بہت بے قراری کے عام میں ہوں میں۔ آج بہت سارے مناظر میری نظروں سے گزر گئے۔ اخبار میں کچھ کرپشن کی خبریں تھیں بڑی کرپشن کروڑوں کے سودے اور ہیر پھیر کچھ وزارتوں کی مبارکباد تھی۔ کہیں پر چیف جسٹس سے شکایت تھی کہ فلاں کو ریلیف کیوں دیا ایک جگہ ڈالر کی اڑان کی خبریں تھیں پڑھتا گیا کڑھتا گیا اور پھر مارکیٹ نکل گیا جہاں مہنگائی نے ہوش اڑا رکھے تھے۔
ایک مارٹ کے شیلف کے قریب آواز کانوں سے ٹکرائی انجان بن کر کان اس طرف لگائے دو برانڈ ایمبیسڈر جو وزیٹر کو پروڈکٹ کی افادیت بتاتی ہیں ان میں سے ایک نے دوسری پوچھا کہ چیک بینک میں جمع کرانے کے بعد ہمارے اکاؤنٹ میں رقم کب آتی ہے۔ چہرے پہ پریشانی تھی۔ فکر تھی۔ رقم کا انتظار یقینی طور پر کسی ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے تھا۔ پھر میں نے اپنے اطراف نظر دوڑائی تو سارے ہی افراد چاہے وہ سیلز گرل ہوں سیلز بوائے یا پھر کسی بھی ذمہ داری کو نبھاتا ہوا اسٹاف سب پریشان تھے سب کہ چہرے پر ایک ہی سوال تھا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اس قدر کم تنخواہ گزارہ کیسے ہوگا۔
یہ بھی پڑھئے:
جڑانوالہ: مسجد کس کے قبضے میں ہے؟
ڈاکٹر عارف علوی ایسے کیوں ہیں؟
گلگت بلتستان کا ضمنی انتخاب کون جیتے گا کون ہارے گا؟
یہ وہ سفید پوش لوگ ہیں جو سیلانی JDC ایدھی اور دیگر لوگوں کی طرف سے لگائے گئے دستر خوان پر نظر نہیں آتے۔ نہ ہی یہ گورنر ہاوس پر بٹنے والے راشن کی لائن میں ہوتے ہیں۔ یہ تو اپنے دکھوں کی پوٹلی اٹھائے بس ایک دوسرے کی مدد کر لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ درد بانٹ لیتے ہیں۔
ایک طرف میری نظروں کے سامنے ان کے چہروں پر پھیلا دکھ تھا اور دوسری طرف اخبار میں لکھی کرپشن کی خبریں تھیں۔ ایک طرف ان کے خواب حسرتیں ضرورتیں اور محرومیاں تھیں اور دوسری طرف ساری سیاسی جماعتوں کے منشور سنہری خواب اور دلکش وعدے تھے۔ غریب مخیر حضرات کی جانب سے لگائے گئے دسترخوان اور بانٹے گئے راشن سے اپنا مسئلہ حل کر لیتے ہیں اور امیر کا تو پرابلم ہی کچھ نہیں۔ مگر ہم مڈل کلاس لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ میری آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو ان سے اظہار یکجہتی کر رہے تھے۔ ظہر کی آذان مارٹ میں گونج رہی تھی میرے ہاتھ رب کے حضور اٹھ گئے اور میں نے دعا کی کہ یا اللہ ہمارے حکمرانوں کو توفیق دے کہ وہ ہم سفید پوش لوگوں کے درد کو محسوس کر سکیں۔ ان کے دکھ اور تکلیف کا احساس کر سکیں۔
بہت بے قراری کے عالم میں ہوں میں
میری بے قراری مٹا میرے مولا