اردوکے آخری کلاسیکی شعراء میں شامل نظرامروہوی کی شاعری انتہائی پراثر اورہمیشہ زندہ رہنے والی ہے۔نظرامروہوی کے کلام کے ساتھ ان کے باہنرصاحب زادگان بھی ان کانام زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ایک بیٹے انجم ایاز پاکستان کے نامورمصوراوراسکپچرلسٹ ہیں، قلم سے بھی رشتہ استوار رکھتے ہیں۔جاویدنظرآسٹریلیا میں کرکٹ کوچنگ کے ساتھ افسانے،انسانچے اور خاکے بھی تحریرکرتے ہیں اوراقبال نظر ادیب،شاعراورادبی جریدے”کولاژ” کے مدیر بھی ہیں۔اقبال نظرکی کئی کتب شائع ہوچکی ہیں۔بینک سے ریٹائرمنٹ کے بعداب وہ ہمہ وقت کولاژ پرتوجہ مرکوزکیے رہتے ہیں۔جس کا ہرشمارہ ہی خصوصی تحریروں سے مزین ہوتاہے۔ حال ہی میں کولاژ کاشمارہ نمبرانیس منظرعام پرآیاہے۔ یہ سات سوبیس صفحات پر مبنی ضخیم خصوصی شمارہ ہے۔ اس شمارہ کے سرورق پر اقبال نظرنے خوبصورت اورسچا جملہ تحریرکیاہے۔”دل کی حماقت اورطاقت کااندازہ ادبی شمارہ نکالنے کے بعد ہی لگایاجاسکتاہے۔نیاکولاژجوکبھی پرانا نہیں ہوگا،حاضر ہے۔”
”کولاژ” کی اہم خوبی یہ ہے کہ اس کامدیر ہرصفحہ پر نظر آتاہے۔ تحریروں کاانتخاب اورمصنفین سے روابط بنانے میں اقبال نظر کوملکہ حاصل ہے اوروہ بعض ایسی تحریریں وہ ہر شمارے کے لیے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔جو کولاژ کااختصاص بن جاتی ہیں اوربجاطور پر انہوں نے کہاکہ نیاکولاژ جوکبھی پرانا نہیں ہوگا۔یہ زندہ تحریروں سے آراستہ ایسا گلدستہ ہے۔جس قارئین اپنی لائبریری کی زینت بنانا پسند کریں گے اورہمیشہ لطف کشید کرتے رہیں گے۔ اس ضخیم خاص نمبرکی ہرتحریر ہی خاص ہے۔
مختصر اورذومعنی اداریے میں اقبال نظرکیاحقیقت بیانی کرتے ہیں۔ ”کہانی کبھی مکمل نہیں ہوتی۔دراصل ہمارے پاس ایک بے حدطویل کہانی ہوتی ہے۔جس کے ہم حصے بخرے کرتے رہتے ہیں۔،اورکہتے ہیں کہ میں نے افسانہ لکھاہے،رپورثاژلکھاہے،ڈرامہ اورداستان لکھی ہے۔سب غیرمطبوعہ اورنیاہے، حالانکہ نیاکچھ بھی نہیں ہوتا۔ہم نگلی ہوئی اوراگلی ہوئی چیزوں کونیابناکرپیش کرتے رہتے ہیں۔کہانی تو روزِازل لکھی جاچکی ہے اوراس کاانجام بھی ہرکوئی جانتاہے۔”
اس شمارے کی ابتداحمدباری تعالیٰ اورنعت رسول مقبول کے بعدحصہ مضامین سے ہوتی ہے۔جودوسوسے زائدصفحات پرمشتمل ہے۔جس اٹھارہ بہترین مضامین شامل ہیں۔جمیل نقوی نے نامورشاعراصغرگونڈوی کی شخصیت اورفن پرعمدہ اورمعلومات افزامضمون پیش کیاہے۔ بھارت کے نامورکہانی نویس ،افسانہ وخاکہ نگارجاویدصدیقی نے اقبال نظرکے افسانوی مجموعہ”محبت والی کہانیاں” پرایک نظر ڈالی ہے اور کیاخوب نظرڈالی ہے۔مسلم شمیم نے ”عوام کااکلوتاشاعر۔نظیراکبرآبادی” لکھا ہے۔افسانہ وخاکہ نگار،شاعر اور مدیرمکالمہ مبین مرزا نے ” عہد جدیداورانسانی صورت گری” کے عنوان سے خوبصورت مضمون تحریر کیاہے۔ ناصرکاظمی مرحوم کے صاحب زادے باصر سلطان کاظمی اپنے نامورشاعروالدکے بارے میں مسلسل ادبی جرائد میں یادگار مضامین لکھتے رہتے ہیں۔باصرسلطان کاظمی کی اپنی شعری کلیات ”شجرہونے تک” کے نام سے چھپ چکی ہے۔ اس شمارے میں انہوں نے ”ناصرکاظمی کے انتخاب داغ اورمیراسفر” کے عنوان سے لکھا ہے ۔
افسانہ وناول نگارطاہرہ اقبال نے اسلوب تحریر کے بارے میں بہت عمدہ کتب لکھی ہیں۔ طاہرہ اقبال کے مضمون کا عنوان ”اسلوب اوراسلوبِ نثر” ہے۔عرفان جاوید نے حالیہ برسوں میں منفرد اورطویل خاکہ نگاری میں نام پیدا کیا ہے۔ ان کے خاکوں کی تین کتب ”دروازے”،”سرخاب” اور”آدمی”شائع ہوچکی ہیں۔افسانوں کاایک مجموعہ ”کافی ہاؤس” اورایک فکرانگیزکتاب ”عجائب خانہ ”بھی شائع ہوکرمقبول ہوئی ہیں۔عرفان جاویدنے نامورادیب، شاعر،ڈرامہ نگارامجداسلام امجد پر خاکہ ”بیبا” کے نام سے لکھاہے،امجداسلام امجد کے لیے بیبا کانام ہی بہت خوب صورت لگا، اوریہ عرفان جاویدکے خاکوں میں ایک بہت اچھا اضافہ ہے۔”نئی شاعری،نئے امکانات ” نامورشاعرہ فاطمہ حسن کا مضمون ہے۔سیدایازمحمود نے ”احمدجاویدکی ایک غزل” کابھرپور جائزہ لیاہے اوراس حوالے سے احمدجاویدکی شاعری کادلچسپ محاکمہ بھی کیاہے۔شمیم مرتضٰی نے ”نہ جنوں رہانہ پری رہی” کے عنوان سے اردو کے ابتدائی شعراء میں شامل سراج اورنگ آبادی کافکری اورتمثیلی خوبصورت خاکہ کیاہے۔ راقم نے امجداسلام امجدکی فن کی مختلف جہات کامختصر جائزہ پیش کیاہے۔ جس میں شاعری میںحمدونعت، نظم، غزل،ہائیکو،شاعری کے تراجم، ڈرامہ،فلم،سفرنامے،کالمز پرجستہ جستہ نظر ڈالی ہے۔افسانہ وناول نگار محمد حفیظ خان نے”بوسکی کاگلزار” میں نامورادیب،شاعر،فلم ساز،ہدایت کارسمپورن سنگھ کالراجوشعروادب کی دنیا میں گلزار کے نام سے جانے جاتے ہیں۔کی زندگی کے چندنئے پہلواجاگرکیے ہیں۔ محمدافتخارشفیع نے”عالمی شعری ادب میںاتصال کی صورتیں” پرقلم اٹھایاہے۔ڈاکٹر بشریٰ علم الدین نے ”گلزارکے افسانوں کافنی جائزہ لیاہے۔ خالدمحمود درانی نے دلیپ کمار سے ایک طویل ملاقات کا احوال بڑی عمدگی سے سنایاہے۔علی تنہا کے مضمون کاعنوان”محمدخالداختراورصادق ایجرٹن کالج” ہے ، جس میں دلچسپ یادوں کاتذکرہ ہے۔منفردشاعرسلمان صدیقی نے”کراچی کاماضی وحال” کے عنوان سے عمدہ مضمون تحریر کیاہے۔
اس حصے کے تمام مضامین ایک سے بڑھ کرایک ہیں۔ لیکن ان میں مستنصرحسین تارڑ کا”خیمہ صادقین” یقینا اختصاص رکھتاہے اوراسے کولاژکے خصوصی شمارے کااہم ترین مضمون قرار دیاجاسکتاہے۔ تارڑ صاحب صاحب اسلوب قلم کارہیں۔انہوں نے اکیس صفحات کے طویل مضمون میں پاکستان کے نامورمصورصادقین کی شخصیت اورفن کے کئی نئے گوشے اپنے مخصوص انداز میں پیش کیے ہیں۔مستنصرحسین تارڑسترسے زائدکتب کے مصنف ہیں۔جن میں سفرنامے،ناول،افسانے اورڈرامے شامل ہیں۔ انہوں نے شفیق الرحمٰن اورمحمدخالد اختر سمیت چنداہم ادیبوں کے خاکے بھی لکھے ہیں۔صادقین پر یہ تحریر اردو کے چند عمدہ خاکوں میں شمار کی جائے گی۔جس میں فقیرمنش صادقین کی سادگی،کم سخنی، رہن سہن ،کام کرنے کے انداز اوربے نیازی کابہت تفصیلی اوردلچسپ ذکرکیاگیاہے۔ایک عظیم مصور کس طرح لوگوں کو اپنے فن اورکتابت کے نمونے بناکردیدیتاتھا۔خاکہ میں تارڑ صاحب کی نوجوانی کی آپ بیتی اورجگ بیتی کالطف بھی موجود ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ان کے پہلے سفرنامے”نکلے تری تلاش میں” کے پہلے ایڈیشن کاسرورق نے مصورمشرق عبدالرحمٰن چغتائی کے موئے قلم سے جنم لیاتھا ۔ان کی چغتائی صاحب سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔یہ سرورق سیارہ ڈائجسٹ کے مقبول جہانگیرکی سفارش پرتخلیق کیاگیاتھا۔ان دنوں بڑے جیدادیبوں کی کتابوں کا پہلا ایڈیشن برسوں میں ختم نہ ہوتاتھا، ایسے میں مجھ جیسے نووارد کے سفرنامے کا دوسرا ایڈیشن معجزے سے کم نہ تھا۔مجھے شروع ہی سے مصوری سے شغف تھااگرچہ اس صنف میں میری ذاتی اہلیت کچھ نہ تھی۔میں توسیدھی لکیرکھینچنے سے بھی قاصر تھا۔ شاید اسی محرومی کے سبب ادیبوں کی نسبت مصوروں سے زیادہ قریب رہا اورآئندہ زمانوں میں میری کتابوں کے سرورق ایم ایف حسین، آذر ذوبی،سعید اختر، بشیرمرزا، غلام رسول، خالد اقبال نذیراحمد، وحیدچغتائی،سلیمہ ہاشمی،قدوس مرزاایسے مصوروں نے تخلیق کیے بلکہ سعید اختر نے تومیری متعدد پورٹریٹس کے علاوہ ایک مجسمہ بھی تراشا۔اب مسئلہ یہ تھا کہ دوسرے ایڈیشن کے لیے کس مصورکے پاؤں چھوکردرخوا ست گزارہواجائے۔چغتائی صاحب کے بعدتوصادقین تھے جن کے فن کامیں بے حدقدردان تھا۔لیکن ان سے کچھ واقفیت نہ تھی۔توکیسے رابطہ کیاجائے۔”
تویہ خاکہ صادقین تک رسائی اور ان سے تعلقات کے استوار ہونے کی دلچسپ داستان پر مبنی ہے۔تارڑ صاحب کی صادقین سے ملاقاتوں میں عظیم مصورکے روزوشب کا دلچسپ بیان اورمصورکے انداز زیست کی خوب صورت عکاسی کی گئی ہے۔ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے۔ ” صادقین کی جتنی گفتگومیں نے تحریرکی ہے یہ بہت سپاٹ اوربے روح سی ہے،ہرشخص کے بولنے کاانداز،گفتگوکے دوران ہاتھوں کی حرکت ، یا چہرے کے تاثرات سراسراس کے اپنے ہوتے ہیں جواسے دوسروں سے مختلف کرتے ہیں۔اب صادقین کاانداز تکلم اوراس دوران اشارے کنائے توبہت ہی جداگانہ تھے،ان کے ہرلفظ کالہجہ اورادائیگی،سب یوں جانیے کہ بس صادقین تھا۔لکھے ہوئے حرف کی سب سے بڑی ناکامی ہی یہی ہے کہ وہ سپاٹ ہوتاہے کہ اس میں بولنے والے کی روح نہیں ہوتی جوادائیگی،لہجے اوربدن کے تاثرات سے جنم لیتی ہے ۔ناول نگاری میں بھی کرداروں کے مکالموں میں یہی خامی ہوتی ہے ، آپ ان کے اندازگفتگوکوبیان توکرسکتے ہیں لیکن ان کی گفتار شامل کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔صادقین قدرے اٹک اٹک کربولتے تھے،آوازمیں ایک گھمبیرتاتھی، گفتگومیں وہ کہاں اورکون سے حرف پرلڑکھڑاتے تھے یہ سب کچھ حرف سے اظہارکرنے سے قاصر ہیں اوروہ لگتاتھاکہ حالت خمار میں بات کررہے ہیں جبکہ یہ ان کاقدرتی اندازتھا، اوریہ سب کچھ لکھے ہوئے حرف کے بس سے باہرہے۔”
”نکلے تری تلاش میں”کے اسکیچز بنانے کے بارے میں تارڑ صاحب لکھتے ہیں۔”کتاب کے کسی باب میں بیان کردہ تاریخی تفصیل یامقام یا اس میں شامل کرداروں کے بارے میں چارپانچ منٹ میں انہیں آگاہ کرتااور وہ کچھ دیرغورکرنے اورانگلیوں کوکاغذ کے مختلف حصوں پر یوں چلاتے جیسے خاکے کانقشہ تیارکررہے ہیں اورپھرخاموشی سے تصویرکرنے میں مگن ہوجاتے۔میں جانتاتھاکہ وہ اس باب کی سرسری طور پر ورق گردانی کرچکے ہیں مثلاً ہرات کے باب میں۔بہزاد مصورکاتذکرہ میں بھول گیا لیکن جب اسکیچ تیارہواتواس میں بہزاداپنے برش کے ساتھ نقش تھا۔”
مستنصرحسین تارڑ کے اس خاکے سے قاری کوصادقین کی شخصیت اورفن کے بارے میں کئی نئی اوردلچسپ باتوں کاعلم ہوگا۔اس شمارے کی اہم ترین تحریرشیخ ایازکارپورتاژ ”کراچی کے دن اورراتیں” ہے۔ جس کا بہت عمدہ ترجمہ کرن سنگھ نے کیاہے۔ جس کے پیش لفظ میں شیخ ایاز نے لکھاہے۔ ” انہوں نے یہ تحریر1988ء میں مکمل کی تھی۔اچانک خبرآئی کہ ضیاالحق اڑگیا۔جب تک ادل سومرو نے کتاب کی نقل تیارکی الیکشن ہوگئے اورسندھ میں سے رجعت پسندوںکی جڑیں اکھڑگئیں،پوری سندھی قوم کی متفقہ رائے اوردیگرصوبوں میں اکثریتی ووٹوں سے شہید بھٹو کی بیٹی محترمہ بے نظیربھٹو اقتدارمیں آئی۔ایشیاکی بدترین آمریت سے اس دھرتی کونجات مل گئی اورآئندہ دنوں امن اورمحبت کے امکان پیداہوئے۔”
یہ ایک دلچسپ تحریر ہے ۔ جس میں انیس سواٹھاسی کے کراچی کوبہ اندازدگر ایک دانشورکی نظرسے پیش کیاگیاہے۔یہ رپورتاژ
ڈائری کی طرز پرلکھاگیا ہے، جس کاآغاز کراچی پریس کلب میں شریعت آرڈیننس،حدودآرڈیننس اورنئے قانون شہادت کے حوالے سے اجلاس سے کیا گیاہے۔ شیخ ایاز نے اس میں بیوی،بیٹے،بہو،بیٹی اورنواسیوں کا بھی بہت محبت سے ذکرکیاگیاہے۔ انہوں نے شالیمار ایکسپریس کے سفر اوراس میں ملنے والے ہم سفروں کا بھی دلچسپ بیان کیاہے۔طویل ادبی گفتگو،عالمی ادب کی اہم کتب کاذکر،بوجوان سفارت کار دوست روشن کی بے وقت موت ،قرة العین حیدرکے دوناولز ”میرے بھی صنم خانے ” اور”سفینہ غم دل” اورخودنوشت ”کارجہاں دراز ہے” اوران کے سفرناموں ااورتراجم پر مختصر تبصرے،محمود درویش کی شاعری،روسی، فرانسیسی اورچیک ادب غرض کیاکیانہیں ہے، شیخ ایاز کی اس تحریر میں۔قاری ایک بارشروع کرکے اسے ختم کیے بغیر نہیں چھوڑسکتا۔یہی نہیں رپورتاژ کوسمجھنے کے لیے بھی شیخ ایاز یہ تحریرانتہائی موثر ہے۔
حصہ غزل میں نظرامروہوی، سحرانصاری ،سلیم کوثراورسلمان صدیقی کاکلام بہترین ہے۔اس حصے میں شامل دیگرغزلیں بھی اقبال نظرکے حسن انتخاب کی آئینہ دار ہیں۔ نظرامروہوی کے دوشعرپیش ہیں
شاید کوئی ملے نفسِ مشک بو لیے۔۔۔پھر ہیں شہر شہر یہی آرزو لیے
ہرلمحہ زندگی کا ہے اک تازہ حادثہ۔۔۔ کس کس کویادکیجئے کس کس کوبھولیے
افسانوں میں بارہ افسانے شامل ہیں۔ جوسب ہی بہترین افسانوں کے کسی بھی انتخاب میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔ اخلاق احمد کا”ڈیڈی کا جنازہ” طاہرہ اقبال کا”نوکربچہ” خالد فتح محمد کا”لال ڈوپٹہ” محمدحفیظ خان”منشااورمیاں منشا”اقبال خورشید کا”اجنبی خواب” اورمدیر اقبال نظر کا”تین عورتیں ایک کہانی” بہترین ہیں۔
طویل افسانہ ”کولاژ” کے ہرشمارے کااختصاص ہوتاہے اوربہترین طویل افسانے ہرشمارے میں موجود ہوتے ہیں۔ اس بارمبین مرزا کاطویل افسانہ”شام کی دہلیزپر” کوجگہ دی گئی ہے۔ موضوع،اسلوب بیان اوردلچسپی کے باعث اکتیس صفحات کاافسانہ ایک ہی نشست میں خود کوپڑھوالیتاہے۔شاعر،افسانہ وخاکہ نگار،دانشور اور مدیر مکالمہ مبین مرزا کی خودنوشت” احوال وآثار” حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔
نظموں میں علی محمدفرشی، وحیداحمد،ایوب خاور، احمدفقیہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کی لفظیات،استعارے ہربار پڑھنے سے ایک نیالطف دیتے ہیں۔علی محمدفرشی کی نظم ”ضرورت کاخدا” ملاحظہ کریں۔
کیامحبت کاترجمہ / کسی دوسری زبان میں کیاجاسکتاہے؟/ مثلاً وہ نغمہ جسے ایک نوزائیدہ/ ماں کادودھ چسکاتے ہوئے غنغناتاہے/ وہ جھجک جوپہلی اڑان بھرتے ہوئے/ پرندے کے دل میں تھرتھراتی ہے!/ سورج مکھی نے پوچھا/کوئی مجھے کنول میں ترجمہ کرسکتاہے؟/ چڑیابولی/ آسمان گھونسلے میں/ کیسے تبدیل ہوسکتاہے!/ شاعرنے تائیدکی/ سچ کہتے ہو،خوشبوکی طرح سچ/ سچ کوبھی، کسی زبان میں ترجمہ نہیںکیاجاسکتا / بلکہ محبت اورصداقت کو/کسی زبان میں ترجمہ کی ضرورت ہی نہیں ہوتی!/ محبت اورصداقت/ کسی ضرورت کے تحت ایجادنہیں ہوئیں/ جیسے ہم ضرورت کے وقت/ کسی مشکل گھڑی میں/ جب ہماری ماں،بیٹا/ یاہم خودآئی سی یومیں ہوں/ توخداکوایجاد کرلیتے ہیں/ یعنی یادکر نے لگتے ہیں/ اورجیسے ہی مشکل کی موت واقع ہوتی ہے/ اس کی تدفین سے پہ ہی/ ہم خداکوبھول جاتے ہیں/ یاسنبھال کررکھ لیتے ہیں/ آئندہ کی کسی مشکل گھڑی کے لیے!
بھارتی ادارکارہ دپتی نول کی بطورشاعرہ اورادیبہ تعارف کولاژہی میں کرایاگیاتھا۔اس شمارے میں دپتی نول کی چھ خوب صورت آزادنظمیں شامل ہیں۔
کولاژ میں ادب کے علاوہ فنون لطیفہ کی دیگراصفاف کوبھی جگہ دی جاتی ہے۔ خصوصی شمارے کے انتہائی دلچسپ اورمعلوماتی حصے کو ”کرہ غنائی” کانام دیاگیاہے۔ جس کے مصنف سلطان ارشد نے پاکستان بارہ موسیقاروںکابھرپورتعارف کرایاہے۔ماسٹرغلام حیدر،مصلح الدین،خلیل احمد،روبن گھوش،ماسٹرعنایت حسین،جی اے چشتی، رشیدعطرے،اے حمید،نثاربزمی،فیروزنظامی،ناشاد اورخواجہ خورشیدانور کے فن کاجائزہ ہی نہیں لیا۔ان کے مشہورنغموں کے بول بھی دیے ہیں۔بہت خوب صورت گوشہ ہے۔ جس سے معروف موسیقاروں کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
نجیبہ عارف کوحال ہی میں اکادمی ادبیات کاسربراہ مقرر کیاگیاہے اوریہ اکادمی کے لیے بہترین تقرری ہے۔ان کے افسانوں کامجموعہ”میٹھے نلکے” اور ناولٹ”مکھوٹا” حال ہی میں شائع ہوئے ہیں۔نجیبہ عارف کے زیرتحریرسفرنامے”جگہیں،چہرے،یادیں اور خیال” کاکچھ حصہ اورشاعر،کالم نگار اورسفرنامہ نگارسعودعثمانی کا”منظرخواب کے اندرکے”سفرنامہ کے تحت شائع کیے گئے ہیں۔
جاویدصدیقی اورآمنہ نازلی کی تمثیل اورشاہین مفتی کی خودنوشت کاٹکڑا بھی اس شمارے کاحصہ ہے۔ حسب معمول اقبال نظرکادرویش نامہ سوچنے پرمجبورکردیتاہے۔ آخر میں تراجم،کتابوں پرتبصرے شامل ہیں۔ غرض اس خاص نمبر پرصفحہ اول سے سات سوبیس تک تمام قابل مطالعہ اورخاص ہے۔ اقبال نظرکوایسابھر پور شمارے کی اشاعت پربھرپورمبارک باد پیش ہے۔