Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ تاجروں کا ایک گروہ ایک ملک سے دوسرے ملک سفر کررہا تھا اور مالِ تجارت سے لدا اونٹوں کا ایک قافلہ ان کے ساتھ تھا۔ ایک صحرا میں سے جس کی مسافت ایک سو فرسنگ تھی، گزرتے ہوئے وہ پہلی رات ایک سرائے میں پہنچے اور وہیں ٹھکانا کیا۔ ساربانوں نے اونٹوں پر سے ساز و سامان اُتارا اور ان کی دیکھ بھال میں لگ گئے۔ انھوں نے گھوڑوں کو کارواں سرائے کے طویلے میں باندھا اور ان کے راتب کے لیے ناندوں میں گھاس اور جو ڈال دیے۔ قافلے کے اردگرد پاسبان حفاظت میں مصروف ہوگئے اور تاجر، سرائے میں استراحت میں مشغول ہوگئے تاکہ صبح پو پھوٹنے سے پہلے ہی اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جائیں۔
اتفاق سے قریب ہی ایک راہزن گھات میں چھپا ہوا تھا اور جونہی اہلِ قافلہ سو گئے، وہ ٹیلے کے پیچھے سے باہر نکلا تاکہ قافلے پر حملہ کرے۔ یہ راہزن جنگجو اور قوی ہیکل تھا۔ اس کی مونچھیں لمبی لمبی اور چہرہ خوفناک تھا۔ اگر کسی کی نگاہ اس پر پڑ جاتی تو وہ اس کے جُثّے کو دیکھ کر سہم جاتا۔
راہزن آدھی رات کو چل پڑا اور قافلے کی طرف بڑھا۔ وہ راہزنی کے لیے جس طرف سے بھی آگے بڑھتا، محافظوں کو بیدار اور چوکنّا پاتا اور چونکہ اکیلا تھا ڈرتا تھا کہ اگر ان کی نگاہ اُس پر پڑ گئی تو اُس کی خیر نہیں۔
جب چند گھنٹے اسی طرح گزر گئے، راہزن کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ رات جلد بیت جائے گی اور فضا روشن ہو جائے گی۔ تمام قافلے والے جاگ اُٹھیں گے اور راہزنی کا موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ یہ تھی صورتِ حال جب اس نے اپنے آپ سے کہا: اب جبکہ مسافروں کے ساز و سامان سے کوئی چیز ہاتھ لگنے کا امکان نہیں رہا، بہتر یہی ہے کہ طویلے کا رُخ کروں اور وہاں سے ایک گھوڑا چوری کرلوں تاکہ مجھے پیادہ روی۱ سے نجات مل جائے اور اگر کوئی گھوڑے کے پاؤں کی آہٹ سن لے اور لوگ میرا پیچھا کرنے کے لیے دوڑ پڑیں تو میں جنگل بیاباں میں سے ہوکر نکل جاؤں گا۔ یہ سوچ کر راہزن طویلے میں داخل ہوگیا لیکن وہاں بے حد اندھیرا تھا۔ اب وہ اس تلاش میں تھا کہ جس پہلے گھوڑے پر بھی اس کی نظر پڑے گی، اسے لے اُڑے گا اور اُس جگہ سے فرار ہو جائے گا۔
اتفاقاً ایک بھوکا شیر بھی جنگل سے اِدھر آنکلا تھا اور اس کا گزر اس صحرا سے ہوا اور وہ حیوانوں کی بو سونگھتا سونگھتا سرائے کے نزدیک آگیا تھا مگر اہلِ قافلہ کے جلتے چراغوں سے خوف کھاکر اسی طویلے میں پناہ گزیں تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی ایک گھوڑے کو چیر پھاڑ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھائے۔ شیر حملے پر آمادہ ہورہا تھا کہ عین اس وقت راہزن خاموشی سے اس تاریک فضا میں شیر کے نزدیک آپہنچا۔
راہزن نے ہاتھ میں تلوار سَونت رکھی تھی اور تیار تھا کہ اگر اتفاقاً کسی نے اسے دیکھ لیا تو وہ لڑائی اور فرار کے ذریعے اپنی جان بچالے جائے گا۔ اس تاریکی میں جب اچانک شیر کی نگاہ تلوار پر پڑی تو وہ خوف میں مبتلا ہوگیا۔ ہاں اسے یہ احساس ضرور تھا کہ چونکہ طویلہ تاریک ہے سو ایسے میں لوگ تاریکی میں اسے نہیں پہچان پائیں گے۔ وہ یہ سمجھا کہ طویلے میں آنے والا شخص شاید گھوڑوں کی دیکھ ریکھ کے لیے آیا ہے۔ اس نے اپنے دل میں کہا: بہتر ہے میں مطمئن ہو جاؤں اور خود پر جھوٹ موٹ مُردنی طاری کرلوں تاکہ یہ شخص مجھے بھی گھوڑا ہی سمجھے کیونکہ اگرمیں نے اس پر حملہ کیا تو ممکن ہے میں اس کی تلوار کے گھاٹ اُتر جاؤں۔
راہزن اُسی طرح آگے بڑھتا گیا اور چونکہ اندھیرے کے باعث وہ شیر اور گھوڑے کا فرق جاننے سے قاصر تھا لہٰذا جب وہ شیر کے قریب جاپہنچا تو سمجھا کہ یہ بچھیرا ہے۔ فوراً اسی حالت میں کہ اس نے تلوار سونت رکھی تھی جست لگا شیر کی پیٹھ پر جا سوار ہوا اور اسے ڈرایا۔ شیر بھی جان کے خوف سے طویلے سے باہر آگیا اور صحرا کی طرف نکل کھڑاہوا۔
شیر اسی طرح راہزن کی تلوار کے خوف سے مسلسل چلا جارہا تھا اور راہزن کا بھی یہی خیال تھا کہ وہ بچھیرے پر سوار ہے۔ وہ کبھی کبھی اپنی تلوار لہرا کر شیر کو دوڑنے پر مجبور کرتا۔ وہ چلتے گئے چلتے گئے حتّٰی کہ مہمان سرا اور قافلے سے کئی میل دور جاپہنچے۔
اب رفتہ رفتہ صبح کی سفیدی ظاہر ہونے لگی تھی اور راہزن بچھیرے کو طویلے سے اُڑا لانے پر خوش ہورہا تھا۔ اچانک اس کی نگاہ جو گھوڑے پر پڑی تو کیا دیکھتا ہے کہ رانوں کے نیچے گھوڑا نہیں، ایک قوی ہیکل شیر ہے۔ راہزن کے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے لیکن چونکہ شیر اس کی اطاعت کررہا تھا، وہ ڈرا کہ اگر وہ اچانک اس کی پشت پر سے کود پڑا تو شیر اس کی تِکّہ بوٹی کر ڈالے گا چنانچہ اس نے اُسی طرح اپنی تلوار کو لہرا لہرا کر شیر کو رواں دواں رکھا اور جان بچانے کی راہ ڈھونڈتا رہا۔ شیر بھی تلوار کے خوف سے یونہی چلا جارہا تھا۔
اب جب فضا روشن اور صاف ہوگئی، وہ ایک پرانے درخت کے پاس سے گزرے اور راہزن نے شیر کے چنگل سے بچنے کے لیے درخت کی ایک شاخ کو قوّت سے تھاما اور شیر کی پیٹھ سے اُچَک کر درخت پر جا لٹکا۔ اس نے کہا: خدا کا شکر ہے کہ میں شیر کے خوف سے رہا ہوگیا۔ شیر بھی اپنے آپ سے کہہ رہا تھا: خدا کا شکر ہے کہ مجھے تلوار کے خوف سے چھُٹکارا ملا۔ شیر کسی کی طرف دیکھے بغیر اسی طرح چلتے ہوئے کُچھ آگے بڑھا۔ پھر اس نے گردن موڑی، ایک نگاہ درخت اور شمشیر کش راہزن پر ڈالی اور دوبارہ تیزی سے اپنی راہ پر ہولیا۔
شیر اسی طرح صحرا میں دوڑا چلا جاتا تھا حتّٰی کہ وہ ایک اَور درخت کے نزدیک پہنچا جس پر ایک بندر بیٹھا تھا۔ جب اس نے شیر کو خوف زدہ اور ہراساں دیکھا، مُتعجَّب ہوا اور اس سے کہنے لگا: سلام عرض کرتا ہوں۔ اِن شاءاللہ بلا دور ہو جائے گی، خدا نہ کرے کہ میں جنگل کے بادشاہ کو بے چین دیکھوں۔ خیر تو ہے جنابِ شیر؟
شیر بولا: شکریہ، ایسا کچھ بھی نہیں اور میں بے چین بھی نہیں۔ ایک قافلہ آیا تھا اور کُچھ گھوڑے مہمان سرا کے طویلے میں بندھے تھے۔ اگرچہ میں نے کبھی آبادی کا رُخ نہیں کیا تھا، مگر میں چل دیا کہ طویلے میں سے کسی گھوڑے کا شکار کرلوں لیکن ایک شمشیر بَدَست شخص میری پشت پر آ، سوار ہوا اور میں اس کی تلوار سے بچا اور خاموش رہا حتّٰی کہ دن نکل آیا اور جب اس پر میری حقیقت کھُلی تو وہ خوف زدہ ہوکر ایک درخت سے لٹک گیا اور اپنے آپ کو میرے پنجے سے رہا کیا اور میرے خوف سے آزاد ہوگیا۔ میں نے بھی تلوار کے خوف سے نجات پائی اور اب میں وہیں سے آرہا ہوں۔
بندر بولا: بڑی عجیب بات ہے، کیسی انوکھی باتیں سن رہا ہوں۔ آدمی زاد شیر کی پیٹھ پر سوار ہو جاتا ہے، کس قدر غلط کرتا ہے۔ یہ کام حیوانوں کے لیے کس قدر ذلت کا باعث ہے۔ کل کلاں کو یہ شخص تمام لوگوں کو بتاتا پھرے گا کہ میں حیوانوں کے بادشاہ کی پُشت پر سوار ہوا اور اس نے میری تلوار کے ڈر سے حَلق سے آواز تک نہ نکالی۔ یہ تو بہت برا ہوا اور جب یہ آدم زادے شیر کی اس طرح توہین کریں گے تو آئندہ کوئی حیوان بھی سر اُٹھا کر نہیں چل سکے گا۔ ہماری عزت خطرے میں ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم چلیں اور اس بے شرم بے حیا شخص کو سزا دیں۔
شیر بولا: میرا خیال بھی ایسا ہی ہے لیکن میں نے بتایا نا کہ اس کے ہاتھ میں تلوار تھی اور جب جان اور آبرو کا معاملہ ہو تو عقل مند حیوان جان کو آبرو پر قربان نہیں کرتا اور جونہی وہ ہم سے خوف زدہ ہوا اور اس نے درخت کی شاخ میں پناہ لے لی، تو یہ کافی ہے اب کچھ اور اقدام نہیں کیا جاسکتا۔
بندر بولا: خیر آپ کی مرضی جنابِ شیر! مگر لگتا ہے کہ آپ ابھی تک انسان کی خصلت سے واقف نہیں۔ انسان ایک بے حیا مخلوق ہیں اور جب یہ کسی سے مقابلے پر اُتر آئیں اور کسی معاملے میں دخل انداز ہو جائیں تو اُس سے آسانی سے دست بردار نہیں ہوتے۔ اگر ایک دفعہ غلطی سے شیر پر سوار ہوجائیں تو کل کلاں کو تمام حیوانوں پر زور زبردستی اور ان کی پشت پر سوار ہونے کی خواہش کرنے لگیں گے۔ میری دانست میں ضرر اور نقصان کی ہر طرف سے پیش بندی فائدہ مند ہوتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم انھیں اپنی طاقت سے آگاہ کریں تاکہ وہ سمجھ لیں کہ دنیا قاعدے قانون سے اتنی بھی بے اعتنا نہیں اور وہ گدھا سواری اور شترسواری سے بڑھتے بڑھتے شیر سواری کے لالچ میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
شیر بولا: مجھے نہیں معلوم۔ اب تک میری انسانوں سے مڈبھیڑ نہیں ہوئی۔ تم بندر ان باتوں کو بہتر جانتے ہو۔
بندر بولا: جی ہاں! ان انسانوں کی عادت ہے کہ جب یہ خود خوف زدہ ہو جاتے ہیں تو اپنی تلوار کو ہوا میں لہراتے ہیں۔ اگر ایسے میں کوئی ان سے خوف زدہ نہ ہو، تو یہ خود زیادہ خوف زدہ ہو جاتے ہیں اور بھاگ لیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ان سے ڈر گیا تو سمجھ لیں کہ ان کو روک نہیں سکے گا اور ان کی تلوار کو حرکت میں لے آئے گا۔
شیر بولا: اچھا بھئی! اب کہو کیا کرنا چاہیے۔
بندر بولا: میرے خیال میں ایک بھیڑیے، ایک چیتے اور ایک لومڑی کو آواز دے کر بلالیں اور ان سے ایک لشکر ترتیب دیں اور سب مل کر اُس درخت پر حملہ کردیں اور اس آدمی کو ہراساں کریں۔
شیر بولا: بہت اچھا، مگر آدمی تو درخت پر ہے اور ہم میں سے کوئی بھی درخت پر چڑھ نہیں سکتا، میں نہیں چڑھ سکتا، بھیڑیا بھی نہیں، لومڑی بھی کہ ہرگز لڑبھڑ نہیں سکتی۔ اس کو تو صرف باتیں بنانے کا فن آتا ہے۔
بندر بولا: آپ لوگوں کو کُچھ نہیں کرنا۔ بس آپ میرے ہمراہ چلیں۔ میں درخت پر چڑھوں گا اور اسے نیچے گرادوں گا۔ اس وقت آپ لوگ اس کا کام تمام کردیں۔
شیر بولا: ٹھیک ہے۔ میں اب بھیڑیے اور چیتے کو بلاتا ہوں اور تمھیں پورا اختیار دیتا ہوں کہ جس شے کو صحیح سمجھتے ہو، کرڈالو۔ تب شیر دہاڑا اور بھیڑیا، چیتا اور لومڑی حاضر ہوگئے۔ شیر گویا ہوا: اے بھائیو! میرا عقیدہ ہے کہ حیوانوں کو خود خطرے کو دعوت نہیں دینی چاہیے اور جنگ کا رستہ ہموار نہیں کرنا چاہیے لیکن بندر کہتا ہے کہ حیوانات کی عزت خطرے میں ہے۔ آؤ چلیں، دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
تب بندر آگے آگے اور باقی جانور اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے حتّٰی کہ وہ اس درخت کے نیچے آپہنچے جس پر راہزن نے پناہ لے رکھی تھی۔ جب اس نے درندوں کو وہاں جمع دیکھا تو بہت ڈرا اور خود کو درخت کے تنے میں جو اندر سے کھوکھلا تھا، چھپا لیا۔
بندر درخت کے نیچے آیا اور بولا: اے لم ڈھینگ، بے شرم، کالے بالوں والے، آدمی کے بچے! تجھے چاہیے کہ نیچے آئے اور شیر سے معذرت کرے ورنہ ہم اوپر آتے ہیں اور تیری کھال ادھیڑتے ہیں۔
خوف زدہ شخص نے کوئی جواب نہ دیا۔ شیر نے بندر سے کہا: خوب! اب اتنا ہی کافی ہے۔ معلوم ہوگیا کہ وہ ڈر رہا ہے سو یہی کافی اندازہ ہے۔ اس کا جواب نہ دینا ہی اس کی کمزوری کی دلیل ہے۔ بہتر ہے کہ ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں۔
بندر نے کہا: نہیں، میں اس شخص کو تھپڑ رسید کروں گا۔ تب اس نے فوراً جست لگائی اور درخت پہ آپہنچا۔ پھر اس نے درخت کی کھکھل۱ میں اپنا منہ ڈالا اور راہزن سے کہا: باہر آتا ہے یا نہیں؟
ڈرے ہوئے شخص نے اپنی جان کو خطرے میں بھانپ کر اپنی تلوار بلند کی اور بندر کی گردن میں اُتار دی۔ بندر ہلاک ہوکر درخت سے نیچے گر پڑا۔
بھیڑیے اور چیتے نے ابھی تک زبان سے ایک حرف بھی نہ نکالا تھا۔ انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر چیتا بولا: عجیب بے وقوف بندر تھا۔ ہم جو چیرپھاڑ دینے والے پنجے اور دانت رکھتے ہیں، جب تک کسی شخص کو ہمارے کام سے کام نہ ہو اور جب تک ہم بھوکے نہ ہوں، اُس سے لڑائی کرنے کا سوچتے بھی نہیں، اس بندر نے تو خواہ مخواہ اپنے لیے آفت مول لی۔
شیر بولا: میں نے بھی اس سے ایسی ہی باتیں کی تھیں لیکن اس نے ان پرکان نہ دھرا اور اپنے عمل کی سزا پائی۔ صرف فضول حیوان ہی جنگ اور جھگڑے برپا کرتے ہیں اور ان میں اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں وگرنہ میں جو شیر ہوں اور سب سے زیادہ طاقتور ہوں، صرف ضرورت کے مطابق شکار کرتا ہوں اور خواہ مخواہ لڑائی نہیں چھیڑتا۔ یقینا لالچ اور غرور کی کبھی کوئی حد نہیں ہوتی لیکن عقلمند جانور فضول میں غارت گری نہیں کرتا اور خواہ مخواہ خود کو ہلاکت میں نہیں ڈالتا۔
٭٭٭
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ تاجروں کا ایک گروہ ایک ملک سے دوسرے ملک سفر کررہا تھا اور مالِ تجارت سے لدا اونٹوں کا ایک قافلہ ان کے ساتھ تھا۔ ایک صحرا میں سے جس کی مسافت ایک سو فرسنگ تھی، گزرتے ہوئے وہ پہلی رات ایک سرائے میں پہنچے اور وہیں ٹھکانا کیا۔ ساربانوں نے اونٹوں پر سے ساز و سامان اُتارا اور ان کی دیکھ بھال میں لگ گئے۔ انھوں نے گھوڑوں کو کارواں سرائے کے طویلے میں باندھا اور ان کے راتب کے لیے ناندوں میں گھاس اور جو ڈال دیے۔ قافلے کے اردگرد پاسبان حفاظت میں مصروف ہوگئے اور تاجر، سرائے میں استراحت میں مشغول ہوگئے تاکہ صبح پو پھوٹنے سے پہلے ہی اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جائیں۔
اتفاق سے قریب ہی ایک راہزن گھات میں چھپا ہوا تھا اور جونہی اہلِ قافلہ سو گئے، وہ ٹیلے کے پیچھے سے باہر نکلا تاکہ قافلے پر حملہ کرے۔ یہ راہزن جنگجو اور قوی ہیکل تھا۔ اس کی مونچھیں لمبی لمبی اور چہرہ خوفناک تھا۔ اگر کسی کی نگاہ اس پر پڑ جاتی تو وہ اس کے جُثّے کو دیکھ کر سہم جاتا۔
راہزن آدھی رات کو چل پڑا اور قافلے کی طرف بڑھا۔ وہ راہزنی کے لیے جس طرف سے بھی آگے بڑھتا، محافظوں کو بیدار اور چوکنّا پاتا اور چونکہ اکیلا تھا ڈرتا تھا کہ اگر ان کی نگاہ اُس پر پڑ گئی تو اُس کی خیر نہیں۔
جب چند گھنٹے اسی طرح گزر گئے، راہزن کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ رات جلد بیت جائے گی اور فضا روشن ہو جائے گی۔ تمام قافلے والے جاگ اُٹھیں گے اور راہزنی کا موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ یہ تھی صورتِ حال جب اس نے اپنے آپ سے کہا: اب جبکہ مسافروں کے ساز و سامان سے کوئی چیز ہاتھ لگنے کا امکان نہیں رہا، بہتر یہی ہے کہ طویلے کا رُخ کروں اور وہاں سے ایک گھوڑا چوری کرلوں تاکہ مجھے پیادہ روی۱ سے نجات مل جائے اور اگر کوئی گھوڑے کے پاؤں کی آہٹ سن لے اور لوگ میرا پیچھا کرنے کے لیے دوڑ پڑیں تو میں جنگل بیاباں میں سے ہوکر نکل جاؤں گا۔ یہ سوچ کر راہزن طویلے میں داخل ہوگیا لیکن وہاں بے حد اندھیرا تھا۔ اب وہ اس تلاش میں تھا کہ جس پہلے گھوڑے پر بھی اس کی نظر پڑے گی، اسے لے اُڑے گا اور اُس جگہ سے فرار ہو جائے گا۔
اتفاقاً ایک بھوکا شیر بھی جنگل سے اِدھر آنکلا تھا اور اس کا گزر اس صحرا سے ہوا اور وہ حیوانوں کی بو سونگھتا سونگھتا سرائے کے نزدیک آگیا تھا مگر اہلِ قافلہ کے جلتے چراغوں سے خوف کھاکر اسی طویلے میں پناہ گزیں تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی ایک گھوڑے کو چیر پھاڑ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھائے۔ شیر حملے پر آمادہ ہورہا تھا کہ عین اس وقت راہزن خاموشی سے اس تاریک فضا میں شیر کے نزدیک آپہنچا۔
راہزن نے ہاتھ میں تلوار سَونت رکھی تھی اور تیار تھا کہ اگر اتفاقاً کسی نے اسے دیکھ لیا تو وہ لڑائی اور فرار کے ذریعے اپنی جان بچالے جائے گا۔ اس تاریکی میں جب اچانک شیر کی نگاہ تلوار پر پڑی تو وہ خوف میں مبتلا ہوگیا۔ ہاں اسے یہ احساس ضرور تھا کہ چونکہ طویلہ تاریک ہے سو ایسے میں لوگ تاریکی میں اسے نہیں پہچان پائیں گے۔ وہ یہ سمجھا کہ طویلے میں آنے والا شخص شاید گھوڑوں کی دیکھ ریکھ کے لیے آیا ہے۔ اس نے اپنے دل میں کہا: بہتر ہے میں مطمئن ہو جاؤں اور خود پر جھوٹ موٹ مُردنی طاری کرلوں تاکہ یہ شخص مجھے بھی گھوڑا ہی سمجھے کیونکہ اگرمیں نے اس پر حملہ کیا تو ممکن ہے میں اس کی تلوار کے گھاٹ اُتر جاؤں۔
راہزن اُسی طرح آگے بڑھتا گیا اور چونکہ اندھیرے کے باعث وہ شیر اور گھوڑے کا فرق جاننے سے قاصر تھا لہٰذا جب وہ شیر کے قریب جاپہنچا تو سمجھا کہ یہ بچھیرا ہے۔ فوراً اسی حالت میں کہ اس نے تلوار سونت رکھی تھی جست لگا شیر کی پیٹھ پر جا سوار ہوا اور اسے ڈرایا۔ شیر بھی جان کے خوف سے طویلے سے باہر آگیا اور صحرا کی طرف نکل کھڑاہوا۔
شیر اسی طرح راہزن کی تلوار کے خوف سے مسلسل چلا جارہا تھا اور راہزن کا بھی یہی خیال تھا کہ وہ بچھیرے پر سوار ہے۔ وہ کبھی کبھی اپنی تلوار لہرا کر شیر کو دوڑنے پر مجبور کرتا۔ وہ چلتے گئے چلتے گئے حتّٰی کہ مہمان سرا اور قافلے سے کئی میل دور جاپہنچے۔
اب رفتہ رفتہ صبح کی سفیدی ظاہر ہونے لگی تھی اور راہزن بچھیرے کو طویلے سے اُڑا لانے پر خوش ہورہا تھا۔ اچانک اس کی نگاہ جو گھوڑے پر پڑی تو کیا دیکھتا ہے کہ رانوں کے نیچے گھوڑا نہیں، ایک قوی ہیکل شیر ہے۔ راہزن کے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے لیکن چونکہ شیر اس کی اطاعت کررہا تھا، وہ ڈرا کہ اگر وہ اچانک اس کی پشت پر سے کود پڑا تو شیر اس کی تِکّہ بوٹی کر ڈالے گا چنانچہ اس نے اُسی طرح اپنی تلوار کو لہرا لہرا کر شیر کو رواں دواں رکھا اور جان بچانے کی راہ ڈھونڈتا رہا۔ شیر بھی تلوار کے خوف سے یونہی چلا جارہا تھا۔
اب جب فضا روشن اور صاف ہوگئی، وہ ایک پرانے درخت کے پاس سے گزرے اور راہزن نے شیر کے چنگل سے بچنے کے لیے درخت کی ایک شاخ کو قوّت سے تھاما اور شیر کی پیٹھ سے اُچَک کر درخت پر جا لٹکا۔ اس نے کہا: خدا کا شکر ہے کہ میں شیر کے خوف سے رہا ہوگیا۔ شیر بھی اپنے آپ سے کہہ رہا تھا: خدا کا شکر ہے کہ مجھے تلوار کے خوف سے چھُٹکارا ملا۔ شیر کسی کی طرف دیکھے بغیر اسی طرح چلتے ہوئے کُچھ آگے بڑھا۔ پھر اس نے گردن موڑی، ایک نگاہ درخت اور شمشیر کش راہزن پر ڈالی اور دوبارہ تیزی سے اپنی راہ پر ہولیا۔
شیر اسی طرح صحرا میں دوڑا چلا جاتا تھا حتّٰی کہ وہ ایک اَور درخت کے نزدیک پہنچا جس پر ایک بندر بیٹھا تھا۔ جب اس نے شیر کو خوف زدہ اور ہراساں دیکھا، مُتعجَّب ہوا اور اس سے کہنے لگا: سلام عرض کرتا ہوں۔ اِن شاءاللہ بلا دور ہو جائے گی، خدا نہ کرے کہ میں جنگل کے بادشاہ کو بے چین دیکھوں۔ خیر تو ہے جنابِ شیر؟
شیر بولا: شکریہ، ایسا کچھ بھی نہیں اور میں بے چین بھی نہیں۔ ایک قافلہ آیا تھا اور کُچھ گھوڑے مہمان سرا کے طویلے میں بندھے تھے۔ اگرچہ میں نے کبھی آبادی کا رُخ نہیں کیا تھا، مگر میں چل دیا کہ طویلے میں سے کسی گھوڑے کا شکار کرلوں لیکن ایک شمشیر بَدَست شخص میری پشت پر آ، سوار ہوا اور میں اس کی تلوار سے بچا اور خاموش رہا حتّٰی کہ دن نکل آیا اور جب اس پر میری حقیقت کھُلی تو وہ خوف زدہ ہوکر ایک درخت سے لٹک گیا اور اپنے آپ کو میرے پنجے سے رہا کیا اور میرے خوف سے آزاد ہوگیا۔ میں نے بھی تلوار کے خوف سے نجات پائی اور اب میں وہیں سے آرہا ہوں۔
بندر بولا: بڑی عجیب بات ہے، کیسی انوکھی باتیں سن رہا ہوں۔ آدمی زاد شیر کی پیٹھ پر سوار ہو جاتا ہے، کس قدر غلط کرتا ہے۔ یہ کام حیوانوں کے لیے کس قدر ذلت کا باعث ہے۔ کل کلاں کو یہ شخص تمام لوگوں کو بتاتا پھرے گا کہ میں حیوانوں کے بادشاہ کی پُشت پر سوار ہوا اور اس نے میری تلوار کے ڈر سے حَلق سے آواز تک نہ نکالی۔ یہ تو بہت برا ہوا اور جب یہ آدم زادے شیر کی اس طرح توہین کریں گے تو آئندہ کوئی حیوان بھی سر اُٹھا کر نہیں چل سکے گا۔ ہماری عزت خطرے میں ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم چلیں اور اس بے شرم بے حیا شخص کو سزا دیں۔
شیر بولا: میرا خیال بھی ایسا ہی ہے لیکن میں نے بتایا نا کہ اس کے ہاتھ میں تلوار تھی اور جب جان اور آبرو کا معاملہ ہو تو عقل مند حیوان جان کو آبرو پر قربان نہیں کرتا اور جونہی وہ ہم سے خوف زدہ ہوا اور اس نے درخت کی شاخ میں پناہ لے لی، تو یہ کافی ہے اب کچھ اور اقدام نہیں کیا جاسکتا۔
بندر بولا: خیر آپ کی مرضی جنابِ شیر! مگر لگتا ہے کہ آپ ابھی تک انسان کی خصلت سے واقف نہیں۔ انسان ایک بے حیا مخلوق ہیں اور جب یہ کسی سے مقابلے پر اُتر آئیں اور کسی معاملے میں دخل انداز ہو جائیں تو اُس سے آسانی سے دست بردار نہیں ہوتے۔ اگر ایک دفعہ غلطی سے شیر پر سوار ہوجائیں تو کل کلاں کو تمام حیوانوں پر زور زبردستی اور ان کی پشت پر سوار ہونے کی خواہش کرنے لگیں گے۔ میری دانست میں ضرر اور نقصان کی ہر طرف سے پیش بندی فائدہ مند ہوتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم انھیں اپنی طاقت سے آگاہ کریں تاکہ وہ سمجھ لیں کہ دنیا قاعدے قانون سے اتنی بھی بے اعتنا نہیں اور وہ گدھا سواری اور شترسواری سے بڑھتے بڑھتے شیر سواری کے لالچ میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
شیر بولا: مجھے نہیں معلوم۔ اب تک میری انسانوں سے مڈبھیڑ نہیں ہوئی۔ تم بندر ان باتوں کو بہتر جانتے ہو۔
بندر بولا: جی ہاں! ان انسانوں کی عادت ہے کہ جب یہ خود خوف زدہ ہو جاتے ہیں تو اپنی تلوار کو ہوا میں لہراتے ہیں۔ اگر ایسے میں کوئی ان سے خوف زدہ نہ ہو، تو یہ خود زیادہ خوف زدہ ہو جاتے ہیں اور بھاگ لیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ان سے ڈر گیا تو سمجھ لیں کہ ان کو روک نہیں سکے گا اور ان کی تلوار کو حرکت میں لے آئے گا۔
شیر بولا: اچھا بھئی! اب کہو کیا کرنا چاہیے۔
بندر بولا: میرے خیال میں ایک بھیڑیے، ایک چیتے اور ایک لومڑی کو آواز دے کر بلالیں اور ان سے ایک لشکر ترتیب دیں اور سب مل کر اُس درخت پر حملہ کردیں اور اس آدمی کو ہراساں کریں۔
شیر بولا: بہت اچھا، مگر آدمی تو درخت پر ہے اور ہم میں سے کوئی بھی درخت پر چڑھ نہیں سکتا، میں نہیں چڑھ سکتا، بھیڑیا بھی نہیں، لومڑی بھی کہ ہرگز لڑبھڑ نہیں سکتی۔ اس کو تو صرف باتیں بنانے کا فن آتا ہے۔
بندر بولا: آپ لوگوں کو کُچھ نہیں کرنا۔ بس آپ میرے ہمراہ چلیں۔ میں درخت پر چڑھوں گا اور اسے نیچے گرادوں گا۔ اس وقت آپ لوگ اس کا کام تمام کردیں۔
شیر بولا: ٹھیک ہے۔ میں اب بھیڑیے اور چیتے کو بلاتا ہوں اور تمھیں پورا اختیار دیتا ہوں کہ جس شے کو صحیح سمجھتے ہو، کرڈالو۔ تب شیر دہاڑا اور بھیڑیا، چیتا اور لومڑی حاضر ہوگئے۔ شیر گویا ہوا: اے بھائیو! میرا عقیدہ ہے کہ حیوانوں کو خود خطرے کو دعوت نہیں دینی چاہیے اور جنگ کا رستہ ہموار نہیں کرنا چاہیے لیکن بندر کہتا ہے کہ حیوانات کی عزت خطرے میں ہے۔ آؤ چلیں، دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
تب بندر آگے آگے اور باقی جانور اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے حتّٰی کہ وہ اس درخت کے نیچے آپہنچے جس پر راہزن نے پناہ لے رکھی تھی۔ جب اس نے درندوں کو وہاں جمع دیکھا تو بہت ڈرا اور خود کو درخت کے تنے میں جو اندر سے کھوکھلا تھا، چھپا لیا۔
بندر درخت کے نیچے آیا اور بولا: اے لم ڈھینگ، بے شرم، کالے بالوں والے، آدمی کے بچے! تجھے چاہیے کہ نیچے آئے اور شیر سے معذرت کرے ورنہ ہم اوپر آتے ہیں اور تیری کھال ادھیڑتے ہیں۔
خوف زدہ شخص نے کوئی جواب نہ دیا۔ شیر نے بندر سے کہا: خوب! اب اتنا ہی کافی ہے۔ معلوم ہوگیا کہ وہ ڈر رہا ہے سو یہی کافی اندازہ ہے۔ اس کا جواب نہ دینا ہی اس کی کمزوری کی دلیل ہے۔ بہتر ہے کہ ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں۔
بندر نے کہا: نہیں، میں اس شخص کو تھپڑ رسید کروں گا۔ تب اس نے فوراً جست لگائی اور درخت پہ آپہنچا۔ پھر اس نے درخت کی کھکھل۱ میں اپنا منہ ڈالا اور راہزن سے کہا: باہر آتا ہے یا نہیں؟
ڈرے ہوئے شخص نے اپنی جان کو خطرے میں بھانپ کر اپنی تلوار بلند کی اور بندر کی گردن میں اُتار دی۔ بندر ہلاک ہوکر درخت سے نیچے گر پڑا۔
بھیڑیے اور چیتے نے ابھی تک زبان سے ایک حرف بھی نہ نکالا تھا۔ انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر چیتا بولا: عجیب بے وقوف بندر تھا۔ ہم جو چیرپھاڑ دینے والے پنجے اور دانت رکھتے ہیں، جب تک کسی شخص کو ہمارے کام سے کام نہ ہو اور جب تک ہم بھوکے نہ ہوں، اُس سے لڑائی کرنے کا سوچتے بھی نہیں، اس بندر نے تو خواہ مخواہ اپنے لیے آفت مول لی۔
شیر بولا: میں نے بھی اس سے ایسی ہی باتیں کی تھیں لیکن اس نے ان پرکان نہ دھرا اور اپنے عمل کی سزا پائی۔ صرف فضول حیوان ہی جنگ اور جھگڑے برپا کرتے ہیں اور ان میں اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں وگرنہ میں جو شیر ہوں اور سب سے زیادہ طاقتور ہوں، صرف ضرورت کے مطابق شکار کرتا ہوں اور خواہ مخواہ لڑائی نہیں چھیڑتا۔ یقینا لالچ اور غرور کی کبھی کوئی حد نہیں ہوتی لیکن عقلمند جانور فضول میں غارت گری نہیں کرتا اور خواہ مخواہ خود کو ہلاکت میں نہیں ڈالتا۔
٭٭٭