”بے زبانی زباں نہ ہوجائے“پاکستان کی منفرد اورمشہورمرحوم گلوکارملکہ پکھراج کی دلچسپ آپ بیتی ہے۔جس کاانگریزی ترجمہ song Sung True کے نام سے 2003ء میں شائع ہوچکا ہے۔جب کہ اردومیں تحریرکردہ اصل مسودہ سترہ سال بعد شائع ہوسکا۔ اس کے پس پردہ بھی ایک کہانی ہے۔ ”بے زبانی زباں نہ ہوجائے“ کی اردواشاعت محترم اجمل کمال کے سرہے۔جنہوں نے اپنے منفردادبی کتابی سلسلہ ”آج“ کے شمارہ ایک سوتیرہ میں اس منفرداوریادگارآپ بیتی کو شائع کیا۔
یہ بھی پڑھئے:
محمد حمید شاہد کی گفتگو، جستجو | نعیم الرحمٰن
نایاب لوگوں کا نایاب تذکرہ| نعیم الرحمٰن
اجمل کمال اردوکے بہت بڑے محسن ہیں۔جو”نہ ستائش کی تمنانہ صلے کی پروا“ کے مصداق دنیاسے الگ اپنے کام میں مصروف ہیں۔آج کے ذریعے وہ اردوقارئین کوعالمی ادب سے متعارف کرانے کاکام تیس سال سے سرانجام دے رہے ہیں۔اس دوران انہوں نے پاکستان کی علاقائی زبانوں،بنگالی اوربھارت کی ہندی کے علاوہ ملیالم،تلیگو،مراٹھی،گجراتی،کنٹر،پنجابی اورتامل ادب کو”آج“ کے ذریعے اردو میں متعارف کرایا۔ ویکوم بشیر،نرمل ورما،صدیق عالم،ذکیہ مشہدی،وبھوتی نرائن رائے،سیدمحمداشرف،انیس اشفاق،بن یامین،ابرار مجیب، دیس راج کالی،اسلم پرویز،نیرمسعود،تصنیف حیدر جیسے کئی بھارتی ادیبوں کی’آج‘ کی وساطت سے پاکستانی قارئین میں پہچان بنی۔ عربی، فارسی، انگریزی، جرمن، اطالوی، پرتگیز،ڈچ،لاطینی امریکی غرض دنیاکی ہرزبان کے تراجم اجمل کمال نے اپنے جریدے میں شائع کیے۔ خصوصاً ان تمام زبانوں کے بہترین ناولز اردوقارئین کے مطالعے میں آئے۔زینت حسام،ارجمندآرا،زیباعلوی،ندیم اقبال، مشیرانور،سیدکاشف رضا،محمدعمرمیمن جیسے کئی عمدہ مترجمین کومتعارف کرایا۔خوداجمل کمال نے کئی شاندارترجمے ہندی اورانگریزی سے کیے۔ وجاہت مسعود،اختربلوچ،وسعت اللہ خان کے منفرد اور یادگار کالم آج کی زینت بنے۔فرنچ نژاداردوادیب ژولیاں کومتعارف کرایا۔بھارت کے نامورفلمی مصنف جاوید صدیقی کے خاکے شائع کرکے ان کانیا ُرخ پیش کیا۔بھارتی ڈرامہ نگارحبیب تنویرکی دلچسپ آپ بیتی”پردہ اٹھتاہے“دلت ادیب اوم پرکاش والمیکی کی آپ بیتی ”جھوٹن“عرب شاعروادیب نزارقبانی کی خودنوشت،اردوادیب اکرام اللہ کی آپ بیتی،ڈان کے ایڈیٹراحمدعلی کی آپ بیتی،ستیش گجرال کی ”یادیں“برطانوی کمیونسٹ رالف رسل کی آپ بیتی، ادے پرکاش،ایرانی مصنف عتیق رحیمی، لاطینی امریکی اتالوکلوینو،یوسف زیدان،عراقی ادیب حسن بلاسم،بھارت کے بھونیشورجیسے بے شمار ادیبوں کوآج کے قارئین کے سامنے پیش کیا۔نامورشاعرہ فہمیدہ ریاض کو بطور نثرنگارمتعارف کرایا۔مزاح نگارمحمد خالداخترکے مختلف رنگ پڑھنے والوں کے سامنے لائے۔خالد اخترکے احمدندیم قاسمی کے ’فنون‘ میں شائع شدہ منفرد انداز کے کتابوں پرتبصروں پرمبنی خصوصی نمبرشائع کیا۔جو”ریت پرلکیریں“کے نام سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوا۔ گمنام مصنف خالدطورکے ناول ”کانی نکاح“ اور ”بالوں کا گچھا“ اورچندافسانے شائع کیے۔سیدکاشف رضاکے سفرنامے ”دیدم استنبول“،”گیلی پولی اوریونان والاترکی“ اور”ایران میں کچھ روز“ کے علاوہ کاشف رضا کاپہلاناول ”چاردرویش اورایک کھچوا“ بھی آج ہی میں سب سے پہلے اشاعت پذیرہوئے۔رفاقت حیات کے افسانے اوران
کامشہورناول”میرواہ کی راتیں“بھی پہلی بارآج ہی سے منظرعام پرآیا۔ شہرکراچی کی تاریخ ’آج‘ کے دوخصوصی شمارے پیش کیے۔جوہمیشہ کراچی پرکام کرنے والے محققین کے کام آئیں گے۔’’سرائیوسرائیو“بوسنیاہرزوگوویناالمیہ پرنمبر،عربی،فارسی،ہندی افسانوں پرمشتمل شمارے بھی یادگارثابت ہوئے۔ بھیشم ساہنی کاناول ”تمس“ شائع کیا۔وبھوتی نرائن رائے کا”گھر“سیدمحمداشرف کا ”نمبردارکانیلا“نیرمسعودکاناولٹ”طاؤس چمن کی مینا“انیس اشفاق کا ”دکھیارے“بلبیرمادھوپوری کا”چھانگیارکھ“،دیش راج کالی کا”شانتی پرو“،بن یامین کا”بکربیتی“محمدعاطف علیم کایادگار”مشک پوری کی ملکہ“ آئزک باشیوش سنگر”محبت کامتلاشی ایک نوجوان“ تقسیم ہندکے پس منظر میں بھارتی مصنف یشپال کاایک ہزارسے زائدصفحات کا ناول”جھوٹاسچ“آج کے سنچری نمبر کے طور پرشائع ہوا۔جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔آج میں روایتی غزلیہ شاعری کبھی شائع نہیں کی گئی۔لیکن ثروت حسین،ذیشان ساحل، تنویر انجم، سعیدالدین جیسے منفرد شعراء اورمختلف زبانوں کی شاعری کے تراجم سے کتابی سلسلے کی وقعت میں اضافہ کیا۔
کروناوباکے دوران اجمل کمال نے ”آج“ کے چارشمارے ایک ساتھ شائع کئے ہیں۔شمارہ ایک سودس میں تیونسی ادیب حبیب سالمی کا ناول ”ماری کلیرکی مہک“ اورہندی ادیب وشاعرکی کہانیوں اورنظموں کے تراجم دیے گئے ہیں۔شمارہ ایک سوگیارہ میں کنٹرمصنف وویک شانباگ کا”گھاچرگھوچر“ہندی ادیب آلوک رائے کی کتاب ”ہندی وطنیت“کاترجمہ اوردہلی یونیورسٹی کے پروفیسرشاہدامین کامصنف سے انٹرویو،کلدیپ کمارکی ہندی نظموں کے تراجم،پولش ادیب اورشاعرہ اولگاتوکارزُک کامضمون ”میری کھڑکی سے پرے ایک نئی زندگی“امریکی نان فکشن ادیب ربیکاسولنٹ کامضمون ”ناممکن بات تو ہوچکی“ شامل ہیں۔شمارہ ایک سوبارہ میں مراکش کے طاہربن جلون کا”یہ بصارت کش اندھیرے“پربھات جے سنگھے کی کہانی ”بناسٹک ہاکی“ادے پرکاش کی”پال گومرکااسکوٹر“ویریندریادوکامقابلہ”1958ء کی متھ اوروراثت“شامی شاعرعلی احمدسعیدجوادونیس کے قلمی نام سے مشہورکی نظموں کے تراجم شامل ہیں۔شمارہ ایک سوتیرہ میں ملکہ پکھراج کی آپ بیتی کے ساتھ اظہرحسین کی کہانیاں،بنگالی ادیب شہیدل جہیرکی کہانی ”قصہ انجیرخوروں کا“اورسعیداحمدکی نظمیں دی گئی ہیں۔ان سب کے علاوہ چاروں شماروں میں نوبل انعام یافتہ ادیب گبریل گارشیامارکیزکے ناول”تنہائی کے سوسال“ کازینت سہام کے ابواب کے تراجم شائع کیے گئے ہیں۔اس ناول کے ابتدائی ابواب کاترجمہ کئی سال قبل آج کے گبریل گارشیاکے بارے میں خصوصی شمارے میں شائع ہوئے تھے۔آج کے گذشتہ چند شماروں میں اس ناول کے ابواب شائع ہوتے رہے۔اب ان چارشماروں میں گبریل گارشیا مارکیز کے اس یادگار ناول کومکمل کردیاگیاہے۔جویقینا کتابی شکل میں بھی شائع ہوگا۔زینت سہام کے عمدہ ترجمے نے اس کی وقعت میں اضافہ کیاہے۔
لیکن ان سب سے بڑھ کرملکہ پکھراج کی آپ بیتی”بے زبانی زباں نہ ہوجائے“ ہے۔جس میں بھارتی ریاستوں، حکمرانوں اوران کے درباروں کے روزمرہ مشاغل، کردار اوردلچسپیاں بہت خوبصورتی سے بیان کیے گئے ہیں کہ قارئین کو یہ سب کچھ جیتاجاگتانظرآتاہے۔ اس آپ بیتی کااصل اردومسودہ پاکستان میں شائع نہ ہوسکا۔لیکن ملکہ پکھراج کی زندگی میں اس کاانگریزی ترجمہ 2003ء میں شائع ہوگیاتھا۔ جوپاکستانی قارئین کی پہنچ سے دورہی رہا۔جس کی وجہ پاکستان کے سابق وزیر قانون اور سیاستدان ایس ایم ظفرکااثرورسوخ بتایاجاتا ہے۔ جن کی مالی بدعنوانیوں اورملکہ پکھراج کے دستخط کے بغیران کی جائیداد کی فروخت کا کچھاچٹھاملکہ پکھراج نے اپنی کتاب میں کھولاہے۔لیکن اجمل کمال نے اس بے مثال آپ بیتی کوبھی اپنے قارئین کے سامنے پیش کردیاجس کے لیے وہ بھرپورمبارکباد کے مستحق ہیں۔
”بے زبانی زباں نہ ہوجائے“ ملکہ پکھراج کی پوتی فرازے سیدنے مرتب کی ہے۔تعارف میں وہ کہتی ہیں۔”میری دادی ملکہ پکھراج نے میرے والدین،یعنی اپنے بیٹے اوربہو،سے مجھے اس وقت گودلے لیاتھاجب میں صرف ایک مہینے کی تھی۔میری پرورش انہیں کے ہاتھوں ہوئی اس لیے میں نے ہمیشہ اپنی دادی نہیں بلکہ ماں ہی سمجھا۔ان کواس آپ بیتی پرکام کرتے ہوئے اٹھارہ سال دیکھتی رہی۔ان تمام برسوں میں انہوں نے کم ازکم سات مسودے ہاتھ سے لکھ کرتیارکیے اوران میں سے ہرمسودہ آٹھ سے دس کاپیوں یانوٹ بکوں میں آیا۔ ہر بار نظرثانی کرتے ہوئے وہ پورے مسودے کوشروع سے آخرتک لکھتیں۔برسوں پرمحیط عرصے میں اس انتھک محنت کامشاہدہ کرتے رہنے کے بعدمیں اس وقت شدتِ جذبات سے مغلوب ہوگئی جب میری دادی نے آپ بیتی کامکمل مسودہ مجھے سونپا۔ان کی آخری خواہش یہی تھی ان کی کہانی دنیاوالوں کے سامنے آئے اورمیں جانتی تھی کہ مجھے ان کی خواہش پوری کرنے کی ہرممکن کوشش کرنی ہے۔میرے لیے ان کی آپ بیتی صرف ان کی زندگی کی کہانی نہیں بلکہ ایک حوصلہ مندعورت کی،خاص کران کی نسل کی عورت کی آواز ہے،جواپناسچ بیان کرنا چاہتی ہے۔ہمارے سماج میں عورتوں کواپنے بارے میں،اپنی زندگی اوراپنے تجربوں کے بارے میں بات کرنے کابمشکل ہی موقع دیاجاتا ہے، اوربیشترصورتوں میں تہذیب اورعزت کے نام پران کی آوازدبادی جاتی ہے۔لہٰذاایک عورت کی حیثیت سے میں اپنافرض سمجھاکہ ملکہ پکھراج کی آپ بیتی کوشائع کراؤں۔میں سب سے پہلے رضاکاظم کاشکریہ اداکرنا چاہتی ہوں،جنہوں نے پہلی بارملکہ پکھراج کی آپ بیتی کی ادبی اورتاریخی اہمیت کااحساس کیا۔ انہی کی کوششوں کانتیجہ تھاکہ اس کاانگریزی ترجمہ 2003ء میں دہلی سے شائع ہوا۔ رادھا کمار نے ہمیں سلیم قدوائی سے متعارف کرایاجوایک معروف تاریخ داں اورمصنف ہیں۔قدوائی صاحب دوہزارایک میں تین مہینے کے لیے لاہور آئے اورملکہ پکھراج کے ساتھ بیٹھ کرجانفشانی سے آپ بیتی کے مسودے پرکام کرتے رہے۔انہوں گفتگوؤں کی بنیاد پر انہوں نے آپ بیتی کاانگریزی ترجمہ کیاجواصل سے نہایت قریب ہے۔آخرمیں مجھے سٹی پریس کے اجمل کمال کاشکریہ اداکرنا ہے انہوں نے ملکہ پکھراج کی آپ بیتی کے اصل اردومسودے کوپاکستان میں شائع کرنے کی حامی بھری اوراس قیمتی تاریخی دستاویزکی صورت میں ملکہ پکھراج کی آوازکوپڑھنے والوں تک پہنچانے میں کلیدی کردارادا کیا۔“
ملکہ پکھراج کی پیدائش 1912ء کے لگ بھگ جموں میں ہوئی اورانہوں نے 4فروری2004ء کولاہورمیں وفات پائی۔وہ اپنی والدہ اور دیگرعزیزوں کے ہمراہ 1947ء کی تقسیم سے پہلے لاہورمنتقل ہوگئی تھیں جہاں چندبرس بعدانہوں نے سیدشبیرحسین سے شادی کی۔سیدشبیر حسین کی کہانیاں اخترشیرانی کے رسالے ’رومان‘ میں شائع ہوتی رہیں اوران کے ناول ’جھوک سیال‘ کو، اس پراسی نام سے بنائے گئے پی ٹی وی کے ڈراماسیریل کوبہت مقبولیت حاصل ہوئی۔انہوں نے 1968ء میں انتقال کیا۔
آپ بیتی کے مترجم سلیم قدوائی نے اردوایڈیشن کے پیش لفظ میں لکھا۔”اس آپ بیتی کی اشاعت بہت پہلے ہونی چاہیے تھی۔مجھے خوشی ہے کہ اب صرف ملکہ پکھراج کے قدردان ہی نہیں بلکہ برعظیم کے تاریخ داں اورموسیقی سے دلچسپی رکھنے والے اس مشہورومعروف مغینہ کو اس کے اپنے الفاظ میں پڑھیں گے۔یہ بھی ایک عجیب وغریب واقعہ ہے کہ جس کتاب کاترجمہ پہلے شائع ہوچکاتھااس کی اصل کاکہیں اتا پتا نہیں تھا۔اب یہ کسر نہیں رہ گئی ہے اور کے پڑھنے والوں کوان کی لکھی ہوئی کتاب اب اوریجنل شکل میں ملے گی۔میں اس تحریر کی شان دیکھ کردنگ رہ گیا۔اس مسودے کاپہلاحصہ بہت صاف لکھاہواتھا۔اسے کئی ابواب میں تقسیم کیاگیاتھا اورصاف ظاہرہورہاتھا،اس پربہت احتیاط سے نظرثانی کی گئی تھی۔آدھی کتاب ہوجانے کے بعد وہ سیدشبیرحسین سے اپنی شادی کاتذکرہ کرتی ہیں توکتاب کارنگ اورآہنگ بالکل تبدیل ہوجاتاہے۔ایسالگتاہے کہ غیرشعوری طور پران کواحساس ہوجاتاہے کہ ان کے پاس اب وقت کم رہ گیاہے اورانہیں اسے جلد ختم کرلیناچاہیے۔اس کے بعد ان کی عبارت میں کہیں بکھراؤ نہیں ہے،اوروہ لامتناہی پیراگراف کی طرح لگتی ہے۔اس میں کئی چیزوں کو دہرایابھی گیاہے،کئی چیزیں ایسی تھیں کہ وہ وضاحتوں کی متقاضی تھیں،مسودے کاترجمہ کرنے سے پہلے اس کومرتب کرنے کی ضرورت تھی۔ میں خود یہ یقین کرلیناچاہتاتھاکہ ان کی تحریرکوصحیح طریقے سے پڑھ رہاہوں۔ملکہ پکھراج سے طویل ملاقاتوں کے بعد میں نے بہت تیزی سے ترجمے اوراس پرنظرثانی کرڈالی۔عنوان کے بارے میں سوال پرزہرانگاہ جوان دنوں کاظم صاحب کے ہاں ہی قیام پذیرتھیں۔انہوں نے ”بے زبانی زباں نہ ہوجائے“تجویزکیاجسے سب نے بڑے جوش وخروش کے ساتھ قبول کیا،اوریہی انگریزی میں Song Sung Trueہوگیا۔میں نے اسے اُروشی بٹالیہ کے حوالے کردیاجنہوں نے اسے مزید ایڈٹ کرکے اپنے ادارے کے تحت فوراً شائع کردیا۔اس جلدی کی وجہ ملکہ پکھراج صاحبہ کی خراب صحت تھی۔اس دوران کبھی وہ گھرہوتیں اورکبھی اسپتال جانے کی نوبت آجاتی،ہمار ی دلی خواہش تھے کہ وہ اپنی زندگی ہی Song Sung True دیکھ لیں۔انہوں نے اسپتال ہی میں اسے دیکھااوراپنے دستخط سے مزین ایک کاپی مجھے ارسال کردی۔آج یہ میری زندگی کے قیمتی سرمایوں میں سے ایک ہے۔“
ملکہ پکھراج نے کتاب کاانتساب”سیدشبیرحسین اورمہاراج ہری سنگھ کے نام“کیاہے۔جن کاان کی زندگی میں اہم کرداررہاہے۔سیدشبیر حسین ان کے شوہرتھے اورمہاراج ہری سنگھ کے دربارمیں انہوں نے بچپن میں کئی سال ملازمت کی تھی۔
ملکہ پکھراج جموں میں پیداہوئیں بچپن کے بارے میں لکھتی ہیں۔”مجھے بچپن میں اتناپیارملاکہ شایدہی کسی کونصیب ہو۔ایک خالہ جس نے نام رکھا،دوسری نانے کی بہن جس نے ساری زندگی شادی نہ کی،بہت بھولی بھالی،ہروقت خوش رہنے والی،ہنس مکھ،سیدھی سادھی،ڈرپوک اوررحمدل۔ تیسری والدہ کی چھوٹی بہن،بارہ تیرہ سال کی۔اورچوتھی نانی۔مجھے اتناپیارکرتیں جیسے ان کے لیے دنیامیں اس سے بڑھ کرکوئی نعمت نہ ہو۔ نانی کایہ حال تھاکہ اگرکبھی والدہ مجھ پرہاتھ اٹھاتی تووہ اپناسردیوارسے پھوڑلیتی۔نانے کی بہن جس کوسب ’پھپھونکی‘ کے نام سے پکارتے تھے،اس کوسوائے میرے کسی کے ساتھ دلچسپی نہ رہی۔ایک منٹ بھی وہ مجھ سے دورنہ رہتی۔اس کی دین دنیاسب کچھ میں تھی۔مجھے ہمیشہ ادب سے بلاتی،بچوں کی طرح مجھ سے ڈرتی۔کوئی چیزمیری مرضی کے خلاف نہ کرتی،کہ میں ناراض نہ ہوجاؤں۔“
والدین کے بارے میں بتانے کے بعدمصنفہ اپنی تعلیم کے بارے میں کہتی ہیں۔”تین سال کی عمرمیں ہی ماں کوفکرتھی کہ جلدسے جلدپڑھائی شروع ہوجانی چاہیے۔سیدگلزارحسین شاہ نے ابتدائی اردوفارسی پڑھائی۔پانچ چھ سال کی عمرمیں اردوکی مشکل سے مشکل کتاب پڑھ لیتی۔ تین سال کی عمرمیں ہی والدہ نے بڑے غلام علی کی باپ علی بخش کاشاگردبنادیا۔اس کوخدانے بے مثال آوازدی تھی۔تانپورہ چھیڑکرجب آوازلگاتاتواتناسُرمیں تھاکہ سننے والے وجدمیں آجاتے۔استاد مجھ سے بہت خوش تھا۔کہتاکہ یہ سُرمیں گائے گی۔آوازکالگاؤصحیح ہے۔“
مزیدتعلیم اورناچ اورنرت سکھانے کے لیے والدہ دہلی لے گئیں۔ماں کی کوششوں کی وجہ سے بچپن سے کوئی لمحہ بھی بیکارضائع نہ کرنے کی عادت پڑگئی۔اردوفارسی اوردیگرعلوم کے ساتھ بہت اچھاگانے اورناچنے لگیں اورآٹھ سال کی عمرمیں اس کی شہرت بھی ہونے لگی۔جموں میں مہاراج نے اپناسیکریٹری بھیج کربلوایا۔جب چلمن سے لگی بیویوں اوراہل دربارنے ملکہ کاگاناناچ نرت بھاؤدیکھاتوعش عش کراٹھے۔ دربارکے آداب نہ جانتی تھیں۔اس لیے غلطیاں ہوجاتیں۔دوماہ بعد مہاراج ہری سنگھ کی تاجپوشی تھی۔جس کی تیاریوں،ریاستی عوام کی دلچسپی،دیگرریاستوں کے حکمرانوں کی آمداورخاطرتواضع کااہتمام،اہل فن کے مظاہرے یہ سب بیان انتہائی دلچسپ ہے۔مہاراج ہری سنگھ نے کمسن ملکہ پکھراج کوباقاعدہ ملازم رکھ لیا۔اوروہ کئی سال ان کے دربارسے وابستہ رہیں۔وہاں محلاتی سازشیں،دربارکے آداب، فنکاروں اوراہل ہنرکی پذیرائی،ایک دوسرے کی کاٹ یہ سب بہت دلچسپ اورچشم کشاہے۔پھردربارسے الگ ہوکرزندگی کی مصروفیات، بطور گلوکارریڈیواورتقریبات میں فن کامظاہرہ اورپذیرائی قاری کی دلچسپی کم نہیں ہونے دیتیں۔
مہاراج ہری سنگھ سے ملکہ پکھراج بہت متاثرہیں۔”مہاراج ہری سنگھ کازیادہ وقت ولایت میں گزرا۔بہت پڑھے لکھے تے۔تاجپوشی ختم ہو نے کے دوسرے دن تمام گانے والیوں کورخصت کردیا۔میں بھی سوچا،میراکام بھی ختم ہوگیاہے۔مگرشام کووقت مقررہ پرموٹرآگئی۔رام نگر پہنچ گئی۔آتی دفعہ سرکارنے سات سوانعام دیا۔ہرروزسات بجے بلاواآجاتا۔آتی دفعہ کبھی پانچ سوکبھی سات سومل جاتے۔سرکارکی نظروں میں ہندومسلمان برابرتھے۔دلی خواہش تھی کہ ہندومسلمان سے ایک جیساسلوک کیاجائے۔“
جموں کے لوگ،نشاط باغ،نمائش،ہولی،تاجپوشی کے دن،تاجپوشی کاجلوس اورتاجپوشی کے مہمان معلومات افزااوردلچسپ ابواب ہیں۔ خاکہ نگاری کاکمال ملکہ پکھراج نے مہاراج پرتاب سنگھ،مہاراج ہری سنگھ،مہارانی دھرم کوٹ،مہارانی کوچ بہار،مولاناصاحب،باباروٹی رام،باباچرس صاحب،اپنے والد،استاممن خان اورایک اوراستادمیں دکھایاہے۔قائداعظم کے دوست اورپاکستان کے وزیرراجہ غضنفرعلی خان کاذکر بھی ملکہ پکھراج نے بہت عمدگی سے کیاہے۔ دوتین صفحات میں پوری شخصیت کامرقع پیش کردیا۔
سیدشبیرحسین سے ملاقات اوران کی شیفتگی کاذکربھی دلچسپ ہے۔والدہ کے آگے زبان نہ کھولنے کے سبب شبیرحسین سے شادی کیلیے بھی چھ سال لیت ولعل کرتی رہیں۔ پھر شادی کافیصلہ کیاتوپکچردیکھنے گئیں۔والدہ بھی ساتھ تھیں۔شبیرسوپوچھاشادی کرناچاہتے ہو؟ان کے ہاں کہنے پرکہا۔رات کودوبجے موٹرلے آنا۔میرے کمرے کے پاس پانچ دفعہ ہارن دینا۔میں سڑک پرآجاؤں گی۔رات کوپانچ ہارن سنے۔ جوتی پہنی۔اندھیرے میں ڈوپٹہ نہ ملا۔موٹرپہلے سے اسٹارٹ تھی۔سیالکوٹ روانہ ہوگئے۔سیالکوٹ اصغر کے گھرگئے،وہ ہمیں دیکھ کرسخت حیران ہوا۔ وہ مولوی لے آیاجس نے نکاح پڑھوایا۔مولوی نے حق مہرکاپوچھا۔شبیرنے کہاجوکچھ میرے حصے کاہے سب لکھ دو۔میں نے کہا۔نہیں صرف بتیس روپے۔یوں ملکہ پکھراج اورسیدشبیرحسین ازدواجی بندھن میں بندھ گئے۔شبیرحسین نے ساری زندگی ملکہ پکھراج کو شہزادیوں کی طرح رکھا۔ان کی ہرخواہش کوحکم کادرجہ دیا۔والدہ سے اختلافات بھی ختم ہوگئے۔انہوں نے ملکہ پکھراج کاسب کچھ ان کے حوالے کردیا۔شاہ جی چارپائی پرکروٹ لے کرلیٹے ہوئے تھے۔چہرے کے ایک طرف ان کی مخصوص مسکراہٹ تھی۔زردی کانام ونشان نہ تھا۔ یہ احساس ہی نہ ہوتاتھاکہ مرگئے ہیں۔شوہرکے انتقال کے بعدملکہ نے ایک ایک لمحہ ان کی کمی محسوس کی اورانہیں علم ہواکہ محبت کرنے والے شوہرکی جدائی کیامعنی رکھتی ہے۔چندروزمیں پتہ چل گیاکہ اب کسی چیزمیں میری کسی کوضرورت نہیں پڑتی۔وہ آوازیں،ڈارلنگ، بیگم،پھاجی۔جنہیں سن کراکتاجایاکرتی تھی۔اب کان ان کے لیے ترس گئے۔ان کی یاد کبھی ایک لمحہ بھی ملکہ پکھراج کے دل سے نہ گئی۔
دامادایس ایم ظفرکے حوالے سے ملکہ پکھراج نے لکھا۔”اگردوچارکینال ٹیکس کاجھگڑاختم کرنے کے لیے بیچنی پڑے وبیچ کرجھگڑاختم کرلینا چاہیے۔پہلی رجسٹری پرظفرکے دفترمیں میرے دستخط ہوئے۔پھرچل سوچل،رجسٹریاں دستخط کے بغیرہوتی گئیں۔حتیٰ کہ نوایکڑزمین بیچ ڈالی۔ہررجسٹری پرخودہی جعلی دستخط کرتارہا،کوٹھی بھی میرے بغیرپوچھے بیچ ڈالی۔کوٹھی کے ساتھ پرانی یادیں وابستہ تھیں۔میں نے بہت کوشش کی کہ دوتین کینال مجھے مل جائے۔مگراس کوجعلی دستخطوں کاایساچسکاپڑاکہ یہ سیاہ وسفید کامالک بن گیا۔میرافوجی بیٹاتاکید کرتارہاکہ کوٹھی کبھی نہ چھوڑنا۔یہ اپنی ماں کے ساتھ بھی بے ایمان ہے،آپ کی ہرچیزپرقبضہ کررہاہے۔میں کہتی،توبہ کرو،نمازاورقرآن پڑھتاہے۔ کوئی بے ایمانی نہیں کرسکتا۔بیس کینال نہرپرزمین خریدی تھی،وہ بھی میں نے اسی کوکہاکہ جاکررجسٹری کرادو۔تاکید کی کہ چھوٹی بیٹی کاضرور نام لکھوانا۔میرے خالہ نے میرے بڑے بیٹے کے لیے اسی ہزاردیے کہ نہرپراس کے حصے کی زمین پرکوٹھی بنوادو۔میں نے وہاں کوٹھی بنوانا شروع کردی۔اس کی کوشش تھی کہ میں جلدازجلدنہرشفٹ ہوجاؤں۔غسل خانے،الماریاں،فرش بنوائے۔دن رات تقاضاکہ اب نہر پر جاؤ۔گارڈن ٹاؤن میں نوایکڑزمین پرباغ تھا،میں نے نوایکڑرائے ونڈ میں زمین خریدی۔وہاں بانس لگائے۔سال دوسال میں پٹواری سے پتہ چلاکہ آدھی زمین اس نے اپنے نام سے خریدی تھی۔بعد میں پٹواری سے مل کرمیرے نام کی آدھی زمین بھی اپنے نام کروالی۔میں نے وہاں جانابھی چھوڑدیا۔مجھے افسوس ہے کہ میں اس کے بارے میں لکھ رہی ہوں مگرچونکہ میں نے ہربات سچی لکھی ہے اس لیے یہ بھی لکھناپڑا۔“
”بے زبانی زباں نہ ہوجائے“ انتہائی دلچسپ،چشم کشا آپ بیتی ہے۔جس میں ایک پورا دور اورتہذیب نظرآتی ہے۔اپنوں کا پیاربے اعتنائی اوربے ایمانی واضح ہوتی ہیں۔جانے پہچانے لوگوں کے کردارسے پردہ اٹھتاہے۔اس بے مثال آپ بیتی کی اشاعت پراجمل کمال کوبھرپورمبارک باد پیش ہے۔