جبار مرزا کا تازہ ترین چھکا یا دسکا۔ میں تو رشک و توصیف کے بیچ لٹک جاتی ہوں ، یا اللہ چند دن کچھ چیدہ چیدہ اوراق فیس بک پر سامنے آتے ہیں اور پھر اچانک ہی کتاب چھپ جاتی ہے ۔ ۔ جانے کونسا جن ہے ان کے قبضے میں ؟
لگتا ہے یاداشتیں ساتھ ساتھ لکھنے کےعادی ہیں شاید۔ ۔ اوردنوں میں انہیں سمیٹ لیتے ہیں ۔
میں نے بھی کتاب موصول ہوتے ہی ڈھائی دن میں پڑھ ڈالی ۔ ۔ اگرچہ میرے دل و دماغ آج کل کہیں اوراٹکے ہویے ہیں ۔ مقابلے میں نہیں بلکہ اتنی دلچسپ معلومات اور پھر بابایے ظرافت کے بارے میں ، صبر ناممکن تھا ۔ ۲۳ سالہ تاریخ کو کچھ اس طرح سمیٹا ہے مرزا صاحب کے قلم نے کہ پردہ ورق کے ساتھ ساتھ پس پردہ بھی کیی حقایْق سامنے آتے گیے ۔
سید ضمیر جعفری کے آباواجداد کے بارے تحقیق سے لے کر ان کے آخری لمحات کی متحرک تصاویر نگاہوں کے سامنے گھوم رہی تھیں ۔ اگرچہ میرا ضمیر جٰعفری صاحب سے ’’ رابطہ ‘‘ کے حوالے سے رابطہ رہا کچھ عرصہ مگر’’ مزاح نگاروں کا کمانڈران چیف‘‘ تو ان کے بارے میں کسی انساییکلو پیڈیا سے کم نہیں ۔ میرے ہاں’’ رابط‘‘ کی ایک میٹنگ کے دوران منشا یاد نے انہیں بھی مدعو کیا تھا اور باری بھی میرے افسانے کی تھی ۔ میری خوش قسمتی کہ انہیں بھی وہ افسانہ بہت پسند آیا ۔ اپنے کالم ’’ ضمیرحاضرضمیرغایب ‘‘ میں انہوں نے جس اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہویے میرے افسانے کو سراہا ، میرے لیے وہ کسی میڈل سے کم نہیں ۔
یہ بھی پڑھئے:
سلمیٰ اعوان نے جب دل کے دروازے پر دستک دی
جماعت اسلامی کا قافلۂِ سخت جاں اور حافظ نعیم الرحمن
کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کی کارکردگی کیسی ہوگی؟
پاکستان کی تاریخی سفارتی جست، شہباز حکومت کا ایک بڑا کارنامہ
اسی دن معلوم ہوا کہ وہ تو ہماری گلی ہی کے دوسرے سرے پر رہتے ہیں اورگرین بیلٹ کی جانب روز چہل قدمی کیلیے آتے ہیں ۔ دو تین بارانہوں نے گھنٹی بجا کر سلام دعا کی ،میں نے چائے کا پوچھا تو گیٹ پر ہی کھڑے کھڑے ایک پیالی پینے پر آمادہ ہوگیے ۔ مجھے بہت اچھا لگا، چایے تقریبا تیار تھی جلد ہی لے آئی ، دیکھا تووہ لان میں پودوں کا معایینہ کر رہے تھے ۔ میرے پھول پودوں کے ذوق کو سراہا، چائے پی اور چلے گیے ۔ مجھے ان کے معمول کی خبر ہو چکی تھی سو انہیں دور سے آتا دیکھ کرچائے بنا لاتی۔ گیٹ پرہی چایے پیتے ،ہلکی پھلکی شگفتہ گفتگو ہوتی اور چلے جاتے ۔ ۔ایک بار میں نے کہا بھی کہ بیٹھیں ناشتہ کرواتی ہوں تو ہنس کر اپنے مخصوص شگفتہ اندازمیں فرمایا،
’’ میری جرنیل ٹیرس پر کھڑی نگرانی کر رہی ہوگی ۔ ایک انچ بھی ادھرادھرہلا تو خیر نہیں ‘‘
مراد ان کی تیسری اورآخری بیگم صاحبہ تھیں ۔ جبارمرزا صاحب کی کتاب سے اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ بیگم صاحبہ ہرمعاملے میں ڈسپلن کی پابند تھیں ۔ جلد ہی ہم نے دوسرا گھرخرید لیا اور یہ’’ چائے ملاقات ‘‘ موقوف ہوگئی۔
سچ ہے کہ بہادر لوگ اپنے آنسویوں کو قہقہوں میں ڈھالنے کا فن جانتے ہیں ۔ سو سید ضمیرجعفری نے نہ صرف اسلام آباد کے قیام اوراس کی تشکیل میں ایک عملی کمانڈرکا کردار ادا کیا بلکہ اپنی زندگی کی کیی دشوارگھاٹیوں کو بھی اپنے آنسو چھپا کر ہنستے ہنستے ایک بہادرکمانڈر کی طرح عبورکر لیا ۔ ۔؎
چارلی چپلن نے کہا تھا ، ’’ میں جب دکھ کی شدت سے رونا چاہتا ہوں تو اپنے آنسو چھپانے کو بارش میں چہل قدمی کرنے لگتا ہوں ‘‘
سید ضمیر جعفری نے اپنے آنسو چھپانے کواپنے قلم سے قہقہے بلند کرنے اورکروانے شروع کر دیے ۔
جبارمرزا نے عرق ریزی کے ساتھ ان کے بارے میں مصدقہ حقایق جمع کرکے جس خوبصورتی سے قلم بند کیے ہیں یہ انہی کا حصہ ہے ۔ ہر صفحے پرکہیں میں اپنے آنسو صاٖف کر رہی ہوتی اورکہیں بے ساختہ مسکرا دیتی ۔
ہمارے سیا سی و سماجی منظر نامے کی بھی کئی اہم جھلکیاں ’’ مزاح نگاروں کا کمانڈرانچیف ‘‘ کے اوراق میں نظرآتی ہیں بس سوچنے والا دماغ اور سمجھنے والا دل چاہیے ۔
جبارمرزا صاحب کا اپنا انداز تحریراس قدر اثرانگیز ہے کہ میں صفحے پر صفحہ پلٹتی گئی ، ان کے اندر ایک صحافی، شاعر، ادیب اور ہفت زبان، چاروں ہرہرسطر پربانہوں میں بانہیں ڈالے مٹرگشت کرتے محسوس ہوئے۔
میں کتاب سے کچھ اقتباسات لکھنا چاہتی تھی لیکن فیصلہ ہی نہیں کر پائی کہ ہر جملہ ہر واقعہ اتنا دلچسپ ہے کہ بہتر ہو گا اگر آپ خود ہی پڑھیں اس کتاب کو اور اس کیفیت کو محسوس کریں جو لکھاری کے قلم سے صفحہ قرطاس پر منتقل ہویی ۔