26 دسمبر 2004 بحرہند میں اُٹھنے والی سونامی نے انڈونیشیا سے لے کر بنگلہ دیش تک سب کو ہلا دیا لاکھوں ہلاک،ہزاروں زخمی اور متعدد بےگھر ہوئے سینکڑوں لاپتہ افراد کا اب تک کوئی اتا پتہ نہیں یہ کہتے ہیں کہ یہ آبی آفت روشنیوں کے شہر کو چھوتی ہوئی گزرگئی مگر کراچی کو آنچ نہ آئی ۔نہ صرف شہرقائد کے باسی بلکہ پورا ملک بڑی تباہی سے محفوظ رہا ماضی میں جائیں تو بحیرہ عرب میں کئی بار سمندر طوفان اُٹھے رخ کراچی کی جانب تھا مگر ٹکراؤ کی نوبت نہ آئی یہ طوفان یا تو راستہ بدل گئے یا پھر کمزور پڑ گئے۔ اور ملک ممکنہ تباہی سے محفوظ رہا ،آپ سوچتے ہوں گے کہ باربار ملک کا حوالہ کیوں دیا جارہا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 8 اکتوبر 2005کا زلزلہ انتہائی ہلاکت خیز رہا ۔۔ مگر تباہی مخصوص مقامات تک محدود رہی ۔
جان اور مال کا اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا سونامی یا طوفان سے ہوسکتا تھا ،تاہم اس بار جو ہوا وہ کسی معجزے سے کم نہیں ،دنیا کے کونے کونے میں تباہی مچانے والا کورونا پاکستان میں وہ بگاڑ نہ لاسکا جس کا خدشہ تھا سرکاری اعدادوشمار ہلاکتیں چھ ہزار سے کچھ زائد بتاتے ہیں صحتیاب افراد کی تعداد بھی حوصلہ افزا رہی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کا کریڈٹ کس کو دیا جائے ؟وہ وزیراعظم جو روز اول سے لاک ڈاؤن مخالف اور کورونا کو محض فلو قرار دیتا رہا ۔کبھی اسمارٹ لاک ڈاؤن کے نام پر بےوقوف بناتا رہا یا وہ لوگ جو عالمی وبا کو یہودی سازش اور مسجد وممبر ویران کرنے کا حربہ قرار دیتے رہے ؟ یا گنتی کے وہ لوگ جنہوں نے مسئلے کو سنجیدہ لیا ؟ اصولاً کامیابی کا سہرا تینوں میں سے کسی کے ایک سر نہیں جاتا ۔ معاملے پر عمران نیازی کی بےنیازی قوم کو کھائی میں دھکیلنے کے مترادف تھی ، عوامی رویہ بھی آ بیل مجھے مار والا رہا ، چیدہ چیدہ افراد احتیاط کرکے شاید خود کو بچالیتے مگر معاشرہ غیر محفوظ تھا ۔ بحیثیت قوم ہم ایک ایسی بلا کو چھیڑ رہے تھے جس نے دنیا کے بڑے بڑے پہلوانوں کو چاروں خانے چت کیا ۔۔ حیرت ہے کہ ہماری تمام حرکتوں اور کرتوتوں کے باوجود وبا کو طیش نہ آیا اس نے ہمارا وہ حشر نہ کیا جو اٹلی،اسپین اور اب امریکا کا کررہی ہے ؟ ذرا سوچئیے کورونا کو کس نے روکا تھا ؟ ذہن میں بےاختیار وہ شعر آتا ہے کہ وہی محفوظ رکھے گا میرے گھر کو بلاؤں سے جو بارش میں شجر سے گھونسلہ گرنے نہیں دیتا ۔ اس بارش میں ہمارا دامن تر تو ضرور ہوا مگر آشیاں محفوظ رہا ۔ ایک بار پھر کہوں گا کہ گھر کے چراغ گھر کو آگ لگانے پر تلے تھے ۔شاید شعلوں کو خود ہی رحم آگیا جس پر اللہ کا جتنا شکر بجالائیں اتنا کم ہے ۔
سرکاری سطح پر بندشیں ہٹانے کے باوجود خطرہ ٹلا نہیں ۔ صرف تعطل آیا ہے ۔ تاہم حالات اور ماضی کے تجربات آل از ویل کی نوید سنارہے ہیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بچ گئے ہیں ۔آگے اللّٰہ مالک ہے