خواب دیکھنا ایک فطری عمل ہے، ہر انسان خواب دیکھتا ہے اور خواب زندگی کی علامت ہوتے ہیں۔انسانی شعور،اس کا ارتقاء، اس کی تہذیب، معاشرت، سائنس غرض ہر شعبہ کی ترقی انسانی خواب ہی کا پیش خیمہ رہا ہے۔ ہر انسان کے کچھ نہ کچھ خواب ضرور ہوتے ہیں وہ کم از کم اپنی ذات کی حد تک خواب ضرور دیکھتا ہے، اپنے بہتر کل کا خواب ، یہی سچائی انسانی معاشرے کے ارتقاء کا حقیقی سبب ہے۔ہر معاشرے میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ذات اور اپنے مفادات سے بلند ہو کر پورے سماج کی بہتری کے خواب دیکھتے ہیں۔ اپنے خوابوں کی تعمیل کے لیے اس عہد کے زمینی حقائق اور معروضی حالات کے مطابق ان کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں ایک یہ کہ غیر لچکدار، سخت گیر رویے کے ساتھ اس کٹھن اور دشوار گزار راستے سے گزریں اسی میں اپنی جان کی بازی ہار جائیں یا کامیابی حاصل کرلیں، دوسرا یہ کہ حکمت، تدبر اور دانشمندی سے کبھی آگے بڑھ کر تو کبھی وقتی طور پر پیچھے ہٹ کر لیکن اپنے خوابوں کی تعمیل کے لیے بند در کھولتے چلے جائیں، وقتی طور پر مصیبتیں جھیلیں لیکن حتمی طور پر کامیابی حاصل کر لیں۔ بہرحال ان دونوں فکر کے لوگ اس عہد کے مسیحا یا رہنما کہلاتے ہیں ۔ یہی رہنما اپنی جدوجہد سے اپنے عہد کے لوگوں کو مشکلات سے نجات دلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسے افراد اپنے سیاسی شعور کی سن بلوغت سے قبل اگر کوئی سیاسی غلطی کر بیٹھیں تو وہ بوجھ بن کر زندگی بھر ان کا پیچھا کرتی ہے اور انہیں زندگی کے آخری سانس تک طعنے سہنے پڑتے ہیں لیکن ایسے افراد حوصلہ نہیں ہارتے بلکہ ہر طرح کے حالات اور الزامات کا خوش دلی سے سامنا کرتے ہیں مگر اپنے خوابوں کی تعمیل سے پیچھے نہیں ہٹتے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں ایسے رہنماجو دانشمندی اور حکمت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ہمارے جیسے کثیرالطبقاتی سماج میں ایک دوسرے کے مفادات کے ٹکراؤ کے باوجود اپنی سوچ وفکر کے مطابق اپنے خوابوں کی تعمیل کی جدوجہد جاری رکھتے ہیں وہ زیادہ کامیاب کہلاتے ہیں، لیکن جو کسی بھی بناء پر یاسازشوں کا شکار ہو کر بد ترین سزائیں بھگتے ہیں یا پھانسی کے پھندے پر جھول جاتے ہیں وہ بھی اپنے عہد میں یاد گار ہوجاتے ہیں لیکن بس ان کے خواب ان کی زندگی میں شرمندہ تعبیر نہیں ہو پاتے۔ ایسے رہنما اپنے چاہنے والوں کو بیچ منجھدار میں چھوڑ جاتے ہیں جہاں ان کی جدوجہد ان معنوں میں تو کامیاب نہیں ہو پاتی کہ وہ اپنی زندگی میں مطلوبہ مقاصد کے حصول سے محروم رہ جاتے ہیں لیکن ان کی قربانی رائیگاں ہر گز نہیں جاتی بلکہ وہ جدوجہد کرنے والوں کو عزم، حوصلہ اور جلا بخش دیتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے اس طرح چلے جانے سے اگرچہ کہ جدوجہد کا سفر مزید کٹھن اور دشوار ہو جاتا ہے لیکن بے سمت نہیں ہوتا بلکہ منزل پر پہنچ کر ہی اختتام پذیر ہوتا ہے۔ ان سب حقائق کے باوجود ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اپنے خوابوں کی تعمیل کے لیے کی جانے والی کسی جدوجہد کا مقصد اپنی زندگی کا خاتمہ بہرحال نہیں ہوا کرتا۔
استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کی جدوجہد کرنے والے ایسے رہنما جو خود بھی نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں اور اپنے بہی خواہوں کی زندگیوں اور مفادات کے تحفظ کو بھی یقینی بنانے کی بہترین حکمت عملی مرتب کرتے ہیں۔ وہ مدبر کہلاتے ہیں۔ ایسے ہی باشعور رہنما اپنے خوابوں کی تعمیل کو عملی جامہ پہنانے کا ایسا طریقہ کار وضع کرتے ہیں کہ کم سے کم تصادم اور کم سے کم نقصان کے ساتھ مقاصد حاصل کر لیے جائیں لیکن ہمیں ان دونوں سوچ وفکر کے حامل رہنماؤں کے درمیان مسابقت کا کوئی مقابلہ نہیں کرنا چاہیے۔ کسی کو بڑا اور کسی کو چھوٹا، کسی کو بہادر تو کسی کو بزدل، کسی کو ضدی یا کم عقل تو کسی کو مفکر و مدبر قرار دے کر ان کے معتقدین کے درمیان دوریاں نہیں پیدا کرنا چاہیے کہ یہ عمل بھی معاشرے کے بالادست طبقات کے مفاد کو ہی تحفظ بخشتا ہے کیونکہ عوامی طاقت کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والے عوام کے درمیان سوچ کے اختلاف کی بنیاد پر اگر دوریاں پیدا ہوں اور پھر ہر گروہ دوسرے گروہ کے فکر کے حامل رہنما پر بےجا تنقید کرے تو اس طرزِ عمل سے معاشرے میں بالادست طبقات کے خلاف بننے والے اتحاد میں دراڑیں پیدا ہوتی ہیں، جس سے بہرحال اسی بالادست طبقے کو فائدہ حاصل ہوتا ہے لہٰذا معاشرے کے کمزور طبقات کے مفادات کے تحفظ کی جدوجہد کرنے والے ہرطرح کی سوچ وفکر کے حامل رہنما کے فیصلے اور اس کے اقدام پر شک کرنے اور اس پر تنقید کرنے کے بجائے اس کے فیصلے کو درست ہی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ہر رہنما اپنے عہد کے حالات کے مطابق درست ہی فیصلے کرتا ہے لہذا معاشرے میں بہتری کے لیے جو رہنما بھی جدوجہد کریں وہ قابل احترام ہیں ان سب ہی کی عزت کی جانی چاہیے۔
رہنما اپنی قوم کو صرف خواب ہی نہیں دکھاتا بلکہ مختلف مفادات پر مشتمل سماج میں اپنے خوابوں کو ٹوٹنے اور منتشر ہونے سے بچانے کے لیے تدبر کے ساتھ آگے بڑھنے کے راستے بھی تلاش کرتا ہے چونکہ معاشرے کے پسے ہوئے اور کمزور طبقات کے مفادات کے تحفظ کے لیے دیکھا جانے والا ہر خواب معاشرے کے بالادست طبقات کے مخصوص مفادات کے خلاف ہوتا ہے لہٰذا خواب دیکھنے والا رہنما اسے عوامی حمایت و تائید کی بدولت کامیابی حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے جبکہ دوسری جانب معاشرے کے بالادست طبقات ایسے رہنماؤں پر شرمناک الزامات تک عائد کرواتے ہیں تاکہ انہیں معاشرے میں تنہائی کا شکار کر کے ان کی مقبولیت کو کم کر سکیں، انہیں معاشرے میں باغی یا غدار قرار دے کر کڑی تنقید اور سزا کا حق دار ٹہرائیں۔ پھر اس کے بعد انہیں پورے سماج کے لیے نشان عبرت بنادینے جیسے اقدامات سے بھی گریز نہ کریں۔
مدبر رہنما ایسے طبقاتی سماج میں کسی طرح کے بھی تصادم کی صورتحال سے بچتے ہوئے اپنی سوچ وفکر کی عوامی تائید میں اضافہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ معاشرتی و سماجی ارتقاء کے مراحل کو خوش اسلوبی کے ساتھ آگے بڑھانے کے اسی عمل کو سیاست کہتے ہیں۔
سیاست کا مقصد معاشرے سے اپنی سوچ وفکر کو درست تسلیم کروانے کے لیے سخت گیر رویہ اختیار کرنا اور سولی چڑھ کر معاشرے میں امر ہو جانا نہیں ہوتا اور نہ ہی سیاست اپنے چاہنے والوں کو منزل تک پہنچانے کے بجائے اپنی پوجا کرنے کے لیے مزار دینے کا نام ہے بلکہ سیاست در حقیقت کبھی دو قدم پیچھے ہٹ کر دس قدم آگے بڑھنے اور کبھی دس قدم پیچھے ہٹ کر اپنی کامیابی کے لیے کچھ وقت انتظار کر کے فیصلہ کن مرحلے پر کئی سو قدم آگے بڑھ کر کامیابی حاصل کرنے لینے کا نام ہے۔ سیاست اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کئے بغیر، اپنے خوابوں اور اپنی فکر کے مطابق ریاست کو جدید خطوط پر تشکیل دینے کے ضمن میں طے شدہ احداف کو حاصل کرنے کے لیے حکمت، تدبر اور لچکدار رویہ کے ساتھ زندہ رہ کر بند در کھولنے کے امکانات پیدا کرنے کا نام ہے۔
لہذا جو رہنما اپنے عہد کے معروضی حالات کے مطابق غیر لچکدار، سخت گیر رویے کے ساتھ پھانسی کے پھندے کو بہادری سے چوم کر تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں وہ بالکل ٹھیک اور درست ہوتے ہیں، اسی طرح وہ رہنما جو دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے بند در کھول کر معاشرے کی بہتری کے خواب کی تعبیر پانے کی سبیل پیدا کرتے ہیں وہ بھی ٹھیک اور درست ہوتے ہیں، دونوں ہی قابل تعظیم ہوتے ہیں ۔ان دونوں ہی فکر اور طرزِ عمل کے حامل رہنماؤں کی جدوجہد اور ان کا کردار معاشرے کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔