21 جون 2020 ءکو پیش ہونے والا صوبہ بلوچستان کے کرونا وائرس سے متا ثرہ مالی سال 2020,ء،21ء کے لئے صوبائی اسمبلی سے منظور شدہ بجٹ پر دو انتہائی متضاد آرا ء سامنے آئیں تھیں، بلوچستان کے وزیر اعلی جناب میر جام کمال خان نے اور ان کے اتحادیوں اے این پی،ایچ ڈی پی،بی این پی عوامی،پاکستان تحریک انصاف،جمہوری وطن پارٹی ،اور سیول و ملٹری بیروکریسی سمیت میڈیا نے اس بجٹ کو عوام دوست اور انتہائی مفید و مثبت اور بہترین قرار دیا تھا جبکہ صوبائی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن جماعتوں جس میں جے یو آئی،بی این پی،پشتون خواہ میپ نے اسے یکسر مسترد کرتے ہوئے عدالت عالیہ ، ہائی کورٹ میں اسے چیلنج کیا جبکہ نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ نون،پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے اسمبلی سے باہر تنقید کے تیر برسائے ،
بجٹ کیا ہے ، کیا اس کے مثبت نتائج عوام اور خواص ، مرد وخواتین ، بچے و جوانوں، ملازمین اور کرونا وائرس کی زبان میں انتہائی مفلوک الحال افراد دیہاڑی دار، جو روز کمانے کے لئے روز صبح نکلتے ہیں، ان سب کے لئے ممکنہ طور پر مالی خوشحالی ،ارزانی ، مناسب قیمتیں اور بنیادی ضروریات زندگی، صاف پانی ،متوازن خوراک، علاج اور تعلیم کی ضروریات، کا دستیاب ہونے کے انتظام کے طریق کار کا نام بجٹ ہیں یا مشکل سے مشکل الفاظ کے ہیر پھیر میں عوام کے ٹیکس سے جمع شدہ رقم، عوامی آمدنی اور ملکی و غیر ملکی فنڈز،قرضے اور عطیات کے مد میں آنے والے رقوم کو سیاسی چالاکی، بیروکریسی کے ضابطوں،میڈیا کے خوشنما بیانات اور اقتدار میں موجود سیاسی جماعتوں و اشرافیہ مع ملٹری بیوروکریسی کے اشتراک سے عوام وخواص کے مفادات کے تحفظ کے بجائے اپنی مرضی کے ترجیحات مقرر کرکے وسائل کا خرچ کرنا اور عملاً ضیاع کا نام بجٹ رکھا ہیں، ہم بحیثیت مجموعی کس درجے میں شامل ہونا چاہتے ہیں،ہمیں بجٹ کے اس بنیادی تصورات اور پیمانے سے دلچسپی ہیں آج جب دنیا عالمی طور پر ایک انتہائی خوفناک اور موذی وائرس کرونا،غربت اور معاشی کمزوری کی وجہ سےغریب ممالک اور کمزور اقوام کےعوام کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا ہیں جس نے ہمارے معاشرے کے غربت زدہ علاقوں کے ننگ و عار کو عیاں کیا ہیں اور انتظامی کمزوری کو بے نقاب کر دیا گیا ہے حالانکہ غربت و بد انتظامی کے ساتھ پہلے بھی ہماری سوسائٹی آشنا رہی ہیں پاکستان سمیت بلوچستان بھی قریب کے دنوں میں اس عالمی آفت اور زمینوں و فصلوں پر ٹڈی دل کے عذاب سے بھی دوچار رہا ہے زراعت پر ہمارے دیہاتی زندگی کا انحصار ہے زرعی پیداوار کو بڑھانے کے اقدامات ہونے کے بجائے ہمارے حکمرانوں کے کرتوت زمینداروں کو مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے عذاب کے حوالے کرچکے ہیں وہی صوبے کے اندر دسمبر 2019 میں سردیوں کی تعطیلات اور سالانہ چھٹیوں کے لئےبند کیے گئے اسکول ، مدارس، کالجوں اور یونیورسٹیز سمیت ٹیکنیکل ادارے اور ہنرمندی اور تعلیم سکھانے کے تمام چھوٹے بڑے مراکز اب تک بند ہیں اور لاک ڈاؤن کے پابندیوں کے خاتمے تک چھوٹے بڑے کاروباری اداروں اور انجمنوں کے کام بھی بند پڑے ہیں ،اس طرح بیک وقت معاشی، سماجی، تعلیمی، ثقافتی اور ہنرمندی کے مراکز کے ساتھ کھیل کود اور تفریح کے تمام پارکس اور کھلے مقامات بھی بند پڑے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ احساس زندہ ہو جاتا کہ بجٹ سے عوام کے چھوٹے بڑے معاشی ذرائع جو ابھی منقطع ہو چکے ہیں منظور شدہ صوبائی بجٹ سے ہی ان کا تعلق و بحالی ہے صوبے کے ڈیڑھ کروڑ عوام کا موسی خیل سے لے سوئی تک اور ماشکیل سے لورالائی تک اور گوادر سے لے کر ڈیرہ بگٹی اور کوہلوو چمن تک لاکھوں انسانوں کا معاش،تعلیم روزگار ،خوشی و غمی کا تقدیر بجٹ ،معاشی پالیسیوں اور طرزِ حکمرانی و طرز زندگی سے وابستہ ہیں اس پہلو سے بجٹ کی تفصیل وگہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آیا ہمارے سیاستدانوں، بیورو کریسی، میڈیا، عدلیہ،معاشی فلسفوں اور قبائلی و مذہبی نظام کے سائے تلے وسائل کی تقسیم کا فارمولا اور طریقہ کار انسانوں کے لیے لیے کارآمد ہے یا زحمت اور تکالیف سے پر ہیں،،،
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1970ء میں بننے والے صوبہ بلوچستان کا پہلا بجٹ71ء میں پیش ہوا وہ صرف پندرہ کروڑ روپے کا تھا اور 2020 ،ء21 ءکا بجٹ کروڑوں اربوں روپے سے بڑھ کر کھربوں روپے تک معاملہ جا پہنچا ہے جبکہ عوام کی حالت زار بنیادی اہمیت کے حامل ضروریات، کوالٹی ایجوکیشن ،صحت کے بنیادی ضروریاتِ کی فراہمی،صاف پانی، روزگار کے لئے لیے مواقع اور لمحہ موجود کے مطابق ہنر و اسکل ناپید ہیں آج پرائمری تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک صوبے کے تمام اداروں کا معیار زوال کا شکار ہیں،تعلیم جیسی بنیادی ضرورت ،جس کی کمی کے باعث آج دور جدید میں بلوچستان جیسے ساحلی اہمیت رکھنے والے صوبہ، اور انتہائی اہم ذخائر سے مالامال صوبے میں ،جہاں سونے و چاندی کے ذخائر،کرومائیٹ،کوئلہ،گیس و تیل کے ذخائر پچھلے ایک عشرے سے نہیں بلکہ ایک صدی سے ناممکنہ طور پر نا قابل رسائی رہے ہیں اور کتنے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اس کے دعوے کیے اور بیورو کریسی کے بنے ہوئے پی ایس ڈی پی او ر بجٹ میں ان وعدوں کے لئے وافر رقومات رکھے گئے تھے لیکن آج حال یہ ہے کہ 21 ویں صدی میں رہتے ہوئے ہمیں سونا وگیس نکالنے کے لئے اور ساحل سمندر کو آباد کرنے کے لئے ہنر و ٹیکنالوجی اور وسائل کے لئے دوسروں کے محتاج ہیں ،،تعلیم حاصل کرنے کے باوجود صوبے کے تمام جامعات ،ڈگری کالجز، ہائی سکول اور پرائمری اسکول سمیت مدارس ملک بھر کے تمام کے تمام ادارے ایک لحاظ سے ناکارہ تصور کئے جاتے ہیں چونکہ وہ مطلوبہ اسکلز اور ہنرمندی پیدا نہیں کر رہے ہیں۔
بجٹ کا سب سے اہم اور دلچسپ پہلو عوامی زندگی میں اس کے اثرات ناپنے ،اخذ کرنے اور عوامی خوشحالی کا تجزیہ کرنا ہے بلوچستان میں بنیادی تصورات اور وسائل حیات کی کمی ایسا مشکل امر ہے جسے سمجھے بغیر ترقی و خوشحالی کا دارومدار ایسا ہی خواب ہے جیسے ایک ہی جست میں چائنا و ملائشیا اور ایران و ترکی کی طرح ترقی یافتہ ہونے کا خیال و خواب پانا ہیں اس خواہش و آرزو کے لئے بجٹ و معاشی پالیسیوں میں بنیادی تصورات و نظریات کے ساتھ وسائل کی تقسیم کار اور ترجیحات میں جوہری تبدیلی لانے کی ضرورت ہیں، صوبائی بجٹ کی ہیت ترکیںی کو بنیادی طور پر چار حصوں میں تقسیم کی گئی ہے جس میں جاری و انتظامی اخراجات سب سے پہلا نمبر ہے جس پر بجٹ کا سب سے زیادہ رقم و حصہ خرچ ہوتا ہے گویا انتظامی تقسیم در تقسیم کے باعث پچھلے چھ سات دہائیوں میں وفاق اور صوبوں میں انتظامی اختیارات اور فرائض کے گورکھ دھندے کے نام پر ایک انتہائی خوفناک اور نقصان دہ مافیاز بن چکے ہیں جنہیں اب آسانی سے ہلانا ممکن نہیں ہیں،حالانکہ ریاست پاکستان میں اس انتظامی مشینری کا اولین آئینی کام عوام کے لئے سہولیات و تحفظ کی مستقل اور محفوظ فراہمی ہی ہیں جبکہ اب عملاً یہ انتظامی مشینری یعنی بیروکریسی سب کچھ اپنے لئے چاہتے ہیں، جو ہمارے ان نادان دوستوں کے ہڑتالوں اور رویوں سے عیاں ہیں،
دوسرا حصہ بجٹ کا آمدنی اور ریونیو یعنی وسائل بڑھانے کے لئے اقدامات پر مشتمل ہے جو زیادہ قابل رشک نہیں ہے،
تیسرے حصے میں امدادی و فلاحی اقدامات عوام الناس کے لئے ہوتے ہیں مگر بلوچستان کے بجٹ میں اس کا ناقص حالت زار درج کیا گیا ہے،،جبکہ چھوتے حصےمیں مالی سال کے تخمینے و موازنے کی تفصیل درج ہیں۔ بجٹ کے پہلے اور بنیادی حصے میں دو تصورات یا پیمانے ہیں۔ ترقیاتی اخراجات اور غیر ترقیاتی اخراجات،،،ان مدات میں پہلا نمبر صحت کا ہے جو یقینی طور پر حالات کے پیش نظر مناسب ترجیح قرار پائی ہے ہمیں اس موقع پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیےکہ کچھ سال پہلے امن عامہ کے لیے لیے سب سے زیادہ وسائل جاتے تھے اور آج امن وامان آٹھویں نمبر پر درج ہے،صحت ہر انسان کی زندگی میں سب سے اہمیت کا حامل شعبہ ہے اگرچہ صحتِ عامہ کے بجٹ کی تفصیل صوبے کے وسائل میں سے سب سے اہم حصہ دیا گیا ہے مگر مائنڈ سیٹ کی تبدیلی ،سماجی اور ثقافتی رویوں کی تبدیلی سب سے اہم قرار پاتی ہیں مگر اس بنیادی توجہ و تصور کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہےاور اسے اپنے مدد آپ کے تحت ایک فرد کے طور پر اس کےجسمانی صحت کی خودکفالت و نگرانی کا کام مختص کرنا ہے لیکن جو مروجہ اس وقت کا نظام ہے اسے اس میں سے ممکنہ طور پر بہتری لانے کے لئے لیے کچھ نسخے اور کچھ شفا کے لیے پوری کی پوری شعبے کی اورہالنگ کی ضرورت ہیں،،،
مالی سال/22 21ء کے بجٹ میں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ صحت پر ایک ایسی جامعہ پالیسی ،وسیع البنیاد مکالمہ کی بنیاد پر اختیار کی جائے جس سے سے مستقبل قریب اور بعید میں میں عوام کے اندر شعور و آگاہی کے یقینی تصورات اجاگر ہو اور صحت کے نام پر جو مشکلات سوسائٹی کو اس وقت درپیش ہیں اسے کم کرنے کے لیے فطری روحانی و اخلاقی علاج اور ترجیحات و اصلاحات زیادہ قابل ترجیح قرار پائے اور ضروری طبی امداد و علاج کے لئے مختص وسائل عوام کے لئے ممکنہ طور پر قابل رسائی پاسکیں،،،اس بنیادی اور جوہری تبدیلی کے بغیر سماجی ذہنیت اور صحت عامہ کے مسائل پر قابو پانے میں کامیابی ممکن نہیں ہیں،،، صحت کی صوبائی وزرات وزیر اعلیٰ بلوچستان کے پاس ہے ، صوبائی پارلیمانی سیکرٹری کے طور پر باوقار و ذہین خاتون ڈاکٹر ربابہ بلیدی صاحبہ اور سیکٹری صحت کے طور پر محنتی و باعتماد بیوروکریٹ جناب نورالحق بلوچ صاحب اپنے پورے ٹیم کے ساتھ موجود ہیں جنھیں ورکنگ سٹائل و فکری ارتقاء کی طرف قدم بڑھانے کی ضرورت ہے،،
بجٹ میں دوسری اہم ترجیح زراعت/ایگریکلچر قرار پائی ہے
زراعت کی ترقی میں ہمارے صوبے کے 60 سے 70 فیصد دیہی زندگی کا انحصار ہے بلاشبہ بہت اہم تبدیلیاں معاشی زندگی میں وسیع تر صوبے کے کے پہلے ہوئی آبادی میں زراعت، خوراک ،دیہی ترقی اور محنت و افرادی قوت کے وسائل اور منصوبے کو حاصل ہونا چاہیے،
اپنے زراعت و زمیندار کو لمحہ موجود کے ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی سے ہم آہنگ نہ کرنا ایک المیہ ہے جب تک معاشی خوشحالی اور عوام کے فلاح و بہبود کا واضح وژن اور سوچ وعملی اقدامات کے ساتھ ہمارے سیاستدانوں، سیاسی پارٹیوں ، بیرو کریسی اور عمل درآمد کرنے والے میکنزم کے ذریعے اسے ترجیح اول قرار نہیں پائے گی تب تک اس ذہنی تقسیمات اور عملی مشکلات کے باعث وسائل کا ضیاع یقینی ہیں،، زرعی پالیسی باہمی مشاورت و دانش مندی سے لانے کی ضرورت ہےمعاشرتی اور ضروریات زندگی پر مشتمل بنیادی شعبہ جات کی ازسرنو تشکیل اور اکیسویں صدی کے زندگی میں ان کی اہمیت کے باعث پہلے مرحلے میں پالیسی میکرز ز سینئر بیوروکریٹس اور سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز اور میڈیا کے نمائندوں کو اس پر ضروری ذہن سازی اور آئیڈیاز کو اخذ کرنے کا کام شروع کر دینا چاہیے اس لیے کہ کرونا وائرس کے بعد بیالوجیکل وار ز کے اندر ضروریات زندگی کی فراہمی میں اور ذہنی و جسمانی اور معاشرتی طور پر سوسائٹی کو زندہ رکھنا اب ہمارے انیسویں اور بیسویں صدی کے کمزور اسٹرکچر کے بس میں نہیں ہیں،،
صوبائی بجٹ میں تعلیم تیسرے اور چوتھے نمبر پر
ترجیح قرار پائی ہے جسے کالجز ہائر وٹیکنیکل ایجوکیشن اور ثانوی تعلیم و سیکنڈری ایجوکیشن کے ناموں سے تعبیر کیا گیا ہے جب کہ ہمارے صوبے اور معاشرے کی بنیادی ضرورت کوالٹی ایجوکیشن ، پری اور پرائمری سطح پر عالمی معیار کے تعلیمی نظام کا احیاءو قیام سب سے اہم تر ہیں ٹیکنالوجی اور جدید تصورات کے مطابق نظام تعلیم کی تشکیل نو اور وژن و منصوبہ بجٹ کا خاصا نہیں قرار پایا ہیں اگرچہ صوبائی بجٹ میں توانائی ، سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی الگ سے بھی عنوانات قرار پائے ہیں لیکن تعلیم کے مد میں نئی دنیا کے تصورات اور میکنزم کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا ،
ہائر ایجوکیشن یعنی اعلیٰ تعلیم ٹیکنیکل ایجوکیشن یعنی ہنرمندی کا پروگرام اور ثانوی تعلیم یعنی پری و پرائمری اسکولنگ کے بھاری بھرکم بوجھ کے ساتھ اٹھارویں ترمیم کے بعد یونیورسٹیز اور جامعات کا نہایت ہی اہم ہدف اور یقنی طور بھاری بھراور بھرپور ورکنگ صوبے کے سر پر آن پڑا ہے بلوچستان میں اب تک ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تشکیل سے ضرورت کے باوجود اعراض کیا جا رہا ہے بلوچستان کے پس منظر میں بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے معاملات بھی ابھی پوری روح اور سنجیدگی کے ساتھ نہیں چل پا رہےہیں اور نہ ہی جامعات و دیگر اداروں کے ضروریات و مقتضیات ایڈریس کئے جاتے ہیں بلوچستان یونیورسٹی کی حالیہ مالی بحران اور احتجاج و قانون سازی کے ناقص حالت زار کے باعث وقت و صلاحیتوں کا ضیاع ہورہا ہے،تعلیم کے دنیا میں نئے تصورات، ذہن سازی اور عملی دنیا کے لئے اکیسویں صدی کے بنیادی ضروریات پیش نظر رکھنے کے بجائےصوبائی بجٹ میں تعمیرات ،سروس سٹرکچر اور پیچھلے صدی کے انداز و اطوار کے مطابق پرائمری تعلیم،ثانوی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے لئے کچھوے کے رفتار سے پیش رفت ممکن بنانے کی کوشش اور ترجیحات قرار پائے ہیں،ٹیکنالوجی ، انٹرنیٹ اور نئی دنیا کی سائنسی اور علمی رویے کی تشکیل کے لئے صوبائی بجٹ میں بنیادی تصوراتی ڈھانچہ کی تشکیل اور وسائل کا مختص کرنا شاید خواب ہی ہے ،،خوراک کے لیے صوبائی بجٹ میں بلا سود قرضوں کی خوبصورت تصویر کشی کی گئی بلاشبہ سودی نظام نے ہمیں انتہائی نقصانات دئیے ہیں صوبائی بجٹ میں سود کی وصولی اور اس سود پر کی ادائیگی اور خساروں کی تفصیل نہیں دی گئی تھی اور نہیں معلوم کہ سال 20/21ء میں صوبائی حکومت نے سودی قرضوں کی ادائیگی کے لئے کتنی رقوم خرچ کئے ہیں،،، وفاقی بجٹ میں 3 ہزارارب روپے سے زائد رقم سود کی مد میں ادا کی جاتی ہے ،،صوبائی بجٹ دستاویزات اس حوالے سے مکمل خاموش ہے،
لوکل گورنمنٹ بلدیاتی نظام دیہی ترقی کے پورے نظام کو ازسرنو تشکیل اور عوام دوست بنانے کی ضرورت ہے،دینا بھر میں اچھی طرز حکمرانی اور مثالی معاشرے کی تشکیل نو میں جدید بلدیاتی نظام کا اہم حصہ بن رہا ہیں،،بلوچستان میں قبائلی جاگیردارانہ اشرافیہ کے زیر اثر ونفوذ کے باعث پچھلے نصف صدی سے زائد عرصے میں شہریوں کی ضروریات اور خواہشات کے مطابق پرائمری بلدیاتی نظام، دیہی ترقی اور شہری بستیوں کے باسیوں کی ترقی و خوشحالی اولین ترجیح قرار نہیں پائی ہیں،،
مواصلات و تعمیرات میں،، ڈیزائن سیل ،، کے قائم کرنے کی نوید سنائی گئی تھی لیکن ڈیزائن بنانے کے لیے پرائیویٹ اداروں کی خدمات حاصل کرنے کی پالیسی متعارف کرائی گئی ہے جو اس امر کا کھلا اعتراف ہے کہ حکومتی سطح پر وسائل خرچ ہونے کے باوجود تکنیکی طور پر ابھی تک حکومت کے ادارے کمزوری کے شکار ہیں
سیکرٹریٹ میں نئے بلاک ، سمارٹ بلڈنگ اور بیبی ڈیے کیئرسینٹر کیلئے 395 ملین روپے مختص کیے گئے تھے کیا بڑے بڑے بلڈنگ بنانے کے بجائے ای گورنمنٹ پالیسی زیادہ سے زیادہ کارگر اور وقت اور حالات کے ذرائع کے مطابق بہتر نہیں ہے
صوبائی بجٹ میں بہت مناسب قدم کے طور پر امن و امان کے حوالے سے آٹھویں نمبر پر ترجیح قرار پائی ہے اگرچہ اس میں پولیس، بی سی اور لیویز کے لیے دو ہزار ملین روپیے مختص کی گئی ہیں جبکہ ایف سی،کھوسٹ گارڈ،کسٹم اور بہت سارے وفاقی اداروں کی ہم نے امان و امان کے قیام کے لئے خدمات حاصل کی ہیں
اچھی طرز حکمرانی کے لیے پر امن ماحول کی تشکیل اولین ضرورت ہے جس پر توجہ اور اس کے دائرے کو عوام دوست بنانے،عوام و خواص دونوں کی جان ومال کی حفاظت کے ساتھ عزت نفس مجروح کئے بغیر سماجی ذہنیت کی تبدیلی اور سائنسی دنیا کی تشکیل ممکن نہیں ہوتا،حفاظتی اداروں کی پالیسی تشکیل سے متعلق نئے ذرائع ابلاغ کے مطابق ریاست پاکستان کی بقاء و سلامتی کے ساتھ عوام کی اکثریت کا تعلق بہتر معاشی رویے کی بنیاد پر ہی ریاست دوست بنیادی تصورات کے ساتھ جڑا جاسکتا ہے حفاظتی اداروں کے آفیسران اور انتظامی اختیارات کی تقسیم کار مربوط اور منظم کرنے کی کوشش اور ترجیحات مقرر کرنے کی ضرورت ہے
بجٹ میں نویں اور دسویں نمبر پر آبپاشی اور آبنوشی،ایریگیشن اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے محکموں اور ان کے خدمات وخطیر رقومات مختص کرنے کا ذکر خیر شامل تھا، زراعت،مالداری، اور ضروریات زندگی کے لیے پانی کا جمع کرنا ،پھر اس کا بہتر استعمال اس وقت ایک عالمی چیلنج ہے،
,,,پانی ہی زندگی ہے،، اس سلوگن کے تحت اب عملی اقدامات اور معاشرتی رویوں کی تشکیل نو سب سے بڑا اور اہم ترین ہدف ہے جب کہ ہمارا مشکل یہ ہے کہ دونوں محکمہ اہمیت کے باوجود اس وقت بھی پرانے اسٹرکچر اور تصورات پر ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کر رہےہیں بیسویں صدی اور انگریزی راج کے قوانین اب عملاً ممکن العمل نہیں ہیں ،صوبائی بجٹ میں معلومات عامہ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے متعلق نئے ذرائع اختیار کرنے کی نوید سنائی گئی تھی میڈیا اور معلومات عامہ کا شعبہ دنیا میں جس تخلیق و جدت کا حامل ہو رہا ہے اس حوالے سے بنیادی پالیسی متعارف کرانے کی ضرورت ہے کیونکہ تصورات زندگی اور آج روئیے و عملی طور پر زندگیوں کی تعبیر و تشریح اس وقت عملاً ان فارمیشن ٹیکنالوجی ، میڈیا چینلز، سوشل میڈیا کے وسیع تر تیز رفتار ذرائع اور اخبارات کے ذریعے ہو پا رہی ہیں
ہم اکیسویں صدی کے نصف اور بائیسویں صدی کے آغاز پر پر معاشرتی طرز زندگی کس انداز و اطوار کے ساتھ چا ہتے ہیں ، اس کا تصوراتی اور عملی خاکہ نگاری اور فکری و نظریاتی اساس کی تشکیل نو،اب قبائلی نظام،جمود زدہ روایات اور مذہب و مسلک کے غیر مسلم علمی وسائنسی محاکمے کے بجائے اب انفارمیشن سسٹم و ابلاغ عامہ کے نئے ذرائع اختیار کرنے کے ساتھ ہی ممکن العمل ہو سکتا ہے،،،
صوبائی بجٹ میں مائینر اور معدنی وسائل کے متعلق پورا چیپٹر ہے جس میں یہ خوش کن خبر بھی موجود تھی کہ لاک ڈاؤن اور پابندیوں کے باوجود دو ارب 50 کروڑ روپے کی آمدنی اس شعبے کے ذریعے محاصل میں جمع ہوئی ہے لیکن معدنیات کے لیے ایک وسیع اور بنیادی فریم ورک کی تشکیل اس بجٹ کا بنیادی فریم ورک ہونا چاہیے تھا جس کے نہ ہونے کے باعث ہم پچھلے نصف صدی سے زائد عرصے میں سوئی سدرن گیس اورریکوڈک ،سیندک، ساحلی علاقوں کی دیرینہ ترقیاتی منصوبوں،ماربل،کوئلہ، اور اس جیسے بنیادی نوعیت کے نعمتوں کے باوجود عملی مسائل سے وفاق اور عالمی دنیا کے ساتھ مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں معدنیات قدرت کا ایک انمول تحفہ اور آج کی دینا میں جینے کا سلیقہ بھی ہیں، لیکن ہمارے بدقسمتی و نااہلی سے ان مادی و معدنی وسائل سے استفادہ نہیں کر سکتے ہیں چونکہ بنیادی اسکیل و ہنر ہی ناپید ہے سونے،چاندی،ساحل اور تیل وگیس کے نعمتوں سے مالا مال علاقے آج بھی بنیادی تعلیم اور زندگی کے بنیادی ضروریات سے محروم ہونے کے باعث سونا ،چاندی، گیس، کرومائٹ، کوئلہ اور دیگر قیمتی معدنیات نکالنے کے لئے اور اسے استعمال کے قابل بنانے کے جوہر سے محروم چلے آرہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم معدنیات اور علم جدید کے متعلق پالیسی کا ازسرنو جائزہ لے کر تشکیل نو کی جائے اور بنیادیں اسکلز اور صلاحیت پیدا کرنے کے لئے اعلیٰ تعلیم کے مواقع پیدا کیے جائیں اور فی الفور اس کے لئے بنیادی نوعیت کی منصوبہ بندی شروع کی جائے،کیا 1998ء،97ء میں چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکوں کے ساتھ اگر سائنس اور ٹیکنالوجی کی وسعت وتعلیم کے حوالے سے بھی صوبے کے نوجوانوں اور بچوں کے لئے سوچا جاتا اور عوام کی بہبود و ترقی کے لئے ورکنگ گروپ تشکیل دیا جاتا تو آج وقت گزرنے کے ساتھ یہ صوبہ بہت بہتر حالت میں ہوتا،،،،اکیسویں صدی کے وسط یعنی 2050ء تک صوبے کی معیشت و معاشرت بہتر نہیں ہوپاتی تو انسانی زندگی کے دوڑ میں شامل ہونے کی بنیادی تصورات سے ناآشنا قومی قیادت،سیاہ و سفید کے مالک بیروکریسی اور تیز رفتار میڈیا کے ساتھ قبائلی و مذہبی لیڈرز اس کی ذمہ دار ہونگے ،،یہی صورتحال ماہیگیری یعنی فشیریز کا ہے بلوچستان کے خوبصورت ساحل و سیاحت کے کثیر مواقع پانے کے باوجود اور بے پناہ فطری حسن کے باوجود محرومی اور غفلت کا شکار رہا ہے،سمندری علوم اور بے پناہ فطری مواقع سے ہم بحیثیت معاشرہ اور ریاست کے مقتدرہ کب استفادے کا راستہ اختیار کرتے ہیں یہ ہمارے معاشرتی زندگی میں ترقیاتی اپروچ کا پہلا قدم ہوگا
صوبائی بجٹ میں توانائی ، ماحول اور ماحولیاتی تبدیلی ، کلائمٹ چینج کے لیے بھی تصورات تشکیل پانے اور وسائل مختص کرنے کی بات کی گئی تھی توانائی کے مد میں ترقیاتی مد میں 2.5 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 6851 بلین روپے رکھے گئے تھے یہی صورتحال ما حول اور ماحولیاتی تبدیلی کے منصوبے و محکمے کا ہیں،
ماحولیاتی تبدیلی پر کرونا وائرس کی موجودگی میں پاکستان کے ممتاز ترین دانشور جناب احمد جاوید کے نکتہ نظر کو بنیادی تصورات اور راہنمائی کے لیے درج کیا جارہا ہے وہ کہتے ہیں کہ
,,,ماحولیات کے ساتھ ظالمانہ رویہ اس وقت عالمی سطح پر اختیار کیا ہوا ہے ، بہت سے لوگوں کی رائے یہ ہے کہ کرونا وائرس بھی اس کا ایک نتیجہ ہے ،بہرحال حقیقت حال جو بھی ہو خاص طور پر ہم جیسے معاشروں میں ،اب عالمگیر سطح پر ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے، ماحول کی صفائی کے حوالے سے ایک احساس ذمہ داری پیدا ہو سکتی ہے ،
اللہ کے ہاں یہاں پاکیزگی اور صفائی کا ہر تصور تزکیہ نفس سے مشروط ہے جو بدنصیب لوگ باطن کی صفائی کا سارا سامان رکھنے کے باوجود خود اس کی طرف متوجہ نہیں ہے وہ باہر کی دنیا کی صفائی کا کیا خیال رکھتے ہوں گے ،
ہو سکتا ہے کہ ہمارے مدارس میں بھی ہمارے دینی تعلیم کے نظام میں بھی ماحولیات ایک مستقل مضمون کے طور پر پڑھایا جانے لگے ، یاد رہے کہ اہل ایمان کی انفرادی ذمہ داری تزکیہ نفس ہے ، جب کہ اہل ایمان کی اجتماعی ذمہ داری تزکیہ دنیا ہے یعنی دنیا کو صاف و شفاف رکھنا ،ہدایت کے معنی میں بھی اور تخلیق کے اندر چھپی ہوئی روشنی اور شفاف پن کے احیاء کے معنی میں بھی ہے ، اللہ کی ہدایت بھی پاکیزگی کے مظاہر کے ساتھ رہنی چاہیے اور اللہ کی تخلیق بھی پاکیزگی کے ماحول میں ہونی چاہیے ، اللہ کرے کہ یہ ماحولیاتی صفائی کا مضمون ہمارے ہاں ایک مذہبی مضمون کی حیثیت حاصل کر لے”
ہمارے معاشرے میں ایک بنیادی مشکل مذہب اسلام کے متعلق ابہام اور شک و شبہ کا پیدا ہونا ہیں جسکی تصدیق اور ازالے میں ہم بحیثیت ریاست و معاشرہ کوتاہی کرتے آرہے ہیں، ”
امور حیوانات لائیوسٹاک صوبائی بجٹ میں سہولویں نمبر پر ترجیح قرار پائی تھی جو یقینی طور پر نظر انداز ہونے کی نشان دہی کرتی ہے اگرچہ ادویات کے مد میں 30 ملین سے بڑھ کر تین سو ساٹھ ملین روپے کر دیا گیا تھا لیکن مجموعی طور پر حیوانات اور اس فیلڈ سے وسیع کمانے کے مواقع ہونے کے باوجود اس کی بنیاد ی ضروریات کی تشکیل اور مالداروں پر تو جہ دینے کی ضرورت ہے ، اگر چہ بجٹ پالیسی میں لائیوسٹاک کے لئے دس سالہ منصوبہ بندی کی پالیسی اختیار کرنے کی بات کی گئی جو انتہائی خوش آئند ہے،،
صوبائی بجٹ میں میں 17 اور 18 نمبر پر محنت و افرادی قوت اور صنعت و حرفت کے محکموں اور امداد کا ذکر ہے ،
لیکن سال 2020 میں کرونا وائرس کی تباہ کاریوں اور عام آدمی کے مشکلات کے باوجود اس اہم مد میں دیہاڑی دار مزدور کے لئے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی تھی اور نہ ہی صنعت و حرفت کے مد میں سی پیک، پاک چائنا اکنامک کاریڈور ،سنٹرل ایشیائی ریاستوں تک رسائی حاصل کرنے اور ان کے متعلق کوئی بات نہیں کی گئی ہیں ان دونوں محکموں کے اندر ای کامرس پالیسی اور روزگار کی فراہمی کے لیے صوبے کے نوجوانوں، تاجروں اور بنیادی روزگار کے ضرورت مند قوم کیلئے جامع پالیسی اختیار نہیں کی گئی ہے،
صوبائی بجٹ میں سماجی بہبود و تحفظ اور سوشل ویلفیئر کے سلسلے میں عوامی انڈومنٹ فنڈ کی بات کی گئی تھی ، لیکن سماجی تحفظ کے بنیادی ضروریات کے پیش نظر صحت عامہ کے لیے ضروری ہے کہ بنیادی مسائل باہر خرچ کرنے کے بجائے صوبے کے اندر موجود ادا رو ں کی اصلاح کریں اور صلاحیت میں اضافے پر توجہ دی جائے ،صوبائی بجٹ میں 20 ویں نمبر پر امور نوجوانان کے مد میں 550 ملین روپے رکھے گئے ہیں اور یہ خوشخبری شامل کی گئی تھی کہ ہر میونسپل کارپوریشن اور ہر ٹاؤن کمیٹی میں فٹبال گراؤنڈ تعمیر کیے جائیں گے، کیا پہلے سے موجود تعلیمی اداروں سے منسلک کھیل کے میدان دونوں طرف سے آباد کرنے کی طرف بھی توجہ دی جائے گی تعلیم اور محکمہ کھیلوں کا آپس میں پالیسی بنانے اور میکنزم تشکیل دینے پر مشترکہ ورکنگ ممکن العمل ہے صوبے کے اندر فٹ بال کے ساتھ ساتھ دوسرے کھیل اور تفریح کے ذرائع، خاص کر دیہاتوں کے نوجوانوں کے لیے، طالبات اور چھوٹے بچوں کے لئے کھیلوں کے مواقع پیدا کرنے کے لئے پالیسی تشکیل دینےاور وسائل مختص کرنے کی ضرورت ہیں،
بجٹ کے مدات میں سے آخری دو مدات ثقافت و سیاحت اور آثار قدیمہ کے ساتھ سائنس و انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنسی و فکری مکالمے و بیانئے کی تشکیل و تعبیر نو کے لئے لائبریریاں بناؤ نسلیں بچاؤ کے سلوگن و معنی خیزی ان تہائی اہمیت کے حامل ہیں ، ہمارے معاشرے اور حکومتی پالیسی میں آرٹ اور ثقافت کا اصطلاحی مفہوم کا پایا جانا انتہائی مشکل امر رہا ہے سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وسعت ایک مائنڈ سیٹ کی تبدیلی اور سائنسی دنیا کی تعمیر کے لئے بنیادی تصورات کے کے بڑے حصے میں تبدیلی پیدا کرنے کے لئے وسائل مختص کرنے کی ضرورت ہے، عجیب امر ہے کہ صوبے میں میں کرونا وائرس کے آفت کے باعث پچھلے پندرہ بیس مہینوں سے چھوٹے بڑے ہر سطح کے تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں اور پاکستان اور دنیا بھر کی طرح آن لائن یا ورچول کلاسز کی بازگشت صوبے کے بڑے شہر کوئٹہ اور دور دراز دیہاتوں علاقوں میں بطور فریاد سنی جاتی ہے اور طلبہ و طالبات انٹرنیٹ اور نئی ٹیکنالوجی کی کمی کے باعث سراپا احتجاج ہیں لیکن مخلوط صوبائی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں ، بیروکریسی اور مقتدرہ نے چھپ سادھ رکھی ہے ، انٹرنیٹ کی عام نوجوانوں اور طلبہ و طالبات کے لیے فراہمی کے لئےکوئی پالیسی اور وسائل نہیں رکھے گئے ہیں ، اگرچہ فری لانسنگ، Digi Bizz اور انٹرپرینورشپ کے لیے پچاس ملین روپے رکھے گئے تھے اور ایمرجنگ ڈیجیٹل بلوچستان کے مد میں 20 ملین روپے رکھے گئے تھے لیکن ایک عام طالب علم کو بھی اس وقت پڑھنے کے لئے اور اپنے نفسیاتی اور ذہنی خوراک کے لیے انٹرنیٹ اور نئی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے ، وہ کیسے صوبائی بجٹ اور حکمرانوں کی پالیسیوں سے استفادے کا قابل ہوگا،،،
بنیادی تصور وسلوگن ، کرونا وائرس کے وبا میں بحالی اور تعمیر نو تھا، جس میں دو ہزار انیس سو بیس 2019/20ء کے بجٹ اخراجات اور کیے گئے اقدامات و کارناموں کا مختصر ذکر بھی شامل ہے،
ان 22نکات کی تفصیلی تشریح، تعبیر اور فریم ورک و مکینزم کے لیے صوبائی ترقیاتی پروگرام پی ایس ڈی پی ، دو سو چونتیس صفات پر مشتمل تفصیلی دستاویز ہے
بجٹ کے دوسرے حصے کے طور پر وسائل بڑھانے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے تھے جس میں دو بڑے بنیادی حصے وفاق سے وسائل کے حصول،این ایف سی ایوارڈ میں مضبوط پیش کیس پیش کرنے کا ذکر خیر اور معدنی وسائل و ٹیکس کی بڑھوتری شا مل تھا ،این ایف سی ایوارڈ میں مخلوط صوبائی حکومت کی ضرورت و افادیت اور کارکردگی و تجاویز کا الگ سے تفصیلی مضمون میں جائزہ پیش کیا جائے گا،
صوبائی حکومت نے جتنے بھی غلطیاں کی ہے ان غلطیوں سے سبق سیکھنے اور معاشرتی طور پر اصلاح کاری کے کلچر کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے،،صوبائی بجٹ کے تیسرے حصے میں امدادی اور فلاحی اقدامات کے عنوان سے عوام کے بجائے ملازمین مین محکموں کے لیے اصلاحات اور امداد کا ذکر تھا ، جس پر ورکنگ میکنزم بنانے اور اطمینان کے بجائے ملازمین نے کوئٹہ میں طویل و تاریخی دھرنے کے ذریعے مارچ 2021 ء میں کوئٹہ کے شہریوں سمیت پورے صوبائی حکومت کو بری طرح سے یرغمال بنایا گیا تھا آگر عدلیہ درمیان میں نہ کھودتی تو یقنی طور پر حالات خراب ہی ہوتے گویا صوبائی حکومت اپنے ہی ملازمین کو اعتماد دینے میں سنجیدگی سے ایڈریس کرنے اور جامع پالیسی مرتب کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہے، فلاحی معاشرے کے لئے یہ لازمی امر ہے ہے کہ وسائل کا ایک اہم اور معتبر حصہ متعین طور پر عام آدمی کے ضروریات پر خرچ ہونے کا تعین ہو سکیں ،جبکہ یہاں وسائل سیاست دانوں اور منصب داروں کے درمیان ہی تقسیم در تقسیم ہی ہوتے ہیں ،، ہمارے معاشی نظام مالیات، اسٹرکچر معاشی پالیسیوں اور معاشی اقدامات کا سب سے ظالمانہ رویہ یہی ہے کہ اس میں عام آدمی کے لیے لیے ایک فیصد رقم بھی مختص نہیں کیا جاتا اور جو بنیادی ضروریات کی فراہمی حکومت و ریاست کی ذمہ داری ہے ، وہ ریاست و حکومتی محکمے و مشینری پورا نہیں کر پاتے ہیں،، عام آدمی کے لیے ہمارا سیاسی و حکومتی اسٹرکچر بدانتظامی، کرپشن اور اقربا پروری ،میرٹ کی پامالی کے باعث انتہائی محدود اور ناکارہ بنا دیا گیا ہے اس لیے اصولی طور پر اس حصے کی نشاندہی بہت خوش آئند ہے لیکن اس کے پورے تصور اور ممکنہ اقدامات میں وسائل کی صحیح تقسیم ، اسراف ، کرپشن وسائل کے زیاں کے باعث سب سے اہم جمہور ی عوامی حاکمیت یا جمہور کی دنیا میں عوام کے لئے وسائل کا متعین حصہ اس کی یقینی فراہمی اور عام آدمی کے لیے اس کے استفادے کی راہیں ہموار کرنے کی ضرورت ہے،
صوبائی بجٹ 2020 21 میں بنیادی تصورات اور منصوبے ووسائل میں سے جنگلات و جنگلی حیات کے تحفظ، دستکاری، خواتین اور نوجوانوں کے بنیادی پروگرام سب سے اہم چھوٹے کاروبار کے لئے ماحول اور وسائل کی فراہمی نظر انداز کئے گئے تھے اگرچہ اخوت کے غیر سودی قرضوں کا ذکر بجٹ میں شامل تھا لیکن کرونا وائرس کے عالمی بحران کے پس منظر میں رواں اور چلتے ہوئے کاروبار و اور بڑے معاشی ذرائع کا منقطع ہونا اور بے روزگاری کے شرح میں اضافے کے باعث خود صوبے کے حدود میں نوجوانوں، طالب علموں ، خواتین ، دیہاتوں میں پیشہ ور زمینداروں، عمررسیدہ افراد اور دیہاڑی دار افراد کے لئے آسان اور سستے قرضوں کی فراہمی اور کاروبار کے سلسلے میں معاونت بجٹ کا اہم تر حصہ ہونا چاہیے تھا،،،
بجٹ میں الہامی تعلیمات کا معاشی پس منظر اور ثقافتی تناظر میں تذکیہ و دانش مندی کے فروغ کے لئے ایک لفظ تک نہیں، دراصل انسانوں کے معاشی رویے کی اصلاح انسانوں کے تجارت کے طور طریقوں کی اصلاح اور لین دین اور معاملات میں بہتری الہامی کتابوں کا ایک اہم ہدف رہا ہے اور قرآن کریم کے بہت اہداف میں سے ایک بنیادی ہدف ہے،، قرآن مجید نے جہاں جہاں مختلف پیغمبروں کی قوموں اور ان کے مسائل و وسائل کا خلاصہ بیان کیا ہے اس کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرے کی اصلاح اور تجارت اور معیشت کی پاکیزگی اور تطہیر آ سمانی شریعت کے مقاصد میں اہم ہدف رہا ہے،بیسویں صدی کے معروف مفکر اور جید عالم ڈاکٹر محمود احمد غازی نے,, محاضرات سیریز معیشت و تجارت،،، میں ایک بہت بنیادی تصور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
“” اسراف اور تبذیر کا دولت سے بڑا گہرا تعلق ہے جب دولت بہت بہتات کے ساتھ کسی فرد یا طبقہ کے پاس آتی ہے تو اسراف اور تبذیر کے رویے پیدا ہو ہی جاتے ہیں،(یہاں افراد اور حکومت دونوں مراد ہیں) اسراف سے مراد یہ ہے کہ جائز کام میں ضرورت سے زیادہ خرچ کیا جائے ، مثال کے طور پر بچے کی شادی کرنی ہے جتنی رقم میں اس زمانے،اس دور یا اس علاقے کے لحاظ سے شادی کے اخراجات پورے کیے جا سکتے ہوں اس سے زیادہ رقم آپ خرچ کریں،دولت کا مظاہرہ کرنے کے لئے،اپنی سخاوت کا ڈنکا بجوانے کے لئے، ایک کی جگہ دو دو کی جگہ چار خرچ کریں یہ اسراف ہے (یہی رویہ ارباب اختیار و اقتدار میں آنے والے حکمران بھی رکھتے ہیں)
تبذیر یہ ہے کہ ناجائز کام میں دولت کو خرچ کیا جائے ناجائز کام میں ایک پیسہ بھی خرچ کیا جائے گا تو وہ تبذیرہوگا ،جائز کام میں حدود کے مطابق ایک لاکھ روپے بھی خرچ کریں گے تو شاید اسراف کے حدود میں نہیں آئے گا اسراف کا تعلق بہت حد تک زمانے کے معیار اور عرف سے ہوتا ہے ،جس زمانے کا جو عرف یعنی روایت ہے، جس علاقے کا جو معاشی معیار ہے جس علاقے کی جو سطح ہے اس سطح کے حساب سےاسراف کا تعین ہوگا، پیچھے رہ جانے والے طبقے یا علاقے میں اسراف کا معیار اور ہوگا ،ایک ترقی یافتہ ملک میں اگر مسلمان ہوں، ان کے لئے اسراف کا معیار اور ہوگا، ایک ایسے علاقے میں جہاں لوگ ائرکنڈیشن کے عادی ہوں پورے گھر کو ائرکنڈیشن کر لینا اسراف نہیں سمجھا جائے گا لیکن برصغیر کے کسی ایسے گاؤں یا دیہات میں جہاں موسم معتدل رہتا ہوں اور بجلی بھی مشکل سے ہی پہنچتی ہو ایرکنڈیشن کا اہتمام کرنا اور پورے گھر کو ٹھنڈا کر لینا اسراف سمجھا جائے گا،،،
یہی معاملہ اقوام اور تہذیبوں و حکومتوں کے متعلق بھی جانچا جاتا ہے،ہماری اچھی و بری دونوں طرح کی حکمرانی کرنے والوں نے ابھی اس اہم معاملے میں ہدف واختیار کو اخذ ہی نہیں کیا ہے ابھی نتائج و ثمرات پیدا کرنے کی بات اور امید دور کی بات ہے،،
اسلام اور ترقی کا آپس میں کیا تعلق ہے اسے اسی عنوان سے ہی بیسویں صدی کے معروف عالم اور ریاست قلات کے وزیر تعلیم جناب مولانا شمس الحق افغانی رحمتہ اللہ علیہ کے کتاب سے ایک اقتباس سے سمجھتے ہیں وہ،،، صرف مادی ترقی،،، کے عنوان سے فرماتے ہیں کہ،
،،یورپ
امریکا بلکہ دور حاضر کی اکثر اقوام کی تمام جدوجہد اور سعی و عمل انسان کے صرف پہلے جز یعنی جسم مادی کے ارتقا پر مصروف کار ہے اور اسی جز کی ترقی میں ان کو بڑی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے لیکن انسان من حیث کل ترقی سے محروم ہے ، روحانی ارتقاء کو بالکل نظر انداز کر رکھا ہے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہیں کہ اس وقت جن اقوام عالم کو مادی ترقی بے مثال ہیں اسی طرح ان کا روحانی انحطاط بھی بےنظیر ہے ، انسانی روح جس قدر آج گندگی و تاریکی میں ملوث ہیں پوری تاریخ انسانیت میں ایسا وقت کبھی نہیں آیا،اسکے تباہ کن نتائج ساری دنیا بھگت رہی ہے ،،،مادی ترقی نے دور حاضر کے انسان کے لیے تباہ کن آلات پیدا کیے اور ان کی تاریک و ناپاک روحوں نے ان آلات کو انسان کی تباہی کے لیے مختص کی گئی ہے اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے پیچھلے صدی میں جاتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ””سائنس کی بین الاقوامی کانفرنس بمقام پگواش امریکہ میں منعقدہ جس میں برطانوی سائنسدان سررابرٹ ڈاٹسن ڈاٹ نے انکشاف کیا کہ بیالوجیکل وار فئیر یعنی کیمیائی جراثیمی ہتھیار کے ایک بم کی مقدار آٹھ اونس ہے جس کو معمولی ریاست بلکہ معمولی سرمایہ دار بھی بنا سکتا ہے تمام کرہ ارض کی تباہی کے لیے کافی ہے یہ اس خالص مادی ترقی کے نتائج ہے جن سے دنیا کانپ رہی ہے اور جس نے پورے انسانیت کے لئے زندہ رہنے کو ناممکن بنا دیا ہے بقول اکبر مرحوم
ترقی مستقل وہ ہے جو روحانی ہواے اکبر
اڑا جو ذرہ عنصر وہ پھر سوئے زمین آیا ،،،
صرف مادیت پر زندگی کی بنیاد رکھناشاخ نازک پر آشیانہ بنانے کے مترادف ہے بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال مرحوم
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا وہ ناپائیدار ہوگا،،،
صرف مادی ترقی کا یہ نتیجہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی رنگ میں ظلم عام ہو گیا جس کی وجہ سے پوری دنیا میں انتشار اور بے اطمینانی پائی جاتی ہے اورتباہ کن لڑائی کا بے مقصد سلسلہ قائم ہے ایک تباہ کن جنگ ختم ہوتی ہے تو دوسری جنگ کی تیاری شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ زمین کسی بھی وقت انسانیت کی ہلاکت سے خالی نہیں رہتی ہیں ناپاک روحیں مادی اسلحہ سے لیس ہو کر انسانیت کی تباہی کے لیے ہر وقت برسرپیکار ہے نا خدا ترسوں کے ہاتھ اسلحہ دینا ایک ڈاکو کو مسلح کرنا ہے اس لیے حضرت رومی نے بہت پہلے فرمایا تھا کہ
جزوی اور مادی ترقی کے لئے یہ مہلک نتائج نہ صرف انسان کش ہے بلکہ پوری زمین کو جہنم کدہ بنانے کا سامان ہیں،،،
اگرچہ ہمیں اس وقت مادی ترقی شدید طور پر مطلوب ہیں لیکن روحانی تربیت و تعلیم کیلئے کیا جامع منصوبہ اختیار کیا جائے،،،
اکیسویں صدی کے ممتاز مصنف پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان کہتے ہیں کہ مسلم ممالک مادی ترقی کو کافرانہ قرار دے کر اپنی عوام کو غربت اور پسماندگی میں رکھے ہوئے ہیں اور مدت سات صدیوں سے اوپر جا رہی ہے مادی ترقی کو غیر اسلامی قرار دے کر جمہوریت کو بھی غیر اسلامی قرار دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک بدترین آمریت کا شکار چلے آ رہے ہیں مادی ترقی کے نتیجے میں ایجادات و سہولیات کا ایک طوفان امنڈ آیا ہے ہم اس سے بھرپور استفادہ کرنے کی دوڑ میں بہت آگے ہیں ، بیسویں صدی میں علامہ اقبال کہتے ہیں وہ مادی ترقی کے لیے جمہوریت کو ناگزیر قرار دیتے ہیں جمہوریت کے لیے مادی تصور میں نرمی کے لیے روحانی جمہوریت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں روحانی جمہوریت سے مراد جمہوری خلافت لیتے ہیں جو مادی ترقی اور روحانی طاقت سے لیس ہونے کا تصور ہے،،،کیا ہمارے معاشرتی تصورات اور نظریات اور سیاستدانوں و منتخب نمائندوں کے ساتھ بیروکریسی و میڈیا،لمحہ موجود کے مسائل زندگی سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ورنہ ہمارے معاشی اور معاشرتی مسائل،مادی وسائل کی تقسیم اور سب سے بڑ کر عوام کی اکثریت کی تقدیر بدلنے کے لئے کوئی نسخہ شفاء ہاتھ نہیں آئے گا ضرورت اس امر کی ہے کہ وسائل کے استعمال،آمدنی بڑھانے اور عوام کے لئے وسائل کی تقسیم کا رُخ درست کرنے کے لئے صوبے کی سطح پر ایک باختیار مالیاتی نظام و کمیشن ہو اور روحانی اقدار اور جمہوری نظام حکومت میں انسانی زندگی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لئے اجتماعی دانش وفکر نو کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ مسائل حیات میں صوبائی اسمبلی اور اس کے معزز ممبران فعال و آئینی کردار ادا کرنے کے تقاضوں سے پوری طرح آشنا نہیں ہیں۔