کرشن نگری کے خالق مبشر (بش)کو میں اس وقت سے جانتی ہوں جب میری نئی نئی شادی ہوئی تھی اور میرے میاں نے ان کا تعارف بڑے ہی ملال سے کروایا تھا انہوں نے مجھے ان کے بزنس کی کہانی سناتے ہوئے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے پاس اورنج کلر کی سٹرون ہوتی تھی جو اپنی نوعیت کی الگ اور منفرد گاڑی تھی ۔پورے اسلام آباد میں اس رنگ کی گاڑی کسی کے پاس نہیں تھی ۔وہ اکثر کہتے غلط کام کرنے والے گمنام ہونا پسند کرتے ہیں ایک نمایاں پہچان کے ساتھ نہیں گھومتے پھرتے۔
میرے میاں ڈاکٹر ایوب علوی مبشر کو اس وقت سے جانتے ہیں جب فاسٹ یونیورسٹی ایک ریسرچ سنٹر تھا اور یہ سید اخلاق حسین کی خواہش سے وجود میں آیا تھا اس کے اولین معماروں میں سیداخلاق حسین اور میرے شوہر ایوب علوی تھے ۔ یہ الگ کہانی ہے کہ یہ تحقیقی ادارہ ایک ریسرچ سینٹر سے کس طرح ایک درسگاہ میں بدلا اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس درسگاہ کے اولین معماروں میں بھی ڈاکٹر ایوب علوی موجودتھے اس ریسرچ ادارے اور آج کی نیشنل یونیورسٹی آف فاسٹ کے اولین معماروں میں مبشر کا نام بھی شامل تھا ۔
علوی صاحب نے اس درد مندی سے مبشر (بش)کی داستان سنائی تھی کہ مجھے برسوں یاد رہی میرے بچے بڑے ہو کر آسٹریلیا شفٹ ہو گئے تو ہمیں بھی آسٹریلیا جانے کا اتفاق ہوا وہاں مبشر(بش)سے میری پہلی ملاقات ہوئی انہوں نے انتہائی ذوق و شوق سے ہماری دعوت کی اور اپنے ہاتھوں سے بے شمار کھانے ہمارے لیے تیار کیے۔ ہر کھانا ایک سے ایک بڑھ کر لذیذ اور خوش ذائقہ پھر ان کے مشاغل کے بارے میں بھی جان کر بڑی حیرت ہوئی وطن سے کوسوں دور وطن کی محبت سے چور اس شخص نے اپنے گھر میں پاکستان میں اگنے والے بے شماردرخت بھی اگانے کی کامیاب کوشش کر رکھی تھی ۔انہوں نے اپنے گھر کے ساتھ ملحقہ زمین پر صرف پودے ہی نہیں اگائے ہوئے تھے بلکہ کھاد کینچوے بھی خود پیدا کرتے تھے ۔
یہ بھی پڑھئے:
وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ کو کیا چیلنج درپیش ہیں؟
مہنگائی پر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی فکر مندی
کیا 8 فروری نے نو مئی کو نِگل لیا؟
اسرائیل کے مظالم : ہمیں شئیرنگ کیوں کرنی چاہیے؟
گیراج میں ایک ورکشاپ بھی تھی۔جو ان کی فزکس کی تجربہ گاہ تھی ایک کمرے میں اچاروں اور مربوں کے بے شمار بوتلیں تھیں جو وہ خود تیار کرتے تھے اور مہمانوں کو تحفتاً پیش کرتے تھے۔ میں نے انہیں اپنی اردو کی کتاب پیش کی تو انہوں نے اس میں دلچسپی کا اظہار کیا ہم واپس وطن لوٹے تو چند سال بعد مبشر بھی پاکستان آئے ہماری طرف ملنے آئے تو باتوں باتوں میں ذکر ہوا کہ میرے گھر حلقہ احباب نثر کی محفلیں ہوتی ہیں۔ ان کی دلچسپی دیکھ کر اور میرے مدعو کرنے پر انہوں نے نہ صرف آنے کا وعدہ کر لیا بلکہ ایک مضمون بھی سنانے کا عندیہ دیا ۔
مبشر محفل کا حصہ بنے اور پھر کچھ ہی دیر بعد لیپ ٹاپ پر اپنے مضمون کی نوک پلک سنوارنے کے لیے الگ کمرے میں چلے گئے محفل ختم ہونے کو آئی تو میں نے کہا آئیے اور اپنا مضمون سنائیے مگر وہ مطمئن نہ تھے اس لیے مضمون نہ سنا سکے میرے مشاغل ان کو اتنا بھائے کہ انہوں نے ہمارے گھر ٹھہرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔علوی صاحب بہت خوش ہوئے میرے ساتھ بھی اُن کی اچھی خاصی دوستی ہو گئی تھی لہذا وہ چند دن ہم نے خوب باتیں کی ہر موضوع پر گفتگو ہوئی ۔
ایک دن وہ آئی ایٹ کی گلیوں میں وہ گھر بھی ڈھونڈتے رہے جہاں ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں کئی دن رکھا گیا تھا اتنی ملاقات اوربے تکلفی کے باوجود میں نہیں جانتی تھی کہ ان کے اندر تو کہانیوں کا آتش فشا ں ہے جو اظہار چاہتا ہے اور اظہار کے لیے انہیں اپنی زبان میں لکھنا ہے اور زبان بھی ایسی شستہ اور خوبصورت کہ لکھتے وقت سبک چلتی ندی کا گمان ہو پہاڑوں سے پھوٹتے چشموں کا سرور ہو بلندی سے گرتی آبشاروں کی جلترنگ ہو۔ ایک نثری محفل کی شرکت نے ان کے اندر چھپے ہوئے ادیب کو ایسا باہر نکالا کہ “کرشن نگری” افسانے کہانیاں اور بیتیاں وجود میں آگئیں۔
اس کتاب کے لکھاری ناشر طابع سب کچھ وہ خودہیں ۔حتیٰ کہ جلد بندی بھی انہوں نے خود ہی کی ہے اور اب پوری کتاب پڑھنے کے بعد تو ان کی صلاحیتوں کی ایسی گرویدہ ہوئی ہوں کہ نسبت جوڑتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے۔ بیتیوں میں بہت سی بیتیاں میں نے پڑھی ہوئی تھیں اور سنی ہوئی بھی تھیں مگر کتاب کی مہک کے ساتھ ان کے اسلوب نے ایسا گرفت میں لیا کہ کتاب کے سائز پر معترض ہونے کے باوجود میں نے اسے گود میں رکھ کر بہت محبت دلچسپی اور توجہ سے پڑھا ۔
کرشن نگری پورا پیکج ہے ۔
مولوی سین کی کہانی میں نے ان سے سنی تھی پھر فیس بک پر پڑھی اور اب کتاب میں پڑھی تو کئی دن تک کتاب کو بند کر کے خاموشی سے اسے دل و دماغ کی کشمکش سے الگ کرنے میں گزرا ۔ یوں لگتا تھا سانس سینے میں اٹک کر رہ گیاہے۔ بہت کوشش کے باوجود بھی کتاب کو آگے بڑھانا مشکل تھا کتاب کا ہر باب بہت دلچسپ ہے باریک بینی اور جزیات نگاری کے تو کیا ہی کہنے۔ کبوتر بازی کا ذکر ہو یا پتنگ بازی کا شراب خانے کا ذکر ہو یا کسی منظر اور واقعے کا قاری پڑھنے کے بعد خود بھی اس کا حصہ بن جاتا ہے بلکہ ماہرین میں شامل ہو جاتا ہے۔
میں اپنے نسوانی کردار پر کبھی شکوہ کنا ں نہیں ہوئی ۔بلکہ ہمیشہ فخر ہی ہوا۔مگر فرعون کی آنکھ پڑھنے کے بعد میرا بھی دل چاہا کاش میں بھی مردانہ کردار ہوتی اور ان تجربات سے ضرور گزرتی جن تجربات سے گزرنے کا مبشر کو موقع ملا۔ واقعات کو سائنسدان کی آنکھ سے دیکھنا پھر اس کے بخیے ادھیڑنا ۔ ادھیڑنے کے بعد جوڑنا اور پھر جوڑنے کے بعد اس سے رس کشید کرنا اس پر جرح کرنا کسی نتیجے پر پہنچنا اور پھر اس نتیجے کو خوبصورت قالب میں ڈھالنے کے لیے اردو زبان کا انتخاب کرنا جسے وہ طاق میں رکھ کر کسی حد تک بھول چکے تھے بڑے دل گردے کی بات ہے۔ کرشن نگر میں اپ کو یہ تمام ذائقے ملیں گے مبشر (بش)نے دیکھتے ہی دیکھتے جس تیزی سے ادب کے زینے پھلانگتے ہوئے اپنے ہونے کا احساس دلایا وہ قابل رشک ہے