1998ء میں عمدہ شاعراورانجینئرفیصل عجمی نے بین الاقوامی معیارکے اردوادبی جریدے آثار کااجراکیا۔جس کی مدیر شاعرہ،ایڈیٹر، مترجم اورماہرتعلیم ثمینہ راجہ کومقررکیاگیا ۔فیصل عجمی اورثمینہ راجہ کے اشتراک نے آثار کواردوکاصف اول کاادبی میگزین بنادیا۔ جو ثوری اورمعنوی حسن سے آراستہ اورنثرونظم کی بہترین تحریروں سے مزین ہوتاتھا۔ آثار کاشمارجلد اردوکے بہترین اورمستندادبی رسائل میں ہونے لگا۔
فیصل عجمی نے پرچے کو جاری رکھنے کے لیے غالباً ایک منصوبے کابھی اعلان کیاتھا۔ یعنی ہرسال کسی ایک ادبی شخصیت کوآثارایوارڈ بھی دینے کافیصلہ کیاگیاتھا۔پہلا”آثارایوارڈ”منفردشاعرثروت حسین کودیاگیاتھا۔لیکن آثار کے پہلے دورمیں کل دس شمارے ہی شائع ہوسکے۔ جن میں ایک ضخیم خاص نمبراورنئے ملینیم کے آغازپرآٹھواں شمارہ سالگرہ نمبرکے طورپرشائع ہوا۔ راقم کاثمینہ راجہ سے رابطہ رہااورانہوں نے آثار کے دوبارہ اجراکایقین ظاہر کیا۔لیکن ثمینہ راجہ کی اکتوبر 2012ء ناگہانی وفات کے بعد آثار کے دوبارہ آغاز کی امیدیں ختم ہوگئیں۔
یہ بھی پڑھئے:
تین دسمبر: گلوکاری تا تبلیغ اسلام، جنید جمشید کی آج برسی ہے
چھ دسمبر: پاکستان کے واحد فلسفی قوال عزیز میاں کی آج برسی ہے
ثمینہ راجہ گیارہ ستمبرانیس سواکسٹھ میں پیداہوئیں تھیں۔ وہ صرف اکیاون سال کی عمرمیںتیس اکتوبردوہزاربارہ کوانتقال کرگئیں۔ اس مختصر عمرانہوں نے صف اول کی شاعرہ،ایڈیٹر،مترجم اورماہرتعلیم کی حیثیت سے اپنامقام بنایا۔ انہوں نے 1992ء میں خوبصورت ادبی رسالہ ”مستقبل ”جاری کیا، جو چند شماروں کے بعد بند ہوگیا۔
وہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے معیاری ادبی رسالے ”کتاب” کی بھی مدیررہیں۔ان کے شعری مجموعوں میں ”ہویدا”،”شہرِسبا”،”اوروصال”،”خوابنائے”،”باغِ شب”،”ہفت آسمان”،”دلِ لیلیٰ”،”عشق آباد”،”پری خانہ”،”عدن کے راستے پر”اوردوضخیم کلیات شامل ہیں۔ثمینہ راجہ کے دواشعارملاحظہ کریں۔
میں تمہارے عکس کی آرزومیں بس آئینہ بنی رہی
کبھی تم نہ سامنے آسکے،کبھی مجھ پہ گرد پڑی رہی
وہ عجیب شام تھی،آج تک میرے دل میں اسکاملال ہے
میری طرح جوتیری منتظر،تیرے راستے میں کھڑی رہی
فیصل عجمی 1954میں ملتان میں پیداہوئے۔انہوں نے انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے گریجویشن کی۔ذاتی کاروبارکے لیے تھائی لینڈ میں مقیم رہے۔غزل ونظم کے بہت عمدہ شاعرہیں۔ان کی شاعری کے مجموعوں میں ”شام”،”مراسم”،”خواب سمندر” اور”سونامی” شامل ہیں ۔فیصل عجمی مظاہرِفطرت اوراحساسات وجذبات کے شاعرہیں۔
حسن تغزل ہی کی مانند انہوں نے”آثار” جیسے معیاری ادبی جریدے کا خواب ہی نہیں دیکھا۔اسے تعبیربھی دی۔فیصل عجمی کے کچھ اشعارپیش ہیں۔
آوازدے رہا تھاکوئی خواب میں مجھے
لیکن خبر نہیں کہ بلایا کہاں گیا
اب وہ تتلی ہے نہ وہ عمرتعاقب والی
میں نہ کہتاتھا بہت دور نہ جانااے دوست
حرف اپنے ہی معانی کی طرح ہوتاہے
پیاس کا ذائقہ پانی کی طرح ہوتاہے
نامعلوم وجوہ کی بناپردس شماروں کے بعد”آثار” جاری نہ رہ سکا۔دودہائی کی طویل مدت بعدفیصل عجمی منفردشاعرشاہدماکلی کی ادارت میں ایک بالکل نئی ٹیم کے ساتھ ”آثار” کاایک مرتبہ پھراجرا اسی شان اورخوبصورتی سے کرنے میں کامیا ب ہوئے ہیں۔ان کی ٹیم میں کبیراطہر،فیصل ہاشمی اورآسیہ ارش شامل ہیں۔
آثار کی اشاعت نوپرشمارہ نمبرنوتحریرہے۔اس سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ اس کے چنداورشمارے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ لیکن فیصل عجمی نے ”امانت” کے عنوان سے شاعرانہ اداریہ میں لکھاہے۔” میں نے ایک معجزے کوقریب سے دیکھاجب امانت لوٹانے کے جنون میں مکھی کو مرنے نہیں دیا۔بیس برس ہوگئے۔مجھے بھی ایک امانت واپس کرنی تھی۔۔کررہاہوں۔”
جس سے واضح ہے کہ آثار بیس برس بعدایک مرتبہ پھرپورے حسن وتوانائی کے ساتھ منظرعام پرآیاہے۔فیصل عجمی نے اس مرتبہ بھی بہت قابل ٹیم تشکیل دی ہے۔شاہدماکلی منفردشاعرہیں۔ان کی شاعری میں سائنسی شعوراورکائنات کی وسعتیں نظرآتی ہیں انہوں نے سائنس اورروحانیات کویکجاکردیاہے۔ان کا یہ شعرملاحظہ کریں۔
نگہ پڑی تونظرآیااک مقام پہ میں
ہٹی جوآنکھ توآفاق بھر میں پایا گیا
کیااس میں اللہ کے بارے میں جدیدتحقیق پارٹیکل آف گاڈکافلسفہ بیان نہیں کیاگیا؟ کچھ اوراشعاردیکھیں۔
یہ غم رہے نہ رہے ، غم نگاری رہ جائے
ہمارے بعدبھی حالت ہماری رہ جائے
مری زمین کے موسم بدلتے جاتے ہیں
مگرخداکرے خوشبو تمہاری رہ جائے
نہ خراب ہوتا میں دھوپ میں،نہ اندھیری رات میں گھومتا
تو جو ساتھ ہوتا تواور ہی کسی کائنات میں گھومتا
کہیں رنگ دیکھتا نوبہ نو،کہیں جذب کرتامہک تری
کبھی سیرکرتاصفات میں کبھی تیری ذات میں گھومتا
آثارکے تازہ شمارے میں بھی شاہدماکلی کی غزل کے اشعارانہی آفاقی جہتوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
جہاز اک دن سَمے کے دوسرے ساحل سے پہنچیں گے
ہمارے حال تک کچھ لوگ مستقبل سے پہنچیں گے
زمیں والو! رصَدگاہِ زماں سے دیکھتے رہنا
ہمارے عکس نوری سال کی جھلمل سے پہنچیں گے
شاہدماکلی اوران کی ٹیم نے ”آثار” کے دورِنوکے پہلے شمارے میں بھی معجزہ کردکھایاہے۔پرچہ کی حسنِ ترتیب،پیشکش اورنظم ونثرکامواداسی معیارکاہے،جوبیس سال قبل ”آثار” سے وابستہ تھا۔امیدہے کہ آئندہ شماروں میں خوب سے خوب ترکی جستجومیں اس میں مزید بہتری آئے گی۔
حسب روایت”آثار” کے مندرجات کومختلف عنوان دیے گئے ہیں اورہرعنوان کومخصوص رنگ کے کاغذسے واضح کیاگیاہے۔”درعشق سلیما نم” کے تحت خالدعلیم کی ”بارگاہِ خدامیں” نظم، سعودعثمانی کی حمد،سلیم کوثرکی دونعتیں،سعودعثمانی کی غزوہ خندق کے موقع پرپڑھی رجز،مقصودعلی شاہ کی نعت اورغائرعالم کی دونعتیںشامل ہیں۔سلیم کوثرکی نعت کے دواشعارپیش ہیں۔
اب میں جیسا بھی ہوں، توقیربڑھادی اس نے
نعت لکھوائی مجھے، نعت سنادی اس نے
میں غزل کہتے ہوئے نعت کی جانب آیا
سارے عالم میں کرادی ہے منادی،اس نے
”ایک کہن صہبا”کے عنوان کے تحت نظیراکبرآبادی کی منتخب غزلیات واشعار اورمنفردافسانہ وناول نگارخان فضل الرحمٰن کاافسانہ”ادھ کھایا امرود” شامل کیاگیاہے۔جواولڈازگولڈکامزہ دیتے ہیں۔نظیراکبرآبادی اردوکے پہلے عوامی شاعرتھے۔ان کی نظمیں پڑھ کرلطف کے سبق بھی ملتاہے۔نظیرکی غزلیں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔
”کاغذی ہے پیرہن” کے تحت روسی مصور واسیلی پرشاگن کی آٹھ تصاویراوران کے بارے میں ریحان کاظمی کامضمون شامل ہے۔”کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ” میں بہترین مضامین کی دھنک سجائی گئی ہے۔ڈاکٹررشیدامجدکامضمون ”علی محمدفرشی کے طلسم کدے کی کلید”اردونظم کے بڑے شاعرعلی محمدفرشی کے فن کے عمدہ تجزیے پرمبنی ہے،لکھتے ہیں۔
”علی محمدفرشی کاشماران چنداہم نظم نگاروں میں ہوتاہے جنھوں نے اردو نظم کوغیرغزلیہ آہنگ سے روشناس کرایاہے اوریوں جدیداردونظم کی اس روایت کومستحکم کرنے میں اہم کرداراداکیاہے جواردوغزل کے آہنگی مزاج سے علاحدہ اپنی شناخت بناچکی ہے۔اپنے موضوعات ،طریقہ کار،فنی استعدادکے حوالے سے وہ اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ مختصراورطویل نظم میں ان کامکالماتی انداز،کردارنگاری اورفلسفیانہ رویہ جہاںشناسی کے ساتھ ساتھ آشوب ِ ذات کی غواصی کاپتادیتاہے، وہیں سیاسی سماجی معاملات سے جڑے ہونے کابھرپوراحساس بھی دلاتاہے۔”
افسانہ،ناول اورسفرنامہ نگارسلمیٰ اعوان نے اپنی کتاب”عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں”عالمی ادب کے نمایاں ادیب وشعراء سے اردو قاری کومتعارف کرایاہے۔سلمیٰ اعوان کی کتاب کادوسراحصہ بھی شائع ہونے والاہے۔”آثار”کے تازہ شمارے میںسلمیٰ اعوان کامضمون ”پانیوں پرلکھاجانے والانام۔جان کیٹس شیلے” شامل ہے۔ڈاکٹرمرزاحامدبیگ ”کلامِ غالب اورغزل گائیکی” کے ساتھ حاضرہیں۔جس میں غالب کی فلمی اورغیرفلمی گائی ہوئی غزلوںکے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔
غلام حسین ساجد نے اقبال عابدکے ناول”مانگی ہوئی محبت” کاجائزہ لیاہے۔ناول وافسانہ نگاراورنقادناصرعباس نیر”آدمی کائناتی ابتری کی روح ہے۔زاہدڈارکی یادمیں”لے کرآئے ہیں اور کیاخوب ان یادوں کوبیان کیاہے۔ضیاالمصطفیٰ ترک نے مضمون”انتظارحسین کی کہانیاں ،میری رائے میں” لکھاہے۔ناول نگار،ماہر لسانیات اورمدیر ”نقاط” قاسم یعقوب نے”زبان اورابتدائے زبان” پر بہت عمدہ مضمون تحریرکیاہے۔مجموعی طورپر”آثار” کایہ حصہ کافی ثروت مندتحریروں سے آراستہ ہے۔
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں” کے تحت سینئرشعراء ظفراقبال،غلام حسین ساجد،کبیراطہر،اخترعثمان،شاہدذکی،احمدجہاں گیر اورفیصل عجمی کی دو،دوغزلیں دی گئی ہیں۔”کچھ اورچاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے”میں وحیداحمد،معین نظامی،رفیق سندیلوی،اقتدار جاوید،ابراراحمد،علی محمدفرشی،ثاقب ندیم،زاہدامروزاورطاہرراجپوت کی دوسے پانچ نظمیں شامل کی گئی ہیں۔حصہ شعرمیں ”دلِ پرخوں کی اک گلابی سے” کے عنوان سے اکیاون شعراء کی غزلیں شامل ہیں۔جس سے دورِجدیدکی غزل کی پیش رفت اورنت نئے موضوعات سے آگاہی ہوتی ہے۔کچھ اشعارملاحظہ کریں۔
یادرکھاہے اسے اورنہ بھلایاہواہے
بوجھ ایک غیرضروری سااٹھایاہواہے
توجہاں پرہے وہیں ٹھیک ہے،پاگل دل نے
یونہی بیکارسی باتوں میں لگایا ہوا ہے ظفراقبال
خوشی کے مرتے ہوئے خواب کے قریں گزرا
حسیں گزرناتھاجودن، بہت حزیں گزرا کبیراطہر
وہ میری روح سے جاں کی طرف چلاگیاہے
مسافراپنے مکاں کی طرف چلا گیا ہے
جو تیر میرے بدن کی طرف روانہ تھا
پلٹ کے اپنی کماں کی طرف چلاگیا ہے فیصل عجمی
عشق میں اک گلبرگ بدن کے، کیوں خود کو بے حال کریں
دل کاجام الٹ کر رکھ دیں، مے سے چہرہ گلال کریں
صبح وداعِ گل بدناں ہے، ڈھانپ کے منہ شبنم اور ہم
اتنا روئیں عارضِ گل کو ، آئینہ تمثال کریں توصیف تبسم
”لذیذبودحکایت درازترگفتم”کے عنوان سے توصیف تبسم ،نصیراحمدناصر،حسین مجروح،احمدحسین مجاہد،یٰسین آفاقی،عابدرضا،عنبریں صلاح الدین،گلنازکوثر،سعیدسادھو،آسیہ ارش،عماراقبال ،سہیل کاہلوں اورنسیم خان کی نظمیں دی گئی ہیں۔مجموعی طورپرشمارے کاوقیع شعری حصہ ایک سوساٹھ صفحات پرمحیط ہے۔جس میں بہترین نظم وغزل کوشامل کیاگیاہے۔
آثارکاافسانوی حصہ”خلقت شہرتوکہنے کوفسانے مانگے” نسبتاً مختصرہے۔پینتالیس صفحات کی اس حصہ میںسات افسانے شامل ہیں۔جن میں علی تنہا”مدارسے ہٹتی ہوئی زمین”،محمدحمیدشاہد”وہ جوایک حجاب تھا”، حامدیزدانی ”ٹیوب” نجمہ ثاقب”آخری خواہش”، مریم مجید ” چھپرکھٹ کاناگ”،عبیرہ احمدکا”رستگاہِ وفا” اورفیصل عجمی کا”برفانی لومڑی” شامل ہیں۔جن میں موضوعات کاتنوع موجود ہے۔
”زبان یارمن ترکی” کے زیرعنوان تراجم کوجگہ دی گئی ہے۔احمدرضااحمدی ،زاہراد،واجہ آرمن اورماریہ پطروسیاں کی نظموں کے تراجم معین نظامی نے کیے ہیں۔سلویاپلاتھ کی نظم کاترجمہ سیماب ظفرنے اورلوئیس گلوک کی دونظموں کاترجمہ محمدعامرنے کیاہے۔فرانزکافکاکی کہانی ” کچی پگڈنڈیوں پرکھیلتے بچے ”کاترجمہ محمدفیصل نے کیاہے۔
”تازہ واردان ”کے تحت شاہد ماکلی نے مقداداحسن اورماریہ محورکاعمدہ تعارف کرایاہے۔”تقریب کچھ توبہرملاقات” کاعنوان تودرج ہے ۔ لیکن اس میں شامل انٹرویوغالباً ضخامت پرکنٹرول کی وجہ سے روک لیاگیاہے۔”علاقائی زبانوں کاادب” میں شاہدماکلی نے جواں مرگ سرائیکی شاعرشِوکماربٹالوی کابہت بھرپورتعارف اورنمونہ کلام پیش کیاہے۔
ایک عنوان”زمیں تافلک نغمہ بیدل است” میں بیدل دہلوی کے فارسی کلام کاشاہدماکلی نے بہت خوبصورت ترجمہ کیاہے۔آخری عنوان”فراغتے وکتابے وگوشہء چمنے” میں امرتاپریتم کی ”ایک اداس کتاب” پرمشہورافسانہ نگاراورکالم نگارزاہدہ حناکاکالم،اورفیصل ہاشمی کے شعری مجموعے ”کارگاہ”پرشناوراسحاق کاتبصرہ دیاگیاہے۔
مجموعی طورپر”آثار” کے دورِنوکاپہلاشمارہ بھی بہترین شعری اورنثری تحریروں سے آراستہ ہے امید ہے کہ ”آثار” اسی آب وتاب سے جاری رہے گا اوراس کاہرشمارہ خوب سے خوب ترنظرآئے گا۔