سن 2000 کے بعد یہودی آبادکاروں نے مسجد اقصیٰ کو مسمار کرنے اور اس کی شناخت مٹانے کیلئے اس مقدس مکان پر پے در پے حملے شروع کردئیے۔ دوسری طرف نوجوان مسلمان مردوں کی اس مسجد میں نماز ادائیگی پر پابندی لگا دی گئی۔ اس پابندی کے بعد صرف عمر رسیدہ مرد وں اور عورتوں کو مسجد میں داخلے کی اجازت تھی . ان ایام میں مسجد اقصیٰ کی سیکیورٹی اور صہیونی غاصب کے مقابلے میں اس کا دفاع کرنے کیلئے کوئی خاص انتظامات موجود نہیں تھے. لہذا یہ بات اظہر من الشمس کی طرح عیاں تھی کہ یہودی اس مسجد کی شناخت کو سرے سے مٹانا چاہتے تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
آثار ،بین الاقوامی معیارکے ادبی جریدے کانیاجنم
سات دسمبر: گلوکاری تا تبلیغ اسلام، جنید جمشید کی آج برسی ہے
اسی دوران سنہ 2010 میں ”مرابطات ” نامی خواتین کی ایک گروہ تشکیل دی گئی جس کا کام صہیونی آبادکاروں کی دراندازی کے مقابلے میں مسجد اقصیٰ کا دفاع کرنا تھا۔ کیونکہ ان ایام میں فلسطینی مردوں کا مسجد اقصیٰ میں داخلہ ممنوع تھا۔ اس لیے یہ گرو ہ علی الصبح، چھوٹے چھوٹے گروپس کی شکل میں مسجد اقصیٰ میں داخل ہوتے اور دن بھر مسجد کی حفاظت کرتے۔ اس کے علاوہ مسجد کی صفائی ستھرائی کا کام بھی انجام دیتے۔ اس سے بڑھ کر اہم یہ کہ یہودیوں کی گستاخانہ حرکتوں کا منہ تھوڑ جواب دیتے۔
جب یہودی آباد کار صہیونی فوج کی سرپرستی میں مسجد اقصیٰ پر دھاوا بولنے کی کوشش کرتے تو مرابطات گروپ ان کے سامنے سیسہ پلائی کی دیوار ثابت ہوتے۔ یہ خواتین ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کر یہودیوں کے مقابل کھڑے ہو جاتیں. وہ یہودیوں کی دراندازی کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرکے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر وائرل کرتیں۔ . اسی طرح مسجد کے اندر رہنے والے لوگوں کیلئے روایتی طرز کے کھانے بالخصوص ” مقلوبہ” نامی کھانا تیار کرکے ان کو کھلاتیں۔ یہ گروپ یہودیوں کی ثقافتی یلغار کا مقابلہ بھی کیا کرتا۔
مرابطات گروپ کی مسجد اقصیٰ کے دفاع کیلئے جاری سرد جنگ آج تک جاری ہے۔ آج سینکڑوں خواتین رضاکارانہ طور پر اس گروپ میں شامل ہوکر مسجد اقصیٰ کے مختلف مقامات پر تعینات ہوتی ہیں اور مسجد کے انتظامات سنبھالتی ہیں۔ فلسطین کے مقامی لوگ ان کو ” مرابطات” کے نام سے پکارتے ہیں جو آج مقاومت اور ثابت قدمی کے ایک عملی نمونے کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔
حالیہ عرصے میں رباط نے جدوجہد اور مزاحمت کے نئے طریقے اپنائے ہیں۔ وہ بچوں کیلئے مسجد میں تعلیمی کلاسز منعقد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف بہانوں سے نمائشوں اور تقاریب کا اہتمام کرکے مسجد کو اس تحریک کا حصہ بناتے ہیں۔ قابض صہیونیوں نے ایک طویل عرصے سے ان شیردل خواتین کے خلاف جبر و ستم کے مختلف طریقے استعمال کریے ہیں۔ جیسے کہ مار پیٹ، تشدد، گرفتاریاں، ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرنا ، جرمانے اور مسجد سے بے دخل کرنا۔ لیکن انہیں اب تک خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ یہ کوئی ایسی تحریک نہیں ہے جس کو آسانی سے دبایا جاسکے۔ کیونکہ رباط میں شامل جرات مند خواتین ایک لمحے بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتیں۔
مرابطات در حقیقت فلسطینی خواتین کی وہ گروہ ہے جنہوں نے اپنی زندگی مسجد الاقصیٰ کی حفاظت کیلئے وقف کردی ہے۔ فلسطینی عوام اس گروہ کو مسجد الاقصٰی کی دفاع کا آہنی دیوار سمجھتے ہیں۔ ان کی موجودگی صہیونی فوج اور انٹیلی جنس کیلئے تشویش کا باعث بنی ہے۔ قابض صہیونیوں نے ان پر بارہا انتشار پھیلانے، تشدد کو ہوا دینے اور انتقاضہ کرانے جیسے سنگین نوعیت کے الزامات لگائے ہیں۔ اب قابض حکومت انہیں ڈرا دھمکا کر اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرکے انہیں بیت المقدس سے جلاوطن کرکے انہیں سماجی خدمات سے محروم کررہی ہے۔
شیخ جراح پر صہیونی حملے کے دوران ان لوگوں کی خدمات شاندار رہیں۔ انھوں نےسماجی ویب سائٹس پر نہایت موثر طریقے سے صہیونیوں کی گھناؤنی حرکات کو بے نقاب کیا۔ یہ کارنامہ انجام دینے والوں میں مریم العفیفی اور مونا الکرد جیسی مرابطات کی ارکان شامل تھیں۔ اس ‘جرم’ پرصہیونی قابض فوج نے انہیں گرفتار کیا۔ گرفتاری دیتے وقت ان کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ کیونکہ وہ اپنی ان مسکراہٹوں سے دشمن کا حوصلہ پسپا کرنا چاہتی تھیں اور دنیا کو یہ دکھانا چاہتی تھیں کہ انتقاضہ کی تحریک ابھی تک قائم ہے۔
فی الحال 60 سے زائد مرابطات کے ارکان کا نام صہیونی حکومت کی طرف سے بلیک لیسٹ میں شامل ہیں۔ جن کی مسجد اقصٰی میں داخلے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ تاہم وہ نئی رضاکار خواتین کو مسجد اقصیٰ کی حفاظت کیلئے ٹریننگ دیتے ہیں۔
صہیونی حکومت کی مسلسل کوشش ہے کہ کسی بھی طریقے سے مرابطات گروپ کو کالعدم قرار دیکر اس کو ختم کردیں تاہم وہ ابھی تک اس سازش میں ناکام رہے ہیں۔ اور مرابطات گروپ اب بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کررہا ہے۔ لگتا ہے۔
اس غیرمنصفانہ جنگ میں فلسطینی خواتین بغیر کسی دفاعی سازوسامان کے اپنی ایمانی طاقت اور شجاعت کی بنا پر سرگرم عمل ہیں۔ وہمسلح قابض صہیونیوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر دنیا والوں اور خاص کر بلاد اسلامیہ کو یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کی طاقت ہر طاقت سے برتر ہے اور اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔