پھر یوں ہوا کہ سلمیٰ اعوان نے میرے نازک دل پر دستک دی، اپنے مخصوص خلوص بھرے انداز میں پکارا، اپنے رس بھرے لہجے سے گھائل کیا اور مجھے لُوٹ کر لے گئیں۔
لُٹنا تو میں خود بھی چاہتی تھی مگر سلمیٰ اعوان کا نام بہت بڑا تھا۔ میں تو زمین پر کھڑی ہو کر اس قطب مینار کو دیکھا کرتی تھی، قریب جانے کا نہ حوصلہ تھا نہ ہمت ۔۔
اتنے بڑے نام کی دہشت سے سہمی سہمی سی رہی ۔۔۔چاہ کر بھی اُن کےقریب نہ آسکی۔
اور پھر جب ان سے بے تکلفی ہوئی تو معلوم ہوا وہ تو خاکسار ہیں، عاجز سی خاتون جو اپنے کام سے کام رکھتی ہیں، جو جانتی ہی نہیں کہ ادب کے وہ کتنے عظیم سنگھاسن پر بیٹھیں ہیں، انہیں احساس ہی نہیں کہ انہوں نے کتنا لکھا اور کس اعلیٰ درجے کا عالمی ادب لکھا۔
زندگی بھر لکھا، نامسائب حالات میں بھی لکھا، گھرداری، نوکری، سکول، بچے، رشتے داریاں، دوستیاں، سب مراحل اپنی جگہ، مگر لکھنے کا جنون اپنی جگہ، ان کی شخصیت میں جلال بھی ہے اور جمال بھی، حسن بھی ہے، بے پرواہی بھی، وہ سود و زیاں سے پاک اور پووتر ہیں۔
“نا ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ “
یہ بھی پڑھئے:
جماعت اسلامی کا قافلۂِ سخت جاں اور حافظ نعیم الرحمن
کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کی کارکردگی کیسی ہوگی؟
پاکستان کی تاریخی سفارتی جست، شہباز حکومت کا ایک بڑا کارنامہ
گل بخشالوی کی شاعری جو صرف شاعری نہیں
خوش نوا، خوش ادا اور مہرباں استاد، سید ارشاد حسین نقوی
مگر افسانہ ہو یا ناول، سفر نامہ ہو یا کالم، ہر حیثیت مسلم اور مستند ہے۔ حکومت وقت میں اگر کوئی جوہر شناس ہوتا تو انہیں قومی ایوارڈ سے نوازتا، اُن کے اس فیصلے سے اُن کی اپنی اہلیت اور جوہر شناسی کے رتبے کو ہی بلند ہونا تھا۔ مگر یہ اعزاز اور مرتبہ تو آثار والوں کے حصے میں آنا تھا۔ سو آیا میں سلمیٰ اعوان کی تمام کتابوں سے استفادہ کر چکی ہوں، اس لئے مرعوبیت کی ماری ان کے لئے چند لفظ لکھتے ہوئے بھی سوچتی ہوں۔ کیا لکھوں، کیسے لکھوں، ؟ خدا انہیں ہماری محبتوں اور دعاؤں کے حصار میں رکھے۔ عصرحاضر کےحبس ذدہ موسم میں سلمی اعوان کو ملنے والا یہ ایوارڈ ادبی حلقوں میں تازہ ہوا کا وہ جھونکا ہے جو گھنے درخت تلے کھڑے، بے آسرا تخلیق کاروں کے لئے ٹھنڈی چھاؤں بھی ہے۔ اور اُمید کی نئی کرن بھی ۔۔۔میں خوش نصیب ہوں کہ ان کی محبتوں کے حصار میں ہوں، سلمی آپا دل و جان سے مبارک باد