ایک سوال کثرت سے اٹھایا جارہا ہے کہ اسرائیل کے مظالم پر مبنی پکچرز کی شئیرنگ کرنے سے کیا حاصل ہے ؟کیا اس سے اسرائیل اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے باز آجائے گا ؟ کیا اس سے معصوم فلسطینیوں پر بمباری رک جائے گی ؟ کیا اس سے فلسطینیوں کو انصاف مل جائے گا ؟؟ کیا اس سے ان کے نقصانات کا ازالہ ہوپائے گا ؟ کیا اس سے ان کی اذیت میں کمی واقعی ہوسکے گی ؟ کیا اس سے ان کی لاچاری و بے بسی میں کمی واقع ہوپائے گی؟
واقعی ایسا کچھ نہیں ہوگا!!
لیکن یقین کیجیے پھر بھی شئیرنگ ضروری ہے۔
چند نکات نیچے لکھے جا رہے ہیں.
••شئیرنگ سے کم از کم اس صدی تک تو اسرائیلی مظالم کو بھولا نہیں جائے گا جس کی وجہ سے امید کی جاتی ہے کہ چند قوتوں کی جانب سے اسرائیل کو عالمی حقوق کا چیمپئین قرار نہیں دیا جائے گا۔
••شئیرنگ سے کم از کم اس صدی تک تو فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جاتا رہے گا ، سچے دل سے نہ سہی،منافقت سے ہی سہی لیکن ان سے ہمدردی کا اظہار کیا جاتا رہے گا۔
یہ بھی پڑھئے:
آصف زرداری اور شہباز شریف کی جوڑی
کولاژ،ہمیشہ تازہ رہنے والاادبی جریدہ
مریم نواز: زندانِ اقتدار کی قیدِ بامشقت
••شئیرنگ سے کم از کم عالمی سطح پر یہ تاثر تو تبدیل ہوپائے گا کہ دہشت گرد مسلمان نہیں ہوتے۔ امن کے دعویدار ، ٹھیکے دار بھی دہشت گرد ہوسکتے ہیں۔
••شئیرنگ سے کم از کم چند سالوں تک ہی سہی لیکن دنیا یہ تو یاد رکھے گی کہ جمہوریت کے دعویدار دہشت گردی کو انتہائی ڈھٹائی سے سپورٹ بھی کرسکتے ہیں. وہ جنھوں نے افغانستان کو محض اس بنیاد پر تہس نہس کردیا کہ ان کی حکومت “ایک دہشت گرد” کو پناہ دیے ہوئی ہے ، انھوں نے اس نسل کشی کے لیے اسلحے کے انبار فراہم کردیے۔۔
••شئیرنگ سے کم از کم آنے والے وقتوں میں اسرائیل اپنے ڈھائے گئے مظالم سے انکار نہیں کر پائے گا ، لہذا تاریخ کی کتابیں لکھنے والے چاہنے کے باوجود قرطاس پر جھوٹ نہیں لکھ سکیں گے۔ اگر چند ایک صفحات لکھے بھی جائیں گے تو یقینا اس سے کئی گنا زیادہ کتابیں ان کے رد پر لکھی جائیں گی لہذا آنے والی نسلوں میں سے تاریخ میں دلچسپی دینے والے اس جنگ میں اسرائیل کو مارجن نہیں دے پائیں گے۔
••شئیرنگ سے کم از کم اس صدی تک تو 1400 اسرائیلیوں کی اموات کو بنیاد بنا کر ایک نیا ہولوکاسٹ کا پلان ترتیب نہیں دیا جا سکے گا۔
••شئیرنگ سے کم از کم مسلمان حکمرانوں کو اپنا کردار تو یاد رہے گا۔ وقت بدل جائے گا ، آج کے صاحب اقتدار کل اقتدار سے دھکیل دیے جائیں گے ، حکمرانی کا مزہ اترے تو کسے پتہ کہ بستر مرگ پر ضمیر کی چبھن انھیں فلسطینیوں سے معافی مانگنے پر مجبور ہی کردے۔۔اب اتنا تو حق بنتا ہی ہے نہ فلسطینیوں کا !!
••شئیرنگ سے کم از کم مسلمانوں کو یاد رہے گا کہ یہ دین اتنا ارزاں نہیں ہے ، اس دین کے لیے کتنے ہی خوبصورت چہروں کو بموں نے بھون ڈالا ، کتنے ہی خوبصورت اجسام ٹکڑے ٹکڑے ہوئے ہیں ، کتنوں کو اپنوں کی راکھ بھی نہ ملی۔کسے پتہ کہ کتنے ہی اس شئیرنگ کی وجہ سے اپنے دین کی قدر کرلیں ، چند بدلتی ہواؤں کے جھونکوں سے اپنے دین کی حفاظت کرلیں ، اپنے ایمان کی حفاظت کرلیں۔۔
••شئیرنگ سے کم از کم یہ تو ثابت ہوگا کہ وقت کتنا ہی ایڈوانس کیوں نہ ہو جائے ، قرآن پاک کے اصول گرچہ چودہ سو سال قبل نازل ضرور ہوئے ہیں لیکن وہ رہتی دنیا تک کے لیے ہیں ، چاہے ہم مریخ پہ ہی کیوں نہ جا بسیں ، یہ واضح کہ یہودی و نصاری ہمارے دوست نہیں ہوسکتے۔
••شئیرنگ سے کم از کم یہ تو واضح ہوگا کہ جن یہودی و عیسائی کی مشابہت میں ہم اپنا آپ تھکا رہے ہیں وہ محض ہماری بربادی کے منتظر ہیں ، اور ہمیں برباد کرنے والوں کی بیک پر ، کسے پتہ کہ اس آگاہی کی بدولت کتنے ہی مسلمان ایک مخصوص تھکن سے آزاد ہو کر کھلی فضا میں سانس لے سکیں!!
یاد رہے یہ شئیرنگ ہی ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر فلسطینیوں کی نسل کشی کے ذمہ داران پر ایک دباؤ ہے ، جنگ بندی کا مطالبہ تقریبا روانہ کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے اور یہ مطالبہ محض مسلمانوں کی جانب سے نہیں بلکہ انسانی حقوق کی دعویدار تنظیموں سمیت ہر باشعور انسان کی جانب سے کیا جارہا ہے۔ سرحدوں ، رنگ ، نسل ، زبان کی تفریق سے آزاد ہو کر یہ مطالبہ مغربی عوام کی جانب سے بھی کیا گیا ہے ، افریقی عوام نے بھی اس میں بھر پور حصہ لیا ، ایشیا میں بھی اس کی بازگشت سنائی دی گئی۔ یقین کیجیے یہ صرف شئیرنگ کا ہی کمال ہے۔ ماضی میں بھی اسرائیل کی جانب سے متعدد بار فلسطین پر جنگ مسلط کی گئی لیکن اس طرح کا ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا ، اسرائیل پر ایسا دباو نہیں پڑا، فلسطینیوں کے ساتھ ایسی اظہار ہمدردی نہیں کی گئی۔
؎یہ شئیرنگ ہی ہے جس کی وجہ سے دنیا کے کونے کونے سے بائیکاٹ کیا گیا ، وہ جن کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ، انھوں نے بھی کیا۔۔۔وہ جو آخری نبی الزماں کے فرمان کے مطابق فلسطینیوں کے بھائی تھے ، ان کی جانب سے بھی کیا گیا۔۔۔
یقین کیجیے یہ شئیرنگ ہی کی بدولت ہے۔۔
لہذا شئیرنگ کیجیے۔ اپنی انگلیوں کو شئیرنگ سے مت روکیں۔
شاید کہ وہ داغ ندامت ہمارے دلوں سے مٹ پائے کہ ہمارے بھائی کٹتے رہے اور ہم کچھ نہ کر سکے!