کیا وجہ ہے کہ ٹیلنٹ کی کمی نہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے ریجنل کرکٹ کوچز صدور کوئی ٹیلنٹ دینے سے قاصر ہیں۔ اس کی مثال عامر اور عماد کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی دوبارہ ٹیم میں شامل کرنا ہے۔ کرکٹ پاکستانی قوم کی رگوں میں لہو بن کر دوڑتا ہے اور تمام کرتا دھرتا ذمہ داران اس کو رگوں میں جمانے کے درپے ہیں۔ ایسا کہنا تو نہیں چاہیئے پر ہو کچھ اس ہی طرز پر ہو رہا ہے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم پانچ ٹی ٹوئینٹی میچز کی سیریز لیے پاکستان کے دورے پر ہے جہاں کہا جارہا ہے کے ورلڈ کپ سے پہلے تیاری کے سلسلے میں یہ دورہ ہے تو جناب یہ نیوزی لینڈ کی کیسی تیاری ہے۔ ورلڈ کپ کو لے کر کہ تمام ٹیم اے نہیں بی نہیں بلکہ سی ٹیم بھیج دی ہے اور مزے کی بات پاکستان کی اے ٹیم مہمان سی ٹیم سے برد آزما ہے۔ شاید پی سی بی کو کو معلوم نہیں کہ ورلڈکپ میں کوئی بھی مخالف اپنی سی نہیں اے ٹیم اتارے گا مگر ہم یہاں شایقین کو عقل سے پیدل سمجھتے ہیں۔ کوئی بڑا پلیئر نیوزی لینڈ کا نہیں آیا وہ شعر ہے نہ کہ “کون آئیگا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا ،،،میرا دروازا ہواؤں نے ہلایا ہوگا۔
گلزار صاحب کے اس شعر کا مطلب اب سمجھ آیا ہے کہ ہم کو کوئی ٹیم بھی سنجیدہ نہیں لے رہی۔ شاید اس میں قصور بورڈ کا ہو یا کھلاڑیوں کو ہی کچھ ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ اگر مہمان سی ٹیم لاتی ہے تو آپ بھی میدان میں سی ٹیم اتاریں مگر ہمارے کپتان اعظم کو جیت کی للک یہ سب کرنے سے روکتی ہے۔ نمبر ون کے جنون میں ہم بڑے ایونٹ کی تیاری کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ یہ آخر کب تک ہو گا؟
یہ بھی پڑھئے:
پاکستان کی تاریخی سفارتی جست، شہباز حکومت کا ایک بڑا کارنامہ
گل بخشالوی کی شاعری جو صرف شاعری نہیں
خوش نوا، خوش ادا اور مہرباں استاد، سید ارشاد حسین نقوی
‘ارتعاشِ مابعد’ کی زد میں آیا ایوانِ بالا
سیریز میں اگر اسٹار پلیئرز نہیں ہونگے تو کیا مزہ آےگا میں اچھی طرح یاد ہے کہ ماضی میں جب ہم آسٹریلیا کے دورے پر جارہے تھے تو کچھ اسٹارز پلیئرز کو پاکستان بورڈ نے ڈراپ کرنے کی کوشش کی تھی مگر میزبان نے صاف معذرت کرنے کی دھمکی دیکر اپنا پریشر ڈیولپ کیا ان کا یہ ہی تقاضا تھا کہ اسٹار نہیں ہونگے تو کون دیکھنے آیگا۔ ہم بھی یہ کرسکتے ہیں مگر اس کے لیے جرات اور بہادری کے ساتھ فیصلہ کی اشد ضرورت ہے مگر ہم یہاں بس نوکری پکی کرنے پر لگے ہوے ہیں۔ ہمارے سینیئر پلیئرز جب کسی ٹی وی پروگرام میں ہوں تو اس بات پر واویلا کرتے تھکتے نہیں مگر اب جب کے کوچز کی ذمہ داریاں ہیں تو نوکری کو لیکر چپ سادھ لی ہے۔ اس نیوزی لینڈ پاکستان سیریز سے نیوزی لینڈ کی ٹیم کو تو بہت فائدے حاصل ہونے والے ہیں مگر ہم کو کچھ نہیں ملنے والا ماسوائے ڈیلی الاؤنس اور میچ فیس کے۔ اس پر بھی ہمارا یہ حال ہے کہ سیریز ایک ایک سے برابر ہے جب میں یہ آپکے سامنے احوال رکھ رہا ہوں بورڈ نہیں تو کپتان کو ہی بہادری دکھانی چاہیے لیکن وہ نہ کھیلے تو نمبر ون کی پوزیشن کیسے حاصل ہو گی۔ ریٹائر پلیئرز کو دوبارہ ٹیم کا حصہ بنانا اور کپتان خاموش۔ کیا کوئی نیا ٹیلنٹ نہیں جو پاکستان کی نمائندگی کا اہل ہو؟ اگر نہیں تو پھر بورڈ ریجنل عہدے داروں سے سوال کیوں نہیں پوچھتا؟ ماضی میں کپتان خود تلاش میں نکلتے دیکھے گئے ہیں اور ہم نے کارکردگی بھی دیکھی۔ انضمام سعید انور ،وقار ،عاقب یا دو ہزار نو میں عامر کی شمولیت اور نتیجہ ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ کے ہم فاتح رہے مگر آج کے کپتان میں اتنا بڑا فرق کیوں؟ کیا اس کی وجہ خوف پختہ ارادے کی کمی ہے یا نمبر ون کی دہن میں ہیں کہ اور کوئی ٹاسک دکھائی نہیں دیتا۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ تیاری کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم جون کے ورلڈ کپ میں کہاں دکھائی دے رہے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ اللہ تعالیٰ میری یہ بات غلط ثابت کردے اور ٹیم پاکستان ورلڈ کپ گھر لے کر آئے پر ،،،،خواب تھا شاید خواب ہی ہوگا۔