بجٹ کی آمد سے پہلے ہر سال کی طرح پاکستان میں ٹوبیکو انڈسٹری نے بالواسطہ اور بالواسطہ طریقوں سے لابنگ شروع کر دی ہے کہ حکومت کو سگریٹ اور اس سے متعلقہ پراڈکٹس پر ٹیکس بڑھانے کے بجائے سمگل شدہ سگریٹ کی طرف توجہ دینی چاہیئے۔ اس کمپین کی تازہ ترین ویڈیو میں وسیم بادامی اور اقرار الحسن بھی سامنے آئے ہیں جو بڑی دردمندی سے سمگل شدہ سگریٹ سے محصولات کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں آگاہ کر رہے ہیں۔ قابل اعتماد ذرائع کے مطابق ایک منٹ کے ویڈیو بیان اور ٹویٹس کے لئے اس کمپین میں شریک افراد کو کم از کم ایک لاکھ روپے کی ادائیگی کی جا رہی ہے۔
سگریٹ ایک مہلک پراڈکٹ ہے جو ہماری دانست میں سرے سے دستیاب ہی نہیں ہونی چاہیئے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ لیتھل ہونے کے باوجود ابھی تک لیگل ہے! پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں افراد تمباکو استعمال کرنے سے ہونے والی بیماریوں اور پیچیدگیوں سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں تمباکو کے استعمال سے جو افراد بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں ان کے علاج کا بوجھ پبلک ہیلتھ کے سسٹم پر منتقل ہوتا ہے۔ یعنی تمباکو نوشی کے شوقین افراد یہ وبال تو اپنی جیب سے خریدتے ہیں مگر ان کی اکثریت جب بیمار پڑ جاتی ہے تو علاج ٹیکس کے پیسوں پر کیا جاتا ہے۔ صحت عامہ اور ٹیکس کے پیسے کا یہ نقصان اتنا زیادہ ہے کہ اس کے مقابلے میں تمباکو انڈسٹری سے وصول ہونے والا ٹیکس کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
عالمی ادارہ صحت کے تحت ہونے والا فریم ورک کنونشن فار ٹوبیکو کنٹرول تقاضہ کرتا ہے کہ ممبر ممالک بشمول پاکستان تمباکو کی پیداوار اور استعمال کو کم کرنے کے لئے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ سگریٹ پر حکومتی ٹیکسوں اور محصولات میں خاطرخواہ اضافہ کریں گے۔ ٹھوس تحقیقی رپورٹس نے تمباکو کی پراڈکٹس کی قیمتوں اور ان کے استعمال کے بارے یہ ثابت کیا ہے کہ قیمت اور استعمال بالعکس متناسب ہیں۔ یعنی قیمت کم ہو تو تمباکو کا استعمال بڑھ جاتا ہے اور قیمت بڑھ جائے تو یہ استعمال گھٹ جاتا ہے۔ سو تمباکو کے استعمال کو روکنے کے لئے اس کی قیمت کو بڑھانا اس کنونشن کے تحت ایک ضروری قدم ہے۔
پاکستان میں تمباکو انڈسٹری ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ حکومتی اقدامات جو پہلے ہی ناکافی ہوتے ہیں ان کے تدارک کے لئے انڈسٹری برطانوی و امریکی حکومتوں کے دباؤ کو بھی استعمال کرتی ہے۔ کچھ سال قبل برطانوی ہائی کمشنر کی طرف سے ایک خط منظر عام پر آیا تھا جس میں حکومت پاکستان کے انسداد تمباکو نوشی کے اقدامات پر یہ کہہ کر تنقید کی گئی تھی کہ اس سے برطانوی سرمایہ کاروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہی طاقتور مافیا اس وقت مختلف اینکر پرسنز اور رائے عامہ پر اثرانداز ہونے والے بلاگرز اور یوٹیوبرز کو استعمال کر کے ٹوبیکو ٹکیس میں اضافے کے لئے کئے جانے والے مجوزہ بجٹ اعلان کی مخالفت کا ماحول پیدا کر رہا ہے۔
ٹوبیکو انڈسٹری کی طرف سے ان ڈائریکٹ پروموشن اور لابی کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ ایک زمانے میں یہ انڈسٹری اسپورٹس کے ایونٹس کو کھلے عام اسپانسر کرتی تھی۔ اسی طرح ٹی وی پر سگریٹوں کے اشتہارات زور و شور سے چلتے ہیں۔ پوری دنیا میں تمباکو کی ہلاکت خیزی کے بارے میں کمپین چلنے کے نتیجے میں انڈسٹری اس فرنٹ سے تو پیچھے ہٹ گئی مگر اس نے غیر روایتی پروموشن کا سہارا لینا شروع کر دیا۔ لابنگ کی یہی تکنیک اس وقت پاکستان میں ٹوبیکو ٹکسیشن کی مخالفت کے بارے میں اختیار کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے صحافیوں اور اینکر پرسنز کو بھی ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہیئے کہ وہ انڈسڑی کے ہاتھوں استعمال ہو کر صحت عامہ کو تباہ کرنے والی پراڈکٹس کو کیونکر اپنی سپورٹ مہیا کر رہے ہیں! یہ پیسہ کسی اور طریقے سے بھی کمایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں تو یہ خطرہ بہت زیادہ ہے کہ کم عمر نوجوان جب تمباکو نوشی کا شکار ہوں گے تو معاملہ یہاں رکے گا نہیں بلکہ سگریٹ دیگر مہلک ترین نشہ آور پراڈکٹس کے استعمال کا دروازہ ہے۔ ہمارے اینکرز اس بارے میں اتنے بے حس کیوں واقع ہو رہے ہیں۔ ہم تو یہ کہیں گے کہ سماجی ذمہ داری کے طور پر میڈیا کے افراد کو اس قسم کی کسی بھی انڈسٹری کے لئے ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ طریقے سے کام نہ کرنے کا اعلان کرنا چاہیئے۔
رہا معاملہ سمگل شدہ سگریٹوں کا تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کو ہوا دینے میں انڈسٹری خود شریک ہے۔ سمگلنگ کے اعداد و شمار کو بڑھاوا دے کر جو فوائد انڈسٹری اپنے لئے سمیٹتی ہے اس سے سب ہی واقف ہیں۔ اگر سمگلنگ کو روکنے میں انڈسٹری اور حکومت سنجیدہ ہو تو یہ کل ہی سے ممکن ہے۔