاص طور پر مغل عہد میں مساجد کا نظام دو طرح سے چلایا جاتا رہا ہے یعنی سرکار کے زیر انتظام بھی اور نجی سطح پر بھی۔ انگریزوں نے اس بندوبست کو برقرار رکھا۔ قیام پاکستان کے بعد صورت حال میں کوئی جوہری فرق پیدا نہیں ہوا سوائے اس کے کہ ایوب خان نے اپنے دور میں محکمہ اوقاف قائم کیا جس نے بزرگوں کے مزارات اور بعض مساجد اپنی تحویل میں لے لیں۔ یوں حکومت ان مزارات سے ہونے والی آمدنی کی مالک بن گئی جب کہ حکومت کے زیر انتظام مساجد کے خطیب حضرات اور دیگر عملہ بھی حکومت کے ملازم کی حیثیت اختیار کر گیا لیکن دیگر لاکھوں مساجد میں کیا ہو رہا ہے، ایک عمومی تجزیہ یہ ہے، اس کی کسی کو کوئی خبر نہیں۔ مجیب الرحمن شامی کہا کرتے ہیں کہ ہمیں نہیں خبر کہ کس مسجد میں کون آ کر بیٹھ گیا ہے۔ اس کا علمی پس منظر اور عزائم کیا ہیں؟ شامی صاحب کا یہ تجزیہ جڑانوالہ کی صورت حال پر بالکل صادق آتا ہے۔ اگر متعلقہ مسجد کے خطیب اور اس کی انتظامیہ ذمہ دار ہوتی اور شہر میں رونما ہونے والے واقعات کی ہلاکت خیزی کا شعور اسے ہوتا تو کوئی شخص مسجد کے لاڈ اسپیکر پر قبضہ کر کے عوام کو فساد پر آمادہ نہ کر پاتا۔ اس ہول ناک تجربے کا سبق یہ ہے کہ حقیقی اسلامی روایت کے مطابق مسجد ریاست کے زیر انتظام ہونی چاہئے۔ مجیب الرحمن شامی کی رائے بھی یہی ہے۔ جاوید احمد غامدی بھی ایک طویل عرصے سے یہی سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ممتاز مؤرخ ڈاکٹر سید جعفر احمد کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں ریاست مختلف مذہبی پریشر گروہوں کے ساتھ کمپرومائز کرتی ہے جس سے ریاست کی اتھارٹی کمزور ہو چکی ہے۔ اس لیے یہ تو ممکن نہیں رہا کہ ریاست مساجد کا انتظام سنبھال سکے۔ ہاں، یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی اتھارٹی کو مضبوط بنائے، اس سے بھی صورت حال پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
معروضی حالات کے پیش نظر اس رائے میں وزن ہے لیکن مجیب الرحمن شامی کے خیال میں پاکستان اگر نظریاتی ریاست ہے تو پھر لازم ہے کہ مسجد کا انتظام اسی کے ہاتھ میں ہو تا کہ مسجد جیسا مقدس دینی اور سماجی ادارہ غیر ذمے دار عناصر کی گرفت میں نہ آ سکے۔ صرف یہی صورت ہے جس کے ذریعے یہ ادارہ نفرت اور جہالت کے عفریت کے خاتمے کا ذریعہ بن سکتا ہے اور یہ جو ہمارا دشمن مسلمانوں کو مشتعل کر کے ہمارے دینی اور قومی مفادات کے خلاف انھیں استعمال کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، اس کا راستہ بھی بند ہو سکے گا۔