محمدحمیدشاہددورِجدیدکے بہترین افسانہ وناول نگاراورنقادہیں۔محمدحمیدشاہد نے دوران طالب علمی پہلی کتاب ”پیکرجمیل“ سیرت پاک ﷺ پرلکھی تھی، جس کاشماراردومیں سیرت نبیﷺ کی بہترین کتب میں کیاجاتاہے۔انکے افسانوں کے پانچ مجموعے”بندآنکھوں سے پرے “ ،”جنم جنم“، ” مرگ زار“،”آدمی“ اور”سانس لینے میں دردہوتاہے“ شائع ہوچکے ہیں۔محمدحمید شاہد کے پچاس افسانوں کا انتخاب توصیف تبسم نے کیا ، ”دہشت میں محبت“ کے نام سے ان کاایک انتخاب محمدغالب نشترنے بھی کیا۔محمدحمیدشاہد کے افسانوں کا سرائیکی میں ترجمہ ”پارو“کے نام سے اصغرعابد نے کیاہے۔انہوں نے ایک مختصرناول”مٹی آدم کھاتی ہے“ بھی تحریرکیا۔راجندرسنگھ بیدی اورغلام عباس کے منتخب افسانے اوران کاتنقیدی مطالعہ،شمس الرحمٰن فاروقی کی تنقیدکاانتخاب” تخلیق،تنقیداورنئے تصورات“ کے علاوہ تنقیدی کتب” ادبی تنازعات“،” اردوافسانہ صورت ومعنی“،” کہانی اوریوساسے معاملہ“،” راشد،میراجی،فیض:نایاب ہیں ہم“،”اردو فکشن نئے مباحث“ اور نئے لکھنے والوں کی رہنمائی کے لیے ”افسانہ کیسے لکھیں“جیسی عمدہ کتاب محمدحمیدشاہد کی تخلیقات میں شامل ہیں۔
محمدحمیدشاہد کی نئی تالیف ”جُستجوگُفتگو“ ہے۔جس کی تدوین محمدظہیربدر نے کی ہے۔کتاب میں تخلیقی عمل کے بارے میں محمدحمیدشاہدکی مختلف ادبی شخصیات سے مکالمے اورمصاحبے یکجاکیے گیے ہیں۔اس کاذیلی عنوان”افسانہ،ناول:تخلیقی عمل کے بھیداور امکانات“ ہے۔ کتاب میں محمدحمیدشاہد کے اٹھارہ انٹرویوزشامل ہیں۔ کتاب ”افسانہ کیسے لکھیں“ کی توسیع ہے ۔ اس بارے میں ابتدا میں مصنف کے دو مکالموں سے اقتباسات دیے گئے ہیں۔” زندگی خود اتنا بڑا موضوع ہے کہ جس پرلکھنے والے لکھتے چلے جارہی ہیں مگرتشنگی باقی رہتی ہے۔ اس تشنگی کی بقامیں ہمارے تخلیقی مزاج کی بقاہے۔جس روز زندگی پرلکھنے کوکچھ نہ بچا،جانیے وہی دن ہماری تخلیقی صلاحیتوں،بلکہ مجھے کہنا چاہیے کہ ہماری زندگی کاآخری دن ہوگا۔ میں سمجھتاہوں کہ زندگی اسی تخلیقی جوہراوراس باب کی بے پناہ تشنگی سے جڑی ہوئی ہے۔مجھے آپ سے سوال کے جواب میں کہناہے کہ میرا موضوع فقط ایک ہے انسانی زندگی،سواسی کولکھتارہاہوں مگر جتنا لکھتاہوں تشنگی اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے ۔ ایک تخلیق کارتخلیقی عمل سے جڑے ہو نے کے باعث،تنقیدی سوالات کے مقابل ہوتے ہوئے اس جانب بھی متوجہ کرلیا جاتاہے جو بالعموم ناقدین کے ہاں کچھ زیادہ اہم نہیں ہو تے ۔ فکشن کی تنقید کازیادہ سرمایہ ہمارے ہاں موضوعات اور اس باب کے مباحث پرمشتمل ہونے کاسبب بھی یہی ہے کہ تخلیقی عمل کے بھید سمجھنے اور اپنے قاری کوسمجھانے کی اہمیت کواس شدت سے محسوس نہیں کیاگیاجس شدت سے اس کاواسطہ ایک تخلیق کارکواس سے پڑتاہے۔ میں تنقیدکی طرف تخلیقی عمل کوسمجھنے اورمختلف حالات کے اندر،یاپھرمختلف مزاج رکھنے والے تخلیق کاروں کے ہاں یہ کیسے کام کرتاہے اسے سمجھنے کے لیے تنقید کی طرف آیاتھا۔یہ ایسابھید بھراعلاقہ ہے کہ جوں جوں آگے جاتاہوں ایک استقبالیہ قالین کی طرح میرے سامنے کھلتا چلا جاتا ہے ۔“
”جُستجوگُفتگو“ بک کارنرجہلم نے اپنے روایتی دلکش اوربے مثال انداز میں شائع کی ہے۔سفیدآفسٹ پیپرپررنگین چھپائی کے ساتھ دوسواسی صفحات کی کتاب کی قیمت آٹھ سوروپے بھی بہت مناسب ہے۔کتاب کاانتساب حال ہی میں انتقال کرنے والے افسانہ نگار،مترجم، دانشور،استاداورمدیردنیازاد”آصف فرخی کے نام“ ہے۔آغازمیںموضوع کی وضاحت کرتی فرخ یارکی مختصرنظم دی گئی ہے۔
گفتگوآوارہ سرخوابوں کامسکن
روزوشب کامورچہ ہے
گفتگورفتاربھی ہے،ذائقہ بھی،روشنی بھی
گفتگوجاری رہے گی
محمدظہیربدرنے مصنف کاطویل سوانحی خاکہ تحریرکیاہے۔جس کے مطابق محمدحمیدشاہد23مارچ 1957ءکومحلہ ملکاں پنڈی گھیب میں واقع اپنی آبائی حویلی میں پیداہوئے۔اب اس حویلی میں ان کے ایک بھائی رہائش پذیرہیں۔یہ حویلی آج بھی خاندانی وحدت کی علامت کے طور پرانکے پاس ہی ہے۔میٹرک کے بعدانہوں نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں داخلہ لیا۔میٹرک پاس کرنے تک انہوں نے ریل گاڑ ی تک نہیں دیکھی تھی۔ وہ پنڈی گھیب سے نکل کرزرعی یونیورسٹی پہنچ گئے۔وہ یونیورسٹی کے ادبی مجلہ”کشتِ نو“ کے مدیربھی رہے۔1983ء بہ ایس سی آنرزکی ڈگری حاصل کی اورایل ایل بی کرنے کے لیے پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔لاہورادبی مرکزتھا۔ان کاخیال تھاکہ ادبی حوالے سے بہت کچھ دیکھنے سیکھنے کوملے گامگرکلاسزشروع ہونے سے پہلے انہیں والد کی شدیدبیماری کی خبرملی۔ رشتوں کے تقدس کابھرم رکھنے والایہ بیٹاسب کچھ چھوڑ کرواپس آکرباپ کی چارپائی سے لگ کربیٹھ گیا۔اس مفارقت کے بعد اسی سال اے ڈی بی پی موجودہ زرعی ترقیاتی بینک کے ریجنل آفس راولپنڈی میں ایکسٹرا اسسٹنٹ ڈائریکٹرکے طور پرعملی زندگی کاآغاز کردیا اوراسی بینک سے وائس پریذیڈنٹ کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
حمیدشاہدکہتے ہیں۔”ہم ہمیشہ گاؤں جاتے رہے،جہاں قطعاً اجنبیت نہ ہوتی۔کسی کے ہاں شادی ہوتی، کوئی فوت ہوتا،کسی کا عزیز باہر جاتا یا حج عمرہ سے لوٹتا،عرس میلاہوتایافصل کی کٹائی گہائی ہم ابا کے ساتھ گاؤں میں ہوتے۔یہی سبب ہے کہ گاؤں میرے اندر بھی بسا ہوا ہے۔“
ان کے افسانوں کے بہت سارے دیہی کرداریہی لوگ ہیں۔چاہے وہ ”پارو“ افسانے کے کردارہوں یا”جیت مگرکس کی“،”بندآنکھوں سے پرے“،” وراثت میں ملنے والی ناکردہ نیکی“،”سجدہ سہو“،”معزول نسل“ ،”جنریشن گیپ“،”ہارجیت“ اور”تکلے کا گھاؤ“ سے لے کر”سورگ میں سور“ تک کے کردار،سب میں ایک جھلک ان کے گاؤں کے اپنے لوگوں کی ہے۔انہیں پڑھتے ہوئے محسوس ہوتاہے کہ دیہات کایہ منظرنامہ اردوافسانے کاپہلے سے حصہ بننے والے دیہات اوردیہی زندگی سے قدرے مختلف ہے۔
اردوکے صف ِ اول کے افسانہ وناول نگارممتازمفتی مرحوم نے حمیدشاہدکے بارے میں کہا۔”محمدحمیدشاہدکے بات کہنے کاانداز ایساہے کہ وہ پہنچ جا تی ہے۔اس کے بیان میں سادگی اورخلوص ہے،خیالات میں ندرت ہے۔اس کانقطہ نظرمثبت ہے اوراس کی سچائیوںمیں رنگ ہے رس ہے۔“
بھارت کے افسانہ وناول نگار،شاعر،نقاد اورمنفردادبی جریدے ”شب خون“ کے مدیرشمس الرحمٰن فاروقی کاکہناہے ۔”اسے محمدحمیدشاہد کی بہت بڑی کامیابی سمجھناچاہیے کہ وہ ایسے موضوع کوبھی اپنے بیانیہ میں بے تکلف لے آتے ہیں جس کے بارے میں زیادہ ترافسانہ نگارگومگو میں مبتلاہوں گے کہ فکشن کی سطح پراس سے کیامعاملہ کیاجائے۔“
نامورمرحوم مترجم محمدعمرمیمن کی رائے ہے۔” میری توسمجھ میں نہیں آتاکہ جواب میں لکھوں توکیالکھوں۔ہنوزآپ کے باریک بین مطالعے اورجس عقیدت اورسنجیدگی سے آپ ادب کے سامنے دو زانوہوکربیٹھتے ہیں اسی پرحیرت کررہاہوں ہوں۔ کاش ہمارے بیشترپڑھنے او ر لکھنے والوں کوآپ کاچلن آجائے۔“
”جُستجوگُفتگو“ کے مصنف محمدحمیدشاہدنے ایک مکالمے میں کہا۔”آپ کچھ سوالات لے کرآئے ہیں اورایک ’زوردار‘ مکالمے کاارادہ رکھتے ہیں۔مکالمہ زوردارہوگایانہیں،میں نہیں جانتا،تاہم اتناجانتاہوں کہ ادیب جس کائنات میں رہتاہے،اُسے قدم قدم پرحیرت سے دیکھتا ہے۔ دیکھتاہے اورچونکتاہے۔اس سے اُلجھتاہے اوراپنے باطن میں ایک اُبال کواُٹھنے دیناتواس کاسبب یہ ہے کہ یہی باطنی ردعمل اس کے ہاں تخلیقی عمل کومہمیزلگاتاہے،بالکل یوں جیسے کوئی سواراپنی ایڑی کے کانٹے سے گھوڑے کوایڑلگاتاہے۔اب اگرکوئی شخص ایسے میں اس ساری تندی اورتانت کو، جس نے اس کے باطن میں معجزہ دکھاناتھا،اسے ہی اپنے خارج میں برت بھگت لیتاہے اورمشتعل ہوکرشدیدردعمل کااظہارکردیتاہے،تویہ استفراغی عمل اس کے باطن میں موجود تخلیقی عمل کے رواں ہونے کے امکانات کوتلف کردیتاہے۔صاحب ! رہامیرا معاملہ تویوں ہے کہ میری محبوب صنف افسانے نے مجھے یہ سکھایاہے کہ میں اپنی بات کو،اپنے ردعمل کو،اپنے غصے کواپنے اندر روک لوں، سہارلوں،اوراسے ایک کیمیائی عمل سے گزرنے دوں۔فکشن لکھنے والے جانتے ہیں کہ محض اورصرف واقعہ لکھتے چلے جانے سے فکشن کابیانیہ نہیں بنتا،لکھتے ہوئے اس صورتِ حال ،اس کردار،اس منظر اوراس فضا میں پوری طرح اترناہوتاہے،یوں کہ سب کچھ لکھنے والے کے اپنے وجود پربیتنے لگتاہے۔اپنے مشاہدے،تجربے اورمعلومات کومحض قلم کی نوک سے سیاہی کے ساتھ اُگل دینے والے یہ نہیں سمجھ سکتے کہ محض وقا ئع نویسی فکشن نہیں ہے۔یہاں توٹھہرٹھہرکراوررُک رُک کرلکھناہوتاہے۔آوازوں کو،جذبوں اوراحساس کی چھوٹی چھوٹی لہروں کولفظوں کے اندریاسطروںکے درمیان رکھتے ہوئے،سنبھالتے ہوئے اورسہتے ہوئے لکھناہوتاہے۔“
نئے لکھاری محمدحمید شاہد کے اس مکالمے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں،اپنی تحریر میں حقیقی فکشن کی روح اتارنے کے لیے ان باتوں کوسمجھنابہت ضروری ہے۔”جُستجوگُفتگو“ کوموضوعات کے اعتبارسے پانچ حصوں تقسیم کیاگیاہے۔پہلے حصے میں تین انٹرویوز شامل ہیں۔علی گڑھ یونیور سٹی کے صدرشعبہ اردومعروف نقاداوردانشورابوالکلام قاسمی کی محمدحمیدشاہد سے بات چیت”معاصراُردوفکشن،روایت اورامکانات“ ان مباحث کاحصہ ہے جو وہ اپنی زیرادارت چھپنے والے رسالے”امروز“ میں شائع کرتے رہے ہیں۔یہ مکمل صورت میں ”عکاس“ اسلام آباد میں شائع ہواتھا۔قاسمی صاحب نے ای میل کے ذریعے حمیدشاہد کوسوال نامہ بھیجا تھا۔ان کاکہناہے ۔”اُردومیں فکشن لکھنے کی روایت ماضی میں بہت دور تک نہیں جاتی۔محض سوسال سے زیادہ عرصے میں اُردوفکشن کامنظرنامہ کچھ زیادہ مایوس کن بھی نہیں۔جنیوئن فن کاریااس کافن نہ کسی نظریے کااسیرہوتاہے اورنہ محض ادبی رحجان کے بل بوتے پرآگے بڑھتا ہے۔“محمدحمیدشاہد نے اس طویل مکالمے میں اُردوادب خصوصاً افسانے کی روایت اورموجودہ صورتِ حال پرسیرحاصل گفتگوکی ہے۔
نوجوان ادیب تصنیف حیدرکاتعلق دلی سے ہے۔فکشن اورتنقید کے علاوہ ان کی شاعری کاایک مجموعہ بھی شائع ہوچکاہے۔انہوں نے اپنے ادبی ای جریدہ ”ادبی دنیا“کے لیے محمدحمیدشاہد کاانٹرویوکیا،جو”ادبی دنیاکے دس سوال“کے نام سے کتاب میں شامل ہے۔اس بارے میں تصنیف حیدرکہتے ہیں۔ ”اس میں کوئی شک نہیں کہ محمدحمیدشاہدایک کثیرالمطالعہ ادیب ہیں۔اُردوافسانے اورشاعری دونوں کی تاریخ کو وہ نہیں روتے، کیونکہ حال سے بھی اچھی طرح باخبر ہیں۔میرے ان انٹرویوزکا مقصد ادیب کی اصل شناخت تک پہنچنابھی ہے ،چنانچہ اس میں کچھ سوال ذاتی نوعیت کے بھی ہوتے ہیں۔خوشی ہے کہ انہوں نے تمام سوالوں کے جوابات لکھ بھیجے ہیں۔“اس انٹرویوسے بھی ادب کے مختلف پہلووں پردلچسپ اورمعلوماتی گُفتگوہوئی۔
سید نصرت بخاری کاتعلق اٹک سے ہے۔شاعری اورافسانہ نگاری ،دونوں حوالوں سے پہچانے جاتے ہیں۔افسانوں کامجموعہ”گھاو¿“ اورشعری مجموعہ”سخن یہ ہے“ شائع ہوچکے ہیں۔اٹک سے سیماب ملک اورحسین امجدکے اشتراک سے ادبی جریدہ ”ذوق“نکالتے ہیں۔ کتاب میں”افسانہ لکھناآسان نہیں ہے“ کے عنوان سے انٹرویو”ذوق“ کے اولین شمارے کے لیے کیاتھا۔
مہک تنویرکاتعلق لاہورسے ہے۔انہوں نے اپنے ایم فل کے مقالے کے لیے سوالات مرتب کرکے مکالمے کااہتمام کیاتھا جوادبی جریدے ”تسطیر“ میں ”ثقافت اورفکشن “ کے عنوان سے شائع ہوا۔
عمرفرحت راجوی جموں کشمیرکے شاعرہیں۔وہ معیاری ادبی جریدہ سہ ماہی ”تفہیم“ راجوری سے شائع کررہے ہیں۔عمرفرحت نے اپنے رسالے کے لیے ”سعادت حسن منٹوکے حوالے سے“ سے بات چیت کی تھی۔جس میں منٹوکے فن اورشخصیت پرمحمدحمیدشاہد نے دلچسپ اور معلوماتی اظہارخیال کیا۔
خولہ احمداسلام آباد میں مقیم صحافی اورکالم نگارہیں۔انہوں نے انتظارحسین کی رحلت پراپنے انگریزی کالم میں کچھ سوالات ادیبوں سے کیے ۔کتاب میں حمیدشاہد سے مکمل گفتگوکامتن” کچھ انتظارحسین کے بارے میں“ کے عنوان سے شامل کیاگیاہے۔
نثاراحمدصدیقی اورنگ آبادبھارت کے رہنے والے ہیں۔ادبی مکالمات پران کی کتاب”عکس“ چالیس سال قبل شائع ہوکرمشہورہوچکی ہے۔”تخلیق،تنقیداورتعصب“ کے عنوان سے محمدحمیدشاہد سے مکالمہ بھی اسی کتاب کے لیے کیاگیاتھا۔جس میں پروفیسراحتشام حسین، شمس الرحمٰن فاروقی،گوپی چند نارنگ ،جوش ملیح آبادی اورجوگندرپال جیسے نامورادباءکے انٹرویوزشامل تھے۔
افسانہ وناول نگار زیف سیدنے ایک سوال نامہ دوہزارتیرہ میں محمدحمیدشاہد کومیل کیاتھا۔جس کے جوابات انہیں فراہم کردیے گئے۔ شاہد صاحب کاکہناہے کہ شایدیہ مکالمہ کہیں چھپے نہیں ،لہٰذا ”کیاسادہ کہانی کازمانہ لدگیا“ کو اب تک غیرمطبوعہ ہی سمجھاجانا چاہیے۔اسے شاہد صاحب کے آفیشل ویب پیچ سے حاصل کرکے کتاب کاحصہ بنایاگیاہے۔
”تبدیل ہوتی زندگی،افسانہ اورناول“ کے عنوان سے محمدحمیدشاہد سے گُفتگو اسلام آباد میں مقیم افسانہ نگاراورمحقق احمداعجازنے کی ہے۔احمد اعجازصحافی ہیں ۔ان کے کئی سومائیکروفکشن اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔افسانے اورتحقیق پران کی کئی کتب شائع ہوئی ہیں۔مذکورہ انٹر ویو روزنامہ دنیاکے سنڈے ایڈیشن سے لیاگیاہے۔
سماجی رابطے پردوفکشن نگاروں محمدحمیدشاہداورانورسن رائے کے درمیان میلزکے تبادلے سے جنم لینے والامکالمہ ”دوافسانے کچھ مغالطے اور ایک مکالمہ“ کے نام سے شامل ہے۔اس مکالمے کی اہمیت یہ ہے کہ فکشن کوپڑھنے اوراس سے معنی اخذ کرنے کے قرینوں کی طرف ایسے اشارے ملتے ہیں جوفکشن کے قارئین کیلیے بہت مفیدہوسکتے ہیں۔انورسن رائے صحافی،شاعر،افسانہ نگار،ناول نگار،مترجم اورمصور ہیں ۔
اقبال خورشیدبنیادی طور پرصحافی اورتخلیقی طورپربہت متحرک ہیں۔افسانہ،ناول اورادبی جریدے ”اجرا“ کی ادارت کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔روزنامہ ”ایکسپریس “ میں ان کے کیے گئے انٹرویوز نے بہت شہرت حاصل کی۔”ادب طاقت ور ہتھیارنہیں“کے عنوان سے حمیدشاہد کے انٹرویوکاپہلاحصہ ایکسپریس کی ویب سائٹ سے لیاگیا۔جب کہ دوسراحصہ”کتاب کہانی سے مکالمہ“ کاحصہ بنانے کے لیے بعد میں لیاگیا۔
سہ ماہی ”فن زاد“ بھیرہ کے چھوٹے شہرسے یوسف چوہان کے زیرِ ادارت چھپتاہے۔فن زاد کے لیے حمید شاہد کاانٹرویوکامران شہزاد اور فرزانہ رمضان نے کیاتھا۔جویہاں ”افسانوں کی تعبیرکے باب میں“ کے عنوان سے شامل ہے۔کامران شاہد نے محمدحمیدشاہد کی ادبی خدما ت پرمقالہ لکھ کرایم فل کی ڈگری حاصل کی تھی۔جوبعدازاں کتابی صورت میں بھی شائع ہوئی تھی۔
میانوالی سے محمدفوادسلیم کندی ادبی جریدہ”آبشار“ شائع کرتے ہیں۔کتابی سلسلہ کے ناول نمبرنے بہت شہرت حاصل کی۔اس نمبرکے لیے سلیم کندی نے محمدحمیدشاہد سے ان کے ناول”مٹی آدم کھاتی ہے“ مکالمہ کیا اورناول کے بارے میں دوتفصیلی مضامین بھی شامل کیے۔یہی مکالمہ ”جُستجوگُفتگو“ میں بھی شامل ہے۔
سراج احمدتنولی صحافت ،ادب اورکالم نگاری کرتے ہیں۔روزنامہ ”سرگرم“ کے لیے وہ ادبی شخصیات کے انٹرویوز کرتے ہیں۔ان کے یہ انٹرویو”بات کرکے دیکھتے ہیں“ کے نام سے کتابی شکل میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔”ادب اورانسانی سطح پرجینے کاچلن“ سرگرم سے لیاگیا ہے۔
نازبٹ شاعرہ ہیں۔ان کاشعری مجموعہ ”وارفتگی“ شائع ہوچکاہے۔انہوں نے الشرق کے ہفتہ وارایڈیشن کے لیے ادبی انٹرویوزکیے۔ان کا حمیدشاہد سے انٹرویوبھی وہی سے لیاگیاہے۔
محمدغالب نشتربھارت کے نوجوان نقادوں میں شامل ہیں۔اردوفکشن پران کی کتابوں نے ادبی حلقوں سے دادحاصل کی ہے۔”تخلیق کے عمل سے جڑناہی زندگی ہے“ کے عنوان سے کتاب میں شامل انٹرویوسہ ماہی ”صدف“ پٹنہ کے لیے کیاگیاتھا۔
سیدتحسین گیلانی ادبی جریدے ”انہماک“ کے مدیرہیں۔انہوں نے انہماک فورم کے تحت مائیکروفکشن کی ترویج کے لیے باقاعدہ مہم چلائی۔ یہ مکالمہ بھی فورم کے لیے کیاگیاتھا۔
عمرسیال نے ایم فل کے لیے مائیکروفکشن کے موضوع پرمحمدحمیدشاہد سے ”افسانہ اورخوردافسانہ“ کے عنوان سے مکالمہ کیاتھا۔جو”جُستجوگُفتگو“ کی آخری تحریرہے۔محمدحمیدشاہد نے ان اٹھارہ طویل اورمختصر انٹرویوز میں اُردوادب،افسانہ ،ناول اورفکشن کے مختلف پہلووں پرمعلوماتی گفتگوکی ہے۔کتاب معلومات افزا ہونے کے ساتھ انتہائی دلچسپ بھی ہے۔نئے لکھاریوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی۔
Comments 1